Tag: گلوکارہ برسی

  • مالا بیگم: پاکستانی فلمی صنعت کی سریلی آواز

    مالا بیگم: پاکستانی فلمی صنعت کی سریلی آواز

    گلوکارہ مالا کی مدھر اور رسیلی آواز میں ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول ہیں، ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے، بڑی منہگی پڑے گی یہ جدائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ اور مالا کو اس گیت پر فلمی صنعت کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ آج گلوکارہ مالا کی برسی ہے۔

    مالا کی آواز میں یہ سدا بہار گیت 1963 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ میں شامل تھا اور شاعر تھے قتیل شفائی۔ مالا نے پسِ پردہ گلوکاری کا آغاز معروف موسیقار ماسٹر عبداللہ کی فلم ’’سورج مکھی‘‘ سے 1962 میں کیا تھا۔ مالا کا اصل نام نسیم نازلی تھا۔ فلمی موسیقار شمیم نازلی ان کی بڑی بہن تھیں اور وہی نسیم کی فنِ موسیقی میں اوّلین استاد بھی تھیں۔ فلمی دنیا میں نسیم نازلی نے ’’مالا‘‘ کے نام سے شہرت اور مقبولیت پائی۔ وہ 9 نومبر 1942ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ نسیم بیگم نے دو شادیاں کی تھیں اور دونوں ہی ناکام رہیں۔ فلمی دنیا میں مالا نے المیہ اور طربیہ دونوں طرح‌ کے گیت گائے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ اپنی آواز کا جادو جگایا۔ 1965 میں فلم ’’نائلہ‘‘ کے گیت ’’اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی جا اور محبت کی پگلی‘‘ پر انھیں دوسری مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا۔ مالا نے اپنے وقت کے بڑے اور نام ور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اور آخری مرتبہ ان کی آواز فلم ہنڈریڈ رائفلز کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی جو 1981 میں ریلیز ہوئی۔ مالا بیگم نے فلم ارمان، احسان، دوراہا، دل میرا دھڑکن تیری، ہمراز، پھول میرے گلشن کا، پردہ نہ اٹھاؤ، فرنگی، انسانیت، مسٹر بدھو، ہل اسٹیشن، مہمان، اک نگینہ، سنگ دل اور چھوٹے صاحب نامی فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ مالا نے اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں کے ساتھ دو گانے بھی ریکارڈ کروائے۔

    1990 میں آج ہی کے دن پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس سریلی گلوکارہ نے لاہور میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ تاہم مالا بیگم کی قبر کے کتبے پر یوم وفات 5 مارچ درج ہے۔

  • زہرہ بائی انبالہ والی کا تذکرہ

    زہرہ بائی انبالہ والی کا تذکرہ

    برصغیر میں کلاسیکی فنِ موسیقی میں کئی گھرانوں کی شخصیات ممتاز ہوئیں اور ان کے علاوہ کئی پیشہ وَر رقاصہ اور گلوکار بھی اپنے فن و کمال کے سبب مشہور ہوئیں۔ یہ طوائف، مغنّیہ اور بائی کے لقب سے پہچانی جاتی تھیں۔ زہرہ بائی انبالے والی انہی میں سے ایک تھیں جنھوں نے ریڈیو اور فلم کے ساتھ نجی محافل میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب داد پائی۔

    بیسویں صدی کے آتے آتے ہندوستان میں نہ تو بادشاہت رہی تھی اور نہ ہی وہ راجہ، سلطان اور نواب جو ان بائیوں کا گانا سن کر اپنا دل بہلاتے اور ان پر اپنی دولت لٹاتے۔ اسی طرح پکّے راگ راگنیوں اور کلاسیکی موسیقی کا ذوق رکھنے والے بھی نہیں رہے تھے۔ مگر انیسویں صدی کے آخری برسوں تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت ضرور قائم رہا۔ زہرہ بائی کا سنہ پیدائش 1918ء ہے، اور وطن انبالہ۔ اس دور میں طوائفوں کے نام کی مماثلت بھی لوگوں کو الجھن میں ڈال دیتی تھی۔ اگرچہ زہرہ بائی کی ہم نام معروف طوائف دنیا میں نہیں رہی تھیں، لیکن ہندوستان بھر میں موسیقی اور گلوکاری میں ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ آگرہ والی تھیں اور اسی لیے زہرہ بائی کے ساتھ لاحقہ آگرہ والی لگا رکھا تھا ان کے بعد آنے والی یہ زہرہ بائی انبالہ والی کہلائیں۔ وہ 1930 سے اگلی ایک دہائی تک مصروف گلوکارہ رہیں‌ اور انھیں چالیس کی دہائی کے وسط کی سب سے مقبول پلے بیک سنگر کہا جاتا ہے۔

    زہرہ بائی انبالہ والی نے اپنے شوق سے موسیقی اور گلوکاری کو اپنایا۔ ان کا خاندان گلوکاری کو بطور پیشہ اپنائے ہوئے تھا، تاہم انھوں نے آگرہ گھرانے سے باقاعدہ موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔ بچپن میں ان کی تعلیم و تربیت ان کے دادا غلام حسین خان اور اس کے بعد استاد ناصر حسین خان کے زیرِ‌ سایہ ہوئی۔ زہرہ بائی انبالہ والی 14 سال کی عمر میں ہی باقاعہد گانے لگی تھیں۔

    انبالے والی زہرہ بائی نے اپنے کیریئر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے بطور گلوکارہ کیا تھا۔ وہ بنیادی طور پر کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی پیش کرتی تھیں۔ بعد میں وہ فلمی صنعت کے لیے اپنی آواز کا جادو جگانے لگیں اور 1950ء میں یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ زہرہ بائی انبالہ والی 1990ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔

    زہرہ بائی انبالے والی کو زیڈ اے بخاری کی جوہر شناس نظروں نے پہچان کر ریڈیو پر متعارف کروایا تھا۔ وہ اُن دنوں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ وہاں استاد فیاض احمد خاں جیسے نامور لوگ بھی موسیقی کے شعبے سے منسلک تھے۔ ریڈیو سے وابستہ ہونے کے بعد ہی ان کی شہرت فلمی دنیا تک پہنچی۔ زہرہ بائی نے ایک گرامو فون کمپنی کے لیے بھی اپنی کھنک دار آواز میں ریکارڈنگ کروائی۔ ریڈیو پر بھی وہ بہت مصروف رہیں۔ زہرہ بائی انبالہ والی نے ٹھمری، دادرا، بھیرویں، خیال، غزل اور گیت سب گائے۔ 1944 میں بننے والی فلم ’’رتن‘‘ کے گیتوں نے زہرہ کو لازوال شہرت دی اور اس کے گیت امر ہوگئے۔ آج بھی ان فلموں کے سدا بہار گیت شائقین ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ ’’رتن‘‘ کے بعد ’’انمول گھڑی‘‘ 1946 میں، ’’میلہ‘‘ 1948 میں ’’جادو‘‘ 1951 میں ریلیز ہوئی تھیں جب کہ 1945 میں وہ مشہورِ زمانہ فلم بنی جس کا نام ’’زینت‘‘ تھا۔ اس کی ایک ’’آہیں نہ بھریں‘ شکوے نہ کیے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا ‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی جسے زہرہ بائی، نور جہاں اور کلیانی نے گایا تھا۔

    مشرقی پنجاب کے شہر انبالے میں جنم لینے والی زہرہ بائی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ماہرینِ فن کے مطابق ان کی صاف، نکھری ہوئی آواز میں قدرتی طور پر ایک چاشنی تھی جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ زہرہ کا شمار ان گلوکاراؤں میں ہوتا ہے جن کی آواز کی رینج بہت زیادہ تھی۔ لیکن انھوں نے ہمیشہ مدھم اور نچلے سُروں میں گایا۔ ان ایک گیت جو بہت مقبول ہوا، یہ تھا۔

    پسِ دیوارکھڑے ہیں، تیرا کیا لیتے ہیں
    دیکھ لیتے ہیں، تپش دل کی بجھا لیتے ہیں

  • یومِ وفات:‌ جب ‘بنتِ نیل’ کو پاکستان میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا

    یومِ وفات:‌ جب ‘بنتِ نیل’ کو پاکستان میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا

    مشرقِ وسطیٰ میں ریڈیو کے ایک پروگرام کی بدولت اُمِّ کلثوم نے گویا راتوں رات شہرت کا ہفت خواں طے کرلیے تھے۔ اور اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی آواز کے مداح بڑھتے گئے اور عرب دنیا ان کی شخصیت کے سحر میں‌ گرفتار ہوگئی۔

    1934ء کے بعد مصر کی امِّ کلثوم لیجنڈ گلوکارہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ جیسے خطاب سے دیے گئے اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ امّ کلثوم نے دنیا کی کئی نام وَر شخصیات کی موجودگی میں اپنے فنِ گلوکاری کا مظاہرہ کیا اور داد و تحسین سمیٹی۔

    اس عظیم گلوکارہ کا انتقال 3 فروری 1975ء کو ہوا تھا۔ آج اُمِّ کلثوم کی برسی ہے۔

    اس عرب گلوکارہ نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے کلاسیکی عرب موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے ملک کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ان کا جو پروگرام نشر ہوا، اس کے بعد ان کی آواز پورے خطۂ عرب میں یکساں مقبول ہوگئی۔

    امِّ کلثوم نے بدوؤں اور دیہاتیوں کی زبانی کئی لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کے طرزِ زندگی کو قریب سے دیکھا تھا، ان کی عرب ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر نظر تھی۔ جب وہ گلوکاری کی طرف آئیں تو اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں کلاسیکی عرب موسیقی کو اپنی آواز میں اس خوبی سے پیش کیا کہ ہر کوئی ان کا مداح ہوگیا۔ امِّ کلثوم نے قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیت گائے اور اس فن کی بدولت ان کا نام امر ہوگیا۔ ان کے پرستاروں میں ہر خاص و عام اور ہر طبقۂ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ امّ کلثوم کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا تھا۔

    پاکستان میں امِّ کلثوم کی ایک وجہِ شہرت شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی نظمیں شکوہ، جوابِ شکوہ ہیں جن کا عربی زبان میں‌ ترجمہ کیا گیا تھا اور پھر اس کلام کو گلوکارہ نے اپنی آواز دی تھی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے امّ کلثوم اسی بنا پر ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

    دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب امِّ کلثوم زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس مقبول گلوکارہ کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک تھے جن میں‌ اعلیٰ حکومتی عہدے دار اور اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔

  • لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ وہ گیت تھا جسے تھر کی کوئل مائی بھاگی کی آواز میں ہر اس شخص نے بھی سنا جو معنی و مفہوم سے ناآشنا اور اس زبان سے ناواقف تھا۔ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ آج مائی بھاگی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں 1920 کے لگ بھگ آنکھ کھولی تھی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد مقامی رسم و رواج کے مطابق شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے اور نوحے گاتے اور اس سے روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ میلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں لے جانے لگے جہاں مائی بھاگی ان کے ساتھ ڈھول بجا لیتی تھیں اور پھر فنِ گلوکاری کی طرف مائل ہوئیں جس کی تربیت اور تعلیم بھی والدین سے حاصل کی۔

    وہ بڑی ہوئیں تو والد کی اجازت سے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات پر لوک گیت اور سہرے گانے کے لیے جانے لگیں۔ تھر کی مائی بھاگی ناخواندہ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناآشنا تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی نے نہ صرف ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سے محبت کرنے اور اسے سمجھنے والے موجود ہیں، مائی بھاگی کو سنا اور سراہا گیا۔ وہ اپنی سادہ دلی اور انکساری کی وجہ سے بھی لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پاتی تھیں‌ اور انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سولہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوتھی فقیر سے ہوگئی تھی جو تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ کے مشہور لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی نے جلد ہی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرنا شروع کردی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں کے گیتوں کو اپنی آواز دی۔ مائی بھاگی نے تھر کے ایک اور مشہور گلوکار استاد مراد فقیر کے ساتھ بھی سرائیکی، مارواڑی، سندھی زبانوں‌ کے لوک گیت گائے۔

    ان کی قسمت کا ستارہ 1963 میں اس وقت چمکا جب انھوں نے اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات کے درمیان اپنی آواز کا جادو جگایا اور تھر کی اس آواز نے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ وہاں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سینٹر کی ٹیم بھی موجود تھی جس نے مائی بھاگی کی آواز کو ریکارڈ کرلیا اور بعد میں جب ریڈیو پر سامعین نے انھیں سنا تو مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ تب 1966 میں ریڈیو پاکستان کے لیے مائی بھاگی کی آواز میں چند لوک گیت ریکارڈ کروائے گئے اور وہ ملک گیر شہرت یافتہ گلوکاروں کی صف میں‌ آ کھڑی ہوئیں۔

    مائی بھاگی نے جب شاہ کار لوک گیت ’’کھڑی نیم کے نیچے…..‘‘ گایا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ بعد میں ریڈیو پر ان کے متعدد گیت نشر ہوئے اور جلد ہی صحرا کی یہ گلوکارہ کراچی میں پی ٹی وی پر نظر آئی۔ پہلی مرتبہ لوگوں نے مائی بھاگی کو اسکرین پر دیکھا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت گانے والی مائی بھاگی کو سندھ میں ہونے والی مختلف موسیقی کی محفلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی مدعو کیا جاتا تھا اور وہ عام لوگوں‌ میں بھی خاصی مقبول تھیں-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز کو روانہ ہونے والی تھیں، مگر 7 جولائی کو ان کی سانسوں کی مالا ہی ٹوٹ گئی اور انھیں دوسروں کے کاندھے پر اپنی آخری آرام گاہ کا سفر طے کرنا پڑا۔

    حکومتِ پاکستان نے مائی بھاگی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    پاکستان میں‌ شہناز بیگم کا نام اور ان کی مسحور کن آواز اردو زبان میں‌ ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات کی وجہ سے آج بھی مقبول ہے۔ اس گلوکارہ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جو بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے آبائی وطن منتقل ہوگئی تھیں۔

    یہ اتفاق ہے کہ پاکستان کے ملّی نغمے گانے والی اس مشہور گلوکارہ کی تاریخِ وفات 23 مارچ ہے جب قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔

    2019ء میں‌ وفات پانے والی شہناز بیگم مشرقی پاکستان کی وہ پہلی گلوکارہ تھیں جنھوں نے اردو زبان میں ملّی نغمات کو اپنی آواز دی اور لازوال شہرت حاصل کی۔ انھوں‌ نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔

    سابق مشرقی پاکستان کی شہناز بیگم کی پُراثر آواز آج بھی ارضِ پاک کی فضاؤں میں سنائی دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے قومی نغمات ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ہوتے ہیں۔ خوب صورت شاعری اور گلوکارہ کی دل پذیر آواز ہر قومی دن پر گلی گلی اور ہر تقریب میں‌ ہماری سماعتوں کو لطف و سرور اور سرشاری عطا کرتی ہے۔ شہناز بیگم جب بھی پاکستان آتیں تو ان سے قومی نغمات ”جیوے جیوے پاکستان، اور ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے” سنانے کی فرمائش کی جاتی جسے وہ ضرور پورا کرتیں۔ اس پر وہ بنگلہ دیش میں مطعون بھی کی جاتیں اور انھیں غدارِ وطن بھی کہا گیا، مگر جن نغمات نے انھیں شہرت اور جن لوگوں‌ نے انھیں‌ عزّت اور پیار دیا، ان کی فرمائش ٹالنا شاید ان کے لیے ممکن نہیں‌ تھا۔

    شہناز بیگم کا اصل نام شہناز رحمت اللہ تھا جو 1952ء کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ شہناز بیگم نے اسکول کے زمانے میں گانا شروع کردیا تھا۔ وہ دس سال کی تھیں جب ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ اسٹیشن سے ایک پروگرام کا حصّہ بنیں اور بنگلہ زبان میں پاکستانی قومی نغمہ گایا۔ 65ء کی جنگ میں بھی انھوں نے اپنی آواز میں‌ گانے ریکارڈ کروائے اور خوب داد و تحسین وصول کی۔

    ڈھاکہ میں حالات شدید خراب ہوئے تو شہناز بیگم کراچی منتقل ہوگئیں اور یہاں ” جییں تو اس دھرتی کے ناتے، مریں تو اس کے نام” جیسا خوب صورت نغمہ گایا۔ شہناز بیگم نے 1971ء میں بھارت کے مشرقی پاکستان پر حملے کے بعد کراچی میں ریڈیو سے مہدی حسن خاں کے ساتھ مل کر نغمۂ یکجہتی گایا جس کے اشعار یہ تھے:

    پاک زمیں کے سارے ساتھی، سارے ہم دَم ایک ہیں
    پورب پچھم دور نہیں ہیں، پورب پچھم ایک ہیں
    وہ سلہٹ ہو یا خیبر ہو، سُندر بن ہو یا کشمیر
    ہم دونوں کا ایک وطن ہے اِک نظریہ اک تقدیر

    اس گلوکارہ کی آواز میں پاکستان ٹیلی ویژن پر قومی نغمہ ”وطن کی مٹی گواہ رہنا” سب سے پہلے گونجا تھا۔ جنگ کے بعد بھی شہناز بیگم نے ایک بار پھر حبُ الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے صہبا اختر کا تحریر کردہ نغمہ ” آیا نیا زمانہ آیا ، بھیا بھول نہ جانا، پاکستان بچانا” گا کر ہم وطنوں کا دل جیت لیا۔

    ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” وہ گیت تھا جسے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ پاکستانی عوام اس عظیم گلوکارہ کو نہیں بھولے ہیں۔

    یہ منفرد قومی نغمہ "موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے” کس نے نہیں‌ سنا ہو گا۔ آج بھی شہناز بیگم کی آواز میں یہ شاعری دلوں کو گرماتی اور جوش و ولولہ بڑھاتی ہے۔

  • کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    ایک زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری کی رسیلی اور مدھر آوازوں نے اپنے دور کے بے شمار گیتوں کو مقبولیت اور ان کے تخلیق کاروں اعتبار بخشا اور فلموں کی کام یابی میں اپنا حصّہ ڈالا، لیکن پھر نگار خانے ویران ہوگئے اور کانوں میں‌ رس گھولنے والی یہ آوازیں بھی ایک ایک کرکے خاموش ہوتی چلی گئیں۔

    کوثر پروین ایک ایسی ہی گلوکارہ تھیں جن کے گائے ہوئے کئی گیت ان کی یاد دلاتے ہیں۔ پاکستان کی اس مشہور گلوکارہ کا انتقال 30 دسمبر 1967ء کو ہوا تھا۔ ہندوستان کے شہر پٹیالہ میں پیدا ہونے والی کوثر پروین کے کیرئیر کا آغاز 1950ء میں ہوا تھا۔

    پاکستانی فلم ’’قاتل‘‘ کا یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا جس کے بول تھے:

    او مینا… نہ جانے کیا ہو گیا، کہاں دل کھو گیا، او مینا!….

    یہ ممتاز شاعر اور بے مثال نغمات کے خالق قتیلؔ شفائی کا تحریر کردہ گیت تھا جو کوثر پروین کی آواز میں‌ پاکستان بھر میں مقبول ہوا۔

    انور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ کہتے ہیں اس فلم کے نغمات نے کراچی سے دلّی تک مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔

    آج فنِ موسیقی اور گائیکی کے انداز ہی نہیں‌ بدلے گئے بلکہ پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کے ساتھ اُن ناموں کو بھی فراموش کردیا گیا جو اپنے دور میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔ کوثر پروین ایسا ہی ایک نام ہے جو مشہور اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن اور معروف موسیقار اختر حسین کی شریکِ حیات بھی تھیں۔

    کوثر پروین نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں کئی فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کروائے۔ 1954ء میں فلم نوکر کی ایک لوری بہت مشہور ہوئی جس کے بول تھے:

    میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں… اسے کوثر پروین کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس لوری نے بطور گلوکارہ انھیں‌ شہرت اور شناخت دی تھی۔

    کوثر پروین کے دیگر مقبول گیتوں میں فلم وعدہ کا نغمہ بار بار ترسے مورے نین بھی شامل ہے۔ انھوں نے کئی دو گانے بھی گائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

  • یومِ‌ وفات: پاکستان کی مشہور مغنیہ زاہدہ پروین کا تذکرہ

    یومِ‌ وفات: پاکستان کی مشہور مغنیہ زاہدہ پروین کا تذکرہ

    صوفیانہ کلام اور طرزِ گائیکی میں “کافی” کو ایک مشکل صنف شمار کیا جاتا ہے، جو نہایت مقبول بھی ہے۔ زاہدہ پروین نے اس فن میں خود کو کچھ اس طرح منوایا کہ آج بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ زاہدہ پروین 7 مئی 1975ء کو وفات پاگئی تھیں۔

    1925ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والی زاہدہ پروین نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم استاد بابا تاج کپورتھلہ والے سے حاصل کی، استاد حسین بخش خاں امرتسر والے سارنگی نواز سے گائیکی کے رموز سیکھے، اور بعد میں‌ استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کی شاگرد بنیں۔ ان کے استادوں میں اختر علی خان بھی شامل ہیں۔

    زاہدہ پروین نے یوں تو سبھی کلام گایا، مگر بعد میں خود کو خواجہ غلام فرید کی کافیوں تک محدود کر لیا تھا۔ وہ ان کے کلام کی شیدا تھیں اور بہت عقیدت اور لگائو رکھتی تھیں۔

    زاہدہ پروین کا کافیاں گانے کا منفرد انداز انھیں اپنے دور کی تمام آوازوں میں ممتاز کرتا ہے۔ انھوں نے کافیوں کو کلاسیکی موسیقی میں گوندھ کر کچھ اس طرز سے پیش کیا کہ یہی ان کی پہچان، مقام و مرتبے کا وسیلہ بن گیا۔

    معروف شاعرہ اور ادیب شبنم شکیل نے زاہدہ پروین کے بارے میں لکھا ہے:

    ”زاہدہ جن کو آج کل کے لوگ شاہدہ پروین کی والدہ کی وجہ سے جانتے ہیں، بہت بڑی گلوکارہ تھیں۔ انھیں کافیاں، غزلیں، گانے اور نیم کلاسیکل میوزک پر گہرا عبور حاصل تھا۔ آپ نے ان کے کئی گانے سنے ہوں گے۔ ایک تو سلیم گیلانی کا ”بیتی رُت نہ مانے عمریا بیت گئی“ پھر سیف صاحب کی مشہور غزل ”مری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے“ اور ایک کافی کیا حال سناواں دل دا، کوئی محرم راز نہ ملدا ایسی لازوال چیزیں انھوں نے اور بھی بہت سی گائیں۔

    وہ ایک درویش صفت عورت تھیں اور معمولی سے کپڑے پہن کر ریڈیو آ جاتی تھیں۔ شکل و صورت کی بھی بہت ہی معمولی تھیں۔ گہرا سانولا رنگ، چھوٹا سا قد لیکن جب وہ گانا گاتی تھیں تو دنیا مسحور ہو جاتی تھی۔

    زاہدہ پروین ‌میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔