Tag: گلوکارہ برسی

  • نیرہ نور: بلبلِ پاکستان کا تذکرہ

    نیرہ نور: بلبلِ پاکستان کا تذکرہ

    نیّرہ نور کی آواز آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رَس گھول رہی ہے اور بالخصوص ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات پہلے کی طرح اب بھی مقبول ہیں۔ جہاں ان نغمات کی بدولت 14 اگست کو جشنِ آزادی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے وہیں نیرہ نور کے مداح اگست کی 20 تاریخ کو گلوکارہ کی برسی بھی مناتے ہیں۔ نیّرہ نور 2022ء میں اسی روز انتقال کر گئی تھیں۔

    صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی پانے والی نیّرہ نور کئی برس سے گلوکاری ترک کرنے کے بعد گوشۂ گمنامی میں تھیں۔ وہ میڈیا اور دوسری تقاریب سے اگرچہ دور تھیں‌، لیکن جب بھی پاکستان کی ممتاز گلوکاراؤں‌ کا ذکر ہوتا اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تو نیّرہ نور کا نام لیے بغیر بات نہیں بنتی تھی۔ نیرہ نور کے مشہور گیتوں اور ملّی نغمات کی فہرست میں تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر، اے جذبۂ دل گر میں‌ چاہوں، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان، شامل ہیں۔

    گلوکارہ نیّرہ نور نے 70 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ گیتوں، غزلوں کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پسِ پردہ گائیکی تک جاری رہا۔

    آسام میں بچپن گزارنے والی نیّرہ نور کا سنہ پیدائش 1950ء ہے۔ وہ 7 سال کی تھیں جب ہجرت کر کے ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔ ان کے والد مسلم لیگ کے فعال کارکن تھے اور تحریک آزادی میں پیش پیش رہے تھے۔ 1947 میں جب قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آسام کا دورہ کیا تو ان کے والد نے قائد کی میزبانی کی تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے بتایا تھا کہ گھر کے قریب صبح صبح گھنٹیاں بجتی تھیں، لڑکیاں بھجن گاتی تھیں اور ان کی آواز نیّرہ نور کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی تھی۔ `میں خود کو روک نہیں پاتی تھی، بیٹھ کر سنتی رہتی تھی تب تک جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں۔‘

    اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں دوستوں کے درمیان نیّرہ نور شوقیہ گاتی تھیں۔ ان کا یہ جوہر اساتذہ پر کھلا تو انھوں نے لاہور میں منعقدہ یوتھ فیسٹیول میں نیرہ نور کو اقبال اوپرا کے لیے گانے کا موقع دیا۔ لاہور میں اوپن ایئر میں نیّرہ نور کو عمدہ گلوکاری پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ اس طرح حوصلہ افزائی کے ساتھ بطور گلوکارہ ان کی پہچان بننے لگی۔ لیکن انھوں نے کبھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر بطور گلوکارہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرسکیں گی۔ ریڈیو پاکستان سے بہزاد لکھنوی کی لکھی ہوئی غزل’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے‘‘ نیرہ نور کی آواز میں نشر ہوئی اور یہیں سے شہرت کی دیوی گلوکارہ
    پر مہربان ہوگئی۔

    پہلی مرتبہ نیّرہ نور نے ریڈیو کے لیے باقاعدہ غزل ریکارڈ کروائی اور ان آواز سامعین تک پہنچی۔ یہ 1968ء کی بات تھی اور پھر 1971ء میں‌ وہ ٹی وی پر نظر آئیں‌۔ بطور گلوکارہ نیرہ نور کو سامعین نے بہت سراہا اور پھر وہ موسیقی کے کئی پروگراموں کا حصّہ بنیں‌۔ ان کے گائے ہوئے نغمات اور فلمی گیت ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہوتے رہے۔ نیرہ نور نے فلموں کے لیے متعدد گیت ریکارڈ کروائے اور عمدہ گلوکاری پر نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    نیّرہ نور کا تلفظ ہی اچھا نہیں تھا بلکہ وہ ایک باذوق اور شستہ مذاق کی حامل فن کارہ تھیں جنھوں نے منتخب کلام گایا ہے۔ ان کی آواز میں فیض‌ صاحب کی غزلوں اور ںظموں کو بہت مقبولیت ملی۔ فلم فرض اور ممتا کے لیے نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کردہ ملّی نغمے `اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں… بہت مقبول ہوا۔

    گلوکارہ نیّرہ نور نے گانا باقاعدہ نہیں سیکھا تھا بلکہ ریڈیو پر نشر ہونے والی موسیقی سن کر اس کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔ گلوکاری ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ لیکن اس میں‌ نکھار لانے کے لیے انھوں نے بڑے گلوکاروں‌ کو سنا اور ریاض کرتی رہیں۔ فنِ گائیکی میں نیّرہ نور اختری فیض آبادی اور بیگم اختر سے متأثر تھیں۔

    انھیں بلبلِ پاکستان کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    پاکستان میں گلوکاری کے شعبہ میں اپنے فن اور انداز کی بدولت شہرت اور بطور پاپ سنگر مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ نازیہ حسن کو گلوکاری کے میدان کی ایک ساحرہ کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان میں میوزک کی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

    نازیہ حسن 3 اپریل 1963ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے والدین یاسر حسن اور منیزہ حسن کی پہلی اولاد تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی زوہیب حسن اور ایک بہن زہرہ تھیں۔ بعد ازاں یہ خاندان انگلینڈ منتقل ہو گیا۔ نازیہ پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن اور بار ایٹ لاء کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے ایک ادارے میں ملازمت کی۔ وہ انتہائی قابل اور ذہین تھیں اور تعلیمی میدان سے لے کر عملی زندگی تک ان کا سفر کام یابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاپ میوزک کی دنیا میں قدم رکھنے والی نازیہ حسن نے پاکستان بھر میں نہ صرف دلوں پر راج کیا بلکہ ان کی شہرت اور فن کو بھارت اور دنیا بھر میں چاہنے والوں نے سراہا۔

    وہ لاکھوں پاکستانیوں کی محبوب گلوکارہ تھیں جنھوں نے شوقیہ گلوکاری کا آغاز کیا تھا مگر جلد ہی اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ اسے کریئر کے طور پر اپنا لیا۔ ان کے خوب صورت اور دل موہ لینے والے گیتوں کے ساتھ مشرقی انداز اور مغربی سازوں کے امتزاج سے جو گیت سماعتوں تک پہنچے، انھوں نے دلوں کو مسخر کرلیا۔ یہ 1980ء کی بات ہے جب ایک تقریب میں ان کی ملاقات بھارتی اداکار فیروز خان سے ہوئی اور ان کی فلم ’’قربانی‘‘ کا گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘ نازیہ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے نازیہ حسن شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اس پر نازیہ کو 1981 ء میں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین گلوکارہ تھیں۔

    زوہیب حسن کے ساتھ انھوں نے پاپ گائیکی کو نئی جہت دی اور 1981ء میں پہلا البم ریلیز ہوا جس کا نام ’’ڈسکو دیوانے‘‘ تھا۔ یہ البم اس وقت کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ایشیائی پاپ البم قرار پایا۔ اس کے بعد 1982ء میں ’’بوم بوم‘‘، 1984ء میں ’’ینگ ترنگ‘‘ اور 1987ء میں ’’ہاٹ لائن‘‘ جیسے کامیاب البموں نے ان کے مداحوں کو ان کی آواز اور نئے طرز گائیکی کا دیوانہ بنا دیا۔

    نازیہ حسن نے پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ 1988 میں وہ معروف موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ پروگرام ’’سارے دوست ہمارے‘‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔ چودہ ممالک کے ٹاپ ٹین چارٹس پر نازیہ، زوہیب چھائے رہے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2002ء میں بعد از مرگ نازیہ حسن کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ ان کی شادی کراچی کے صنعت کار اشتیاق بیگ سے ہوئی تھی۔ نازیہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں اور لندن میں دو سال اس بیماری سے لڑنے کے بعد 13 اگست 2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بوقت مرگ ان کی عمر صرف 35 سال تھی۔

  • گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    فلمی دنیا میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے گیتا دَت کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے، جن کی آواز میں کئی فلمی نغمات آپ نے بھی سنے ہوں گے۔ ان گانوں پر اپنے زمانے کی مقبول ترین فلمی جوڑیوں نے پرفارمنس دی۔ گیتا دَت 1972ء میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں۔ ان کی شادی نام ور بھارتی فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے ہوئی تھی۔

    گلوکارہ گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، اس وقت کے مغربی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور وہاں گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران ان کی ملاقات نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ہوئی۔ ان کے مابین بات چیت آگے بڑھی اور رومان کا سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔ 1957ء میں گرو دت نے انھیں اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں بطور اداکارہ بھی متعارف کروایا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ دراصل 1953 میں شادی کے بعد جب وہ دو بیٹوں کے والدین بنے تو گیتا دت یہ محسوس ہوا کہ وہ فلمی دنیا میں ناکام ہورہی ہیں کیوں اس وقت لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے کو اہمیت دی جانے لگی تھی۔ ادھر گیتا کے شوہر فلم سازی میں بے انتہا مصروف ہوگئے تھے اور دوسری طرف ان کے اداکاراؤں سے افیئرز کی باتیں بھی گیتا کو سننے کو مل رہی تھیں۔ ان کے درمیان دوریاں بڑھنے لگی تھیں اور اسی دور میں گرو دت کو اداکارہ وحیدہ رحمان سے عشق ہو گیا۔

    گیتا کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ بطور گلوکارہ تیزی سے زوال نے پہلے ہی گیتا کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور پھر شوہر کی بے اعتنائی نے بھی گیتا کو مایوس کیا۔ انھوں نے شراب نوشی شروع کردی۔ ایک روز گرو دت کی اچانک موت نے فلم انڈسٹری کو حیران کردیا۔ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ انھوں نے وحیدہ رحمان کے شادی سے انکار کرنے پر خود کشی کی ہے۔ شوہر کی ناگہانی موت کے بعد گیتا دت مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔ کہتے ہیں کہ وہ شکی اور حاسد طبیعت کی مالک تھیں۔ اسی عادت کی بنا پر فلمی دنیا میں گرو دت کے تعلقات کو سر پر سوار کرلیا تھا۔ دوسری طرف ایک اور بات ہوئی اور مشہور ہے کہ گیتا توہمات میں گھر کر بدروح یا جادو ٹونے پر یقین کرنے لگی تھیں۔ شوہر سے کشیدہ تعلقات کے دوران ہی وہ اپنے پالی ہل کے بنگلے میں شفٹ ہوئے تھے، جہاں مزید لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے نجانے کس کے کہنے پر گیتا نے بنگلے کو اپنے لیے منحوس سمجھنا شروع کردیا۔ لیکن وہ کچھ نہیں کرسکیں اور پھر گرو دت کی موت واقع ہوگئی۔

    گرو دت کی موت کے بعد گیتا دت نے دوبارہ گلوکاری کے میدان میں قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا۔ پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار نبھایا۔ انھوں نے 1971ء میں فلم ’’انوبھؤ‘‘ کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ لیکن زندگی کا وہ پیار اور سکھ ان کو نصیب نہیں ہوا جس کا لطف انھوں نے اپنے فلمی کیریئر اور گرو دت سے شادی کے ابتدائی زمانہ میں لیا تھا۔

    سب مانتے ہیں کہ ان کی آواز بلاشبہ بہت دل کش تھی۔ کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے گیتا دت کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جاؤ سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے بھی گیتا دت کی یاد دلاتے ہیں۔

  • شمشاد بیگم:‌ معروف گلوکارہ جن کے فلمی گیتوں کے ری مکس بھی مقبول ہوئے

    شمشاد بیگم:‌ معروف گلوکارہ جن کے فلمی گیتوں کے ری مکس بھی مقبول ہوئے

    ہندوستانی فلموں کے لیے شمشاد بیگم نے پسِ پردہ کلاسیکی گائیکی میں اپنی منفرد آواز کی بدولت صفِ اوّل کی گلوکارہ کے طور پر شہرت پائی۔ شمشاد بیگم کے گائے ہوئے گانے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے آج سے کئی سال قبل تھے۔ ان کے گانوں کے ری مکس بھی بہت مقبول ہوئے جو نئے گلوکاروں اور موسیقاروں نے تیار کیے تھے۔

    شمشاد بیگم 23 اپریل 2013ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ گلوکارہ شمشاد بیگم نے لاہور ریڈیو سے 1937 میں اپنی گائیکی کا سفر شروع کیا تھا جو اس دور میں آل انڈیا ریڈیو کے تحت ہندوستان کے طول و عرض میں مقبول تھا۔ گلوکارہ شمشاد بیگم کی صاف اور واضح آواز سامعین کو بہت پسند تھی۔ ان کی آواز سن کر سارنگی نواز استاد حسین بخش نے انھیں اپنی شاگردی میں لیا۔ شمشاد بیگم کی آواز سننے والوں نے 1970ء کی دہائی میں انھیں پہلی بار دیکھا، کیونکہ وہ اپنی تصاویر کھنچوانے سے ہمیشہ کتراتی تھیں۔ ہندوستان کے نامور موسیقاروں او پی نیر اور نوشاد علی کے ساتھ کام کرنے والی ششماد بیگم کے ساتھی گلوکاروں میں لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اور محمد رفیع شامل ہیں۔ اس دور میں لاہور کے فلمی مرکز سے موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے شمشاد بیگم کی آواز کو چند فلموں میں استعمال کیا تھا جن میں 1941 میں بننے والی فلم ’خزانچی‘ اور 1942 کی ’خاندان‘ شامل ہیں۔ 1944 میں وہ ممبئی منتقل ہو گئیں اور کئی کام یاب فلموں کے لیے اپنی آواز میں گانے ریکارڈ کروائے۔ ان کے گیتوں میں ’لے کر پہلا پہلا پیار‘، ’میرے پیا گئے رنگون‘، ’ کبھی آر کبھی پار لاگا تیر نظر‘، ’ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ شامل ہیں۔ یہ وہ گیت ہیں جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ اس کے علاوہ فلمی نغمات میں ’مدر انڈیا‘ کا ہولی کا گیت ’ہولی آئی رے کنہائی‘ اور ’مغل اعظم‘ کی قوالی ’تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘ بھی مقبول ہوئے۔

    سنہ 2009 میں شمشاد بیگم کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اسی سال وہ او پی نیّر اعزاز کی حق دار ٹھیریں۔ شمشاد بیگم 14 اپریل 1919 کو بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔

  • شہناز بیگم: وہ گلوکارہ جنھیں پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں‌ کرسکتی

    شہناز بیگم: وہ گلوکارہ جنھیں پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں‌ کرسکتی

    ملّی نغمات سوہنی دھرتی اور جیوے پاکستان بطور گلوکارہ شہناز بیگم کی وجہِ شہرت ہیں۔ مسحور کن آواز کی مالک شہناز بیگم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جو بنگلہ دیش بننے کے بعد اپنے آبائی وطن میں جا بسی تھیں اور وہیں 23 مارچ 2019 کو ان کا انتقال ہوا۔

    گلوکارہ شہناز بیگم مشرقی پاکستان کی وہ پہلی فن کار تھیں‌ جنھوں نے اردو زبان میں ملّی نغمات گائے اور ملک بھر میں‌ پہچانی گئیں۔ انھوں نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔ سابق مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی شہناز بیگم کی آواز میں ملّی نغمات ہما آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنتے ہیں اور خاص طور پر یومِ آزادی پر ان کے ترانے نشر کیے جاتے ہیں۔ ان ملّی نغمات کے خوب صورت بول اور گلوکارہ کی دل میں‌ اتر جانے والی آواز ہماری سماعتوں کو آزادی کے دن مہکائے دیتی ہے۔ شہناز بیگم پاکستان چھوڑنے کے بعد جب بھی یہاں آتیں اور تقریبات میں‌ شریک ہوتیں تو ان سے ”جیوے جیوے پاکستان، اور ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے” سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان جو سیاسی کھنچاؤ اور لوگوں میں جو دوریاں‌ رہیں، اس پر گلوکارہ کو بنگلہ دیش میں مطعون بھی کیا جاتا رہا اور وہاں مخصوص ذہنیت نے انھیں غدار مشہور کردیا، مگر شہناز بیگم نے اس کی کبھی پروا نہیں کی۔ وہ پاکستان آمد پر یہاں کے لوگوں‌ کی فرمائش پر یہ ملّی نغمات ضرور پیش کرتی تھیں۔

    شہناز بیگم کا اصل نام شہناز رحمت اللہ تھا۔ وہ 1952ء میں مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ شہناز بیگم نے اسکول کے زمانے میں گانا شروع کردیا تھا۔ وہ دس سال کی تھیں جب ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ اسٹیشن سے ایک پروگرام کا حصّہ بنیں اور بنگلہ زبان میں پاکستانی قومی نغمہ گایا۔ 65ء کی جنگ میں بھی انھوں نے اپنی آواز میں‌ گانے ریکارڈ کروائے اور خوب داد و تحسین وصول کی۔

    ڈھاکہ میں حالات شدید خراب ہوئے تو شہناز بیگم کراچی منتقل ہوگئیں اور اس دور میں انھوں نے ” جییں تو اس دھرتی کے ناتے، مریں تو اس کے نام” جیسا خوب صورت نغمہ بھی گایا تھا۔ 1971ء میں بھارت کے مشرقی پاکستان پر حملے کے بعد شہناز بیگم نے کراچی میں ریڈیو پر مہدی حسن خاں کے ساتھ مل کر نغمۂ یکجہتی گایا جس کے اشعار یہ تھے:

    پاک زمیں کے سارے ساتھی، سارے ہم دَم ایک ہیں
    پورب پچھم دور نہیں ہیں، پورب پچھم ایک ہیں
    وہ سلہٹ ہو یا خیبر ہو، سُندر بن ہو یا کشمیر
    ہم دونوں کا ایک وطن ہے اِک نظریہ اک تقدیر

    پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کی آواز میں قومی نغمہ ”وطن کی مٹی گواہ رہنا” سب سے پہلے سنا گیا تھا۔ جنگ کے بعد بھی شہناز بیگم نے ایک بار پھر حبُ الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے صہبا اختر کا تحریر کردہ نغمہ ” آیا نیا زمانہ آیا ، بھیا بھول نہ جانا، پاکستان بچانا” گا کر ہم وطنوں کے دل جیت لیے۔ ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” وہ گیت تھا جسے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا جس سے ثابت ہوتا تھا کہ پاکستانی عوام نے اس گلوکارہ کو فراموش نہیں کیا۔

    یہ خوب صورت قومی نغمہ "موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے” بھی ہمیں شہناز بیگم کی یاد دلاتا رہے گا۔

  • بلقیس خانم: پاکستان کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ

    بلقیس خانم: پاکستان کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ

    معروف پاکستانی شاعر عبید اللہ علیم کی ایک غزل آپ نے بھی سنی ہوگی جس کا ایک شعر ہے:

    ‘کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‌،
    پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا!

    یہ کلام کلاسیکی گائیکی کے لیے مشہور بلقیس خانم کی آواز میں‌ بے حد مقبول ہوا۔ گلوکارہ بلقیس خانم 21 دسمبر 2022ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی برسی کی مناسبت سے ہم یہاں ان فن و شخصیت اور حالاتِ زندگی کی جھلک پیش کررہے ہیں۔

    بلقیس خانم سِتار نواز استاد رئیس خان کی اہلیہ تھیں۔ لیجنڈری ستار نواز استاد رئیس خان 77 سال کی عمر 2017ء میں وفات پاگئے تھے۔ معروف انٹرویو نگار اقبال‌ خورشید نے 2013ء میں بلقیس خانم سے جو گفتگو کی تھی، وہ گلوکارہ کے حالاتِ زیست کی تفصیل کچھ یوں بتاتی ہے: انھوں نے 25 دسمبر 1948 کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں مقیم ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد، عبد الحق فرنیچر سازی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ والدین سے روابط میں روایتی رنگ حاوی تھا۔ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں وہ بڑی تھیں۔ خاصی کم گو ہوا کرتی تھیں اس وقت۔ طبیعت میں شوخی نہیں تھی۔ ہمہ وقت سنجیدگی غالب رہتی۔ کھیلوں کا معاملہ فقط ایک گڑیا تک محدود رہا، جو بیش تر وقت صندوقچی میں رکھی رہتی۔ ہاں، مطالعے کا شوق تھا۔ اردوزبان اپنی جانب کھینچتی تھی۔ شعور کی آنکھ فیصل آباد میں کھولی۔ وہاں ایم بی گرلز ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب اسکول انتظامیہ کی جانب سے ملی نغمے پیش کرنے کے لیے چنا گیا، اُس وقت تک قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ گا بھی سکتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور یاد ہے کہ بڑی جماعتوں کی طالبات کبھی کبھار اُن سے گنگنانے کی فرمایش کیا کرتی تھیں۔

    کچھ عرصے بعد حالات خاندان کو واپس لاہور لے آئے۔ غالب مارکیٹ کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ یہیں کم سن بلقیس کی محمد شریف نامی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی تربیت نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ’’وہ کلاسیکی موسیقی کے استاد تھے۔ تعلق جالندھر سے تھا۔ معروف نہیں تھے، مگر بڑے گنی آدمی تھے۔ اُنھوں نے مجھے صرف گائیکی نہیں سِکھائی، اردو سے میرا تعلق بھی اُن ہی کی وجہ سے قائم ہوا۔ مجھے وہ پڑھنے کے لیے کتابیں دیا کرتے تھے۔‘‘

    وہ استاد کی سرپرستی میں نجی محافل میں پرفارم کرنے لگیں، جہاں غزلیں اور گیت پیش کیا کرتیں۔ اور پھر زندگی میں ایک موڑ آیا ۔ یہ 64ء کا ذکر ہے۔ والد کے ایک دوست نے اُنھیں سنا، تو ریڈیو کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ بات دل کو لگی۔ استاد کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں۔ جن صاحب نے ریڈیو میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا، اُن کے محلے میں ریڈیو اسٹیشن کا چپڑاسی رہا کرتا تھا، جس کی اُس وقت کے ریجنل ڈائریکٹر، مختار صدیقی سے اچھی سلام دعا تھی۔ ’’تو اُس چپڑاسی نے، جسے ریڈیو کی زبان میں اسٹوڈیو کمشنر کہا جاتا تھا، ریڈیو آڈیشن کے لیے میری سفارش کی۔‘‘ آڈیشن کے تین ماہ بعد بلاوا آیا۔ ابتداً کورس میں گایا۔ ’’لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ نئے فن کاروں کو شروع کے دو ماہ کورس ہی میں گوایا جاتا، تاکہ ٹریننگ ہوجائے۔ اُس وقت ہمیں فی پروگرام پچیس روپے ملا کرتے۔‘‘ ریڈیو پر پہلی بار اپنی آواز سنی، تو مطمئن ہونے کے بجائے مزید بہتری کی خواہش نے جنم لیا۔

    سولو پرفارمینس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ’’تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔ چھے ماہ بعد پھر آڈیشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ’’ریڈیو کا طریقۂ کار بڑا سخت تھا۔ اِسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ جس نے ریڈیو کی مار کھائی ہو، وہ پھر کہیں مار نہیں کھاتا۔ چاہے وہ گلوکار ہو یا اداکار۔‘‘

    اس بار معروف پروڈیوسر، سلیم گیلانی نے آڈیشن لیا۔ چالیس فن کار قسمت آزمانے آئے، منتخب ہونے والوں چند خوش نصیبوں میں وہ بھی شامل تھیں۔ معاوضہ بڑھا کر 65 روپے کر دیا گیا۔ پروگرامز کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور کے علاوہ دیگر اسٹیشنز کا بھی رخ کیا۔ پہلا سفر راول پنڈی کا تھا۔ اگلی بار مظفر آباد کی سمت بڑھیں۔ ریڈیو کی شہرت خوب کام آئی، نجی پروگرامز میں مدعو کیا جانے لگا۔ اِسی کے توسط سے پی ٹی وی تک رسائی حاصل کی، جہاں آڈیشن کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پنجابی گیت سے اِس سفر کا آغاز ہوا۔ 65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔

    آنے والے دنوں میں کنور آفتاب، طارق عزیز، فضل کمال، رفیق احمد وڑائچ اور شعیب منصور جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا۔ اُسی زمانے میں موسیقار، خلیل احمد نے فلمی گانے کی پیش کش کی۔ ’’تصویر‘‘ کے لیے اُنھوں نے گانا ’’بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو فلم کے پہلے شو کے بعد سینسر بورڈ نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ ’’گیت کے بول مناسب نہیں!‘‘ جہاں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ کام کیا، وہیں فلمی دنیا کے چند نئے موسیقاروں کی دھنوں کو بھی آواز دی۔ موسیقار، میاں شہریار نے ’’بی بی‘‘ نامی فلم کے تمام گانے اُن ہی سے گوائے، مگر وہ فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    شہرت کا سفر جاری تھا، مگر جلد ہی فلمی دنیا سے اُوب گئیں۔ ’’میں خود کو اُس ماحول میں ڈھال نہیں سکی۔ دھیرے دھیرے انڈسٹری سے دور ہوتی گئی۔ پچیس تیس فلمی گانے گائے ہوں گے، لیکن میری قسمت ’اچھی‘ تھی، کیوں کہ تمام ہی فلمیں ڈبے میں گئیں۔‘‘

    فلم انڈسٹری سے دوری کا ایک سبب کراچی آمد بھی تھا۔ یہ 70ء کا ذکر ہے۔ ایک نجی محفل میں شرکت کے لیے شہر قائد کا رخ کیا، جو اتنا بھایا کہ یہیں ڈیرا ڈال لیا۔ جلد ہی پی ٹی وی سے جُڑ گئیں، جہاں ایک ایسا گیت ریکارڈ کروانے کا موقع ملا، جو امر ہوگیا۔

    ’’انوکھا لاڈلا‘‘ استاد عاشق علی خان کی کمپوزیشن تھا، جسے اسد محمد خان کے قلم نے جدید آہنگ دیا۔ امیر امام کے پروگرام ’’سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا، اور چند ہی روز میں زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ اُن ہی دنوں عبیداﷲ علیم کی غزل ’’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‘‘ ریکارڈ کروائی، جو استاد نذر حسین کی کمپوزیشن تھی۔ اُس نے بھی مقبولیت کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    78ء میں نام وَر ستار نواز، استاد رئیس خان سے ملاقات ہوئی، جو اُس وقت ہندوستان میں مقیم تھے۔ ملاقاتوں میں جلد ہی محبت کا رنگ در آیا۔ 80ء میں شادی ہوئی، اور بلقیس خانم ہندوستان چلی گئیں۔ اگلے سات برس ممبئی میں بیتے۔ ہندوستان کے ماحول سے تو ہم آہنگ ہوگئیں، مگر Sinus کے مسئلے کی وجہ سے ممبئی راس نہیں آیا۔ بس، اِسی وجہ سے 86ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں، اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔

  • روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم اپنی سریلی آواز کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کے فن پر مکمل عبور رکھتی تھیں اور اسی لیے انھیں ملکہ موسیقی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پاکستان میں اپنے ہم عصر گائیکوں میں نمایاں تھیں۔

    روشن آراء بیگم 19 جنوری 1917ء کو کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام وحید النساء بیگم تھا۔ روشن آراء بیگم نے موسیقی کی تعلیم شہرۂ آفاق گائیک استاد عبد الکریم خان سے حاصل کی اور فن کی اس دنیا میں ملکۂ موسیقی کا خطاب پایا۔ تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے روشن آراء بیگم لاہور آتی تھیں اور یہاں موسیقی کی یادگار محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ 1948ء میں وہ پاکستان منتقل ہوگئیں۔ یہاں موسیقی کے دلدادہ پولیس افسر احمد خان کے ساتھ ان کی شادی ہوئی اور انھوں نے لالہ موسیٰ میں سکونت اختیار کرلی۔ ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے فلموں کے لیے بھی گیت گائے جن کی دھنیں انیل بسواس، فیروز نظامی، نوشاد اور تصدق حسین جیسے موسیقاروں نے ترتیب دیں۔ روشن آراء بیگم نے فلم پہلی نظر، جگنو، قسمت، روپ متی باز بہادر اور نیلا پربت میں آواز کا جادو جگایا۔

    حکومت پاکستان نے روشن آراء بیگم کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز بھی عطا کیا تھا۔ یہ عظیم گلوکارہ 5 دسمبر 1982ء کو انتقال کر گئی تھیں۔ اپنے فن میں ممتاز اور باکمال گلوکارہ نے اپنے زمانے کے کئی اہم موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ موسیقی کی نجی محافل میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ گلوکارہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا۔

  • مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

    مائی بھاگی: لوک گائیکی کا ایک بڑا نام

    آج کے دن مائی بھاگی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ لوک گلوکارہ نے پاکستان ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اپنے مخصوص انداز اور طرزِ گائیکی کے سبب لوگوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔

    بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ بلکہ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو گیت کی بولی سے ناواقف تھا، وہ بھی مائی بھاگی کی آواز کے سحر میں‌ گرفتار ہوا۔ لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہوجاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں لگ بھگ 1920ء میں آنکھ کھولی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

    مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو والدین کی اجازت سے اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کے لیے جانے لگیں۔ وہ اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا مقابلہ کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔

    مائی بھاگی نے نہ صرف اپنی آواز اور اپنے فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی شوق سے سنی جاتی تھی، مائی بھاگی کا فن بھی وہاں‌ تک پہنچا اور انھیں‌ سراہا گیا۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

    صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل میں‌ ان کی موت کا جو پروانہ موجود تھا، اس پر تاریخ 7 جولائی تھی۔ مائی بھاگی حج کے لیے نہیں‌ جاسکیں اور سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

  • منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    15 اگست 1947ء کو قیامِ‌ پاکستان کے بعد پہلے دن ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن سے پہلا ملّی نغمہ منور سلطانہ کی آواز میں نشر ہوا تھا۔ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے تھے۔

    ریڈیو سے نشر ہونے والے اوّلین ملّی نغمہ کے بول تھے، ‘چاند روشن چمکتا ستارہ رہے، سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے…’ جس میں دلشاد بیگم نے بھی منور سلطانہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بانی پاکستان کو ان کی بے لوث قیادت اور علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک نغمہ ’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ بھی منور سلطانہ کی آواز میں مقبول ہوا۔

    پاکستانی گلوکارہ منور سلطانہ 1995ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔ وہ 1925ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے بطور گلوکارہ اپنے کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے پہلے فلم مہندی سے کیا تھا۔ منور سلطانہ نے پاکستان میں فلمی صنعت کے ابتدائی دور کی کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں‌ نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ ریڈیو ان کی وہ درس گاہ تھی جہاں انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ گلوکارہ منور سلطانہ نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور کمپوزر عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی جب کہ تیری یاد جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جاتا ہے، اس کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے۔

    منور سلطانہ نے جن فلموں کے لیے اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کیا ان میں پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان، بے قرار، دو آنسو، سرفروش، اکیلی، نویلی، محبوب، جلن، انتقام، بیداری اور لخت جگر شامل ہیں۔

    اپنے فنی کیریئر کے عروج میں منور سلطانہ ریڈیو پاکستان، لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی سے شادی کرنے کے بعد فلم اور گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئی تھیں۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کے دوران شائقینِ سنیما اور موسیقی کے دلدادگان نے ان کی آواز میں کئی خوب صورت گیت سنے اور انھیں بے حد پسند کیا گیا۔ اردو اور پنجابی فلموں کے علاوہ منور سلطانہ نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گلوکارہ منور سلطانہ کی شادی ایوب رومانی سے ہوئی تھی جو پاکستان کے نامور شاعر، موسیقار اور براڈ کاسٹر تھے۔

  • خورشید بانو: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    خورشید بانو: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    تقسیمِ ہند سے قبل جب ناطق فلموں کا دور آیا تو اس زمانے میں کئی نئے فن کار انڈسٹری میں‌ متعارف ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان کے فلمی مراکز کلکتہ، بمبئی اور لاہور میں کئی شان دار فلمیں‌ کیں اور جس وقت انھیں اپنے شعبے میں شہرت اور مقبولیت مل رہی تھی تو ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ خورشید بانو انہی میں سے ایک ہیں‌ جو ہندوستانی سنیما کی ایک گلوکارہ اور اداکارہ تھیں جو ہجرت کرکے پاکستان آگئی تھیں۔

    تقسیم سے قبل خورشید بانو نے 1930ء سے 1940ء تک ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کام کیا تھا۔ انھیں صرف خورشید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خورشید نے بطور گلوکارہ اپنی شناخت بنانے کے دوران کچھ فلموں‌ میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے، فلمی ریکارڈ کے مطابق لیلٰی مجنوں خورشید کی پہلی فلم تھی۔ غیرمنقسم ہندوستان میں خورشید بانو نے تیس سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان کو شہرت فلم تان سین سے ملی تھی جو 1943ء میں ریلیز ہوئی اور جس میں خورشید بانو نے کندن لال سہگل جیسے نام ور گلوکار اور اداکار کے ساتھ کام کیا۔ اس فلم کے کئی گانے بہت مشہور ہوئے اور یہ انہی دونوں فن کاروں‌ کی آواز میں‌ تھے۔

    خورشید پنجاب کے ضلع قصور کے ایک دیہاتی گھرانے میں‌ پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام ارشاد بیگم تھا۔ خورشید بانو نے فلم کے لیے گلوکاری کا آغاز کیا تو سب سے پہلی فلم لیلٰی مجنوں تھی۔ اس کے بعد اگلے دس سال میں ان کی فلمیں مفلس عاشق، نقلی ڈاکٹر، مرزا صاحباں، کمیا گر، ایمان فروش اور ستارہ تھیں۔ تاہم خورشید بانو کو قابل ذکر کام یابی ان فلموں کی بدولت نہ مل سکی۔ 1931ء سے 1942ء کے دوران انھوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا۔ ان کے عروج کا آغاز بمبئی منتقل ہونے کے بعد ہوا۔ تان سین وہ فلم تھی جس نے باکمال گلوکاروں کے ساتھ خورشید بانو کو ان کے فن کی داد دلوائی۔ پاکستان آنے سے قبل خورشید بانو نے ہندوستان میں‌ آخری فلم پپیہا رے کی تھی جو 1948ء کی ایک ہٹ فلم تھی۔

    اسی برس خورشید اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔ انھوں‌ نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد 1956ء میں دو فلموں فن کار اور منڈی میں کام کیا۔ منڈی وہ فلم تھی جس میں‌ خورشید بانو کی آواز اور موسیقار رفیق غزنوی کی دھنوں کو بہت سراہا گیا لیکن فلم باکس آفس پر کام یاب نہیں ہو سکی۔ ان کی دوسری فلم بھی بدقسمتی سے ناکام ثابت ہوئی۔

    خورشید بانو نے دو شادیاں‌ کی تھیں۔ ماضی کی یہ فن کار 18 اپریل 2001ء میں‌ انتقال کرگئی تھیں۔