Tag: گلوکار برسی

  • اخلاق احمد: معروف گلوکار جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    اخلاق احمد: معروف گلوکار جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    اخلاق احمد کو فلم بینوں میں بطور گلوکار جو مقبولیت ملی تھی، وہ اپنے زمانے میں احمد رشدی، اے نیّر، مجیب عالم، عنایت حسین بھٹی اور ان جیسے چند ہی گلوکاروں کا مقدر بن سکی۔ لیکن اس مقبولیت کے باوجود اخلاق حمد پاکستانی فلم انڈسٹری میں وہ مقام اور جگہ نہیں پاسکے، جو ان سے پہلے یا بعد میں آنے والوں کو دی گئی۔ تاہم ان کے گائے ہوئے درجنوں گیت یادگار ثابت ہوئے۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اپنی لاجواب گائیکی کی وجہ سے پہچانے گئے۔

    مشہور فلمی گیت ’’ساون آ ئے، ساون جائے‘‘ اخلاق احمد کی آواز میں آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ایک انٹرویو میں اخلاق احمد نے بتایا تھا: ’’اس گیت کو مہدی حسن نے گانا تھا۔ اس زمانے میں اُن کا طُوطی بولتا تھا اور ہر موسیقار اُنہی سے اپنی فلموں کے گیت گوانا چاہتا تھا۔ اتفاق سے مہدی حسن اپنی دیگر فلمی مصروفیات کے سبب دستیاب نہ تھے، لہٰذا قرعۂ فال میرے نام نکلا۔ میں اس سے پہلے بھی متعدد فلموں کے لیے گا چکا تھا اور میری آواز کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ تاہم جب فلم ’’چاہت‘‘ کا یہ گیت ریلیز ہوا تو اس نے مجھے شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دیا اور جس مقبولیت کا میں نے سوچا بھی نہ تھا وہ مجھے قدرت نے عطا کردی۔ اگر یہ گیت مہدی حسن گا دیتے تو ان کے لیے معمول کی بات ہوتی مگر یہ میرے لیے ایک بریک تھرو تھا‘‘۔

    گلوکار اخلاق احمد 70ء کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں آئے اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت بڑا نام پایا۔ وہ 1964ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ فلم کے لیے ان کا پہلا گیت 1973ء میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انھوں نے فلم ’’پازیب‘‘کے لیے گایا تھا۔ 1960ء میں اخلاق احمد کراچی میں اسٹیج گلوکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہے تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح فلم کے لیے پلے بیک سنگر کے طور پر جگہ بن سکے۔ اس کے لیے انھوں نے بڑی جدوجہد کی۔ اور ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ گانے کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہوئی۔

    بلاشبہ قدرت نے اخلاق احمد کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ بہت سریلے گلوکار تھے۔ اخلاق احمد کو شروع ہی سے گائیکی کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ ہدایت کار نذرُ الاسلام کی مشہور فلم بندش میں اخلاق احمد کا گایا ہوا گیت ’’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘‘ بھی برصغیر پاک و ہند کے مقبول ترین گیتوں میں شامل ہے۔ فلم ’’دو ساتھی‘‘ کے لیے اخلاق احمد کی خوب صورت آواز میں گیت ’’دیکھو یہ کون آ گیا…‘‘ شائقین نے بہت پسند کیا۔ 1980ء میں ایک اور فلم کے لیے اخلاق احمد نے ’’سماں وہ خواب کا سماں‘‘ گایا جو فیصل پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ یہ گیت اس دور میں نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوا۔

    اخلاق احمد نے 100 کے لگ بھگ گیت گائے اور اہل فن سے خوب داد پائی جب کہ ان کے مداحوں نے انھیں بہت سراہا۔ اپنے کریئر کے دوران گلوکار اخلاق احمد نے آٹھ مرتبہ بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ بعض فلمی تذکروں میں آیا ہے کہ انھیں انڈسٹری میں وہ مقام نہیں‌ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں جن میں‌ ایک تو یہ اس وقت کئی بڑے سریلے گلوکار انڈسٹری پر چھائے ہوئے تھے اور دوسری طرف لابنگ اور کھینچا تانی تھی جس میں اخلاق احمد جیسے گلوکار کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

    بدقسمتی سے گلوکار اخلاق احمد خون کے سرطان میں مبتلا ہوگئے۔ 4 اگست 1999ء کو اس مہلک مرض کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ لندن میں مقیم تھے اور وہیں‌ ان کی تدفین عمل میں‌ لائی گئی۔

  • مائیکل جیکسن: شہرت اور مقبولیت کی دیوی بھی جس کی اسیر تھی!

    مائیکل جیکسن: شہرت اور مقبولیت کی دیوی بھی جس کی اسیر تھی!

    مائیکل جیکسن کو جدید دور کا ایک ایسا ساحر کہیے کہ جس نے اپنی آواز اور انداز سے سماعتوں کو مسخّر کیا اور دلوں پر راج کرتا رہا۔ وہ ایک ایسا فن کار تھا، جسے معاشرے نے اس کی بے راہ روی پر مطعون بھی کیا اور اس پر عدالت میں مقدمہ بھی چلا، لیکن یہ سب اس کے پرستاروں کی تعداد نہ گھٹا سکا۔ 25 جون 2009ء کو مائیکل جیکسن کی موت پر دنیا افسردہ تھی۔

    "کنگ آف پاپ میوزک” کہلانے والے مائیکل جیکسن کی موت کے ساتھ ہی گویا پاپ میوزک کا ایک پُرشکوہ باب بھی ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کے حامل مائیکل جیکسن نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے بلاشبہ لازوال شہرت پائی اور راتوں رات مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔ مائیکل جیکسن نے اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دیا۔ اس کی نجی زندگی کئی نشیب و فراز اور رنج و الم سے بھری ہوئی ہے۔ مائیکل جیکسن کے اوراقِ زیست الٹیے تو معلوم ہو گا کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں برقی قمقموں کی جگمگ جگمگ اور محفل کی رونق نے اسے ایک فن کار کی حیثیت سے توانائی سے بھر دیا اور اس نے دل فتح‌ کیے۔

    مائیکل جیکسن کی خوبی اس کی بے مثال گائیکی کے ساتھ وہ غیر معمولی رقص اور اکثر وہ انوکھی اسٹیج پرفارمنس ہے، جس نے مائیکل جیکسن کو عالمی شہرت دی۔ اس کے علاوہ مائیکل جیکسن کو اپنی پُراسرار شخصیت اور انوکھے طرزِ زندگی کی وجہ سے بھی خوب شہرت ملی۔

    مائیکل جیکسن 1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم کے بعد دنیا میں متعارف ہوا اور اسی البم کی بدولت راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہونے والے مائیکل جیکسن کو بچپن ہی سے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا۔ وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ بنا کر پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم جاری کیا جس نے ہر طرف اس کے نام کی دھوم مچا دی۔ ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا اور یہ بھی مقبول البم ثابت ہوا۔

    اس امریکی گلوکار کو شہرت اور مقبولیت کے ساتھ کئی تنازعات نے بھی دنیا بھر میں‌ توجہ کا مرکز بنایا۔ لوگ اسے ہم جنس پرست اور نشہ آور اشیا کے استعمال کا عادی سمجھتے تھے۔ نوّے کی دہائی میں مائیکل جیکسن پر ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام عائد کیا گیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل بھی وہ بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مقدمہ لڑ رہا تھا جس میں اسے بری کردیا گیا تھا۔ دوسری طرف کئی قصے اس گلوکار سے منسوب تھے اور کہا جاتا تھا کہ اسے اپنی کالی رنگت سے نفرت تھی۔ وہ ایک سیاہ فام تھا جو اپنی جلد کو سفید دیکھنے کے علاوہ چہرے کو خوب صورت بنانا چاہتا تھا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی تھی۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن کی شادی ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلے کی بیٹی سے ہوگئی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔ آخری ایام زیست میں‌ مائیکل جیکسن کو تنازعات کے علاوہ مالی مشکلات نے بھی گھیر لیا تھا۔

    شہرۂ آفاق گلوکار مائیکل جیکسن کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ موت سے ڈرتا تھا اور خواہش تھی کہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے۔ سیاہ فام اور غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے مائیکل جیکسن کو اپنے ماضی سے بھی نفرت تھی اور کہتے ہیں‌ کہ اس کا بچپن لڑائی جھگڑوں اور والد کے تشدد کی وجہ سے کئی نفسیاتی پیچیدگیوں میں گھرا ہوا تھا جو بعد میں محرومیوں کی شکل میں‌ اس کے ساتھ رہیں۔

  • شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    برصغیر اور بالخصوص ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کئی نام موسیقی کی دنیا میں پاکستان کی شناخت اور پہچان بنے اور ان میں سے چند نام اپنے فن کے بے تاج بادشاہ کہلائے۔ مہدی حسن انہی میں سے ایک ہیں جن کی آواز کی دنیا نے مداح سرائی کی اور ان کے فن کو سراہا۔ آج مہدی حسن کی برسی ہے۔

    ریڈیو کی مقبولیت کے دور میں مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز ملک بھر میں سنی جانے لگی تھی۔ اس دور میں ریڈیو پر بڑے بڑے موسیقار اور گلوکار ہوا کرتے تھے اور ان اساتذہ کو متاثر کرنا اور ان کی سفارش پر ریڈیو سے منسلک ہونا آسان نہیں‌ تھا۔ اس وقت ڈائریکٹر سلیم گیلانی نے مہدی حسن کو ریڈیو پر گانے کا موقع دیا اور بعد میں مہدی حسن فنِ گائیکی کے شہنشاہ کہلائے۔

    مہدی حسن نے غزل گائیکی سے اپنی مقبولیت کا آغاز کیا تھا اور پھر فلمی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنا دیا۔ انھوں نے غزلوں کو راگ راگنی اور سُر کی ایسی چاشنی کے ساتھ گایا کہ سننے والا سحر زدہ رہ گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ہر فلم میں مہدی حسن کا گانا لازمی سمجھا جانے لگا۔ انھوں نے فلمی غزلیں بھی گائیں اور ان کی گائی ہوئی تقریباً ہر غزل اور گیت مقبول ہوا۔ مہدی حسن کے گیت سرحد پار بھی بہت ذوق و شوق سے سنے گئے اور ان کی پذیرائی ہوئی۔ کلاسیکی رکھ رکھاؤ اور انفرادیت نے مہدی حسن کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا اور ان کے شاگردوں نے بھی انہی کے رنگ میں آوازوں کا جادو جگا کر سننے والوں سے خوب داد سمیٹی۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل ہی فیض جیسے بڑے شاعر کی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے…اور میر صاحب کا کلام ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے….‘‘ گا کر مہدی حسن نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ بعد میں وہ میر تقی میر، غالب، داغ دہلوی اور دیگر اساتذہ کا کلام گاتے اور فلمی نغمات کو اپنی آواز میں یادگار بناتے رہے۔

    گلوکار مہدی حسن کے مقبول ترین گیتوں میں ’’اب کے ہم بچھڑے (محبت)، ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)، ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں (عظمت)، ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے (شرافت) اور کئی نغمات شامل ہیں۔ یہ گیت اپنے وقت کے مشہور اور مقبول ترین ہیروز پر فلمائے گئے۔

    اپنی ابتدائی زندگی اور اساتذہ کے متعلق مہدی حسن نے انٹرویوز کے دوران بتایا کہ وہ بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع جے پور کے گاؤں جھنجھرو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ’’کلاونت‘‘ گھرانے سے تھا اور ان کے والد، دادا، پر دادا بھی اسی فن سے وابستہ رہے تھے۔ والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے اس فن کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ ان کے بقول ان کے بزرگ راجاؤں کے دربار سے وابستہ رہے تھے۔ 47ء میں قیام پاکستان کے بعد مہدی حسن بھارت سے لاہور آگئے۔ وہاں تین چار برس قیام کے بعد کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ فلم انڈسٹری سے وابستگی کراچی میں آکر ہوئی کیونکہ اس زمانے میں زیادہ تر فلمیں کراچی میں ہی بنا کرتی تھیں۔

    مہدی حسن نے ابتدائی زمانہ میں کئی کام کیے، اور روزی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں محنت میں کبھی عار محسوس نہیں ہوئی۔ پیٹ پالنے کے لیے پنکچر لگائے، ٹریکٹر چلایا، موٹر مکینک کے طور پر کام کیا اور پھر انھیں ریڈیو تک رسائی حاصل ہوگئی۔ بعد میں ڈائریکٹر رفیق انور نے مہدی حسن کو فلم میں کام دلوایا اور پہلی فلمی غزل فلم ’’شکار‘‘ کے لیے گائی جس کے بول تھے۔

    ’’میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے
    کہ آ گیا کوئی رخ زیبا لئے ہوئے‘‘

    گلوکار مہدی حسن نے پاکستانی اور غیرملکی حکومتی شخصیات اور ممالک کے سربراہان کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور بڑی عزت اور احترام پایا۔ حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو تمغائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت دوسرے نمایاں قومی سطح کے ایوارڈز سے نوازا تھا۔

    زندگی کے آخری ایّام میں مہدی حسن فالج کے بعد بستر پر رہے اور سینے اور سانس کی مختلف بیماریوں کا شکار تھے۔ ان کا انتقال 13 جون 2012 کو ہوا۔

  • ذاکر علی خان: شام چوراسی گھرانے کا استاد گلوکار

    ذاکر علی خان: شام چوراسی گھرانے کا استاد گلوکار

    امتدادِ زمانہ اور تغیر کے زیر اثر جہاں‌‌ ہندوستانی سماج متاثر ہوا، وہیں برصغیر میں فنِ موسیقی اور گائیکی بھی نئی ترنگ، طرز اور ایجاد سے آشنا ہوئی۔ قدیم ساز اور طرزِ‌ گائیکی مٹتا گیا جس کی جگہ موسیقی انداز اور ساز و آلات نے لے لی۔ کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیوں کے سننے اور سمجھنے والے بھی نہ رہے اور ان گھرانوں کی شہرت بھی ماند پڑ گئی جو اس فن کے لیے ہندوستان بھر میں‌ جانے جاتے تھے۔ یہ تذکرہ استاد ذاکر علی خان کا ہے جو شام چوراسی گھرانے کے مشہور گلوکار تھے۔ آج استاد ذاکر علی خان کی برسی ہے۔

    استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کی سنگت میں گاتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔

    پاکستان میں انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے پرفارم اور متعدد میوزک کانفرنسوں اور اہم تقریبات میں مدعو کیے جاتے رہے۔ استاد ذاکر علی خان کو بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس شان دار پرفارمنس پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب دیا گیا تھا۔ استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی۔

    کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان 6 جون 2003ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پٹھانے خان: وہ آواز جس نے لوک گیتوں اور عارفانہ کلام کو زندگی بخشی

    پٹھانے خان: وہ آواز جس نے لوک گیتوں اور عارفانہ کلام کو زندگی بخشی

    لوک گلوکار پٹھانے خان کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 25 برس بیت گئے ہیں، لیکن ان کی آواز کا سحر اب بھی برقرار ہے اور لوگ بالخصوص ان کی آواز میں صوفیانہ کلام سننا پسند کرتے ہیں۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ پٹھانے خان کی گائی ہوئی غزلیں اور کافیاں پاکستان اور بھارت کے اردو داں ہی نہیں لوک گائیکی کا شوق رکھنے والے جو اردو یا سرائیکی اور پنجابی بولی نہیں‌ جانتے، وہ بھی بہت ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔

    خواجہ غلام فرید کی کافی ’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘ پٹھانے خان کی آواز میں‌ بے پناہ مقبول ہوئی اور اسے دنیا کے دیگر خطوں میں‌ بسنے والوں نے بھی سنا اور پٹھانے خان کے فن کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ استاد پٹھانے خان 1926 کو بستی مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کی بستی تمبو والی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لوک گیت، صوفیانہ کلام اور کافیاں گا کر جو عزت اور شہرت پائی وہ بہت کم ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ پٹھانے خان نے اپنے فن کا آغاز ریڈیو پاکستان ملتان سے کیا۔ بعد میں وہ ٹیلی وژن پر اپنے مخصوص انداز میں لوک گیت اور صوفیانہ کلام گاتے دکھائی دیے اور ملک گی شہرت پائی۔ انھیں صدارتی ایوارڈ کے ساتھ پی ٹی وی اور خواجہ غلام فرید ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    استاد پٹھانے خان کے فن اور ان کے طرزِ‌ گائیکی کو اپنے وقت کے معروف لوک گلوکاروں نے سراہا ہے۔ ان بڑے گلوکاوں نے پٹھانے خان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی گائی ہوئی کافیاں اور صوفیانہ کلام محافل میں سنا کر خود بھی شائقین و سامعین سے بہت داد وصول کی۔

    لوک گلوکار پٹھانے خان نے خواجہ غلام فرید، بابا بلھے شاہ اور مہر علی شاہ سمیت کئی شعرا کا عارفانہ کلام گایا اور کئی دہائیوں تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ پٹھانے خان 9 مارچ سنہ 2000 میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ وہ خان کوٹ ادو میں واقع ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • لتا منگیشکر: سُروں کی ملکہ کا تذکرہ

    لتا منگیشکر: سُروں کی ملکہ کا تذکرہ

    2022ء میں آج ہی کے روز گلوکارہ لتا منگیشکر اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان سے بہت پہلے ہندوستان کے مشہور غزل گائیک جگجیت سنگھ قیدِ حیات سے رہائی پاچکے تھے جنھوں نے ایک موقع پر لتا منگیشکر کو ان الفاظ میں‌ خراجِ تحسین پیش کیا تھا، ’20 ویں صدی کی تین چیزیں یاد رکھی جائیں گی۔ ایک انسان کا چاند پر جانا، دوم دیوارِ برلن کا گرنا اور تیسرا لتا منگیشکر کا پیدا ہونا۔‘

    دیکھا جائے تو فنِ موسیقی کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے لیے بھی شاید یہ بہت مشکل رہا ہو کہ لتا جی کو کیسے سراہا جائے، ان کی تعریف میں کیا کہیں یا وہ کیا الفاظ ہوں‌ جن کا سہارا لے کر لتا جی کے فن کی عظمت کو بیان بھی کرسکیں اور اس گلوکارہ کے شایانِ شان بھی ہوں۔ لیکن پھر سب نے بڑی سہولت اور رعایت سے انھیں لتا جی اور دیدی کہہ کر پکارنا شروع کردیا اور یہی ان سے عقیدت اور پیار کا بہترین اظہار ثابت ہوا۔ لتا منگیشکر 92 برس زندہ رہیں اور لگ بھگ 60 برس تک سُر، تال، ساز و آواز کی دنیا میں مشغول رہیں۔

    ہیما منگیشکر المعروف لتا منگیشکر کو لافانی گائیک بنانے کا سہرا میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر کے سر ہے جن کا تعلق لاہور کے علاقہ چونا منڈی سے تھا۔ لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’یہ سنہ 1947 کا زمانہ تھا اور فلم ‘شہید’ کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ اس زمانے کے نام ور میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر نے مذکورہ فلم کے ایک گیت کے لیے میرا آڈیشن لیا۔‘ وہ بتاتی ہیں ’ماسٹر صاحب کو میری آواز بہت پسند آئی اور میرے کہے بغیر انھوں نے اپنے من میں یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مجھے پروموٹ کریں گے، انھی دنوں کی بات ہے کہ فلمستان اسٹوڈیو کے مالک اور مشہور پروڈیوسر شیشدھرمکھر جی نے ریہرسل میں میری آواز سُنی اور مجھے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’اس لڑکی کی آواز بہت باریک اور چبھتی ہوئی ہے۔‘ شیشدھر مکھر جی اپنے وقت کے بہت بڑے فلم ساز تھے۔ لتا منگیشکر کے مطابق ’ماسٹر غلام حیدر نے شیشدھر مکھر جی سے کہا کہ یہ لڑکی (لتا) برصغیر کی میوزک مارکیٹ میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گی لیکن وہ نہ مانے۔‘ ’شیشدھر کے انکار پر ماسٹر غلام حیدر ناراض ہو گئے اور کہا ’مکھرجی صاحب ویسے تو آپ کو اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق ہے لیکن میرے الفاظ نوٹ کر لیں ایک دن آئے گا کہ پروڈیوسر، لتا کے دروازے پر قطار باندھے کھڑے ہوں گے۔‘ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

    لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر گلوکار اور اداکار تھے۔ لتا منگیشکر بھی شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل ہوگئیں۔ کمال امروہوی کی فلم ’’محل‘‘ 1949 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا گانا’’آئے گا ،آئے گا ،آئے گا آنے والا، آئے گا‘‘ لتا منگیشکر نے گایا تھا اور یہ گانا مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔ اس گیت کو آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول کچھ یوں ہیں’’خاموش ہے زمانہ چپ چاپ ہیں ستارے…آرام سے ہے دنیا بے کل ہیں دل کے مارے… ایسے میں کوئی آہٹ اس طرح آ رہی ہے…جیسے کہ چل رہا ہے من میں کوئی ہمارے …یا دل دھڑک رہا ہے اِک آس کے سہارے …آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا…۔‘‘ یہ نخشب جارچوی کا تحریر کردہ خوب صورت گیت تھا جس کی موسیقی کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی تھی۔ اس گانے نے لتا منگیشکر پر فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیے۔ فلم کے ہیرو اور فلم ساز بھی اداکار اشوک کمار تھے اور ان کی ہیروئن مدھو بالا تھیں۔ فلم کے مصنف اور ہدایت کار کمال امروہوی تھے۔

    اس گیت کی ریکارڈنگ کا بھی دل چسپ قصہ ہے۔ مشہور ہے کہ جب یہ گیت ریکارڈ کیا گیا تو ’آئے گا، آئے گا‘ کا تأثر گہرا کرنے اور اسے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لتا جی نے چل پھر کر اسے ریکارڈ کرایا۔ یوں دھیمے سروں سے گیت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لتا جی کی آواز خوشبو بن کر پھیلی اور برصغیر میں ان کا خوب شہرہ ہوا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے کریئر کا آغاز 1942 میں کیا۔ تاہم انھوں نے اردو فلموں کے لیے پہلا گانا 1946 میں ‘آپ کی سیوا’ نامی فلم کے لیے گایا۔ بولی وڈ میں ان کی شہرت کا آغاز 1948 میں فلم ‘مجبور’ کے گیت دل میرا توڑا سے ہوا اور اگلے سال فلم ‘محل’ سامنے آئی جس کے بعد لتا نے مڑ کر نہیں‌ دیکھا۔

    لتا منگیشکر کا نام 1974 سے 1991 تک سب سے زیادہ گانوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل رہا۔ یہ نام 2011 تک ورلڈ ریکارڈ کا حصہ رہا۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے بلکہ ان کی بہن آشا بھوسلے نے بھی گلوکارہ کے طور پر اہم مقام حاصل کیا۔

    گلوکارہ لتا منگیشکر کے گیتوں کا ترنم، نغمگی اور تازگی گویا سماعت پر ایک سحر سا طاری کر دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے گیت دل ميں اُتر جاتے ہیں۔ سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد طبّی پیچیدگیوں کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔

  • اے نیّر: وہ خوب صورت آواز جو آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رس گھول رہی ہے

    اے نیّر: وہ خوب صورت آواز جو آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رس گھول رہی ہے

    برصغیر بالخصوص پاک و ہند میں‌ثقافتی و تہذیبی مشغلوں میں موسیقی اور گلوکاری نمایاں اور اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ کلاسیکی گائیکی، غزل اور فلمی گیتوں کی بات کی جائے متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد کئی نام لیے جاسکتے ہیں جن کی سحر انگیز آواز نے کئی نسلوں‌ کو متاثر کیا اور آج بھی ان کو بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔ اے نیّر پاکستان کے انہی گلوکاروں میں سے ایک تھے۔

    فلموں‌ کے پسِ پردہ گلوکار کے طور پر اے نیّر کا نام ہمیشہ بہترین گلوکاروں میں لیا جائے گا۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے کئی لازوال گیت اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ اے نیّر 11 نومبر 2016ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    70ء کی دہائی میں بطور پلے بیک سنگر اے نیّر نے بڑی شہرت اور نام پایا۔ وہ غزل گائیکی کے بھی ماہر تھے۔ وہ ان فن کاروں میں‌ شامل ہیں‌ کہ جو کیریئر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی کام یابیوں‌ کا سفر طے کرلیتے ہیں۔ 1974ء میں اے نیر نے فلم ”بہشت‘‘ کے لیے پہلا گیت گایا اور راتوں رات مشہور ہوگئے۔

    گلوکار اے نیر 17 ستمبر 1950ء کو ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیر تھا۔ فن کی دنیا میں انھوں نے اے نیّر کے نام سے شہرت پائی۔ انھیں بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا، لیکن وہ جس گھرانے کے فرد تھے وہاں‌ یہ سب معیوب بھی سمجھا جاتا تھا اور اے نیر کو بڑوں کی مخالفت کا ڈر تھا۔ اس لیے وہ چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے تھے۔ انھیں‌ سن کر خود بھی اسی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن پھر یہ ڈر اور مخالفت بہت پیچھے رہ گئی اور اے نیّر پاکستان کی فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکار بن گئے۔

    گلوکار کا پہلا فلمی گیت ”یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ تھا جس میں‌ گلوکارہ روبینہ بدر نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ 1974ء میں بہشت ریلیز ہوئی اور یہ گانا بہت مقبول ہوا۔ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم ”خریدار‘‘ کا تھا جس کے بول تھے، ”پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔‘‘

    اے نیّر نے اپنے دور کے نامور موسیقاروں کریم شہاب الدین، نثار بزمی، اے حمید، ایم اشرف، نوشاد اور ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ کام کیا۔ ان کے گائے ہوئے کئی گیت اداکار ندیم اور وحید مراد پر عکس بند ہوئے اور اے نیّر نے تقریباً 80 فلموں کے لیے اپنی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔ 1980 میں اے نیّر اپنے کریئر کے عروج پر تھے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر ان کے گائے ہوئے گیت روز نشر ہوا کرتے تھے۔ اے نیّر کے دیگر مقبول گیتوں میں ”بینا تیرا نام‘‘، ” یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا‘‘، ”ایک بات کہوں دلدارا‘‘، ”میں تو جلا ایسا جیون بھر‘‘، ”جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے‘‘ شامل ہیں۔ انھیں پانچ مرتبہ نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ یہ اے نیّر کے مقبول ترین گیت ہیں‌ جنھیں‌ آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

    اے نیّر مشہور گلوکار احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے۔ اے نیّر کی سریلی آواز پاکستانی فلم انڈسٹری اور دنیا بھر میں‌ موجود فن و ثقافت کے دلدادہ اور باذوق سامعین کبھی فراموش نہیں کرسکیں‌ گے۔

  • منیر حسین کا تذکرہ جن کے گائے ہوئے نغمات آج بھی سماعتوں میں رس گھولتے ہیں

    منیر حسین کا تذکرہ جن کے گائے ہوئے نغمات آج بھی سماعتوں میں رس گھولتے ہیں

    پاکستانی فلموں کے کئی سدا بہار اور لازوال رومانوی گیت ایسے ہیں جنھیں آج بھی نہ صرف بڑے شوق سے سنا جاتا ہے بلکہ اکثر انھیں گنگناتے بھی ہیں۔ ان نغمات کے بول محبّت اور جذبات کی فراوانی کے ساتھ محبوب کے لیے شیریں اور لطیف احساسات سے سجے ہوئے ہیں، لیکن منیر حسین کی آواز میں اپنے زمانے کا ایک مقبول گیت اس اعتبار سے یکسر مختلف ہے کہ اس میں ایک ناکام عاشق نے اپنی محبّت کو بد دعائیں دی ہیں۔ آج معروف گلوکار منیر حسین کی برسی منائی جارہی ہے۔

    27 ستمبر 1995ء کو وفات پانے والے گلوکار منیر حسین کی آواز میں مقبول ہونے والے اس گیت کے چند اشعار ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ مشہور نغماتی فلم سات لاکھ کا گیت ہے

    قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے!
    میری وفا کو میرے اعتبار کو ترسے
    خدا کرے تیرا رنگیں شباب چھن جائے
    تیری شراب جوانی خمار کو ترسے
    تو روئے رات کی تنہائیوں میں اٹھ اٹھ کر
    تجھے قرار نہ آئے، قرار کو ترسے
    خدا کرے تیرے دل کی کلی کبھی نہ کھلے
    بہار آئے مگر تُو بہار کو ترسے

    منیر حسین 1930ء میں‌ پیدا ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ فلم انڈسٹری میں‌ بطور گلوکار اپنی قسمت آزمانے پہنچے اور یہاں انھیں کام مل گیا۔ منیر حسین فنِ موسیقی کے دلدادہ تھے اور اس گھرانے کے فرد تھے جو سُر اور ساز سے محبّت کرتا تھا اور فن کار رہتے تھے۔ منیر حسین گویا آل راؤنڈر تھے اور کلاسیکی موسیقی میں بھی ماہر تھے۔ فلم انڈسٹری میں موسیقار صفدر حسین نے انھیں پہلی مرتبہ متعارف کروایا۔ انہی کی فلم ’’حاتم‘‘ کے لیے منیر حسین نے ’’ تیرے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے‘‘ گایا اور بعد میں ان کی آواز کو اپنے وقت کے نام ور موسیقار رشید عطرے، خواجہ خورشید انور اور اے حمید نے بھی اپنی دھنوں کے ساتھ آزمایا۔ منیر حسین نے انھیں مایوس نہ کیا اور فلم انڈسٹری میں آگے بڑھتے چلے گئے، اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں کے علاوہ فلم سازوں نے بھی ان کے فن اور آواز کو سراہا۔

    رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین کی آواز میں‌ ’’قرار لوٹنے والے قرار کو ترسے ملک بھر میں مقبول ہوا اور اس کے بعد نثار میں تری گلیوں پہ، دلا ٹھیر جا یار دار نظارا لیندے، اور اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے جیسے گیتوں نے منیر حسین کو مزید شہرت دی، خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار جیسا مقبول گیت فلم کوئل میں شامل تھا جسے منیر حسین نے گایا۔ وہ اپنے وقت کے مقبول گلوکاروں میں سے ایک تھے جنھیں بہت عزّت اور پذیرائی ملی۔

    گلوکار منیر حسین کو لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پرنس، جس نے موسیقی کی طاقت سے ہر ایک کو جھومنے پر مجبور کر دیا!

    پرنس، جس نے موسیقی کی طاقت سے ہر ایک کو جھومنے پر مجبور کر دیا!

    کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں ایسے دھنی کہ شہرت اور مقبولیت کی دیوی گویا ان کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوں‌ اور وہ مسلسل کام یابیاں سمیٹتے چلے جائیں۔ پرنس انہی میں سے ایک تھا لیکن فن کی دنیا میں‌ مقام و مرتبہ پانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے اندر چھپے فن کار کو پہچانے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا استعمال کرسکے۔ پرنس اس میں کام یاب ہوا اور اپنی گلوکاری اور موسیقی کی طاقت سے ہر ایک کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔

    امریکا کا یہ مشہور اور مایہ ناز گلوکار 2016ء میں آج کے دن چل بسا تھا۔ امریکی شہر مینیسوٹا میں پرنس اپنی رہائش گاہ پر بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا اور بعد میں‌ ڈاکٹروں‌ نے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ پرنس کی عمر 57 برس تھی۔

    پرنس، امریکی پاپ سنگر، منجھا ہوا موسیقار، پروڈیوسر اور مشہور اداکار بھی تھا جس کے گانوں پر مشتمل البمز معرکہ آرا ثابت ہوئے اور ان کی کاپیاں کروڑوں‌ کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ پرنس 1980ء کی دہائی میں اس وقت سپر اسٹار بنا جب 1999، پرپل رین اور سائن آف دا ٹائمز جیسے البم ریلیز ہوئے اور لوگ اس کے گانوں‌ کے دیوانے ہوگئے۔ بعد کے برسوں‌ میں پرنس کو سات بار ’گریمی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا اور ’پرپل رین‘ کے گانے نے آسکر کے ’بہترین تخلیقی کاوش‘ کے زمرے میں شامل ہو کر یہ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    اس گلوکار، موسیقار اور اداکار کا پورا نام روجرز نیلسن تھا اور وہ امریکا میں 7 جون 1958 کو پیدا ہوا۔ روجرز نیلسن نے 2000 میں‌ اپنے مداحوں سے کہا تھا کہ وہ انھیں پرنس کے نام سے پکاریں اور تب سے وہ ‘پرنس’ مشہور ہوگیا تھا۔ پرنس نے اپنے تقریبا سبھی گانے خود لکھے جب کہ وہ متعدد ساز بجانے میں‌ بھی مہارت رکھتا تھا۔موسیقی کی دنیا میں تین دہائیوں تک پرنس چھایا رہا۔ وہ اکثر اپنا حلیہ اور نام بھی تبدیل کر لیتا تھا اور اس کا یہ انداز بھی اس کی شہرت کا ایک سبب تھا۔

    امریکا میں موسیقی کے شائقین کے درمیان پرنس کی شہرت کا ایک سبب زندگی سے بھرپور وہ گانے تھے جن پر پرنس کے مداح والہانہ انداز میں جھومتے دکھائی دیتے ہیں۔

    امریکا میں‌ پرنس کی شہرت اور مقبولیت عام لوگوں‌ تک محدود نہ تھی بلکہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ممتاز اور نمایاں‌ شخصیات بھی اس کے فن و انداز کو سراہتے تھے اور اس کے گانے پسند کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ناگہانی موت پر امریکی اور دنیا بھر کے میڈیا پر اس کی کوریج ہے۔ پرنس کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تمام بڑے ٹی وی چینلوں نے پروگرام پیش کیے۔ پرنس کے مداح اپنے محبوب سنگر کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوگئے اور محبوب گلوکار کی یاد میں‌ دہلیز پر پھول رکھے اور شمعیں روشن کی گئیں۔ اس طرح مداحوں نے پرنس سے اپنی محبّت کا اظہار کیا۔ یہی نہیں‌ بلکہ وہ فن و تخلیق کی دنیا کا ایسا ستارہ تھا جس کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے اس کے مشہور گانے ’پرپل رین‘ کی مناسبت سے امریکا کے مشہور نیاگرا فالز اور پیرس کے ایفل ٹاور سمیت دنیا کی متعدد مشہور عمارتوں کو اُن برقی قمقموں سے سجا دیا گیا جن سے ’پرپل روشنی‘ پھوٹ رہی تھی۔

    روجرز نیلسن المعروف پرنس بطور پروڈیوسر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پرنس کے میگا ہٹ گانے بھی اُسی کے تحریر کردہ تھے۔ اس گلوکار کے تیس سے زائد البم سامنے آئے۔

    سنہ 2004 میں پرنس کا مومی مجسمہ بھی ’روک اینڈ رول ہال‘ میں نصب کیا گیا تھا۔

  • کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    دس برس کی عمر میں اسد امانت علی خان نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ وہ پٹیالیہ گھرانے کے فرد اور استاد امانت علی خان کے فرزند تھے۔ اسد امانت علی نے 1970ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد ساز اور آواز کی دنیا سے ناتا جوڑا اور بعد کے برسوں‌ میں لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ آج پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے اس نام ور فن کار کی برسی ہے۔

    اسد امانت علی نے اپنے والد کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں انہی کے انداز میں اس طرح پیش کیں کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسد امانت علی مشہور ہوگئے۔ اس گلوکار کی وجہِ شہرت ‘عمراں لنگھیاں‘ کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے۔۔۔ جیسا کلام بنا۔ اسد امانت علی نے کئی پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ وہ 8 اپریل 2007ء کو لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ ان فن کاروں نے پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کو ایک نئے انداز سے متعارف کروایا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

    اسد امانت علی خان کے والد کی آواز میں انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ایک مقبول ترین غزل تھی اور اسی کلام کو ان کے بیٹے نے دوبارہ گایا اور بہت داد و تحسین سمیٹی۔ اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ریکارڈ ہوئے۔ انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔