Tag: گلوکار اخلاق احمد

  • اخلاق احمد: معروف گلوکار جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    اخلاق احمد: معروف گلوکار جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    اخلاق احمد کو فلم بینوں میں بطور گلوکار جو مقبولیت ملی تھی، وہ اپنے زمانے میں احمد رشدی، اے نیّر، مجیب عالم، عنایت حسین بھٹی اور ان جیسے چند ہی گلوکاروں کا مقدر بن سکی۔ لیکن اس مقبولیت کے باوجود اخلاق حمد پاکستانی فلم انڈسٹری میں وہ مقام اور جگہ نہیں پاسکے، جو ان سے پہلے یا بعد میں آنے والوں کو دی گئی۔ تاہم ان کے گائے ہوئے درجنوں گیت یادگار ثابت ہوئے۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اپنی لاجواب گائیکی کی وجہ سے پہچانے گئے۔

    مشہور فلمی گیت ’’ساون آ ئے، ساون جائے‘‘ اخلاق احمد کی آواز میں آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ایک انٹرویو میں اخلاق احمد نے بتایا تھا: ’’اس گیت کو مہدی حسن نے گانا تھا۔ اس زمانے میں اُن کا طُوطی بولتا تھا اور ہر موسیقار اُنہی سے اپنی فلموں کے گیت گوانا چاہتا تھا۔ اتفاق سے مہدی حسن اپنی دیگر فلمی مصروفیات کے سبب دستیاب نہ تھے، لہٰذا قرعۂ فال میرے نام نکلا۔ میں اس سے پہلے بھی متعدد فلموں کے لیے گا چکا تھا اور میری آواز کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ تاہم جب فلم ’’چاہت‘‘ کا یہ گیت ریلیز ہوا تو اس نے مجھے شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دیا اور جس مقبولیت کا میں نے سوچا بھی نہ تھا وہ مجھے قدرت نے عطا کردی۔ اگر یہ گیت مہدی حسن گا دیتے تو ان کے لیے معمول کی بات ہوتی مگر یہ میرے لیے ایک بریک تھرو تھا‘‘۔

    گلوکار اخلاق احمد 70ء کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں آئے اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت بڑا نام پایا۔ وہ 1964ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ فلم کے لیے ان کا پہلا گیت 1973ء میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انھوں نے فلم ’’پازیب‘‘کے لیے گایا تھا۔ 1960ء میں اخلاق احمد کراچی میں اسٹیج گلوکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہے تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح فلم کے لیے پلے بیک سنگر کے طور پر جگہ بن سکے۔ اس کے لیے انھوں نے بڑی جدوجہد کی۔ اور ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ گانے کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہوئی۔

    بلاشبہ قدرت نے اخلاق احمد کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ بہت سریلے گلوکار تھے۔ اخلاق احمد کو شروع ہی سے گائیکی کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ ہدایت کار نذرُ الاسلام کی مشہور فلم بندش میں اخلاق احمد کا گایا ہوا گیت ’’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘‘ بھی برصغیر پاک و ہند کے مقبول ترین گیتوں میں شامل ہے۔ فلم ’’دو ساتھی‘‘ کے لیے اخلاق احمد کی خوب صورت آواز میں گیت ’’دیکھو یہ کون آ گیا…‘‘ شائقین نے بہت پسند کیا۔ 1980ء میں ایک اور فلم کے لیے اخلاق احمد نے ’’سماں وہ خواب کا سماں‘‘ گایا جو فیصل پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ یہ گیت اس دور میں نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوا۔

    اخلاق احمد نے 100 کے لگ بھگ گیت گائے اور اہل فن سے خوب داد پائی جب کہ ان کے مداحوں نے انھیں بہت سراہا۔ اپنے کریئر کے دوران گلوکار اخلاق احمد نے آٹھ مرتبہ بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ بعض فلمی تذکروں میں آیا ہے کہ انھیں انڈسٹری میں وہ مقام نہیں‌ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں جن میں‌ ایک تو یہ اس وقت کئی بڑے سریلے گلوکار انڈسٹری پر چھائے ہوئے تھے اور دوسری طرف لابنگ اور کھینچا تانی تھی جس میں اخلاق احمد جیسے گلوکار کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

    بدقسمتی سے گلوکار اخلاق احمد خون کے سرطان میں مبتلا ہوگئے۔ 4 اگست 1999ء کو اس مہلک مرض کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ لندن میں مقیم تھے اور وہیں‌ ان کی تدفین عمل میں‌ لائی گئی۔

  • معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    4 اگست 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار اخلاق احمد نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ اخلاق احمد کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    اخلاق احمد 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسٹیج پروگراموں میں شوقیہ گلوکاری کرنے لگے۔ 1971ء میں انھوں نے کراچی میں بننے والی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروایا تھا اور یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن ان کے ذریعے وہ مقبولیت انھیں نہیں ملی جو بعد میں ان کے حصّے میں آئی۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں اخلاق احمد کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ اخلاق احمد کے فلمی سفر کا مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ اس گیت پر انھیں خصوصی نگار ایوارڈ بھی عطا ہوا۔

    اسی عرصے میں اخلاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں گلوکاری کا آغاز کیا اور ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ فلم نگری میں انھوں نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب ترین فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔ اخلاق احمد کا شمار پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہے۔

    خلاق احمد نے آٹھ نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ 1985ء میں انھیں خون کا سرطان تشخیص ہوا تھا اور وفات کے وقت علاج کی غرض سے لندن میں مقیم تھے۔ انھیں کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔