Tag: گلوکارہ کی برسی

  • یومِ‌ وفات:‌ ملّی نغمہ ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘‘ منوّر سلطانہ نے گایا تھا

    یومِ‌ وفات:‌ ملّی نغمہ ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘‘ منوّر سلطانہ نے گایا تھا

    7 جون 1995ء کو پاکستان کی مشہور گلوکارہ منور سلطانہ لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔ پاکستان کے مشہور قومی نغمات ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘‘ اور ’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ بھی منور سلطانہ کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    منور سلطانہ 1925ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے پہلے فلم مہندی سے ہوا تھا۔ منور سلطانہ نے فلمی صنعت کے ابتدائی دور کی کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں‌ نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    گلوکارہ منور سلطانہ نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور کمپوزر عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی جب کہ تیری یاد جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جاتا ہے، اس کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ کی آواز میں ریکارڈ ہوئے تھے۔

    منور سلطانہ نے جن فلموں کے لیے اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کیا ان میں پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان، بے قرار، دو آنسو، سرفروش، اکیلی، نویلی، محبوب، جلن، انتقام، بیداری اور لخت جگر شامل ہیں۔

    اپنے فنی کیریئر کے عروج میں منور سلطانہ ریڈیو پاکستان، لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی سے شادی کرنے کے بعد فلم اور گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئی تھیں۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کے دوران شائقینِ سنیما اور سامعین نے ان کی آواز میں کئی خوب صورت گیت سنے اور انھیں بے حد پسند کیا۔

  • کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی

    کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی

    آج پاکستان کی مشہور مغنیہ اور کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی ہے۔ وہ 25 فروری 1982ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ مختار بیگم ہندوستانی شیکسپیئر کہلانے والے ڈراما نویس اور شاعر آغا حشر کاشمیری کی شریکِ حیات تھیں۔ گلوکاری کے میدان میں ان کے شاگردوں میں فریدہ خانم، نسیم بیگم کے علاوہ اداکارہ رانی بھی شامل تھیں۔

    مختار بیگم 1911ء میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد غلام محمد موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے اور خود بھی بہت اچھا ہارمونیم بجاتے تھے۔ انہوں نے مختار بیگم کو کلاسیکی موسیقی کی تربیت دلوانے کے لیے پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار استاد عاشق علی خان کی شاگردی میں دے دیا۔ بعدازاں مختار بیگم نے استاد اللہ دیا خان مہربان، استاد فتو خان، پنڈت شمبھو مہاراج اور پنڈت مچھو مہاراج سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔

    مختار بیگم ٹھمری، دادرا اور غزل گائیکی پر یکساں عبور رکھتی تھیں۔ ان کے فن کی معترف اور عقیدت مندوں میں ملکہ ترنم نور جہاں بھی شامل تھیں۔

    مختار بیگم کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    آج برصغیر کی مشہور مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 4 فروری 2004ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا تھا۔ کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے اور جو بھی وہ گنگناتیں، ذہنوں میں نقش ہو جاتا۔ ملکہ پکھراج ان پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جنھیں پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں۔ وہ پاکستان میں پہاڑی راگ گانے کے حوالے سے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ نمایاں‌ تھیں۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل، بھجن اور لوک گیتوں میں‌ اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور خاص طور پر فنِ موسیقی اور ساز و آواز کے ماہروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے اور اردو کے مشہور ناول جھوک سیال کے خالق تھے۔ ان کی صاحب زادی طاہرہ سیّد بھی پاکستان کی مشہور گلوکارہ ہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔