Tag: گلوکار برسی

  • صوفیانہ کلام گانے والے اقبال باہو کا تذکرہ

    صوفیانہ کلام گانے والے اقبال باہو کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ صوفیانہ کلام کی بدولت بطور گلوکار شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والوں میں اقبال باہو بھی شامل ہیں جنھوں نے کلامِ باہو، ہیر، سیف الملوک کے علاوہ دیگر صوفی شعرا کی شاعری کو اپنے مخصوص انداز میں گایا اور اندرونِ ملک ہی نہیں‌ دنیا بھر میں ان کی گائیکی کو سراہا گیا۔

    محمد اقبال ان کا اصل نام تھا اور سلطان باہو کا کلام گانے کی وجہ سے اقبال باہو کے نام سے مشہور ہوئے۔ اقبال باہو قیامِ پاکستان سے تین برس پہلے گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور لاہور میں محمد اقبال کی تعلیم و تربیت ہوئی۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک بینک میں ملازمت اختیار کر لی اور ساتھ ہی گائیکی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ریڈیو پاکستان سے شہرت کا سفر شروع ہوا اور پھر ٹیلی ویژن پر ناظرین نے انھیں دیکھا اور سنا۔ اقبال باہو بیرونِ ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیے جاتے تھے۔ اقبال باہو کو کئی لوک گیت ازبر تھے اور لوک گیت گانے کے علاوہ جب انھوں نے مشہور صوفی شاعر سلطان باہو کا کلام گانا شروع کیا تو لوگوں‌ نے انھیں بہت پسند کیا اور وہ اقبال باہو مشہور ہوگئے۔

    اقبال باہو ان گلوکاروں‌ میں سے ایک تھے جو صوفیا کا کلام گاتے ہوئے زبان و بیان اور کلاسیکی الفاظ کے تلفظ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ سلطان باہو کے علاوہ بابا فرید کا کلام ان کی آواز میں بہت پسند کیا جاتا تھا اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ قدیم پنجابی الفاظ کو درست تلفظ میں ادا کریں۔

    اقبال باہو نے امریکہ اور یورپ کے علاوہ بھارت کے مختلف شہروں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ معروف گلوکار اقبال باہو 24 مارچ 2012ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر68 برس تھی۔ اقبال باہو کو 2008ء میں تمغائے امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

  • محمد عزیز کا تذکرہ جن کی آواز میں‌ بولی وڈ فلموں کے کئی گیت مقبول ہوئے

    محمد عزیز کا تذکرہ جن کی آواز میں‌ بولی وڈ فلموں کے کئی گیت مقبول ہوئے

    محمد عزیز نے بولی وڈ کی فلموں‌ کے شائقین کو اپنی آواز میں لازوال اور سدا بہار گیت دیے۔ وہ لیجنڈری گلوکار محمد رفیع کے گانوں کے دیوانے تھے۔ یہی نہیں‌ کہ وہ محمد رفیع کے انداز میں گانا پسند کرتے تھے بلکہ گلوکار محمد عزیز کی آواز بھی ان کے محبوب گلوکار سے مماثلت رکھتی تھی۔ بولی وڈ میں‌ پسِ پردہ گلوکار کے طور پر نام و مقام پیدا کرنے والے محمد عزیز 2018ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں پیدا ہونے والوں اور بالخصوص 70 اور 80 کی دہائی میں پروان چڑھنے والی ایک نسل کو ان کا گایا ہوا فلمی گیت مرد تانگے والا ضرور یاد ہوگا۔ اس فلم کا نام تھا مرد اور امیتابھ بچن اس فلم کے ہیرو تھے۔ میوزک ڈائریکٹر انو ملک نے محمد عزیز کو اس فلم میں گانے کا موقع دیا تھا اور اسی نغمے نے گلوکار محمد عزیز کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ محمد عزیز نے پلے بیک گلوکاری کا آغاز بنگالی فلم ’جیوتی‘ سے کیا تھا، اور پھر وہ ممبئی منتقل ہوگئے جہاں 1984ء میں فلم ’امبر‘ کے لیے انھیں گیت گانے کا موقع دیا گیا۔ اس کے اگلے سال یعنی 1985ء میں‌ محمد عزیز نے فلم مرد کا گیت گا کر ہندوستان بھر میں‌ شہرت پائی۔

    محمد عزیز نے کولکاتہ کے ایک ریستوراں سے بطور گلوکار اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا اور پھر قسمت انھیں بولی وڈ تک لے گئی۔ محمد عزیز نے بھارتی فلمی صنعت میں 80 اور 90 کی دہائی میں خوب شہرت پائی اور ان کی آواز میں کئی فلمی گیتوں‌ نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔

    گلوکار محمد عزیز کو لوگ پیار سے منا بھی کہتے تھے۔ ان کا اصل نام سعید عزیز النّبی تھا۔ محمد عزیز 2 جولائی 1954 کو مغربی بنگال کے اشوک نگر میں پیدا ہوئے۔ انھیں شروع ہی سے گانے کا شوق تھا اور محمد رفیع کے بڑے مداح تھے۔ محمد عزیز اپنے محبوب گلوکار کی طرح گانے کی کوشش کرتے۔ آواز خوب صورت تھی اور انداز محمد رفیع جیسا۔ لوگ انھیں سنتے اور داد دیتے، لیکن یہ سب کافی نہ تھا۔ محمد عزیز بطور گلوکار اپنا کیریئر بنانا چاہتے تھے اور ان کا خواب تھا کہ وہ فلمی دنیا کے لیے گائیں۔ ان کی یہ آرزو پوری بھی ہوئی۔ محمد عزیز نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ بتایا تھا کہ ان کی گائیکی کا سفر 1968ء میں شروع ہوا تھا۔ وہ 14 برس کے تھے جب کلکتہ میں اسٹیج پر رفیع صاحب کا ایک گیت "ساز ہو تم آواز ہوں میں” گایا۔ وہ عید ملن کی ایک تقریب تھی اور اس میں ایک بڑے مجمع کے سامنے انھیں‌ گانے کا موقع ملا تھا۔ محمد عزیز کا کہنا تھاکہ جب مجھے اسٹیج پر بلایا گیا تو پہلے سرگوشیاں ہوئیں، پھر دھیما دھیما شور۔ مگر جب میں نے یہ گیت گایا تو سناٹا چھا گیا۔ گیت ختم ہوا تو اتنی تالیاں بجیں کہ میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔

    بولی وڈ گلوکار محمد عزیز نے ہندی فلموں کے علاوہ بنگالی، اڑیا اور دیگر علاقائی زبانوں کی فلموں کے لیے بھی پسِ پردہ گلوکاری کی۔

    1989ء میں فلم رام لکھن ریلیز ہوئی تھی جس کا گیت ’مائی نیم از لکھن، سجنوں‌ کا سجن‘ بہت مقبول ہوا۔ پاکستان میں بھی اس فلمی گیت کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اسے بھی گلوکار محمد عزیز اور ساتھیوں نے گایا تھا۔

    80 کی دہائی میں محمد عزیز کی آواز میں گائے گئے فلمی گیت سپر اسٹار امیتابھ بچن، متھن چکرورتی، گووندا اور دیگر مقبول ہیروز پر فلمائے گئے۔

    محمد عزیز کی آواز میں‌ مقبول ہونے والے گیتوں ’تیری بے وفائی کا شکوہ کروں تو‘، ’لال دوپٹہ ململ کا‘، ’پت جھڑ ساون بسنت بہار‘، ’پیار ہمارا امر رہے گا‘، کے علاوہ فلم خود غرض کا گیت دل بہلتا ہے میرا آپ کے آجانے سے، اور فلم نام کا گانا تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں‌ گا شامل ہیں۔

  • سلیم رضا:‌ فلمی دنیا کی خوب صورت آواز

    سلیم رضا:‌ فلمی دنیا کی خوب صورت آواز

    فلم ’’نورِ اسلام‘‘ 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں شامل نعتیہ کلام ’’شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے دَر کے سوالی‘‘ گلوکار سلیم رضا کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوا۔ یہ کلام آج بھی نہایت عقیدت اور فرطِ جذبات سے پڑھا جاتا ہے۔

    سلیم رضا نے پاکستانی فلموں میں‌ پسِ پردہ گلوکار کے طور پر بہت شہرت حاصل کی، وہ 25 نومبر 1983ء کو کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔ سلیم رضا فلمی صنعت میں اپنے زوال کے بعد بیرونِ ملک منتقل ہوگئے تھے اور وہیں انتقال ہوا۔

    سلیم رضا نے پچاس کی دہائی کے وسط میں پاکستان کی اردو فلموں کے لیے کئی گیت ریکارڈ کروائے جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے جس وقت اپنے فلمی گائیکی کے سفر کا آغاز کیا، پاکستان میں عنایت حسین بھٹی، مہدی حسن، احمد رشدی اور منیر حسین جیسے گلوکار بھی انڈسٹری سے جڑے ہوئے تھے۔ سلیم رضا کا کیریئر ایک دہائی تک عروج پر رہا اور پھر فلم ساز اور ہدایت کار نئی آوازوں کی جانب متوجہ ہوگئے تو سلیم رضا کو بہت کم کام ملنے لگا اور وہ مایوس ہوکر کینیڈا چلے گئے۔

    موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی جب کہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کے لیے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز، پنجابی فلموں، اونچے سُروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کے لیے موزوں نہ تھی۔ لیکن کئی گیت سلیم رضا کی آواز ہی میں یادگار ٹھیرے۔

    گلوکار سلیم رضا کو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بہت شہرت ملی۔ گو سلیم رضا فلم نورِ اسلام سے قبل قاتل، نوکر، انتخاب، سوہنی، پون، چھوٹی بیگم، حمیدہ، حاتم، حقیقت، صابرہ، قسمت، وعدہ، آنکھ کا نشہ، داتا، سات لاکھ، عشق لیلیٰ، مراد، نگار، میں اپنی پرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گائیکی کا مظاہرہ کر چکے تھے، مگر مذکورہ نعتیہ کلام انھوں نے جس رچاؤ سے پیش کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔

    سلیم رضا 4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے اور یہاں سلیم رضا کے نام سے شہرت پائی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے گلوکاری کا سفر شروع کیا تھا۔ سلیم رضا کو شروع ہی سے گانے کا شوق تھا۔ اُن کی آواز میں سوز و گداز تھا۔ ریڈیو پاکستان سے سلیم رضا کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ انھیں فلموں تک لے آیا۔

    بطور گلوکار سلیم رضا کی پہلی فلم “نوکر” تھی۔ موسیقار غلام احمد چشتی نے 24 مئی 1955ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں انھیں کوثر پروین کے ساتھ قتیل شفائی کا تحریر کردہ گیت گانے کا موقع دیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’تقدیر کے مالک دیکھ ذرا، کیا ظلم یہ دنیا کرتی ہے‘‘ مگر اس سے چند ماہ قبل سلیم رضا کی آواز میں فلم ’’قاتل‘‘ کا گیت سامنے آچکا تھا۔ اس فلم میں ماسٹر عنایت حسین کی بنائی ہوئی طرز پر انھوں نے قتیل شفائی کا نغمہ ’’آتے ہو یاد بار بار کیسے تمہیں بھلائیں ہم‘‘ گایا تھا۔

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے شامل ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ سلیم رضا نے پنجابی فلموں کے لیے بھی سُریلے گیت گائے۔ اُن کی آواز سے سجی پہلی پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ تھی۔ سلیم رضا نے اس پنجابی فلم کے بعد جگّا، شیخ چلّی، گھر جوائی، لکن میٹی، ڈنڈیاں، منگتی، بلّو جی، پہاڑن، موج میلہ، شیر دی بچّی، جاگیر دار، لٹ دا مال، نیلی بار، یاراں نال بہاراں، وساکھی، دل دیا لگیاں میں‌ بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔

  • فریڈی مرکری: ’کوئین‘ کا شہزادہ

    فریڈی مرکری: ’کوئین‘ کا شہزادہ

    مشہورِ زمانہ میوزیکل بینڈ ’کوئین‘ کے بانی گلوکار فریڈی مرکری کے مداح آج بھی اسے یاد کرتے ہیں۔ فریڈی مرکری 24 نومبر 1991ء میں چل بسا تھا، لیکن اس برطانوی گلوکار، نغمہ نگار اور پیانو نواز کو آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

    فریڈی مرکری کا تعلق افریقی ملک زنجبار سے تھا۔ وہ 1946 میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام فرخ بلسارہ تھا جس کے والدین ممبئی میں پارسی زرتشت تھے۔ فریڈی مرکری کی ابتدائی تعلیم بھارت میں ہوئی اور 1964 میں یہ خاندان لندن چلا گیا۔ لندن میں فریڈی مرکری فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کی اور موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا۔ وہ راک میوزک میں اپنے منفرد اور پرجوش انداز کی وجہ سے خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول ہوئے اور ان کے میوزک بینڈ کوئین کا دنیا بھر میں چرچا ہوا۔ اس بینڈ کی بنیاد 1970 میں رکھی گئی تھی۔ اس میں فریڈی کے دو ساتھی بطور گٹارسٹ اور ڈرمر شامل تھے۔

    فریڈی کو کم عمری سے ہی میوزک کا بے انتہا شوق تھا۔ وہ ایک باصلاحیت نوجوان تھا اور کچھ کر دکھانے کی امنگ اس کے دل میں تھی۔ فریڈی کی والدہ نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کا بیٹا ہر طرح کا میوزک پسند کرتا تھا، اسے انڈین، کلاسیکی اور پاپ میوزک سننا پسند تھا۔ فریڈی نے بھارت کے بورڈنگ اسکول میں داخل ہونے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ’ہیکٹکس‘ کے نام سے ایک میوزک بینڈ بنایا۔ اس طرح وہ اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں مشہور ہوگیا اور اسی بنیاد پر فریڈی کو ایک قریبی ہوٹل میں پیانو بجانے کے لیے رکھ لیا گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ہوٹل میں آنے والے مقامی لوگوں اور غیر ملکیوں کے سامنے صرف اور صرف مفت کھانے کے بدلے پرفارم کرتا تھا۔ فریڈی سولہ سال کا ہوا تو لندن آگیا۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر اکاؤنٹنٹ یا وکیل بنے مگر فریڈی سمجھتا تھا کہ وہ اتنا عقل مند یا ذہین نہیں ہے اور اپنے والدین کا یہ خواب پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ میوزک میں‌ اس کا جنون دیکھتے ہوئے والدین نے خاموشی اختیار کرلی۔ فریڈی اپنے چھوٹے سے گھر میں گانے اور دھنیں ترتیب دینے میں‌ مشغول رہا اور وہ وقت آیا جب اس کا شمار عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں میں ہوا۔

    عالمی شہرت یافتہ فریڈی مرکری نے لندن میں میوزیکل شوز کا سلسلہ شروع کیا تو بہت پذیرائی ملی اور مقبولیت کے اسی دور میں اسے اپنے کام کی وجہ سے اپنے والدین کا گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ دوسرے پُرسکون مقام پر منتقل ہوگیا، مگر باقاعدگی سے والدین سے ملنے جاتا رہا۔ وقت نے فریڈی مرکری کو سپر اسٹار بنا دیا اور دولت کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی۔ اس کی والدہ کے مطابق جب وہ رولز رائس پر ہمارے گھر آتا تو تمام پڑوسی بہت خوش ہوتے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو کبھی ہمارے گھر سے آنے والی میوزک کی آوازوں‌ پر شکایت کرتے تھے۔

    راک میوزک میں فریڈی مرکری کا نام عظیم برطانوی گلوکار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے بینڈ کے لیے کئی دھنیں ترتیب دیں اور بہت سے نغمات تحریر کیے۔ فریڈی مرکری کی ایک وجہِ شہرت اس کی اسٹیج پرفارمنس تھی جس میں وہ حاضرین اور اپنے مداحوں سے مخاطب ہوکر اُن کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اسے اکثر اپنی شرٹ سے بے پروا اور جوشیلے انداز میں گاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ 1987 میں اسے ایڈز جیسا مہلک مرض لاحق ہوا۔ فریڈی مرکری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مجمع کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ماہر تھا۔ فریڈی نے اس دور میں لائیو پرفارمنس سے اپنے مداحوں کی تعداد میں زبردست اضافہ کیا۔ اس کے متعدد البمز کام یاب ہوئے اور اس کے تحریر کردہ نغمات کو بہت پسند کیا گیا۔

    فریڈی مرکری نے لندن اور بیرونِ ملک بھی اپنے فن کی بدولت کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ 1985 میں اس نے مالی امداد اور عطیات جمع کرنے کے لیے پرفارم کیا تھا۔ اسے فریڈی مرکری کے کیریئر کی قابلِ ذکر پرفارمنس سمجھا جاتا ہے۔ فریڈی مرکری اور میوزیکل بینڈ کوئین کے آرٹسٹوں نے دنیا بھر میں‌ لگ بھگ 700 کنسرٹس کیے۔ فریڈی مرکری کو ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے اکثر ناپسندیدگی کا بھی کرنا پڑا۔ ایڈز کی تشخیص کے چند سال بعد اس مرض کی پیچیدگیوں نے فریڈی مرکری کو زندگی سے محروم کر دیا تھا۔ فن کاروں‌ اور اہلِ قلم نے ایک راک اسٹار اور میوزک کی دنیا کے بڑے نام کی اس موت کو ایک سانحہ قرار دیا تھا۔

    لندن اور مختلف ممالک میں میوزک اور آرٹ اکیڈمیوں اور دیگر مقامات پر فریڈی مرکری کے مجسمے نصب ہیں جو اس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

  • یومِ وفات:‌ منفرد طرزِ‌ گائیکی اور لوک گیت پرویز مہدی کی پہچان ہیں

    یومِ وفات:‌ منفرد طرزِ‌ گائیکی اور لوک گیت پرویز مہدی کی پہچان ہیں

    پرویز مہدی وہ پاکستانی گلوکار تھے جو اپنے منفرد طرزِ گائیکی اور بالخصوص لوگ گیتوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ وہ عظیم گلوکار مہدی حسن کے پہلے اعلانیہ شاگرد ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے اور انہی کے نام کی نسبت سے خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا۔ پرویز مہدی کی گائیکی پر اُن کے استاد کا رنگ اس قدر غالب تھا کہ اکثر سننے والے یہ گمان کرتے کہ وہ خان صاحب کو سن رہے ہیں۔

    پرویز مہدی نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ان کے گائے ہوئے لوک گیتوں کو خاص طور پر مقبولیت ملی۔ پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 57 برس تھی۔

    عظیم گلوکار مہدی حسن کے اس شاگرد نے 70ء کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ایک گیت ’میں جانا پردیس’ گایا تھا اور اسی گیت سے ان کی ملک گیر پہچان کا آغاز ہوا تھا۔ بنیادی طور پر پرویز مہدی غزل کے گائیک تھے۔ وہ اپنے استاد مہدی حسن کے رنگ میں گاتے تھے اور یہ بھی ان کی مقبولیت کا ایک سبب تھا۔ پرویز مہدی کا اصل نام پرویز حسن تھا لیکن انھوں نے استاد سے عقیدت کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ مہدی کا اضافہ کرلیا اور اسے وہ اپنے لیے سب سے بڑا اعزاز گرادنتے تھے۔

    پرویز مہدی کا سفر تیس سال پر محیط تھا جس میں انھوں نے کئی شعرا کے کلام کو اپنی آواز دی اور وہ سب مشہور ہوئے۔ گلوکار پرویز مہدی نے کئی لوک گیتوں کو بھی خوب صورتی سے گایا جو بہت مقبول ہوئے۔

    14 اگست 1947ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے پرویز مہدی کے والد بشیر حسین راہی ریڈیو پاکستان کے ایک مقبول گلوکار تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں‌ کہ فنِ گائیکی انھیں ورثے میں‌ ملا تھا۔ پرویز مہدی نے ابتدا میں جے اے فاروق سے موسیقی کی تربیت حاصل کی لیکن پھر مہدی حسن کی شاگرد بن گئے۔

    گلوکار پرویز مہدی کو حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ پرویز مہدی کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے۔

  • ’’کنگ آف راک‘‘ ایلوس پریسلے کا تذکرہ

    ’’کنگ آف راک‘‘ ایلوس پریسلے کا تذکرہ

    آج بھی دنیا بھر سے ایلوس پریسلے کے پرستار ان کی میمفس میں ان کی جائے سکونت گریس لینڈ وِلا کی طرف جاتے ہیں اور وہاں کھڑے ہو کر اپنے محبوب گلوکار کو یاد کرتے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ چھے لاکھ تک پہنچتی ہے۔ ایلوس پریسلے کے گیتوں کے ریکارڈ آج بھی بڑی تعداد میں‌ خریدے جاتے ہیں جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    شہرۂ آفاق گلوکار ایلوس پریسلے کی شخصیت کا سحر اب بھی برقرار ہے اور ’’کنگ آف راک‘‘ کہلانے والے ایلوس پریسلے کے فن و شخصیت پر بھی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ 1977ء میں وہ اپنی شہرت کے بامِ عروج پر تھے جب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ 16 اگست کو وفات پانے والے ایلوس پریسلے 42 سال جیے۔ آج بھی پاپ میوزک کی دنیا میں ان کا نام زندہ ہے اور وہ ایسے فن کار بھی ہیں‌ جن کی مقبولیت موت کے بعد بھی کم نہیں‌ ہوئی ہے۔

    ایلوس آرون پریسلے ان کا پورا نام تھا اور وہ 8 جنوری 1935ء کو ایک غریب امریکی خاندان میں پیدا ہوئے۔ پریسلے کے والدین کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہتا تھا۔ وہ مسی سپی کے چھوٹے سے شہر ٹوپیلو کے میں پلا بڑھا۔ والدین اپنے بیٹے کو باقاعدگی سے چرچ لے جاتے تھے جہاں ایلوس کو موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا۔ موسیقی سے ننھّے ایلوس کی انسیت وقت کے ساتھ بڑھتی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب ’’ہارٹ بریک ہوٹل‘‘ نامی ایک گیت نے نوجوان گلوکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ گیت ایلوس پریسلے نے 1956ء میں گایا تھا۔ اس زمانے میں نوجوان نسل نے ایک نئی اور منفرد آواز سنی تھی جس میں‌ فن کار اپنے گٹار کے ساتھ جھومتا ہوا سیدھا ان کے دلوں‌ میں اتر گیا۔ سبھی اُس کے دیوانے ہوگئے۔

    امریکی نوجوانوں پر اپنا جادو چلانے والے ایلوس پریسلے نے موسیقی کے میدان میں وہ کام یابیاں سمیٹیں کہ جلد ہی پوری دنیا میں پہچانے جانے لگے۔ اُن کے گیتوں کے ریکارڈ بڑی تعداد میں فروخت ہوئے۔ ایلوس پریسلے نے کئی شان دار کنسرٹس کیے۔ لیکن شہرت اور مقبولیت کے زینے طے کرتے ہوئے وہ کثرتِ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال بھی کرنے لگے تھے اور بالآخر گریس لینڈ میں ان کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    اس بے مثال فن کار نے اپنے کیریئر کے دوران 800 سے زیادہ گیت گائے اور 33 فلموں میں بطور ہیرو بھی جلوہ گر ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت پاپ میوزک ہے۔

    ایلوس کی بیٹی لیزا میری پریسلے کی شادی 1994ء میں پاپ میوزک کے بے تاج بادشاہ مائیکل جیکسن کے ساتھ ہوئی تھی جو دو سال سے بھی کم عرصہ تک برقرار رہ سکی۔ وہ بھی گلوکارہ اور نغمہ نگار کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ رواں برس جنوری میں لیزا بھی اچانک انتقال کرگئی تھیں اور ان کی موت کا سبب فربہی سے نجات پانے کے لیے کروائی گئی سرجری بتائی گئی تھی۔

  • احمد رشدی: آواز اور انداز کا ساحر

    احمد رشدی: آواز اور انداز کا ساحر

    احمد رشدی کی آواز میں کئی فلمی گیت نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ اسٹیج پر گلوکاری کے دوران پرفارمنس نے بھی احمد رشدی کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ انھوں نے سولو، ڈسکو، پاپ میوزک، کلاسیکل میوزک، ہپ ہاپ میوزک جیسی تمام اصناف میں اپنے فنِ گلوکاری کا مظاہرہ کیا اور خوب شہرت سمیٹی۔ آج پاکستان کے اس منفرد گلوکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    احمد رشدی نے موسیقی کی کوئی بنیادی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ کسی بھی گانے پر جذباتی انداز میں ایسے پرفارم کرتے تھے کہ دیکھنے والا ان کا دیوانہ ہوجاتا۔

    پاکستان کے اس مشہور گلوکار نے کئی زبانوں میں گانے گائے جن میں گجراتی، مراٹھی، تامل، تلگو، بھوجپوری شامل ہیں لیکن اردو زبان میں‌ ان کی آواز میں شوخ نغمات زیادہ مشہور ہوئے۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد پر رشدی کی آواز میں تقریباً 150 گانے گائے فلمائے گئے اور سبھی مقبول ہوئے۔

    11 اپریل 1983ء کو احمد رشدی ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ احمد رشدی کی آواز میں یہ سدا بہار گیت بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی….آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ اسی طرح کوکو رینا اور آیا گول گپّے والا آیا وہ نغمات تھے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    احمد رشدی نے 1935ء میں ہندوستان کی مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے فلم عبرت سے پسِ پردہ گائیکی کا آغاز کیا اور 1954ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے جہاں ان کی گائیکی کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع ہوا۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے بندر روڈ سے کیماڑی جیسے مقبول نغمے سے یہاں اپنی پہچان کا سفر طے کرنا شروع کیا تھا۔ اس دور میں‌ ریڈیو تفریح اور معلومات کا ایک مقبول اور عام ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ انھیں‌ جلد ہی ملک کے طول و عرض میں‌ پہچان مل گئی۔

    پاکستان میں احمد رشدی کی بطور پسِ پردہ گلوکار پہلی فلم کارنامہ تھی۔ تاہم اس کی ریلیز سے پہلے فلم انوکھی ریلیز ہوگئی جس کے لیے انہی کی آواز میں گیت ریکارڈ کیے گئے تھے۔ اس فلم کے گیت کو سبھی نے بہت پسند کیا۔ اس فلم کے بعد احمد رشدی کی کام یابیوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور وہ فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں‌ شامل ہوگئے۔ سرحد پار بھی احمد رشدی کے گائے ہوئے گیتوں کو سراہا گیا اور پاکستان میں ان کا شمار فلمی صنعت کے ورسٹائل اور مقبول ترین گلوکاروں میں ہوا۔ احمد رشدی کی خاص بات ان کے شوخ اور رومانوی نغمات پر دیوانہ وار پرفارمنس تھی۔ اس کے علاوہ المیہ اور طربیہ شاعری کو بھی احمد رشدی نے اپنی آواز میں اس طرح سمویا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔ یہ پاکستانی گلوکار دھیمے سُروں کے ساتھ چنچل اور شوخ موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے لیے مشہور تھے۔ احمد رشدی کو ان کی گائیکی پر کئی ایوارڈز سے نوازا گیا اور بعد از مرگ حکومتِ پاکستان نے بھی احمد رشدی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • کندن لال سہگل: پُرسوز آواز کے لیے مشہور گلوکار کا تذکرہ

    یہ ہندوستان کے بٹوارے سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں کندن لال سہگل کی آواز میں فلمی گیت بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ شائقینِ سنیما نے انھیں بڑے پردے پر بہ طور اداکار بھی کام کرتے دیکھا اور سراہا۔

    فلمی دنیا میں سہگل نے اپنی دل سوز آواز کے سبب جلد اپنی پہچان بنا لی اور ان کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ لوگ انھیں سننا پسند کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

    انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ سہگل 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کی صرف 42 بہاریں ہی دیکھیں، لیکن ان کی آواز آج بھی زندہ ہے۔

    1904ء میں کندن لال سہگل جموں کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ کیسر دیوی جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں، اپنے بیٹے کے شوق کو ہوا دیتی رہیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

    یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔

    کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

    سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی تھی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

    اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جارہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

    کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

    نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

    نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

    سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ہندوستانی فلمی صنعت کے اس مشہور گلوکار نے جالندھر میں‌ اپنا سفرِ زیست تمام کیا۔

  • پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن نے فنِ گائیکی میں اپنے استاد مہدی حسن سے گہری عقیدت کی بنا پر خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور انہی کا اندازِ گائیکی اپنایا۔ پرویز مہدی بنیادی طور پر غزل گائیک تھے، لیکن کئی نغمات اور متعدد لوک گیت بھی ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔

    معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 57 سال جب کہ موسیقی کی دنیا میں‌ ان کا سفر لگ بھگ تیس برس جاری رہا۔ نام ور شعرا کی غزلیں اور کئی گیت ریکارڈ کروانے والے پرویز مہدی کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ملک بھر میں‌ پہچان ملی۔

    70ء کی دہائی میں جب ریڈیو اسٹیشن لاہور سے ’میں جانا پردیس’ نشر ہوا تو لوگ پرویز مہدی کی آواز سے آشنا ہوئے اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    پرویز مہدی نے 14 اگست 1947ء کو لاہور میں ریڈیو کے ایک مشہور گلوکار بشیر حسین راہی کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ موسیقی اور سازوں سے بچپن ہی سے قریب ہوگئے تھے اور انھیں گانے کا شوق بھی شروع ہی سے تھا۔ پرویز مہدی نے جے اے فاروق سے موسیقی کی ابتدائی تربیت حاصل کی تھی اور بعد میں مہدی حسن کے پہلے اعلانیہ شاگرد بنے۔

    ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اپنا ہر گیت ہنستے چہروں کے نام کرنے والے مجیب عالم کا تذکرہ

    اپنا ہر گیت ہنستے چہروں کے نام کرنے والے مجیب عالم کا تذکرہ

    مجیب عالم نے گیت اور غزل کو بھی اپنی خوب صورت آواز میں نہایت مہارت سے گایا۔ وہ ایک منجھے ہوئے گلوکار تھے جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی سماعتوں‌ میں‌ تازہ ہیں۔

    پاکستان کے اس مشہور گلوکار نے رومانوی نغمات اور درد بھری شاعری کو نہایت خوب صورتی سے اپنی آواز میں شائقین تک پہنچایا۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ شامل ہیں۔ پی ٹی وی کے لیے انھوں نے ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ ریکارڈ کروایا تھا جو بہت مقبول ہوا۔

    مجیب عالم کو پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں‌ شمار کیا جاتا ہے جن کی آواز اور انداز کو اپنے وقت کے بڑے موسیقاروں اور مشہور گلوکاروں نے بھی سراہا۔1967 میں‌ فلم ’چکوری‘ کے لیے انھوں نے ایک گایا تھا جسے شائقینِ سنیما نے بہت پسند کیا اور اسی کے بعد فلم انڈسٹری میں‌ ہر طرف ان کا شہرہ ہونے لگا۔ اس گیت کے بول تھے، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘

    2004ء میں مجیب عالم نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔ آج اس نام ور گلوکار کی برسی ہے۔ انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    بھارت کے شہر کان پور میں پیدا ہونے والے مجیب عالم کی آواز بچپن ہی سے بے حد سریلی تھی اور موسیقار حسن لطیف نے انھیں سنا تو اپنی فلم نرگس میں گائیکی کا موقع دیا مگر یہ فلم نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ اور پھر فلم مجبور نے پہلی مرتبہ مجیب عالم کی آواز سنیما بینوں تک پہنچائی۔

    فلم ’مجبور‘ کے علاوہ مجیب عالم کی سُریلی آواز ’جان پہچان، لوری، جلوہ جیسی فلموں میں کئی گیتوں کو یادگار بنا گئی۔ اردو فلموں کے علاوہ مجیب عالم نے پنجابی فلموں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ انھوں نے کئی دوگانے بھی ریکارڈ کروائے تھے۔