Tag: گلوکار برسی

  • تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے اسد امانت علی کی آواز میں‌ کئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعت میں رس گھول رہے ہیں۔ وہ کلاسیکی موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے۔ اس فن کار کی آواز کو دنیا بھر میں سنا گیا اور ان کے فن کو بہت سراہا گیا۔ آج اسد امانت علی کی برسی ہے۔

    راگ اور کلاسیکی موسیقی سے شہرت پانے والے گلوکار اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور و معروف گلوکار استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ یہ وہ نام ہیں‌ جن کا ذکر نہ ہو تو پاکستان میں کلاسیکی گلوکاری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔

    اسد امانت علی نے آنکھ کھولی تو راگ راگنیوں، سُر تال اور ساز و انداز کے ساتھ آلاتِ‌ موسیقی کو دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ دس برس کی عمر میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ دیا اور بعد کے برسوں میں اس فن کار کی آواز لوگوں کی سماعتوں میں‌ رس گھولتی رہی۔ اسد امانت علی نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی خان کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور ان کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں محافل میں‌ پیش کرکے خوب داد پائی۔

    انہیں اصل شہرت "گھر واپس جب آؤ گے تم…کون کہے گا، تم بِن ساجن یہ نگری سنسان…” جیسے کلام سے ملی۔ اس گلوکار کی آواز میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے کئی مشہور شعرا کا کلام ریکارڈ کرکے پیش کیا گیا جب کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں‌ 8 اپریل 2007ء کو حرکتِ قلب بند ہوجانے کے باعث انتقال ہوگیا۔

  • موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ سُر تال اور گائیکی کے میدان میں‌ نام و مقام حاصل کرنے والے فن کار اور مختلف سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ماہر ایسے گھرانوں‌ سے وابستہ رہے ہیں جو تقسیمِ ہند سے قبل بھی موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے مشہور تھے۔

    شام چوراسی گھرانا انہی میں‌ سے ایک ہے جس میں جنم لینے والے استاد شرافت علی خان نے موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔

    استاد شرافت علی خان 30 نومبر 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ 1955ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلامت علی خان نام وَر موسیقار تھے اور استاد کے درجے پر فائز تھے جب کہ ان کے بڑے بھائی شفقت سلامت علی خان بھی اپنے وقت کے مشہور فن کار تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد شرافت علی خان نے اپنے والد سے ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی کی تربیت حاصل کی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے داد پائی۔ انھوں نے اپنے والد اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی ملک اور بیرونِ‌ ملک فنِ موسیقی اور گائیکی کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔ انھیں‌ اپنے وقت کے علمِ موسیقی کے ماہر اور جیّد موسیقار و گلوکاروں نے سنا اور بے حد سراہا۔

    استاد شرافت علی خان کو بیرونِ ملک متعدد جامعات میں موسیقی اور آرٹ سے متعلق شعبہ جات کے تحت منعقدہ تقاریب میں اس فن سے متعلق اظہارِ خیال کرنے اور برصغیر کی موسیقی پر لیکچر دینے کا موقع بھی ملا۔

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے اس باکمال فن کار کو وفات کے بعد حضرت چراغ شاہ ولی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والوں کی تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام سامعین میں‌ مقبول تھے۔ ان پروگراموں نے کئی سریلے گلوکاروں کو متعارف کرایا اور ان کی رسیلی آوازوں‌ نے سماعتوں‌ میں‌ رس گھولا۔

    ریڈیو سننا ایم کلیم کا بھی مشغلہ تھا۔ انھیں موسیقی اور گلوکاری کا شوق تھا۔ اس کی ایک وجہ ان کے چچا تھے جو موسیقی کے دلدادہ اور گلوکار بھی تھے۔

    یہ شوق ایم کلیم کو ریڈیو تک لے گیا، لیکن وہاں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو پر بطور ٹیکنیشن ملازمت اختیار کی تھی، چند دنوں بعد سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ ایک اچّھے گلوکار بھی ہیں۔ تاہم ایم کلیم خود اسے شوق سے بڑھ کر اہمیت نہیں‌ دیتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان سے اسی حیثیت میں وابستگی اختیار کی اور یہاں‌ بھی ان کے احباب کو موسیقی اور گلوکاری کے ان کے شوق کا علم ہو گیا۔

    آج ایم کلیم کی برسی ہے۔ وہ کینیڈا میں مقیم تھے جہاں 1994ء میں زندگی کی بازی ہار گئے اور وہیں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کا اصل نام حفیظ اللہ تھا۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ریڈیو پر ملازمت کے دوران اکثر احباب ان سے کوئی غزل یا گیت سننے کی فرمائش کرتے تو ایم کلیم کچھ نہ کچھ سنا دیتے، لیکن انھیں‌ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کبھی وہ ریڈیو کے لیے ایسے گیت ریکارڈ کروائیں گے جن کا چرچا سرحد پار بھی ہو گا۔

    ان کی آواز مشہور گلوکار کے ایل سہگل سے مشابہ تھی۔ ریڈیو پر ان کے رفقائے کار اور وہاں‌ آنے والے فن کار انھیں‌ سنتے تو سنجیدگی سے گائیکی پر توجہ دینے کو کہتے۔ نام وَر موسیقاروں اور گائیکوں نے جب ان کی تعریف کی اور اس میدان میں‌ انھیں اپنی قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تو ایم کلیم بھی کچھ سنجیدہ ہوگئے۔

    اس ہمّت افزائی اور احباب کے مسلسل اصرار پر انھوں نے 1957ء میں اپنا پہلا نغمہ “ناکام رہے میرے گیت” ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ان کی شہرت بھی ہر طرف پھیل گئی۔

    ایم کلیم کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز و گداز بھی۔ وہ ایک اچھے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں‌ کا مظاہرہ کیا۔ ایم کلیم کی آواز میں‌ ایک اور گیت سامعین میں‌ مقبول ہوا جس کے بول تھے: “گوری گھونگھٹ میں شرمائے۔”

    اسی زمانے میں ان کی آواز میں‌ ایک غزل بہت مقبول ہوئی، جس کا مطلع ہے۔

    ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
    سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے

    ایم کلیم کی آواز میں کئی گیت ریکارڈ کیے گئے جن کی شہرت پاکستان ہی نہیں‌ سرحد پار بھی پہنچی اور شائقین نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔

  • منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    27 ستمبر 1995ء کو پاکستان کے نام ور گلوکار منیر حسین وفات پاگئے۔ ان کی آواز میں سدا بہار گیت آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    منیر حسین کی پیدائش 1930ء کی ہے۔ منیر حسین نے تقسیم کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ گلوکار کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔ وہ فن موسیقی کے دلدادہ اور ماہر گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے اور یوں‌ سر اور ساز سے ان کی محبت فطری تھی۔

    انھیں فلم انڈسٹری میں موسیقار صفدر حسین نے متعارف کروایا۔ ان کی فلم ’’حاتم‘‘ کے لیے ’’ تیرے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے‘‘ گانے والے منیر حسین کی فن کارانہ صلاحیتوں سے اپنے وقت کے نام ور موسیقار رشید عطرے، خواجہ خورشید انور اور اے حمید نے بھی فائدہ اٹھایا۔ انھیں انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا موقع دینے والے موسیقاروں کے علاوہ فلم سازوں نے بھی انھیں باکمال گلوکار قرار دیا۔

    رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین نے ’’قرار لوٹنے والے قرار کو ترسے گایا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی، اس کے بعد نثار میں تری گلیوں پہ، دلا ٹھیر جا یار دار نظارا لین دے، اور اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے جیسے گیت گائے جب کہ خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار جو فلم کوئل کا گیت تھا، گا کر بہت داد و پذیرائی حاصل کی۔ اس کے بعد انھیں تیری خیر ہوے ڈولی چڑھ جان والیے، ونجھلی والڑیا اور اے حمید کی موسیقی میں زندگی تم سے ملی، اے مری زندگی، ہم کو دعائیں دو جیسے نغمات ریکارڈ کروانے کا موقع ملا۔

    اپنی آواز کا جادو جگانے والے پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس گلوکار کو لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ٹی وی، ریڈیو اور فلم کے لیے کئی گیت اور غزلیں‌ گائیں اور ان کے گائے ہوئے لافانی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔ تاہم انھیں‌ ایک غزل گائیک کے طور پر زیادہ شہرت ملی۔وہ 4 ستمبر 2014ء کو امریکا میں‌ وفات پا گئے تھے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔

    حبیب ولی محمد برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا۔ تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔

    انھیں غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ گانے کے بعد بے حد شہرت ملی۔ اس کے بعد انھوں کئی نغمے اور غزلیں گائیں جو ہر خاص و عام میں مقبول ہوئیں۔ ان کی گائی ہوئی مشہور غزلوں میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ شامل ہیں۔ ان کی یہ غزل نہایت مقبول ہوئی جو معین احسن جذبی کی تخلیق تھی، مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے!

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بہت کم فلمی گیت گائے جب کہ انھوں نے متعدد ملّی نغمے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ وہ شوقیہ گلوکار تھے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    وہ ایک ساحر تھا، دلوں کو مسخّر کرنا جانتا تھا۔ دنیا اس کی آواز کے طلسم، رقص اور اس کی اسٹیج پرفارمنس کے سحر میں‌ گرفتار رہی۔ اس کی موت کی خبر آئی تو لاکھوں پرستاروں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

    25 جون 2009ء کو "کنگ آف پاپ” مائیکل جیکسن نے دنیا میں آخری سانس لی اور اس کے ساتھ ہی پاپ میوزک کا ایک درخشاں باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    مائیکل جیکسن ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کا حامل فن کار تھا جس نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دینے والے مائیکل جیکسن نے زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اس کے اوراقِ زیست بتاتے ہیں‌ کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں اس نے برقی قمقموں اور محفل کی رنگا رنگی میں خود کو گم کرلیا اور یوں اپنی زندگی کی تلخیوں‌، محرومیوں اور کرب کو کم کرنے کی کوشش کی۔

    اپنی بے مثال گائیکی اور رقص کی غیر معمولی صلاحیت کے علاوہ مائیکل جیکسن کی پُراسرار شخصیت اور اس کا طرزِ زندگی بھی دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔

    1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم نے مائیکل جیکسن کو دنیا میں متعارف کروایا اور یہ تعارف ایسا زبردست تھا کہ وہ راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    مائیکل جیکسن 19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی سے اسے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا اور وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ کے ساتھ پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم مارکیٹ میں‌ پیش کیا۔

    ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن اس کی وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا جسے بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔

    مائیکل نے نوّے کی دہائی میں ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا کیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل اس پر بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایک اور مقدمہ بھی بنا تھا جس میں وہ بری کردیا گیا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی جس کا بہت چرچا ہوا۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن نے ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلی کی بیٹی لیسا پریسلی سے شادی کی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔

    چند برسوں کے دوران مائیکل جیکسن کو تنازعات اور مالی مشکلات نے گھیر لیا تھا۔

    25 جون کو شہرہ آفاق گلوکار کو سانس لینے میں دشواری کی شکایت پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی میں‌ نام و مرتبہ رکھنے والے استاد عاشق علی خان 10 مارچ 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی اور گائیکی کے‌ لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد عاشق علی خان کافیاں گانے میں‌ خاص مہارت رکھتے تھے اور اس حوالے سے بہت مقبول تھے۔ 1880ء میں پیدا ہونے والے استاد عاشق علی خان نے موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنے شوق کی بدولت اپنایا اور لے کاری میں‌ خاص مہارت حاصل کی۔

    ایک زمانے میں‌ جب پاک و ہند میں بڑی تعداد کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کا شوق رکھتی تھی تو استاد عاشق علی خان سے اس فن کی تربیت لینے اور گائیکی کے اسرار و رموز سیکھنے والے بھی ان کے گرد موجود رہتے تھے، جن میں سے بعض نے آگے چل کر اس فن میں بڑا نام پیدا کیا اور پاکستان کے نام ور گلوکاروں میں‌ شمار ہوئے۔

    استاد عاشق علی خان کے کئی شاگردوں‌ نے غزل گائیکی اور صوفیانہ کلام کو اپنے انداز میں‌ پیش کرکے مقبولیت حاصل کی۔ ان کے شاگردوں میں استاد بڑے غلام علی خان، چھوٹے عاشق علی خان، حسین بخش ڈھاڑی، اللہ دینو خاں، مختار بیگم، فریدہ خانم اور زاہدہ پروین نمایاں ہیں۔