Tag: گلوکارہ انتقال

  • مالا بیگم: پاکستانی فلمی صنعت کی سریلی آواز

    مالا بیگم: پاکستانی فلمی صنعت کی سریلی آواز

    گلوکارہ مالا کی مدھر اور رسیلی آواز میں ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول ہیں، ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے، بڑی منہگی پڑے گی یہ جدائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ اور مالا کو اس گیت پر فلمی صنعت کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ آج گلوکارہ مالا کی برسی ہے۔

    مالا کی آواز میں یہ سدا بہار گیت 1963 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ میں شامل تھا اور شاعر تھے قتیل شفائی۔ مالا نے پسِ پردہ گلوکاری کا آغاز معروف موسیقار ماسٹر عبداللہ کی فلم ’’سورج مکھی‘‘ سے 1962 میں کیا تھا۔ مالا کا اصل نام نسیم نازلی تھا۔ فلمی موسیقار شمیم نازلی ان کی بڑی بہن تھیں اور وہی نسیم کی فنِ موسیقی میں اوّلین استاد بھی تھیں۔ فلمی دنیا میں نسیم نازلی نے ’’مالا‘‘ کے نام سے شہرت اور مقبولیت پائی۔ وہ 9 نومبر 1942ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ نسیم بیگم نے دو شادیاں کی تھیں اور دونوں ہی ناکام رہیں۔ فلمی دنیا میں مالا نے المیہ اور طربیہ دونوں طرح‌ کے گیت گائے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ اپنی آواز کا جادو جگایا۔ 1965 میں فلم ’’نائلہ‘‘ کے گیت ’’اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی جا اور محبت کی پگلی‘‘ پر انھیں دوسری مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا۔ مالا نے اپنے وقت کے بڑے اور نام ور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اور آخری مرتبہ ان کی آواز فلم ہنڈریڈ رائفلز کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی جو 1981 میں ریلیز ہوئی۔ مالا بیگم نے فلم ارمان، احسان، دوراہا، دل میرا دھڑکن تیری، ہمراز، پھول میرے گلشن کا، پردہ نہ اٹھاؤ، فرنگی، انسانیت، مسٹر بدھو، ہل اسٹیشن، مہمان، اک نگینہ، سنگ دل اور چھوٹے صاحب نامی فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ مالا نے اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں کے ساتھ دو گانے بھی ریکارڈ کروائے۔

    1990 میں آج ہی کے دن پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس سریلی گلوکارہ نے لاہور میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ تاہم مالا بیگم کی قبر کے کتبے پر یوم وفات 5 مارچ درج ہے۔

  • اِندور کی لتا منگیشکر اور لاہور کے ماسٹر غلام حیدر (ایک قصّہ، ایک تذکرہ)

    اِندور کی لتا منگیشکر اور لاہور کے ماسٹر غلام حیدر (ایک قصّہ، ایک تذکرہ)

    مشہور غزل گائیک جگجیت سنگھ نے ایک موقع پر لتا منگیشکر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ’20 ویں صدی کی تین چیزیں یاد رکھی جائیں گی۔ ایک انسان کا چاند پر جانا، دوم دیوارِ برلن کا گرنا اور تیسرا لتا منگیشکر کا پیدا ہونا۔‘

    2022ء میں آج ہی کے دن لتا جی کی اس دنیا سے رخصتی سے بہت پہلے جگجیت سنگھ قیدِ حیات سے رہائی پاچکے تھے۔ دیکھا جائے تو فنِ موسیقی کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے لیے بھی شاید یہ بہت مشکل رہا ہو کہ لتا جی کو سراہنے کے لیے، ان کی تعریف میں کیا کہیں یا وہ کیا الفاظ ہوں‌ جن کا سہارا لے کر لتا جی کے فن کی عظمت کو بیان بھی کرسکیں اور ان کے الفاظ اس عظیم گلوکارہ کے شایانِ شان بھی ہوں۔ لیکن لتا جی کے لاکھوں مداح جو اس شاعری کو سمجھ سکتے تھے جسے لتا منگیشکر نے اپنی آواز دی، ان کو بڑی سہولت اور رعایت یہ رہی کہ وہ لتا منگیشکر کو لتا جی اور دیدی کہہ کر ان سے اپنی عقیدت اور پیار کا اظہار کرتے رہے۔ لتا منگیشکر 92 برس زندہ رہیں اور لگ بھگ 60 برس تک سُر، تال، ساز و آواز کی دنیا میں مشغول رہیں۔

    ہیما منگیشکر المعروف لتا منگیشکر کو لافانی گائیک بنانے کا سہرا میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر کے سر ہے جن کا تعلق لاہور کے علاقہ چونا منڈی سے تھا۔ لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’یہ سنہ 1947 کا زمانہ تھا اور فلم ‘شہید’ کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ اس زمانے کے نام ور میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر نے مذکورہ فلم کے ایک گیت کے لیے میرا آڈیشن لیا۔‘ وہ بتاتی ہیں ’ماسٹر صاحب کو میری آواز بہت پسند آئی اور میرے کہے بغیر انھوں نے اپنے من میں یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مجھے پروموٹ کریں گے، انھی دنوں کی بات ہے کہ فلمستان اسٹوڈیو کے مالک اور مشہور پروڈیوسر شیشدھرمکھر جی نے ریہرسل میں میری آواز سُنی اور مجھے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’اس لڑکی کی آواز بہت باریک اور چبھتی ہوئی ہے۔‘ شیشدھر مکھر جی اپنے وقت کے بہت بڑے فلم ساز تھے۔ لتا منگیشکر کے مطابق ’ماسٹر غلام حیدر نے شیشدھر مکھر جی سے کہا کہ یہ لڑکی (لتا) برصغیر کی میوزک مارکیٹ میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گی لیکن وہ نہ مانے۔‘ ’شیشدھر کے انکار پر ماسٹر غلام حیدر ناراض ہو گئے اور کہا ’مکھرجی صاحب ویسے تو آپ کو اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق ہے لیکن میرے الفاظ نوٹ کر لیں ایک دن آئے گا کہ پروڈیوسر، لتا کے دروازے پر قطار باندھے کھڑے ہوں گے۔‘ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

    لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر گلوکار اور اداکار تھے۔ لتا منگیشکر بھی شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل ہوگئیں۔ کمال امروہوی کی فلم ’’محل‘‘ 1949 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا گانا’’آئے گا ،آئے گا ،آئے گا آنے والا، آئے گا‘‘ لتا منگیشکر نے گایا تھا اور یہ گانا مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔ اس گیت کو آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول کچھ یوں ہیں’’خاموش ہے زمانہ چپ چاپ ہیں ستارے…آرام سے ہے دنیا بے کل ہیں دل کے مارے… ایسے میں کوئی آہٹ اس طرح آ رہی ہے…جیسے کہ چل رہا ہے من میں کوئی ہمارے …یا دل دھڑک رہا ہے اِک آس کے سہارے …آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا…۔‘‘ یہ نخشب جارچوی کا تحریر کردہ خوب صورت گیت تھا جس کی موسیقی کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی تھی۔ اس گانے نے لتا منگیشکر پر فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیے۔ فلم کے ہیرو اور فلم ساز بھی اداکار اشوک کمار تھے اور ان کی ہیروئن مدھو بالا تھیں۔ فلم کے مصنف اور ہدایت کار کمال امروہوی تھے۔

    اس گیت کی ریکارڈنگ کا بھی دل چسپ قصہ ہے۔ مشہور ہے کہ جب یہ گیت ریکارڈ کیا گیا تو ’آئے گا، آئے گا‘ کا تأثر گہرا کرنے اور اسے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لتا جی نے چل پھر کر اسے ریکارڈ کرایا۔ یوں دھیمے سروں سے گیت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لتا جی کی آواز خوشبو بن کر پھیلی اور برصغیر میں ان کا خوب شہرہ ہوا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے کریئر کا آغاز 1942 میں کیا۔ تاہم انھوں نے اردو فلموں کے لیے پہلا گانا 1946 میں ‘آپ کی سیوا’ نامی فلم کے لیے گایا۔ بولی وڈ میں ان کی شہرت کا آغاز 1948 میں فلم ‘مجبور’ کے گیت دل میرا توڑا سے ہوا اور اگلے سال فلم ‘محل’ سامنے آئی جس کے بعد لتا نے مڑ کر نہیں‌ دیکھا۔

    لتا منگیشکر کا نام 1974 سے 1991 تک سب سے زیادہ گانوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل رہا۔ یہ نام 2011 تک ورلڈ ریکارڈ کا حصہ رہا۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے بلکہ ان کی بہن آشا بھوسلے نے بھی گلوکارہ کے طور پر اہم مقام حاصل کیا۔

    گلوکارہ لتا منگیشکر کے گیتوں کا ترنم، نغمگی اور تازگی گویا سماعت پر ایک سحر سا طاری کر دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے گیت دل ميں اُتر جاتے ہیں۔ سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد طبّی پیچیدگیوں کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔

  • یومِ وفات:‌ جب ‘بنتِ نیل’ کو پاکستان میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا

    یومِ وفات:‌ جب ‘بنتِ نیل’ کو پاکستان میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا

    مشرقِ وسطیٰ میں ریڈیو کے ایک پروگرام کی بدولت اُمِّ کلثوم نے گویا راتوں رات شہرت کا ہفت خواں طے کرلیے تھے۔ اور اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی آواز کے مداح بڑھتے گئے اور عرب دنیا ان کی شخصیت کے سحر میں‌ گرفتار ہوگئی۔

    1934ء کے بعد مصر کی امِّ کلثوم لیجنڈ گلوکارہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ جیسے خطاب سے دیے گئے اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ امّ کلثوم نے دنیا کی کئی نام وَر شخصیات کی موجودگی میں اپنے فنِ گلوکاری کا مظاہرہ کیا اور داد و تحسین سمیٹی۔

    اس عظیم گلوکارہ کا انتقال 3 فروری 1975ء کو ہوا تھا۔ آج اُمِّ کلثوم کی برسی ہے۔

    اس عرب گلوکارہ نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے کلاسیکی عرب موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے ملک کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ان کا جو پروگرام نشر ہوا، اس کے بعد ان کی آواز پورے خطۂ عرب میں یکساں مقبول ہوگئی۔

    امِّ کلثوم نے بدوؤں اور دیہاتیوں کی زبانی کئی لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کے طرزِ زندگی کو قریب سے دیکھا تھا، ان کی عرب ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر نظر تھی۔ جب وہ گلوکاری کی طرف آئیں تو اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں کلاسیکی عرب موسیقی کو اپنی آواز میں اس خوبی سے پیش کیا کہ ہر کوئی ان کا مداح ہوگیا۔ امِّ کلثوم نے قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیت گائے اور اس فن کی بدولت ان کا نام امر ہوگیا۔ ان کے پرستاروں میں ہر خاص و عام اور ہر طبقۂ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ امّ کلثوم کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا تھا۔

    پاکستان میں امِّ کلثوم کی ایک وجہِ شہرت شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی نظمیں شکوہ، جوابِ شکوہ ہیں جن کا عربی زبان میں‌ ترجمہ کیا گیا تھا اور پھر اس کلام کو گلوکارہ نے اپنی آواز دی تھی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے امّ کلثوم اسی بنا پر ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

    دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب امِّ کلثوم زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس مقبول گلوکارہ کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک تھے جن میں‌ اعلیٰ حکومتی عہدے دار اور اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔

  • بلقیس خانم: آئینۂ زیست سے دمِ‌ واپسیں تک

    بلقیس خانم: آئینۂ زیست سے دمِ‌ واپسیں تک

    پاکستان کی معروف کلاسیکی گلوکارہ بلقیس خانم انتقال کر گئیں۔ وہ کافی عرصہ سے علیل تھیں۔

    اردو کے معروف شاعر عبید اللہ علیم کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہوگی جس کا ایک شعر ہے، ‘کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‌، پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا! یہ کلام بلقیس خانم ہی کی آواز میں‌ مقبول ہوا تھا۔

    یہاں‌ ہم بلقیس خانم کی زندگی کے سفر اور ان کی گائی ہوئی چند غزلوں کا ذکر کررہے ہیں۔ وہ نام وَر سِتار نواز استاد رئیس خان کی اہلیہ تھیں۔

    بلقیس خانم کے ایک انٹرویو میں ان کے حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: انھوں نے 25 دسمبر 1948 کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں مقیم ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد، عبد الحق فرنیچر سازی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ والدین سے روابط میں روایتی رنگ حاوی تھا۔ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں وہ بڑی تھیں۔ خاصی کم گو ہوا کرتی تھیں اس وقت۔ طبیعت میں شوخی نہیں تھی۔ ہمہ وقت سنجیدگی غالب رہتی۔ کھیلوں کا معاملہ فقط ایک گڑیا تک محدود رہا، جو بیش تر وقت صندوقچی میں رکھی رہتی۔ ہاں، مطالعے کا شوق تھا۔ اردوزبان اپنی جانب کھینچتی تھی۔ شعور کی آنکھ فیصل آباد میں کھولی۔ وہاں ایم بی گرلز ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب اسکول انتظامیہ کی جانب سے ملی نغمے پیش کرنے کے لیے چنا گیا، اُس وقت تک قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ گا بھی سکتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور یاد ہے کہ بڑی جماعتوں کی طالبات کبھی کبھار اُن سے گنگنانے کی فرمایش کیا کرتی تھیں۔

    کچھ عرصے بعد حالات خاندان کو واپس لاہور لے آئے۔ غالب مارکیٹ کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ یہیں کم سن بلقیس کی محمد شریف نامی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی تربیت نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ’’وہ کلاسیکی موسیقی کے استاد تھے۔ تعلق جالندھر سے تھا۔ معروف نہیں تھے، مگر بڑے گنی آدمی تھے۔ اُنھوں نے مجھے صرف گائیکی نہیں سِکھائی، اردو سے میرا تعلق بھی اُن ہی کی وجہ سے قائم ہوا۔ مجھے وہ پڑھنے کے لیے کتابیں دیا کرتے تھے۔‘‘

    استاد کی سرپرستی میں نجی محافل میں پرفارم کرنے لگیں، جہاں غزلیں اور گیت پیش کیا کرتیں۔

    اور پھر زندگی میں ایک موڑ آیا ۔ یہ 64ء کا ذکر ہے۔ والد کے ایک دوست نے اُنھیں سنا، تو ریڈیو کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ بات دل کو لگی۔ استاد کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں۔ جن صاحب نے ریڈیو میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا، اُن کے محلے میں ریڈیو اسٹیشن کا چپڑاسی رہا کرتا تھا، جس کی اُس وقت کے ریجنل ڈائریکٹر، مختار صدیقی سے اچھی سلام دعا تھی۔ ’’تو اُس چپڑاسی نے، جسے ریڈیو کی زبان میں اسٹوڈیو کمشنر کہا جاتا تھا، ریڈیو آڈیشن کے لیے میری سفارش کی۔‘‘ آڈیشن کے تین ماہ بعد بلاوا آیا۔ ابتداً کورس میں گایا۔ ’’لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ نئے فن کاروں کو شروع کے دو ماہ کورس ہی میں گوایا جاتا، تاکہ ٹریننگ ہوجائے۔ اُس وقت ہمیں فی پروگرام پچیس روپے ملا کرتے۔‘‘ ریڈیو پر پہلی بار اپنی آواز سنی، تو مطمئن ہونے کے بجائے مزید بہتری کی خواہش نے جنم لیا۔

    سولو پرفارمینس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ’’تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔ چھے ماہ بعد پھر آڈیشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ’’ریڈیو کا طریقۂ کار بڑا سخت تھا۔ اِسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ جس نے ریڈیو کی مار کھائی ہو، وہ پھر کہیں مار نہیں کھاتا۔ چاہے وہ گلوکار ہو یا اداکار۔‘‘

    اس بار معروف پروڈیوسر، سلیم گیلانی نے آڈیشن لیا۔ چالیس فن کار قسمت آزمانے آئے، منتخب ہونے والوں چند خوش نصیبوں میں وہ بھی شامل تھیں۔ معاوضہ بڑھا کر 65 روپے کر دیا گیا۔ پروگرامز کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور کے علاوہ دیگر اسٹیشنز کا بھی رخ کیا۔ پہلا سفر راول پنڈی کا تھا۔ اگلی بار مظفر آباد کی سمت بڑھیں۔ ریڈیو کی شہرت خوب کام آئی، نجی پروگرامز میں مدعو کیا جانے لگا۔ اِسی کے توسط سے پی ٹی وی تک رسائی حاصل کی، جہاں آڈیشن کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پنجابی گیت سے اِس سفر کا آغاز ہوا۔ 65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔

    آنے والے دنوں میں کنور آفتاب، طارق عزیز، فضل کمال، رفیق احمد وڑائچ اور شعیب منصور جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا۔ اُسی زمانے میں موسیقار، خلیل احمد نے فلمی گانے کی پیش کش کی۔ ’’تصویر‘‘ کے لیے اُنھوں نے گانا ’’بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو فلم کے پہلے شو کے بعد سینسر بورڈ نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ ’’گیت کے بول مناسب نہیں!‘‘ جہاں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ کام کیا، وہیں فلمی دنیا کے چند نئے موسیقاروں کی دھنوں کو بھی آواز دی۔ موسیقار، میاں شہریار نے ’’بی بی‘‘ نامی فلم کے تمام گانے اُن ہی سے گوائے، مگر وہ فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    شہرت کا سفر جاری تھا، مگر جلد ہی فلمی دنیا سے اُوب گئیں۔ ’’میں خود کو اُس ماحول میں ڈھال نہیں سکی۔ دھیرے دھیرے انڈسٹری سے دور ہوتی گئی۔ پچیس تیس فلمی گانے گائے ہوں گے، لیکن میری قسمت ’اچھی‘ تھی، کیوں کہ تمام ہی فلمیں ڈبے میں گئیں۔‘‘

    فلم انڈسٹری سے دُوری کا ایک سبب کراچی آمد بھی تھا۔ یہ 70ء کا ذکر ہے۔ ایک نجی محفل میں شرکت کے لیے شہر قائد کا رخ کیا، جو اتنا بھایا کہ یہیں ڈیرا ڈال لیا۔ جلد ہی پی ٹی وی سے جُڑ گئیں، جہاں ایک ایسا گیت ریکارڈ کروانے کا موقع ملا، جو امر ہوگیا۔

    ’’انوکھا لاڈلا‘‘ استاد عاشق علی خان کی کمپوزیشن تھا، جسے اسد محمد خان کے قلم نے جدید آہنگ دیا۔ امیر امام کے پروگرام ’’سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا، اور چند ہی روز میں زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ اُن ہی دنوں عبیداﷲ علیم کی غزل ’’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‘‘ ریکارڈ کروائی، جو استاد نذر حسین کی کمپوزیشن تھی۔ اُس نے بھی مقبولیت کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    78ء میں نام وَر ستار نواز، استاد رئیس خان سے ملاقات ہوئی، جو اُس وقت ہندوستان میں مقیم تھے۔ ملاقاتوں میں جلد ہی محبت کا رنگ در آیا۔ 80ء میں شادی ہوئی، اور بلقیس خانم ہندوستان چلی گئیں۔ اگلے سات برس ممبئی میں بیتے۔ ہندوستان کے ماحول سے تو ہم آہنگ ہوگئیں، مگر Sinus کے مسئلے کی وجہ سے ممبئی راس نہیں آیا۔ بس، اِسی وجہ سے 86ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں، اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔

    بلقیس صاحبہ تو پاکستانی ہیں، اُن کے لیے یہ فیصلہ ضرور آسان رہا ہو گا، مگر استاد رئیس خان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، جو اپنے اوج پر ہونے کے باوجود سب چھوڑ چھاڑ کر اُن کے ساتھ چلے آئے۔

    لیجنڈری ستار نواز استاد رئیس خان 77 سال کی عمر 2017ء میں وفات پاگئے تھے اور آج (21 دسمبر 2022ء) بلقیس خانم نے بھی یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔ بلقیس خانم کو کل (جمعرات) سپردِ‌ خاک کیا جائے گا۔

    (اقبال خورشید کا گلوکارہ سے کیا گیا ایک انٹرویو 2013ء میں شایع ہوا تھا، اس تحریر کا مواد اسی انٹرویو لیا گیا ہے)

  • لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ وہ گیت تھا جسے تھر کی کوئل مائی بھاگی کی آواز میں ہر اس شخص نے بھی سنا جو معنی و مفہوم سے ناآشنا اور اس زبان سے ناواقف تھا۔ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ آج مائی بھاگی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں 1920 کے لگ بھگ آنکھ کھولی تھی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد مقامی رسم و رواج کے مطابق شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے اور نوحے گاتے اور اس سے روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ میلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں لے جانے لگے جہاں مائی بھاگی ان کے ساتھ ڈھول بجا لیتی تھیں اور پھر فنِ گلوکاری کی طرف مائل ہوئیں جس کی تربیت اور تعلیم بھی والدین سے حاصل کی۔

    وہ بڑی ہوئیں تو والد کی اجازت سے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات پر لوک گیت اور سہرے گانے کے لیے جانے لگیں۔ تھر کی مائی بھاگی ناخواندہ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناآشنا تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی نے نہ صرف ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سے محبت کرنے اور اسے سمجھنے والے موجود ہیں، مائی بھاگی کو سنا اور سراہا گیا۔ وہ اپنی سادہ دلی اور انکساری کی وجہ سے بھی لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پاتی تھیں‌ اور انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سولہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوتھی فقیر سے ہوگئی تھی جو تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ کے مشہور لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی نے جلد ہی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرنا شروع کردی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں کے گیتوں کو اپنی آواز دی۔ مائی بھاگی نے تھر کے ایک اور مشہور گلوکار استاد مراد فقیر کے ساتھ بھی سرائیکی، مارواڑی، سندھی زبانوں‌ کے لوک گیت گائے۔

    ان کی قسمت کا ستارہ 1963 میں اس وقت چمکا جب انھوں نے اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات کے درمیان اپنی آواز کا جادو جگایا اور تھر کی اس آواز نے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ وہاں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سینٹر کی ٹیم بھی موجود تھی جس نے مائی بھاگی کی آواز کو ریکارڈ کرلیا اور بعد میں جب ریڈیو پر سامعین نے انھیں سنا تو مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ تب 1966 میں ریڈیو پاکستان کے لیے مائی بھاگی کی آواز میں چند لوک گیت ریکارڈ کروائے گئے اور وہ ملک گیر شہرت یافتہ گلوکاروں کی صف میں‌ آ کھڑی ہوئیں۔

    مائی بھاگی نے جب شاہ کار لوک گیت ’’کھڑی نیم کے نیچے…..‘‘ گایا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ بعد میں ریڈیو پر ان کے متعدد گیت نشر ہوئے اور جلد ہی صحرا کی یہ گلوکارہ کراچی میں پی ٹی وی پر نظر آئی۔ پہلی مرتبہ لوگوں نے مائی بھاگی کو اسکرین پر دیکھا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت گانے والی مائی بھاگی کو سندھ میں ہونے والی مختلف موسیقی کی محفلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی مدعو کیا جاتا تھا اور وہ عام لوگوں‌ میں بھی خاصی مقبول تھیں-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز کو روانہ ہونے والی تھیں، مگر 7 جولائی کو ان کی سانسوں کی مالا ہی ٹوٹ گئی اور انھیں دوسروں کے کاندھے پر اپنی آخری آرام گاہ کا سفر طے کرنا پڑا۔

    حکومتِ پاکستان نے مائی بھاگی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو بامِ عروج پر پہنچانے والی اقبال بانو سُر اور ساز ہی نہیں اردو زبان کی لطافت اور چاشنی سے بھی خوب واقف تھیں۔ ان کا تلفظ نہایت عمدہ اور ادائیگی کا انداز پُراثر تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا جس نے ان کی گائیکی کو بے مثال بنا دیا تھا۔ آج اس گلوکارہ کی برسی ہے۔

    اقبال بانو کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک ان کا اثر رہتا۔ برصغیر پاک و ہند کی یہ منفرد اور بے مثال گلوکارہ 21 اپریل 2009ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو عروج پر لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز سترہ برس کی عمر میں‌ کرنے والی اقبال بانو نے 1952 میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر ملتان میں قیام پذیر ہوئیں۔

    انھوں نے یہاں اپنی گائیکی سے اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور باذوق حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کی آواز گونجی تو مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ اقبال بانو کی آواز میں مشہور شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ لوگوں تک پہنچی تو یہ کلام ہر خاص و عام میں‌ ایسا مقبول ہوا کہ ایک نعرے کی صورت میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔

    اقبال بانو کی گائی ہوئی غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسا گیت اقبال بانو کی آواز میں‌ امر ہوگیا۔

    فیض احمد فیض کا انقلابی کلام گانے کے بعد اقبال بانو کی پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ دورِ آمریت تھا جس میں‌ ایک فن کار کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ نجی محافل میں‌ شرکت کرتی رہیں اور ان کی آواز میں فیض کی یہ مشہور نظم فرمائش کرکے سنی جاتی تھی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کا اعتراف کیا۔

  • لتا منگیشکر سے منسوب وہ مقبول ترین گیت جو انھوں‌ نے نہیں‌ گائے!

    لتا منگیشکر سے منسوب وہ مقبول ترین گیت جو انھوں‌ نے نہیں‌ گائے!

    لتا چلی گئیں، انھوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ سُروں کی ملکہ، جہانِ ساز و آواز کی فرماں روا لتا منگیشکر کی شہرت اور مقبولیت ایک طرف ہندوستان میں انھیں بڑا مقام و مرتبہ بھی حاصل رہا ہے۔ بڑے بڑے کلاکار ان کے سامنے سَر جھکاتے اور ان کے دستِ شفقت کو اپنی بڑی خوش بختی اور اعزاز تصوّر کرتے تھے۔

    برصغیر پاک و ہند اور جہاں جہاں اس خطّے کی موسیقی اور آواز کو سنا اور سمجھا جاتا ہے، وہاں لتا منگیشکر کو اُن گانوں کے لیے بھی سراہا گیا جو انھوں نے نہیں گائے تھے۔ جی ہاں، ایک گلوکارہ ایسی تھی جس کی آواز لتا منگیشکر سے مشابہت رکھتی تھی اور ان دونوں کی آوازوں میں تمیز کرنا مشکل تھا۔

    ہندی فلم ‘‘نصیب‘‘ کا یہ گانا برصغیر میں‌ بے حد مقبول ہوا تھا جس کے بول ہیں، ’’زندگی امتحان لیتی ہے، لوگوں کی جان لیتی ہے…‘‘ دل چسپ بات یہ ہے کہ کل ہی نہیں آج بھی اس گیت کو سننے والوں کی اکثریت کے لیے یہ تسلیم کرنا آسان نہیں‌ ہوگا کہ یہ گیت لتا جی کی آواز میں ریکارڈ نہیں‌ کیا گیا ہے۔

    1981ء کی اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی تھی۔ اس گیت کے بول متعدد مقبولِ عام گیتوں کے خالق آنند بخشی کے قلم سے پُھوٹے تھے جب کہ موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار جوڑی لکشمی کانت پیارے لال نے دی تھی۔ پرانی ہندی فلموں کے شائقین آج بھی یہ خوب صورت گیت شوق سے سنتے ہیں۔ یہ نغمہ اس وقت کے صف اوّل کے اداکاروں امیتابھ بچن، شتروگھن سنہا اور رینا رائے پر فلمایا گیا تھا۔ امیتابھ بچن اور شتروگھن کے بول بالترتیب انور اور ڈاکٹر کملیش اوستھی نے گائے تھے جب کہ اس گیت کے بولوں پر ادائیں‌ دکھاتی مشہور اداکارہ رینا رائے کے پسِ پردہ جو آواز سنائی دے رہی تھی، وہ لتا منگیشکر کی نہیں سمن کلیانپور کی تھی۔

    اس زمانے کی طرح آج بھی پرانی ہندی فلموں کے دل دادگان کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اس گیت میں انور اور ڈاکٹر کملیش کی ساتھی گلوکارہ لتا منگیشکر تھیں۔ اس مغالطے کا سبب یہ ہے کہ سمن کلیانپور کی آواز سُروں کی دیوی کے لب و لہجے سے اس قدر مشابہ ہے کہ تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آج کسی گلوکارہ کو اگر لتامنگیشکر جیسی آواز اور گائیکی کی صلاحیت عطا ہوجائے تو وہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھے گی مگر سمن کلیانپور کے لیے یہ مشابہت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوہانِ روح بن گئی کیوں کہ انتہائی باصلاحیت گلوکارہ ہونے کے باوجود دنیائے موسیقی انھیں ان کا جائز مقام نہ دے سکی۔ سمن کے گلے سے نکلتی لتا جیسی سُریلی آواز ان کی جُداگانہ پہچان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

    سمن نے جب فلم نگری میں قدم رکھا تو اس وقت جہانِ موسیقی میں لتا منگیشکر کا طوطی بول رہا تھا۔ برصغیر میں شائقین فلم و موسیقی ان کی آواز کے سحر میں مبتلا تھے۔ ہر چند کہ سمن نے فلم نگری میں سخت محنت سے اپنا مقام اور شناخت بنانے کی کوشش کی مگر بدقسمتی سے ان پر لتا منگیشکر کی ’ڈپلیکیٹ‘ کی چھاپ لگ گئی۔ جو فلم ساز کسی بھی سبب سے لتا منگیشکر کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو پھر اس کا انتخاب سمن کلیانپور ہوتی تھیں۔ اگرچہ یہ بھی اس امر کا اعتراف تھا کہ سُر بکھیرنے میں سمن کسی بھی طرح لتا منگیشکر سے کم نہیں۔

    اس باکمال گلوکارہ نے 28 جنوری 1938ء کو ڈھاکا کے ایک برہمن گھرانے میں جنم لیا تھا۔ ان کا پیدائشی نام سمن ہماڈے تھا۔ والد کا آبائی تعلق ریاست کرناٹک کی تحصیل کنڈاپور کے گاؤں ہماڈے سے تھا اور اُن دنوں وہ سینٹرل بینک آف انڈیا کے اعلیٰ عہدے دار کی حیثیت سے ڈھاکا میں تعینات تھے۔ چھے بچّوں میں سمن ان کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ 1943ء میں یہ خاندان ممبئی منتقل ہوگیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ سمن نے گائیکی کو بہ طور مشغلہ اپنایا تھا۔ دھیرے دھیرے سُرسنگیت میں ان کی دل چسپی اتنی بڑھ گئی کہ انھوں نے اس فن کو پیشہ وارانہ طور پر اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ چناں چہ پنڈت کیشو راؤ بھولے کے بعد انھوں نے استاد خان عبدالرحمان خان اور گرو جی ماسٹر نورنگ سے فنِ گائیکی کی تربیت لی۔

    1952ء میں انھیں آل انڈیا ریڈیو کے لیے گانے کی پیشکش ہوئی۔ خاصی کوشش کے بعد وہ والدین سے اجازت لینے میں کام یاب ہوگئیں۔ یہ ان کی اوّلین پبلک پرفارمینس تھی جس نے فلم نگری سے منسلک کئی لوگوں کو چونکا دیا چنانچہ انھیں پہلی فلم کے لیے گیت گانے کی پیش کش ہوئی۔ 1953ء میں ریلیز ہونے والی اس مراٹھی فلم کا نام ’’ سُکھ رچی چاندنی‘‘ تھا۔ انھی دنوں معروف فلم ساز شیخ مختار فلم ’’ منگو‘‘ بنانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ انھوں نے جب سمن کا گیت ’’ سُکھ رچی چاندنی‘‘ سنا تو بہت متأثر ہوئے اور اس نوجوان گلوکارہ سے اپنی فلم کے لیے گیت ریکارڈ کرانے کی فرمائش کی۔ تاہم اسی دوران کسی سبب سے او پی نیر کے بجائے محمد شفیع نے موسیقار کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ محمد شفیع نے سمن کے گائے ہوئے دو گیت نکال باہر کیے۔ اس طرح سمن کی آواز میں گائی ہوئی ایک لوری ’’کوئی پکارے دھیرے سے تجھے‘‘ ہی فلم میں شامل رہی۔ 1954ء میں سنیماؤں کی زینت بننے والی اس فلم سے ہندی فلم نگری میں سمن کی آمد ہوئی۔

    کچھ ہی دنوں کے بعد انھیں فلم ’’ دروازہ‘‘ میں اپنی گائیکی کے جوہر دکھانے کی پیش کش ہوئی۔ 1954ء ہی میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو سمن کلیانپور کی پہلی ہندی فلم خیال کیا جاتا ہے۔ ان کی پیشہ وارانہ زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب انھیں شہرۂ آفاق گلوکار محمد رفیع کے ساتھ فلم ’’مس بومبے‘‘ میں ایک دوگانہ گانے کا موقع ملا۔ اس گیت کے بول تھے،’’دن ہو یا رات، ہم رہیں تیرے ساتھ۔‘‘ یہ گیت عوام الناس میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ تاہم لتا منگیشکر کی آواز سے حیران کُن مشابہت کے باعث لوگوں نے اسے لتا جی ہی کی آواز سمجھا۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد سمن کلیانپور پر فلم نگری کے دَر وا ہوگئے۔

    انھیں تسلسل کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانے کے مواقع ملنے لگے۔ مگر یہ اس فن کارہ کی بدقسمتی تھی کہ اس وقت فلمی موسیقی پر لتا اور ان کی بہن آشا کا راج تھا۔ ہر فلم ساز اپنی فلم میں لتا کی آواز شامل کرنے کا خواہش مند ہوتا تھا۔ تاہم بے پناہ مصروفیت کے سبب لتا منگیشکر کے لیے ہر فلم ساز کی خواہش پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ دوسری جانب اپنی مقبولیت اور مانگ کی مناسبت سے ان کا معاوضہ بھی زیادہ تھا۔ چنانچہ فلمی دنیا میں سمن کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

    فلم ’’ پیاسے پنچھی‘‘ میں ہمنت کمار کے ساتھ دوگانہ تمھی میرے میت ہو، ’’ شمع‘‘ کا ایک جرم کرکے ، اور دل غم سے جل رہا، ’’ برسات کی رات‘‘ کا گرجت برسات ساون آیو، ’’ زندگی اور خواب ‘‘ کا نہ جانے کہاں تم تھے، ’’بات ایک رات کی‘‘ کا نہ تم ہمیں جانو نہ ہم تمھیں جانیں، ’’دل ایک مندر‘‘ کا جوہی کی کلی میری لاڈلی اور دل ایک مندر ہے،’’جہاں آرا ‘‘ کا بعد مدت کے یہ گھڑی، ’’شگن‘‘ کا پربتوں کے پیڑوں پر اور بجھا دیا ہے خود اپنے ہاتھوں، ’’ جب جب پھول کھلے‘‘ کا نا نا کرتے پیار تمھی سے، ’’ دل نے پھر یاد کیا‘‘ کا گیت دل نے پھر یاد کیا، ’’ ماڈرن گرل‘‘ کا یہ موسم رنگین سامان اور بہت سے دوسرے گیت مقبولیت کی بلندیوں کو چُھوگئے۔

    اسی دوران ہندوستانی فلمی دنیا کی مقبول ترین گلوکار جوڑی لتا اور محمد رفیع کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور لتا نے ان کے ہمراہ گیت ریکارڈ کروانے سے انکار کردیا۔ ناراضی کا یہ عرصہ دو سال پر محیط رہا۔ اس دوران سمن کلیانپور فلم سازوں کی منظورِ نظر بنی رہیں اور انھوں نے متعدد فلموں میں درجنوں گیت گائے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ شائقین سمن کی آواز کو لتا کی آواز سمجھتے تھے اور درحقیقت فلم ساز بھی یہی چاہتے تھے۔ اسی لیے اگر کوئی سوال کرتا کہ کیا فلم کے گیت لتا نے گائے ہیں تو بیشتر فلم ساز اور ہدایت کار اس کی تردید نہیں کرتے تھے۔

    سمن کلیانپور کو لتا منگیشکر کے ساتھ بھی ایک دوگانہ ریکارڈ کرانے کا موقع ملا۔ اس گیت کے بول تھے،’’کبھی آج، کبھی کل، کبھی پرسوں۔‘‘ اس گیت کی موسیقی ہمنت کمار نے ترتیب دی تھی۔

    (ندیم سبحان کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • یومِ وفات:‌ ملکہ پکھراج کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا

    یومِ وفات:‌ ملکہ پکھراج کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا

    برصغیر کی مشہور مغنّیہ ملکہ پکھراج 2004ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جو بھی وہ گنگناتیں ذہنوں پر نقش ہو جاتا۔ وہ کلاسیکی گائیکی اور راگ راگنیوں کی ماہر تھیں اور اُن چند پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جن کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی اس مغنّیہ نے پاکستان میں اپنے ہم عصر گلوکاروں میں‌ اپنی آواز اور مخصوص انداز کے سبب نمایاں‌ پہچان بنائی۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل اور بھجن کے ساتھ کئی اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور ماہر موسیقاروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے جن کا ایک ناول جھوک سیال بہت مشہور ہے۔ ملکہ پکھراج نے کم عمری ہی میں گانا شروع کردیا تھا اور وہ نو سال کی تھیں جب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تاج پوشی کا موقع آیا تو انھیں تقریب میں گانے کا موقع ملا اور وہاں ملکہ پکھراج کے سامعین میں والیٔ ریاست، وزرا اور امرا کے ساتھ عوام بھی ان کے مداح ہوگئے۔ انھوں نے مہاراجہ اور اعلیٰ‌ درباری منصب داروں کو اتنا متاثر کیاکہ انھیں دربار ہی سے وابستہ کر لیا گیا اور وہ اگلے نو سال تک وہیں مقیم رہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔

    لاہور میں وفات پانے والی اس مشہور مغنّیہ کو شاہ جمال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    ایک زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری کی رسیلی اور مدھر آوازوں نے اپنے دور کے بے شمار گیتوں کو مقبولیت اور ان کے تخلیق کاروں اعتبار بخشا اور فلموں کی کام یابی میں اپنا حصّہ ڈالا، لیکن پھر نگار خانے ویران ہوگئے اور کانوں میں‌ رس گھولنے والی یہ آوازیں بھی ایک ایک کرکے خاموش ہوتی چلی گئیں۔

    کوثر پروین ایک ایسی ہی گلوکارہ تھیں جن کے گائے ہوئے کئی گیت ان کی یاد دلاتے ہیں۔ پاکستان کی اس مشہور گلوکارہ کا انتقال 30 دسمبر 1967ء کو ہوا تھا۔ ہندوستان کے شہر پٹیالہ میں پیدا ہونے والی کوثر پروین کے کیرئیر کا آغاز 1950ء میں ہوا تھا۔

    پاکستانی فلم ’’قاتل‘‘ کا یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا جس کے بول تھے:

    او مینا… نہ جانے کیا ہو گیا، کہاں دل کھو گیا، او مینا!….

    یہ ممتاز شاعر اور بے مثال نغمات کے خالق قتیلؔ شفائی کا تحریر کردہ گیت تھا جو کوثر پروین کی آواز میں‌ پاکستان بھر میں مقبول ہوا۔

    انور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ کہتے ہیں اس فلم کے نغمات نے کراچی سے دلّی تک مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔

    آج فنِ موسیقی اور گائیکی کے انداز ہی نہیں‌ بدلے گئے بلکہ پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کے ساتھ اُن ناموں کو بھی فراموش کردیا گیا جو اپنے دور میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔ کوثر پروین ایسا ہی ایک نام ہے جو مشہور اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن اور معروف موسیقار اختر حسین کی شریکِ حیات بھی تھیں۔

    کوثر پروین نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں کئی فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کروائے۔ 1954ء میں فلم نوکر کی ایک لوری بہت مشہور ہوئی جس کے بول تھے:

    میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں… اسے کوثر پروین کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس لوری نے بطور گلوکارہ انھیں‌ شہرت اور شناخت دی تھی۔

    کوثر پروین کے دیگر مقبول گیتوں میں فلم وعدہ کا نغمہ بار بار ترسے مورے نین بھی شامل ہے۔ انھوں نے کئی دو گانے بھی گائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

  • معروف لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی جنھیں بلبلِ‌ صحرا بھی کہا جاتا ہے

    معروف لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی جنھیں بلبلِ‌ صحرا بھی کہا جاتا ہے

    ریشماں کی آواز نہایت درد انگیز اور پُر سوز تھی۔ انھیں بلبلِ صحرا بھی کہا گیا۔ آج پاکستان کی اس مشہور لوک گلوکارہ کی برسی ہے۔ ریشماں 2013ء میں اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی تھیں۔

    وہ طویل عرصے سے علیل تھیں۔ انھیں گلے کے سرطان کا مرض لاحق تھا۔ ریشماں کی پیدائش کا سال 1947ء تھا۔ وہ راجستھان کے علاقے بیکانیر سے تعلق رکھتی تھیں۔

    برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا۔ ریشماں نے کم عمری میں صوفیانہ کلام گانا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ بارہ برس کی ایک بچّی کو ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی نے لعل شہباز قلندر کے مزار پر سنا اور اسے ریڈیو پر گانے کا موقع دیا۔ یوں ریشماں پاکستان بھر میں لوک گلوکارہ کے طور پر متعارف ہوئیں اور بعد کے برسوں میں مقبولیت حاصل کی۔

    ”چار دناں دا پیار او ربّا، بڑی لمبی جدائی“ وہ گیت ہے جس نے ریشماں کو ملک ہی نہیں سرحد پار بھی شہرت اور پہچان دی۔

    ریشماں نے گائیکی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کے لیے گانا شروع کر دیا۔ انھوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی متعدد گیت گائے۔ ان کی مقبولیت سرحد پار بھی پہنچی اور معروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے اپنی فلم کے لیے ان کی آواز میں‌ گانا ریکارڈ کروایا۔ یوں ریشماں نے فلم ’ہیرو‘ کا گانا ’لمبی جدائی‘ گایا جو آج بھی پاک و ہند میں مقبول ہے اور نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں ’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا‘، ’وے میں چوری چوری‘، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول‘ اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔

    اس لوک گلوکارہ کو ستارۂ امیتاز اور لیجنڈز آف پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔