Tag: گلوکار انتقال

  • عظیم گلوکار منّا ڈے کا تذکرہ جن کا طرزِ‌ گائیکی اپنی مثال آپ ہے

    عظیم گلوکار منّا ڈے کا تذکرہ جن کا طرزِ‌ گائیکی اپنی مثال آپ ہے

    منّا ڈے ہندوستان کی فلمی دنیا کے عظیم گلوکاروں میں سے ایک تھے۔ وہ ایسی آواز کے مالک تھے جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ انڈین فلموں‌ کے اس پسِ‌ پردہ گائیک نے اپنے کیریئر کا آغاز اس وقت کیا تھا جب محمد رفیع، کشور کمار، مکیش جیسے گلوکاروں نے بھی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تھا۔ لیکن منّا ڈے کو انڈین کلاسیکل میوزک میں نئی قسم کے موجد ہونے کے علاوہ اپنی طرزِ گائیگی کی وجہ سے انفرادیت حاصل ہے۔ وہ سات زبانوں میں گانا جانتے تھے۔

    لیجنڈری گلوکار منّا ڈے ہر طرح کے نغمات کو آسانی کے ساتھ گانے میں‌ ماہر سمجھے جاتے تھے۔ بولی وڈ کا یہ عظیم گلوکار 24 اکتوبر 2013ء کو چل بسا تھا۔ وہ 94 سال کے تھے۔ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ یافتہ منّا ڈے کو فلم اور گلوکاری کی دنیا کے دوسرے کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

    منّا ڈے یکم جنوری 1919ء کو کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ گانے کا شوق انھیں‌ شروع ہی سے تھا۔ کالج کے دنوں میں وہ اپنے دوستوں کی فرمائش پر گانے سناتے تھے۔ وہ وقت بھی آیا جب منّا ڈے نے فلم کی دنیا میں قدم رکھا اور ہندی، اردو، بنگالی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، کنّڑ، آسامی فلموں کے لیے گیت گائے۔ انھیں کلاسیکی موسیقی سے رغبت تھی۔ اسی شوق نے انھیں‌ استاد امان علی خان اور استاد عبدالرحمٰن خان سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کیا، لیکن اس سے پہلے وہ اپنے ایک قریبی عزیز کرشنا چندرا ڈے سے گائیکی کی ابتدائی تعلیم لے چکے تھے۔

    کرشنا چندرا کے ساتھ ہی سنہ 1942ء میں منّا ڈے نے ممبئی کا پہلا سفر کیا۔ یہاں آکر وہ چندرا کے معاون کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ اسی عرصہ میں ان کی ملاقات اس وقت کے عظیم موسیقار سچن دیو برمن سے ہوئی اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ منّا‌‌ ڈے نے 1943ء میں فلم ’تمنا‘ سے بطور پلے بیک سنگر اپنا کریئر شروع کیا اور اس گانے کو راتوں رات شہرت مل گئی۔ ساتھ ہی منّا ڈے اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گئے۔

    منّا ڈے کولکتہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی عمر کے پچاس سے زائد سال ممبئی میں گزرے جب کہ باقی ماندہ زندگی بنگلور میں بسر کی۔ ان کی شادی کیرالا کی ایک لڑکی سلوچنا سے ہوئی تھی جو 2012ء میں وفات پاگئی تھیں۔

    گلوکار منّا ڈے سنہ 1950ء سے 1970ء تک محمد رفیع، مکیش اور کشور کمارکے بعد ہندی میوزک انڈسٹری کے چوتھے اور آخری ستون سمجھتے جاتے ہیں۔ ان کا فنی کیریئر پانچ دہائیوں پر مشتمل ہے جس میں‌ آخری مرتبہ 1991ء میں فلم ’پرہار‘ کے لیے منّا ڈے نے پسِ پردہ گلوکاری کی تھی۔ وہ پیچیدہ راگوں پر مشتمل گانے بہت آسانی سے گانے کے لیے مشہور تھے اور اس میں‌ کوئی بھی گلوکار ان کے مقابلے پر نہ آسکا۔

    ’دل کا حال سنے دل والا‘، ’پیار ہوا اقرار ہوا‘، ’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘ یہ تمام سپر ہٹ گیت منّا ڈے کی یاد دلاتے ہیں اور آج بھی ان کو بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ فلم ’آنند‘ کا گانا ’زندگی کیسی ہے پہیلی‘ گلوکاری کی دنیا میں منّا ڈے کو امر کر دینے کے لیے کافی ہے۔

    اس کے علاوہ اے مری زہرہ جبیں، لاگا چنری میں داغ، یہ رات بھیگی بھیگی، یہ مست ہوائیں، قسمیں وعدے نبھائیں گے ہم اور یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگی وہ فلمی گیت ہیں جو بہت مقبول ہوئے اور منّا ڈے کو ہمیشہ زندہ رکھیں‌ گے۔

    منّا ڈے نے اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں‌ کے ساتھ کام کیا اور بہت عزّت پائی۔ گلوکار منّا ڈے کی یادداشتوں پر مشتمل تحریریں کتابی صورت میں شایع ہوچکی ہیں۔

  • یومِ وفات:‌ مجیب عالم کی مدھر آواز ہمیشہ زندہ رہے گی

    یومِ وفات:‌ مجیب عالم کی مدھر آواز ہمیشہ زندہ رہے گی

    مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا تھا۔ 1967ء میں فلم’ چکوری‘ کی بدولت مجیب عالم کی آواز نے موسیقاروں اور شائقین سے سندِ قبولیت اور پذیرائی سمیٹی تھی اور ان کے گیت کے بول تھے، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘

    اس فلمی گیت نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا اور اگلے کئی برس تک مجیب عالم فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں شامل رہے۔ کراچی میں 2 جون کو وفات پانے والے مجیب عالم کی آج برسی ہے۔

    مجیب عالم نے فلمی دنیا کے لیے کئی یادگار گیت ریکارڈ کرائے جنھیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اکثر نشر کیا جاتا تھا۔ ایک دور تھا جب سامعین کی فرمائش پر گلوکار مجیب عالم کی آواز میں‌ خوب صورت گیت ریڈیو سے نشر ہوتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے لیے انھوں نے خصوصی طور پر نغمات ریکارڈ کروائے تھے جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔ پی ٹی وی کے لیے ان کا گیت ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ بہت مقبول ہوا۔

    جس زمانے میں مجیب عالم نے فلم انڈسٹری میں بطور گلوکار قدم رکھا، وہاں مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے پائے کے گلوکار پہلے ہی موجود تھے، لیکن جلد ہی مجیب عالم پاکستان کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کے معروف گلوکار مجیب عالم ہندوستان کے شہر کانپور میں 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک سکونت پذیر رہے۔ مجیب عالم کی آواز بے حد سریلی تھی اور وہ ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اسی سے متأثر ہوکر موسیقار حسن لطیف نے اپنی فلم نرگس کے گیت ان سے گوائے مگر یہ فلم پردے پر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ تاہم ساٹھ کی دہائی میں مجیب عالم نے فلمی دنیا کو بطور گلوکار اپنا لیا تھا۔ ان کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم مجبور تھی۔ مجیب عالم کی آواز میں 1966 میں فلم جلوہ کا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال چکوری جیسی کام یاب فلم کا نغمہ ان کی آواز میں بے حد مقبول ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے بارے میں اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقاروں اور گلوکاروں کا کہنا تھاکہ ’مجیب مشکل گانے بھی آسانی اور روانی سے گایا کرتے تھے۔‘

    مجیب عالم نے جن فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    فلمی گیتوں کو اپنی آواز میں لازوال اور سحر انگیز بنا دینے والے مجیب عالم کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ آج یہ خوب صورت گلوکار ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر ان کی آواز موسیقی اور گائیکی کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

  • کندن لال سہگل: پُرسوز آواز کے لیے مشہور گلوکار کا تذکرہ

    یہ ہندوستان کے بٹوارے سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں کندن لال سہگل کی آواز میں فلمی گیت بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ شائقینِ سنیما نے انھیں بڑے پردے پر بہ طور اداکار بھی کام کرتے دیکھا اور سراہا۔

    فلمی دنیا میں سہگل نے اپنی دل سوز آواز کے سبب جلد اپنی پہچان بنا لی اور ان کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ لوگ انھیں سننا پسند کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

    انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ سہگل 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کی صرف 42 بہاریں ہی دیکھیں، لیکن ان کی آواز آج بھی زندہ ہے۔

    1904ء میں کندن لال سہگل جموں کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ کیسر دیوی جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں، اپنے بیٹے کے شوق کو ہوا دیتی رہیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

    یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔

    کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

    سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی تھی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

    اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جارہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

    کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

    نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

    نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

    سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ہندوستانی فلمی صنعت کے اس مشہور گلوکار نے جالندھر میں‌ اپنا سفرِ زیست تمام کیا۔

  • پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن نے فنِ گائیکی میں اپنے استاد مہدی حسن سے گہری عقیدت کی بنا پر خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور انہی کا اندازِ گائیکی اپنایا۔ پرویز مہدی بنیادی طور پر غزل گائیک تھے، لیکن کئی نغمات اور متعدد لوک گیت بھی ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔

    معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 57 سال جب کہ موسیقی کی دنیا میں‌ ان کا سفر لگ بھگ تیس برس جاری رہا۔ نام ور شعرا کی غزلیں اور کئی گیت ریکارڈ کروانے والے پرویز مہدی کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ملک بھر میں‌ پہچان ملی۔

    70ء کی دہائی میں جب ریڈیو اسٹیشن لاہور سے ’میں جانا پردیس’ نشر ہوا تو لوگ پرویز مہدی کی آواز سے آشنا ہوئے اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    پرویز مہدی نے 14 اگست 1947ء کو لاہور میں ریڈیو کے ایک مشہور گلوکار بشیر حسین راہی کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ موسیقی اور سازوں سے بچپن ہی سے قریب ہوگئے تھے اور انھیں گانے کا شوق بھی شروع ہی سے تھا۔ پرویز مہدی نے جے اے فاروق سے موسیقی کی ابتدائی تربیت حاصل کی تھی اور بعد میں مہدی حسن کے پہلے اعلانیہ شاگرد بنے۔

    ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ پسِ پردہ گائیکی کے لیے معروف اخلاق احمد 1999ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ کئی فلمی گیتوں کو اپنی آواز دینے والے اخلاق احمد شوقیہ گلوکار تھے، اور خود بھی نہیں جانتے تھے کہ ایک دن انھیں پاکستان بھر میں پہچان اور بطور گلوکار شہرت ملے گی۔

    1952ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے اخلاق احمد نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسٹیج پروگراموں کے لیے شوقیہ گلوکاری کا سلسلہ شروع کیا اور اسی شوق ے دوران موقع ملا تو 1971ء میں ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ نامی فلم کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروا دیا یہ فلم کراچی میں بنائی جارہی تھی، یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن انھیں خاص توجہ نہ ملی۔ مگر بعد کے برسوں‌ میں وہ ملک میں مقبول ترین گلوکاروں‌ کی صف میں‌ شامل ہوئے۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں ان کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے…‘‘ ریکارڈ کیا۔ اس نغمے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور یہ فلمی دنیا کا ایک مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ بعد میں اخلاق احمد کو اسی گیت پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    اس گلوکار کو پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا اور ان کے کئی گیت پی ٹی وی پر نشر ہوئے جس نے اخلاق احمد کو ملک بھر میں‌ عزت اور نام و مقام دیا۔ وہ ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھے۔

    اخلاق احمد نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب فلموں کے لیے گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    اخلاق احمد کو آٹھ نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھونے والے اس فن کار کو 1985ء میں خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔

    اخلاق احمد کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے اسد امانت علی کی آواز میں‌ کئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعت میں رس گھول رہے ہیں۔ وہ کلاسیکی موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے۔ اس فن کار کی آواز کو دنیا بھر میں سنا گیا اور ان کے فن کو بہت سراہا گیا۔ آج اسد امانت علی کی برسی ہے۔

    راگ اور کلاسیکی موسیقی سے شہرت پانے والے گلوکار اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور و معروف گلوکار استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ یہ وہ نام ہیں‌ جن کا ذکر نہ ہو تو پاکستان میں کلاسیکی گلوکاری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔

    اسد امانت علی نے آنکھ کھولی تو راگ راگنیوں، سُر تال اور ساز و انداز کے ساتھ آلاتِ‌ موسیقی کو دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ دس برس کی عمر میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ دیا اور بعد کے برسوں میں اس فن کار کی آواز لوگوں کی سماعتوں میں‌ رس گھولتی رہی۔ اسد امانت علی نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی خان کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور ان کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں محافل میں‌ پیش کرکے خوب داد پائی۔

    انہیں اصل شہرت "گھر واپس جب آؤ گے تم…کون کہے گا، تم بِن ساجن یہ نگری سنسان…” جیسے کلام سے ملی۔ اس گلوکار کی آواز میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے کئی مشہور شعرا کا کلام ریکارڈ کرکے پیش کیا گیا جب کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں‌ 8 اپریل 2007ء کو حرکتِ قلب بند ہوجانے کے باعث انتقال ہوگیا۔

  • فتح علی خان: کلاسیکل سنگیت کا ایک انمول رتن

    فتح علی خان: کلاسیکل سنگیت کا ایک انمول رتن

    آج کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے کے استاد بڑے فتح علی خان کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس عظیم گلوکار کو کلاسیکی فنِ‌ گائیکی کا بادشاہ کہا جاتا ہے جنھوں نے نوجوانی ہی میں‌ ہندوستان بھر میں‌ شہرت اور پذیرائی حاصل کرلی تھی۔

    فتح علی خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد اختر حسین سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے تینوں بیٹوں جن میں فتح علی، امانت علی اور حامد علی کو اس فن میں ان کی بھرپور تربیت اور راہ نمائی کی اور جب آل بنگال موسیقی کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی تو فتح علی اور امانت علی کی جوڑی سامنے آئی۔ اس وقت فتح علی کی عمر 17 اور امانت علی کی عمر 14 سال تھی۔ ان بھائیوں‌ کا خوب چرچا ہوا۔ لمبی تان لگانا استاد فتح علی خان کا طرّۂ امتیاز تھا۔

    استاد فتح علی خاں 1935ء میں ہندوستان کی ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد باکمال گائیک تھے جنھوں نے اپنے بیٹوں کو بھی اس فن میں‌ طاق کیا۔ ان بھائیوں کی شہرت انگریز حکام تک بھی پہنچی اور ہندوستان بھر میں‌ قدر دانو‌ں نے انھیں‌ بڑی پذیرائی دی۔

    استاد فتح علی خان اور ان کے بھائی استاد امانت علی خان کی جوڑی نے لڑکپن میں ہی مہاراجہ پٹیالہ کے سامنے بھی فن کا مظاہره کیا اور اپنے زمانے کے نامی گرامی اساتذہ کے سامنے بھی گائیکی کے جوہر دکھائے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد دونوں بھائی پاکستان آ گئے اور یہاں پاکستان کے کلاسیکی موسیقاروں میں انھیں‌ سب سے ممتاز اور باکمال جوڑی کہا گیا۔ یہاں فتح علی خان ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور ٹیلی وژن پر بھی پرفارمنس دی۔

    استاد بڑے فتح علی خان کا شمار خیال گائیکی کے ان سرخیل گلوکاروں میں ہوتا تھا جنھیں ٹھمری، دادرا، غزل، راگ درباری اور پیچیدہ سُر گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ پیار نہیں ہے سُر سے جس کو وہ مورکھ انسان نہیں، دل میں کسی کی یاد چھپائے ایک زمانہ بیت گیا، نین سے نین ملائے رکھنے دو سمیت ستّر سے زائد فلموں میں گیتوں کو انھوں نے اپنی آواز دی۔ فتح علی خان بے حد شفیق اور سادہ مزاج انسان تھے۔ انکساری ان کا بڑا وصف تھا۔ انھیں‌ کئی اعزازات سے نوازا گیا اور بیرونِ ملک بھی ان کی گائیکی کا چرچا ہوا۔

  • موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ سُر تال اور گائیکی کے میدان میں‌ نام و مقام حاصل کرنے والے فن کار اور مختلف سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ماہر ایسے گھرانوں‌ سے وابستہ رہے ہیں جو تقسیمِ ہند سے قبل بھی موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے مشہور تھے۔

    شام چوراسی گھرانا انہی میں‌ سے ایک ہے جس میں جنم لینے والے استاد شرافت علی خان نے موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔

    استاد شرافت علی خان 30 نومبر 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ 1955ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلامت علی خان نام وَر موسیقار تھے اور استاد کے درجے پر فائز تھے جب کہ ان کے بڑے بھائی شفقت سلامت علی خان بھی اپنے وقت کے مشہور فن کار تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد شرافت علی خان نے اپنے والد سے ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی کی تربیت حاصل کی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے داد پائی۔ انھوں نے اپنے والد اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی ملک اور بیرونِ‌ ملک فنِ موسیقی اور گائیکی کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔ انھیں‌ اپنے وقت کے علمِ موسیقی کے ماہر اور جیّد موسیقار و گلوکاروں نے سنا اور بے حد سراہا۔

    استاد شرافت علی خان کو بیرونِ ملک متعدد جامعات میں موسیقی اور آرٹ سے متعلق شعبہ جات کے تحت منعقدہ تقاریب میں اس فن سے متعلق اظہارِ خیال کرنے اور برصغیر کی موسیقی پر لیکچر دینے کا موقع بھی ملا۔

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے اس باکمال فن کار کو وفات کے بعد حضرت چراغ شاہ ولی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    1957ء میں فلم ’’نورِ اسلام‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس میں شامل ایک نعت ’’شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے دَر کے سوالی‘‘ بہت مقبول ہوئی اور آج بھی یہ نعت دلوں میں اتر جاتی ہے اور ایک سحر سا طاری کردیتی ہے۔

    یہ نعت گلوکار سلیم رضا کی آواز میں‌ تھی۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور گلوکار تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ سلیم رضا 1983ء میں کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پسِ پردہ گلوکاری کے لیے سلیم رضا کو بہت شہرت ملی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔ گو کہ سلیم رضا نور اسلام سے قبل قاتل، نوکر، انتخاب، سوہنی، پون، چھوٹی بیگم، حمیدہ، حاتم، حقیقت، صابرہ، قسمت، وعدہ، آنکھ کا نشہ، داتا، سات لاکھ، عشق لیلیٰ، مراد، نگار، میں اپنی پرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گائیکی کا مظاہرہ کر چکے تھے اور ان کے بیش تر نغمات بے حد مقبول بھی ہوئے، مگر مذکورہ نعت جس رچاؤ سے پیش کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔

    4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے سلیم رضا قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے جہاں ریڈیو پاکستان سے انھوں نے گلوکاری کا سفر شروع کیا۔ سلیم رضا کے فلمی گائیک کے طور پر کیریئر کا آغاز “نوکر” سے ہوا تھا۔

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے شامل ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ سلیم رضا نے پنجابی فلموں کے لیے بھی سُریلے گیت گائے۔ اُن کی آواز سے سجی پہلی پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس مشہور گلوکار نے اپنے عروج کے زمانے میں دیارِ غیر جانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والوں کی تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام سامعین میں‌ مقبول تھے۔ ان پروگراموں نے کئی سریلے گلوکاروں کو متعارف کرایا اور ان کی رسیلی آوازوں‌ نے سماعتوں‌ میں‌ رس گھولا۔

    ریڈیو سننا ایم کلیم کا بھی مشغلہ تھا۔ انھیں موسیقی اور گلوکاری کا شوق تھا۔ اس کی ایک وجہ ان کے چچا تھے جو موسیقی کے دلدادہ اور گلوکار بھی تھے۔

    یہ شوق ایم کلیم کو ریڈیو تک لے گیا، لیکن وہاں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو پر بطور ٹیکنیشن ملازمت اختیار کی تھی، چند دنوں بعد سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ ایک اچّھے گلوکار بھی ہیں۔ تاہم ایم کلیم خود اسے شوق سے بڑھ کر اہمیت نہیں‌ دیتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان سے اسی حیثیت میں وابستگی اختیار کی اور یہاں‌ بھی ان کے احباب کو موسیقی اور گلوکاری کے ان کے شوق کا علم ہو گیا۔

    آج ایم کلیم کی برسی ہے۔ وہ کینیڈا میں مقیم تھے جہاں 1994ء میں زندگی کی بازی ہار گئے اور وہیں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کا اصل نام حفیظ اللہ تھا۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ریڈیو پر ملازمت کے دوران اکثر احباب ان سے کوئی غزل یا گیت سننے کی فرمائش کرتے تو ایم کلیم کچھ نہ کچھ سنا دیتے، لیکن انھیں‌ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کبھی وہ ریڈیو کے لیے ایسے گیت ریکارڈ کروائیں گے جن کا چرچا سرحد پار بھی ہو گا۔

    ان کی آواز مشہور گلوکار کے ایل سہگل سے مشابہ تھی۔ ریڈیو پر ان کے رفقائے کار اور وہاں‌ آنے والے فن کار انھیں‌ سنتے تو سنجیدگی سے گائیکی پر توجہ دینے کو کہتے۔ نام وَر موسیقاروں اور گائیکوں نے جب ان کی تعریف کی اور اس میدان میں‌ انھیں اپنی قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تو ایم کلیم بھی کچھ سنجیدہ ہوگئے۔

    اس ہمّت افزائی اور احباب کے مسلسل اصرار پر انھوں نے 1957ء میں اپنا پہلا نغمہ “ناکام رہے میرے گیت” ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ان کی شہرت بھی ہر طرف پھیل گئی۔

    ایم کلیم کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز و گداز بھی۔ وہ ایک اچھے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں‌ کا مظاہرہ کیا۔ ایم کلیم کی آواز میں‌ ایک اور گیت سامعین میں‌ مقبول ہوا جس کے بول تھے: “گوری گھونگھٹ میں شرمائے۔”

    اسی زمانے میں ان کی آواز میں‌ ایک غزل بہت مقبول ہوئی، جس کا مطلع ہے۔

    ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
    سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے

    ایم کلیم کی آواز میں کئی گیت ریکارڈ کیے گئے جن کی شہرت پاکستان ہی نہیں‌ سرحد پار بھی پہنچی اور شائقین نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔