نیّرہ نور کی آواز آج بھی ہماری سماعتوں میں رَس گھول رہی ہے اور بالخصوص ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات پہلے کی طرح اب بھی مقبول ہیں۔ جہاں ان نغمات کی بدولت 14 اگست کو جشنِ آزادی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے وہیں نیرہ نور کے مداح اگست کی 20 تاریخ کو گلوکارہ کی برسی بھی مناتے ہیں۔ نیّرہ نور 2022ء میں اسی روز انتقال کر گئی تھیں۔
صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی پانے والی نیّرہ نور کئی برس سے گلوکاری ترک کرنے کے بعد گوشۂ گمنامی میں تھیں۔ وہ میڈیا اور دوسری تقاریب سے اگرچہ دور تھیں، لیکن جب بھی پاکستان کی ممتاز گلوکاراؤں کا ذکر ہوتا اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تو نیّرہ نور کا نام لیے بغیر بات نہیں بنتی تھی۔ نیرہ نور کے مشہور گیتوں اور ملّی نغمات کی فہرست میں تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر، اے جذبۂ دل گر میں چاہوں، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان، شامل ہیں۔
گلوکارہ نیّرہ نور نے 70 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ گیتوں، غزلوں کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پسِ پردہ گائیکی تک جاری رہا۔
آسام میں بچپن گزارنے والی نیّرہ نور کا سنہ پیدائش 1950ء ہے۔ وہ 7 سال کی تھیں جب ہجرت کر کے ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔ ان کے والد مسلم لیگ کے فعال کارکن تھے اور تحریک آزادی میں پیش پیش رہے تھے۔ 1947 میں جب قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آسام کا دورہ کیا تو ان کے والد نے قائد کی میزبانی کی تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے بتایا تھا کہ گھر کے قریب صبح صبح گھنٹیاں بجتی تھیں، لڑکیاں بھجن گاتی تھیں اور ان کی آواز نیّرہ نور کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی تھی۔ `میں خود کو روک نہیں پاتی تھی، بیٹھ کر سنتی رہتی تھی تب تک جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں۔‘
اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں دوستوں کے درمیان نیّرہ نور شوقیہ گاتی تھیں۔ ان کا یہ جوہر اساتذہ پر کھلا تو انھوں نے لاہور میں منعقدہ یوتھ فیسٹیول میں نیرہ نور کو اقبال اوپرا کے لیے گانے کا موقع دیا۔ لاہور میں اوپن ایئر میں نیّرہ نور کو عمدہ گلوکاری پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ اس طرح حوصلہ افزائی کے ساتھ بطور گلوکارہ ان کی پہچان بننے لگی۔ لیکن انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر بطور گلوکارہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرسکیں گی۔ ریڈیو پاکستان سے بہزاد لکھنوی کی لکھی ہوئی غزل’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے‘‘ نیرہ نور کی آواز میں نشر ہوئی اور یہیں سے شہرت کی دیوی گلوکارہ
پر مہربان ہوگئی۔
پہلی مرتبہ نیّرہ نور نے ریڈیو کے لیے باقاعدہ غزل ریکارڈ کروائی اور ان آواز سامعین تک پہنچی۔ یہ 1968ء کی بات تھی اور پھر 1971ء میں وہ ٹی وی پر نظر آئیں۔ بطور گلوکارہ نیرہ نور کو سامعین نے بہت سراہا اور پھر وہ موسیقی کے کئی پروگراموں کا حصّہ بنیں۔ ان کے گائے ہوئے نغمات اور فلمی گیت ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہوتے رہے۔ نیرہ نور نے فلموں کے لیے متعدد گیت ریکارڈ کروائے اور عمدہ گلوکاری پر نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔
نیّرہ نور کا تلفظ ہی اچھا نہیں تھا بلکہ وہ ایک باذوق اور شستہ مذاق کی حامل فن کارہ تھیں جنھوں نے منتخب کلام گایا ہے۔ ان کی آواز میں فیض صاحب کی غزلوں اور ںظموں کو بہت مقبولیت ملی۔ فلم فرض اور ممتا کے لیے نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کردہ ملّی نغمے `اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں… بہت مقبول ہوا۔
گلوکارہ نیّرہ نور نے گانا باقاعدہ نہیں سیکھا تھا بلکہ ریڈیو پر نشر ہونے والی موسیقی سن کر اس کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔ گلوکاری ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ لیکن اس میں نکھار لانے کے لیے انھوں نے بڑے گلوکاروں کو سنا اور ریاض کرتی رہیں۔ فنِ گائیکی میں نیّرہ نور اختری فیض آبادی اور بیگم اختر سے متأثر تھیں۔
انھیں بلبلِ پاکستان کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔