Tag: گلوکارہ وفات

  • ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ٹھمری کے انگ میں غزل گائیکی کا ایک منفرد اور بڑا نام ملکہ پکھراج کا ہے۔ کہتے ہیں، سُر ان کے سامنے گویا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جو کچھ وہ گنگناتیں ذہن پر نقش ہو جاتا تھا۔ انھیں پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کے لوک گیت گانے میں ملکہ حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی گائیکی اور راگ راگنیوں کی مشہور مغنّیہ تھیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 2004ء ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔

    ملکہ پکھراج اپنی آواز، سر سنگیت کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گاؤں میں محرم کے جلوس میں مرثیے سناتی ہوئی کسی طرح ریاست جمّوں کے مہاراجہ کے دربار تک پہنچیں اور وہاں سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی تک اپنے فن کی بدولت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ہر خاص و عام میں‌ پہچانی گئیں۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی اس مغنّیہ نے قیامِ پاکستان کے بعد ملکہ پکھراج کے لقب سے خوب شہرت سمیٹی۔ ٹھمری، غزل اور بھجن کے ساتھ موسیقی کی متعدد اصناف میں انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور یہ ملک بھر میں ملکہ پکھراج کی پہچان بھی بنا۔ اردو کے مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی تھی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے جن کا ایک ناول جھوک سیال بہت مشہور ہے۔ ملکہ پکھراج نے کم عمری ہی میں گانا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ وہ نو سال کی تھیں جب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تاج پوشی پر انھیں تقریب کے دوران اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع ملا۔ وہاں ملکہ پکھراج کے سامعین میں والیِ ریاست، امرا اور معزز مہمانوں جن میں‌ فن کار بھی شامل تھے، ان کے مداح ہوگئے۔مہاراجہ اور اعلیٰ‌ درباری منصب دار اس عمر میں‌ آواز اور فن پر گرفت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بعد میں مہاراجہ نے ملکہ پکھراج کو دربار سے وابستہ کر لیا اور ملکہ پکھراج اگلے نو سال تک وہیں رہیں۔

    ملکہ پکھراج کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی آپ بیتی بھی شایع ہوچکی ہے۔

    لاہور میں وفات پانے والی ملکہ پکھراج شاہ جمال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • زبیدہ خانم: پاکستانی فلم انڈسٹری کی سدا بہار آواز

    زبیدہ خانم: پاکستانی فلم انڈسٹری کی سدا بہار آواز

    پسِ پردہ گائیکی میں زبیدہ خانم پاکستانی فلم انڈسٹری کا ایک مقبول نام تھا۔ خوش شکل زبیدہ خانم اداکاری کا شوق بھی رکھتی تھیں، لیکن بطور گلوکارہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے یہ شوق جاری نہ رکھ سکیں۔ اپنے کیریئر کے عروج پر فلمی دنیا سے دوری اختیار کرنے والی زبیدہ خانم نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں‌ ڈھائی سو نغمات گائے جن میں‌ سے کئی آج بھی مقبول ہیں۔

    سیف الدین سیف کی کام یاب فلموں‌ میں‌ سے ایک ’’سات لاکھ‘‘ بھی تھی جو اداکارہ نیلو کی پہلی فلم تھی۔ اس میں زبیدہ خانم کی آواز میں ایک گانا نیلو پر عکس بند ہوا تھا جو دہائیوں تک ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نشر ہوتا رہا۔ اس کے بول تھے: ’’آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے، تُو چھٹی لے کے آجا بالما۔‘‘ 1960 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’رات کے راہی‘‘ باکس آفس پر بہت کام یاب ہوئی تھی جس کے تمام گیت زبیدہ خانم اور احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ زبیدہ خانم کی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں‌ یہ نغمہ اسی فلم کا تھا جس کے بول ہیں ’’کیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘۔

    یہ گیت بھی زبیدہ خانم کی آواز میں بہت مقبول ہوا….روتے ہیں چھم چھم نین، اجڑ گیا چین، میں نے دیکھ لیا تیرا پیار۔

    فلمی تاریخ بتاتی ہے کہ پاٹے خان 1955ء کی وہ واحد فلم ہے جس میں زبیدہ خانم نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ چند مزید فلموں‌ میں چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئیں۔ گلوکارہ زبیدہ خانم کو سنیما بینوں نے 1961ء کی فلم آبرو میں شادی کی تقریب کے ایک منظر میں اپنا ہی گیت سنتے ہوئے دیکھا تھا۔

    گلوکارہ زبیدہ خانم 78 برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئی تھیں۔ 19 اکتوبر 2013ء کو وفات پانے والی زبیدہ خانم لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں پلے بیک سنگر کے طور پر مقام بنانے والی زبیدہ خانم 1935ء میں امرتسر میں پیدا ہوئیں اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئیں۔ دورانِ تعلیم ہی وہ فنِ‌ گائیکی میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگی تھیں‌۔ ان کے ایک استاد نے جب ان کا شوق دیکھا تو ریڈیو پاکستان میں متعارف کروا دیا اور وہاں سے زبیدہ خانم کے فنی سفر کا آغاز ہوا۔پاکستان میں فلم انڈسٹری سے ان کا تعلق 1951ء میں قائم ہوا اور وہ فلم ’بلّو‘ میں بطور اداکارہ نظر آئیں۔ اپنے فلمی کیریئر کے ابتدائی برسوں میں زبیدہ خانم نے اداکاری کے میدان میں‌ قسمت آزمائی کی۔ تاہم صرف دو سال بعد 1953ء میں بطور پلے بیک سنگر ان کی آواز فلم ’شہری بابو‘ کے گیتوں کی صورت شائقینِ موسیقی تک پہنچی۔ ان کی دلکش آواز اور خوش اسلوب گائیکی نے چند ہی سالوں میں انہیں صفِ اوّل کی گلوکارہ بنا دیا۔

    گلوکارہ زبیدہ خانم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ گھر والے موسیقی کو بطور کیریئر اپنانے پر ان سے ناخوش تھے لیکن ’مجھے ہمیشہ سے گائیکی کا شوق تھا اور میں جب بھی اسٹوڈیو جاتی تھی تو بہت خوشی محسوس کرتی تھی۔‘

    زبیدہ خانم نے اپنے کیریئر کے عروج پر پاکستانی فلمی صنعت کے معروف کیمرہ مین ریاض بخاری سے شادی کر لی تھی اور اس کے بعد وہ فلم اور موسیقی کی دنیا سے دور ہوگئیں۔ وہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں‌ تھیں۔ گلوکارہ اور اداکارہ زبیدہ خانم کا گائیکی کا سفر صرف آٹھ برس تک جاری رہا لیکن ان کے گائے ہوئے نغمات آج بھی بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں۔ زبیدہ خانم نے اس دور کے تمام بڑے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں بابا جی اے چشتی، رشید عطرے، صفدر حسین، سلیم اقبال، خواجہ خورشید انور اور اے حمید شامل ہیں۔

    زبیدہ خانم کا تعلق موسیقی کے کسی روایتی گھرانے سے نہیں تھا اور نہ ہی انھوں‌ نے موسیقی کی رسمی تعلیم حاصل کی تھی بلکہ آواز اور انداز وہ خداداد صلاحیت تھی جس نے انھیں‌ کم عمری ہی میں‌ لاہور کے ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا تھا۔

    زبیدہ خانم کے مقبول ترین پنجابی گیتوں میں فلم ہیر کا اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے، شیخ چلی کا گیت سیونی میرا دل دھڑکے، فلم مکھڑا کا دلا ٹھہر جا یار دا نظارا لین دے اور چھو منتر کا نغمہ بُرے نصیب میرے ویری ہویا شامل ہیں۔

  • ریڈیو اور فلمی دنیا کی معروف گلوکارہ نگہت سیما کی برسی

    ریڈیو اور فلمی دنیا کی معروف گلوکارہ نگہت سیما کی برسی

    ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلمی دنیا کی مشہور گلوکارہ نگہت سیما 4 اپریل 2006ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ اجمیر سے تعلق رکھنے والی نگہت سیما کا گایا ہوا فلمی گیت میرا چن ماہی کپتان اپنے زمانے کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔

    نگہت سیما کی گلوکاری اور ان کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے گیتوں کی فہرست طویل نہیں اور یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے کس فلم کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے، کہا جاتا ہے کہ انھیں 1963ء میں فلم چھوٹی بہن کے ذریعے فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے فلم آزادی یا موت کے نغمات ریکارڈ کروائے تھے جن میں میرا چن ماہی کپتان بہت مقبول ہوا جب کہ بعض تذکروں میں آیا ہے کہ نگہت سیما کا فلم گائیکی کا سفر 1963ء کی فلم جب سے دیکھا ہے تمہیں سے شروع ہوا تھا، لیکن ریکارڈ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔

    ان کی آواز ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن کی بدولت ملک بھر میں سنی گئی اور ان کے گائے ہوئے متعدد نغمات پسند کیے گئے۔ ریڈیو کے لیے انھوں نے زیادہ تر کلاسیکی غزلیں اور گیت گائے۔

    انھوں نے دو گانے بھی گائے اور انفرادی حیثیت میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ نگہت سیما نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں گیت ریکارڈ کروائے۔ گیت گاتی ہیں خوابوں کی پرچھائیاں ، پیار لینے لگا انگڑائیاں..، کلی حسرتوں کی نہ کھل سکی، تیرا پیار راس نہ آ سکا..، کے علاوہ ان کے متعدد گیت آج بھی پاکستان فلم انڈسٹری کے اُس سنہرے دور کی یادگار ہیں۔

  • برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    آج برصغیر کی مشہور مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 4 فروری 2004ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا تھا۔ کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے اور جو بھی وہ گنگناتیں، ذہنوں میں نقش ہو جاتا۔ ملکہ پکھراج ان پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جنھیں پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں۔ وہ پاکستان میں پہاڑی راگ گانے کے حوالے سے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ نمایاں‌ تھیں۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل، بھجن اور لوک گیتوں میں‌ اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور خاص طور پر فنِ موسیقی اور ساز و آواز کے ماہروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے اور اردو کے مشہور ناول جھوک سیال کے خالق تھے۔ ان کی صاحب زادی طاہرہ سیّد بھی پاکستان کی مشہور گلوکارہ ہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔