Tag: گلوبل وارمنگ

  • ملک میں قبل از وقت موسم گرما آنے کا امکان

    ملک میں قبل از وقت موسم گرما آنے کا امکان

    اسلام آباد: محکمہ موسمیات پاکستان کا کہنا ہے کہ رواں برس ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا اور اگلے 10 سے 15 روز میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔

    محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ مارچ کے وسط تک درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا۔ مارچ کے اختتام تک اسلام آباد سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ اگلے ماہ یعنی اپریل میں مختصر دورانیے کی ہلکی بارشوں کا بھی امکان ہے، تاہم اسی ماہ سندھ کے جنوبی حصوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات گزشتہ برس اگست کے بعد سے واضح طور پر سامنے آنا شروع ہوئے۔ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے اس بار موسم سرما کے معمول میں تبدیلی ہوئی اور جنوری کے آخر میں شدید سردیوں کا آغاز ہوا۔

    فراہمی آب کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ فی الحال دریاؤں میں آبادی کی ضرورت کے لحاظ سے وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حالیہ منظر نامے میں یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ رواں برس ملک میں شدید برفباری ہوئی ہے۔ اپریل میں شمالی علاقوں میں جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوجائے گی جس کے باعث دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوجائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ رواں برس ملک میں پانی کی کمی واقع نہیں ہوگی۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور سال 2016 تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔

    یہی نہیں یہ متواتر تیسرا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ سال 2014 اور 2015 میں بھی معمول سے ہٹ کر درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد سے متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔

    رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ تیل اور گیس کا استعمال ہے جن کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی (گرین ہاؤس گیسیں) پیدا ہوتی ہیں۔

    ایک اور وجہ ایل نینو بھی ہے جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے تحاشہ تیز رفتار صنعتی ترقی بھی زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں سرد ہونے کا امکان ہے تاہم ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

  • پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    مختلف ماحولیاتی مسائل بشمول موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) اس وقت دنیا کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، اور جس کی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، ماحولیاتی مسائل کی طرف توجہ دینا ایک احمقانہ بات ہے۔

    لیکن شاید ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کی جڑ بھی کہیں نہ کہیں انہی ماحولیاتی مسائل سے جڑی ہے جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے ان 4 بنیادی پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہیں جو دراصل ماحولیات کی خرابی کی وجہ سے ہیں اور جو ہر شخص سے تعلق رکھتے ہیں۔

    :کلائمٹ چینج کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ملک

    کلائمٹ چینج کی ایک بڑی وجہ کاربن سمیت مختلف زہریلی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ان گیسوں کے اخراج میں آگے ہیں اور اس میں چین اور امریکا سرفہرست ہیں۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا کلائمٹ چینج یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے، لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا شکار پہلے 10 ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔

    flood

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔

    سنہ 2010 میں آنے والا سیلاب، جسے اقوام متحدہ نے تاریخ کا تباہ کن سیلاب قرار دیا، اپنے ساتھ 2000 ہزار افراد کی جان لے گیا جبکہ اس سے لگ بھگ پونے دو کروڑ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے ملک کی معیشت کو 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    :پانی کی شدید قلت

    ایک طرف تو ملک کے بالائی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں، دوسری جانب پاکستان میں میٹھے (پینے کے) پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی آنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    پاکستان میں گلیشیئرز کی تعداد 5 ہزار ہے اور گزشتہ برس ان علاقوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا جس کے باعث ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا۔

    water

    ماہرین کے مطابق ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد دریاؤں اور سمندروں میں پانی میں یکایک اضافہ ہوگا جو قریبی آبادیوں کو سیلاب کی صورت تباہ کرے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوگا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔

    ایک اور وجہ بارشوں کے پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ نہ کرنا بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان وجوہات کے باعث اگلے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    :زراعت میں کمی

    پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع اور تبدیل ہوتے پیٹرن، اور پانی کی کمی کے باعث زراعت بھی نقصان کا شکار ہے۔ کسی سال ہماری کھڑی فصلیں تیز بارش میں بہہ جاتی ہیں، اور کسی سال بوائی کے موسم میں بارش نہ ہونے کے باعث فصلیں ہی نہیں اگ پاتیں۔

    drought

    پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کلائمٹ چینج اسی ڈھب سے وقوع پذیر ہوتا رہا تو سنہ 2080 تک صوبہ خیبر پختونخوا سے زراعت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ صوبہ ایک بنجر اور قحط زدہ علاقہ بن جائے گا۔

    :شمسی تونائی سے مالا مال ۔ لیکن محروم ملک

    پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں اب تک بجلی پیدا کرنے اور بجلی گھروں کو چلانے کے لیے تیلوں اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ہے۔

    solar

    ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس دولت کو کام میں لانے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شمسی توانائی کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جاسکے تو یہ بغیر کسی ایندھن کے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔

  • گرین ڈے: وزیراعظم نے ساڑھے تین کروڑ پودے لگانے کی مہم کا آغازکردیا

    گرین ڈے: وزیراعظم نے ساڑھے تین کروڑ پودے لگانے کی مہم کا آغازکردیا

    اسلام آباد: آج ملک بھر میں ماحول کو سرسبز و شاداب بنانے اور آلودگی کے خاتمے کے لیے قومی سرسبز دن (گرین ڈے) منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پودا لگا کر ’سر سبز پاکستان‘ مہم کا آغاز کیا۔

    ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے سر سبز پاکستان مہم کا آغاز وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت و نگرانی میں کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔

    tree-2

    منصوبے کے لیے ساڑھے 3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 50 کروڑ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خرچ کیے جائیں گے جبکہ بقیہ رقم صوبوں کو دی جائے گی۔

    حکومتی ترجمان کے مطابق قومی سر سبز دن کے موقع پر چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں بھی تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بیک وقت مہم کا آغاز کیا۔

    ملک کے پہلے گرین ڈے کے موقع پر ملکی تاریخ میں پہلی بار وفاق اور صوبوں میں بیک وقت شجر کاری مہم کا آغاز کیا گیا جبکہ آج ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ درخت بھی لگائے جائیں گے۔

    وزیر اعظم نے اسلام آباد میں خصوصی بچوں کے ہمراہ پودا لگا کر اس مہم کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سرسبز بنانا بہت ضروری ہے۔ خوشی ہے کہ گرین پاکستان مہم میں ہر صوبہ حصہ لے رہا ہے۔

    tree-1

    وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اس مہم میں پاکستان میں پائے جانے والے درختوں کی مقامی اقسام لگائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی و غیر ملکی اقسام نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ صوبہ سندھ کا شہر کراچی غیر ملکی پودوں کی قسم کونو کارپس کی بڑے پیمانے پر شجر کاری کر کے اس کے بدترین نقصانات اٹھا رہا ہے۔ کونو کارپس کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔

    یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    وزیر اعظم نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ملک بھر میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہو رہی ہے۔

    tree-3

    انہوں نے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے سنگین عوامل کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ درختوں اور جنگلات کی کٹائی کلائمٹ چینج کی بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ پروگرام کلائمٹ چینج کے نقصانات سے نمٹنے، ملک کو سرسبز بنانے اور آلودگی ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی و ہدایت کے تحت شروع کیا جانے والا گرین پاکستان پروگرام چین کے گریٹ گرین ڈے کے پروگرام کی طرز پر تشکیل دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز گزشتہ برس کیا گیا۔

    اس سے قبل بھی وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے فروغ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی تھی۔

  • چین کا پہلا عمودی جنگل

    چین کا پہلا عمودی جنگل

    چین کے شہر نانجنگ میں ’عمودی جنگل‘ اگانے پر غور شروع کردیا گیا۔ یہ جنگل دو تجارتی عمارتوں پر اگائے جائیں گے۔

    عمودی باغبانی کا تصور چند عشروں قبل ہی پرانا ہے جس میں زمین کے بجائے دیواروں پر باغبانی کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عمارت کی دیوار سے ذرا سے فاصلے پر مختلف سہاروں کے ذریعہ پودے اگائے جاتے ہیں جو نشونما پا کر دیوار کو ڈھانپ لیتے ہیں۔

    v-garden-2

    v-garden-3

    v-garden-4

    مختلف گھروں اور عمارتوں کی دیواروں کو اس طریقے سے سبز کردینا اس عمارت کے درجہ حرات کو کم رکھتا ہے جو موسم کی حدت سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    v-garden-5

    چین میں بھی دو تجارتی عمارتوں پر عمودی جنگل اگائے جانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو یہ نہ صرف چین بلکہ ایشیا کا پہلا عمودی جنگل ہوگا۔

    :عمودی باغبانی کے فوائد

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کے باعث جنگلات اور درختوں کو کاٹ کر مختلف رہائشی و تعمیراتی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اس سے شہروں سے سبزہ بالکل ختم ہو کر شدید گرمی، اور آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔

    ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ عمودی باغبانی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہمیں بہت جلد اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق عمارتوں کی دیواروں پر پودے اگانے اور انہیں سر سبز کرنے سے اس علاقے کی آلودگی میں کمی واقع ہوگی۔

    v-garden-6

    اس جگہ کے افراد کو تازہ ہوا میسر آئے گی اور وہ دھوئیں اور گھٹن زد ہوا میں سانس لینے سے کسی حد تک بچ جائیں گے۔

    سبزہ اور پودے چونکہ کسی جگہ کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں لہٰذا عمارتوں کے جنگل کے درمیان میں موجود سبزہ، کنکریٹ اور لوہے کے بوجھ میں کمی کرے گا۔

    سبزے کی موجودگی سے لوگوں کے ڈپریشن اور ذہنی دباؤ میں بھی کمی واقع ہوگی۔

    اس طریقے سے دیواروں پر مختلف سبزیاں بھی اگائی جاسکتی ہیں جس سے علاقے کی ایک محدود آبادی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوسکتی ہے۔ انہیں سستی، تازہ اور صاف سبزیاں میسر ہوں گی جبکہ مجموعی طور پر اس سے کسی ملک کی زراعت اور معیشت کے بوجھ پر بھی کمی واقع ہوگی۔

    v-garden-7

    ماہرین اس ضمن میں شہری زراعت کو بھی شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانے پر زور دیتے ہیں۔

    اس طریقے سے مختلف عمارتوں کی چھتوں پر زراعت کر کے نہ صرف شہر میں سبزے کی مقدار کو بڑھایا جاسکتا ہے بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔

    عمودی باغبانی کا کامیاب تجربہ اس سے قبل کئی ممالک میں کیا جاچکا ہے۔ میکسیکو میں ایک بڑے پل کے ستونوں پر عمودی باغبانی کی گئی جس سے اس پل کے اطراف میں ٹریفک کے شور، دھویں اور آلودگی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

  • معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    جانوروں کا شکار، فضائی و آبی آلودگی، ان کی پناہ گاہوں کا ختم ہونا اور موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج، یہ تمام وہ عوامل ہیں جو انسان کے تخلیق کردہ ہیں اور ان کی وجہ سے دنیا میں موجود جانور بے شمار خطرات کا شکار ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات میں اس سے قبل 5 عظیم معدومیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور ہم بہت تیزی سے چھٹی عظیم معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق زمین پر موجود جنگلی حیات کی 75 فیصد آبادی کے بہت جلد خاتمے کا خدشہ ہے۔

    ان جانوروں کو درجہ حرارت میں اضافے اور ان کی رہائش گاہوں جیسے جنگلات وغیرہ میں کمی کا سامنا ہے جبکہ انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار ان کی آبادی کو کم کرتا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    کچھ عرصہ قبل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے اور یہ پہلا ممالیہ ہے جو موسم کی وجہ سے اپنے خاتمے کو پہنچا۔

    تاہم کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں انسانوں ہی نے خاتمے سے بچانے کے لیے کوششیں کیں اور ان کوششوں کے باعث یہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔ اب ان کی آبادی خطرے کا شکار ضرور ہے، تاہم انہیں بالکل معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    :پاکستان کا قومی جانور ۔ مارخور

    markhor

    پاکستان کا قومی جانور مار خور کچھ عرصہ قبل تک اپنی بقا کے خطرے سے دو چار تھا۔ مارخور پاکستان اور چین سمیت مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔

    اس کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ اس کا بے دریغ شکار ہے جو اس کے سینگ کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سینگ چین کی قدیم دوائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی آبادی میں کمی کی ایک اور وجہ ٹرافی ہنٹنگ بھی ہے۔ اس مقابلے میں جیتنے والے کو کسی جانور (عموماً مارخور) کا سر انعام میں دیا جاتا ہے۔

    نوے کی دہائی میں اس جانور کی آبادی میں 70 فیصد کمی واقع ہوگئی تھی جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر اس کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔ پاکستان میں مقامی قبیلوں کو تربیت دی گئی کہ وہ اپنے علاقوں میں مار خور کی حفاظت کریں اور اس کے شکار سے گریز کریں۔

    پاکستان میں اس جانور کے لیے اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات نے تاجکستان کو بھی متاثر کیا اور وہاں رہنے والے قبائل نے بھی اس کا شکار کرنے کے بجائے اس کی حفاظت کرنا شروع کی۔

    :امریکا کی ننھی لومڑیاں

    fox

    امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، گزشتہ برس معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئیں۔

    ماہرین کے مطابق اگلے ایک عشرے تک اس لومڑی کی 50 فیصد آبادی ختم ہونے کا خطرہ تھا۔ یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    ان اقدامات کے باعث اس لومڑی کی آبادی میں اضافہ شروع ہوا اور بالآخر یہ معدومی کی زد سے باہر نکل آئیں۔

    :افریقی جنگلات کا اہم حصہ ۔ گوریلا

    gorilla

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی تھی جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جس کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    تاہم گوریلا کی ایک قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    :سائبیرین چیتا

    tiger

    سائبیرین چیتا جسے امور ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے مشرقی ایشیائی مقامات پر پایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں بے شمار چیتے تھے۔ لیکن پھر 90 کی دہائی میں ان کی موجودگی کے آثار ختم ہوگئے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ ہم اس جانور کو کھو چکے ہیں۔

    تاہم کچھ عرصہ قبل آئی یو سی این نے چین اور روس میں حفاظتی پروگرام شروع کیے جن کے باعث ان کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ اس وقت دنیا بھر میں 400 سائبیرین چیتے موجود ہیں۔

    :کاکاپو طوطا

    kakapo

    نیوزی لینڈ کو صدیوں سے اپنا مسکن بنائے کاکاپو طوطا 90 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ منفرد طوطا انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار کے باعث اپنے خاتمے کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

    سنہ 1970 میں جب ان کے تحفظ پر کام شروع کیا گیا تو یہ مشکل سے درجن بھر تعداد میں تھے اور وہ بھی سب نر تھے۔ تکنیکی طور پر یہ نسل معدوم ہوچکی تھی۔

    لیکن پھر نیوزی لینڈ کے جنوبی ساحل کے قریب ایک جزیرے پر 4 مادہ طوطیاں دیکھی گئیں۔ انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا اور ان کی دیکھ بھال شروع کردی گئی۔ آہستہ آہستہ ان کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اب یہ طوطا بھی ایک مستحکم تعداد میں موجود ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے یورپ کو بھی مختلف آفات کا سامنا

    کلائمٹ چینج سے یورپ کو بھی مختلف آفات کا سامنا

    یورپی ماحولیاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج کے باعث یورپ بھی شدید خطرات کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں یورپ کو بھی بے شمار قدرتی آفات کا سامنا ہوگا۔

    یوروپیئن انوائرنمنٹل ایجنسی نے یورپ پر کلائمٹ چینج کے اثرات کے حوالے سے طویل تحقیقوں اور تجزیوں کے بعد ایک جامع رپورٹ مرتب کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کے باعث یورپ میں شدید طوفانی بارشوں، شدید سیلاب، تباہ کن طوفانوں، اور دیگر کئی آفات کا خطرہ ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپ کے پہاڑی سلسلے الپس میں واقع گلیشیئرز تیزی سے پگھلیں گے، جبکہ کئی شہروں میں شدید گرمی کی لہریں (ہیٹ ویو)، قحط، خشک سالی اور جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات بھی پیش آئیں گے۔

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرے کا شکار براعظم ایشیا، افریقہ اور بحرالکاہل میں واقع جزائر ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    بحیرہ عرب میں واقع جزیرہ مالدیپ کو سطح سمندر میں اضافے سے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خطرہ ہے جبکہ کئی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان موسم کی حدت میں اضافے کے نقصانات شدید گرمی، سیلاب، قحط اور خشک سالی کی صورت میں برداشت کر رہے ہیں۔

    اس سے قبل اسی ادارے کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ دو سے 3 دہائیوں میں یورپ بھر کے درجہ حرارت میں 1.5 سینٹی گریڈ اضافہ ہوچکا ہے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل سائنس میگزین میں شائع ہونے والے ایک تحقیقاتی مضمون میں کہا گیا تھا کہ زمین اور سمندروں کے درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ اب سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل دیکھا گیا تھا، اور اس کے بعد کبھی اتنا غیر معمولی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

    مضمون میں کہا گیا تھا کہ ماہرین کے مطابق زمین کے درجہ حرارت کے ساتھ سمندروں کا درجہ حرارت بھی اہمیت رکھتا ہے جو اس وقت بہت بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ سال قبل کے اس دور کو زمین کا گرم ترین دور مانا جاتا ہے۔

  • خواتین کے بعد سائنس دان بھی ٹرمپ کے خلاف سراپا احتجاج

    خواتین کے بعد سائنس دان بھی ٹرمپ کے خلاف سراپا احتجاج

    واشنگٹن: امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکیوں کی بڑی تعداد سراپا احتجاج ہے۔ یہ مظاہرین ٹرمپ کو اپنا صدر ماننے سے انکاری ہیں۔ اب امریکی سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کی طرح وہ بھی ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مارچ منعقد کریں گے۔

    صدر ٹرمپ کی حلف برادری کے اگلے ہی روز ہالی ووڈ اداکارؤں سمیت لاکھوں خواتین نے احتجاجی مارچ منعقد کیا تھا۔

    اس کے بعد سوشل میڈیا پر 2 سائنس دانوں نے تبادلہ خیال کیا کہ انہیں بھی اپنا احتجاجی مارچ منعقد کرنا چاہیئے۔

    دو سائنسدانوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس خیال کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک ویب سائٹ، ٹوئٹر اکاؤنٹ اور فیس بک گروپ وجود میں آگیا جس میں ٹرمپ کے خلاف سائنس مارچ کی تفصیلات پر غور کیا جانے لگا۔

    ہزاروں افراد نے انٹرنیٹ پر ان پلیٹ فارمز کو جوائن کرلیا۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس مارچ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ ہر شعبہ کی طرح سائنس کے شعبہ کو بھی ٹرمپ سے شدید خطرہ لاحق ہے۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسی

    انہوں نے بتایا کہ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ٹرمپ کے خلاف اپنا احتجاج کس طرح ریکارڈ کروائیں، کہ ہم نے دیکھا کہ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ سے وہ صفحہ غائب ہوگیا جو ماحول دوست سائنسی اقدامات کے بارے میں تھا۔

    یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کا صفحہ انرجی پالیسی سابق صدر اوباما کے ماحول دوست منصوبوں کے بارے میں تھا جو انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں شروع کروائے تھے۔

    ٹرمپ اپنے انتخاب سے قبل ہی اس منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کر چکے تھے، اور جیسے ہی انہوں نے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا، امریکی صدارتی پالیسی سے اس کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس صفحہ کا وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ سے غائب ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ اپنے ماحول دشمن خیالات میں نہایت سنجیدہ ہیں اور یہ نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے نہایت خطرناک بات ہے۔

    انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ صدر ٹرمپ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کو ایک وہم سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کے درجہ حرارت میں اس وقت شدید اضافہ ہوچکا ہے اور ہم تباہی کی طرف جارہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کا غلط ٹوئٹ کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کا سبب

    مارچ کے منصوبے میں شامل ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ باخبر ذرائع کے مطابق ٹرمپ سائنس کے شعبہ کے لیے فنڈز میں کٹوتی کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

    سائنس مارچ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق مارچ کی تاریخ کا اعلان بہت جلد کردیا جائے گا۔

  • زمین کا درجہ حرارت اب سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل جیسا

    زمین کا درجہ حرارت اب سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل جیسا

    اگر آپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح کلائمٹ چینج پر یقین نہیں رکھتے، اور آپ کو لگتا ہے کہ یہ صرف ایک وہم ہے تو پھر سائنس میگزین کی یہ رپورٹ آپ کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہوگی جس میں کہا گیا ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ آج سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    میگزین میں شائع ہونے والے تحقیقاتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ زمین اور سمندروں کے درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ اب سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل دیکھا گیا تھا، اس کے بعد کبھی اتنا غیر معمولی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

    یاد رہے کہ اس وقت زمین پر انسانوں کی آمد کو 50 ہزار سال سے زائد کا کچھ عرصہ گزرا تھا۔

    ماہرین کے مطابق زمین کے درجہ حرارت کے ساتھ سمندروں کا درجہ حرارت بھی اہمیت رکھتا ہے جو اس وقت بہت بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ سال قبل کے اس دور کو زمین کا گرم ترین دور مانا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج ہے جو بہت تیزی سے رونما ہو رہا ہے۔

    واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا کہ سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال تھا۔ اس سے قبل سنہ 2014 اور 2015 میں بھی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    نواا کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔

    ماہرین کے مطابق گو کہ یہ اضافہ نہایت معمولی سا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ خاصی اہمیت رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج کس قدر تیزی سے رونما ہورہا ہے۔

  • سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2016 جدید تاریخ کا گرم ترین سال تھا اور یہ مسلسل تیسرا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بھارت، کویت اور ایران میں غیر معمولی اور قیامت خیز گرمی دیکھی گئی۔ دوسری جانب قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا۔

    مذکورہ رپورٹ کے لیے سال بھر میں زمین اور سمندر کے اوسط درجہ حرارت کا جائزہ لیا گیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1880 سے جب سے موسم کا ریکارڈ رکھنے کا آغاز ہوا ہے تب سے یہ تاریخ کا گرم ترین سال ہے۔

    امریکی ماہرین کی اس تحقیق سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی تیز رفتاری کی طرف پریشان کن اشارہ ملتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2014 اور 2015 کو بھی گرم ترین سال قرار دیا گیا تاہم 2016 ان سے بھی زیادہ گرم رہا۔

    earth-heat

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گو یہ اضافہ نہایت معمولی سا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ خاصی اہمیت رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج کس قدر تیزی سے رونما ہورہا ہے۔

    نواا کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔

    رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ تیل اور گیس کا استعمال ہے جن کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی (گرین ہاؤس گیسیں) پیدا ہوتی ہیں۔

    ایک اور وجہ ایل نینو بھی ہے جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے تحاشہ تیز رفتار صنعتی ترقی بھی زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں سرد ہونے کا امکان ہے تاہم ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    مذکورہ رپورٹ جاری کرنے والے ادارے نواا نے کچھ عرصہ قبل ایک اور رپورٹ جاری کی تھی جس میں دنیا بھر میں ہونے والے 24 سے 30 ایسے غیر معمولی واقعات کی فہرست بنائی گئی تھی جو اس سے پہلے کبھی ان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔

    یہ غیر معمولی مظاہر سال 2015 میں رونما ہوئے تھے۔ ان میں کراچی کے 2000 شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی قیامت خیز ہیٹ ویو بھی شامل ہے۔

    ادارے کے پروفیسر اور رپورٹ کے نگران اسٹیفنی ہیئرنگ کا کہنا تھا کہ دنیا کو تیزی سے اپنا نشانہ بناتا کلائمٹ چینج دراصل قدرتی عمل سے زیادہ انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اور ہم اپنی ترقی کی قیمت اپنے ماحول اور فطرت کی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

    پروفیسر اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم غیر متوقع ہرگز نہیں اور اب ہمیں ہر سال اسی قسم کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

  • ٹرمپ کا غلط ٹوئٹ کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کا سبب

    ٹرمپ کا غلط ٹوئٹ کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کا سبب

    نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر غلط ٹوئٹ کر کے دنیا بھر میں مذاق کا نشانہ بن گئے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں اپنی بیٹی ایوانکا کی جگہ کسی دوسری ایوانکا کا ذکر کردیا۔ مذکورہ ایوانکا نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ٹرمپ کو کلائمٹ چینج کی طرف توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔

    دو دن بعد صدارت کا حلف اٹھانے والے ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے پر تنقید و مذاق کا نشانہ بن گئے۔

    یہ ساری کہانی دراصل اس وقت شروع ہوئی جب امریکی ریاست میسا چیوسٹس سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر لارنس گڈ اسٹین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کی تعریف میں ٹوئٹ کیا۔

    انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کو ٹیگ کرنا چاہا لیکن غلطی سے ایوانکا ٹرمپ کی جگہ ایوانکا میجک کو ٹیگ کردیا جو برطانیہ میں ایک ڈیجیٹل کنسلٹنٹ ہیں۔

    بیٹی کی اس تعریف پر صدر ٹرمپ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور اسی غلطی کے ساتھ بیٹی کی تعریف میں خود بھی ایک ٹوئٹ کردیا جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کو نہایت باکردار اور عظیم قرار دیا۔

    ٹرمپ کی اس غلطی کی نشاندہی ہوتے ہی ٹوئٹر پر ایک طوفان آگیا اور لوگوں نے ٹرمپ کو تنقید و مذاق کا ہدف بنا لیا۔

    دوسری جانب غلطی سے ٹرمپ کے ٹوئٹ میں آنے والی ایوانکا میجک نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ٹرمپ کو مفید مشوروں سے نواز دیا۔

    انہوں نے ٹرمپ کو جواب دیتے ہوئے کہا، ’آپ پر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ کیا میں آپ کو تجویز دوں کہ ٹوئٹر کا استعمال احتیاط سے کریں اور کلائمٹ چینج کے بارے میں جاننے کے لیے مزید وقت صرف کریں‘۔

    ایوانکا نے اس ٹوئٹ کے ذریعہ ٹرمپ کی توجہ ماحولیاتی نقصانات اور موسمیاتی تغیرات کی جانب دلوانے کی کوشش کی جو پہلے ہی ماحول سے دشمنی پر تلے بیٹھے ہیں۔

    اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بارہا کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں جس نے ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا۔

    انہوں نے امریکا میں کوئلے کی صنعت کی بحالی سمیت کئی ماحول دشمن اقدامات شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

    اس سے قبل آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار اور اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی لیونارڈو ڈی کیپریو نے بھی صدر ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کے عملے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی تھی۔

    ملاقات میں لیو نے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے پیش کیے تھے جن کے ذریعہ نئی نوکریاں پیدا کر کے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔