Tag: گلوکار حبیب ولی محمد

  • حبیب ولی محمد: پُرسوز آواز اور منفرد طرزِ گائیکی کا مالک

    حبیب ولی محمد: پُرسوز آواز اور منفرد طرزِ گائیکی کا مالک

    حبیب ولی محمد کی پُرسوز آواز اور مخصوص طرزِ گائیکی آج بھی ایک نسل کی سماعتوں میں تازہ ہے اور سننے والوں کو اس گلوکار کی یاد دلاتا ہے۔ حبیب ولی محمد نے غزلیں، ملّی نغمات اور فلمی گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ آج اس گلوکار کی برسی ہے۔

    4 ستمبر 2014ء کو حبیب ولی محمد انتقال کرگئے۔ وہ عرصہ سے امریکا میں مقیم تھے اور 93 سال کی عمر میں وہیں وفات پائی۔ حبیب ولی محمد نے گلوکاری کو بطور پیشہ نہیں اپنایا بلکہ وہ شوقیہ گاتے تھے۔ سامعین اور ناظرین کی فرمائش پر ان کی آواز میں غزلیں اور گیت ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے تھے۔

    گلوکار حبیب ولی محمد کا آبائی وطن برما تھا۔ انھوں نے 1921ء میں برما کے شہر رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا اور تقسیمِ ہند کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔ وہ ایک کاروباری شخصیت بھی تھے اور پاکستان میں انھوں نے کاروبار پر توجہ دینے کے ساتھ اپنے شوق کی خاطر گلوکاری کا سفر بھی جاری رکھا۔ بعد میں وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

    حبیب ولی محمد منفرد آواز کے مالک تھے اور ان کی وجہِ شہرت غزل گائیکی رہی۔ بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب اور دیگر بڑے شعرا کا کلام ان کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘، ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ وہ کلام ہے جو حبیب ولی محمد کی آواز میں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے علاوہ معین احسن جذبی کی غزل ‘مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے’ نے حبیب ولی محمد کی شہرت کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔

    انھیں بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ حبیب ولی محمد نے فلمی گیت بھی گائے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ انھیں فلم کے لیے گلوکاری پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ نوجوانی میں حبیب ولی محمد نے استاد لطافت حسین سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔ وہ کالج کے زمانے میں موسیقی کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے اور یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ 1941ء میں حبیب ولی محمد نے ایک مقابلۂ گائیکی میں اوّل انعام بھی حاصل کیا تھا۔

  • یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ٹی وی، ریڈیو اور فلم کے لیے کئی گیت اور غزلیں‌ گائیں اور ان کے گائے ہوئے لافانی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔ تاہم انھیں‌ ایک غزل گائیک کے طور پر زیادہ شہرت ملی۔وہ 4 ستمبر 2014ء کو امریکا میں‌ وفات پا گئے تھے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔

    حبیب ولی محمد برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا۔ تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔

    انھیں غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ گانے کے بعد بے حد شہرت ملی۔ اس کے بعد انھوں کئی نغمے اور غزلیں گائیں جو ہر خاص و عام میں مقبول ہوئیں۔ ان کی گائی ہوئی مشہور غزلوں میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ شامل ہیں۔ ان کی یہ غزل نہایت مقبول ہوئی جو معین احسن جذبی کی تخلیق تھی، مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے!

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بہت کم فلمی گیت گائے جب کہ انھوں نے متعدد ملّی نغمے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ وہ شوقیہ گلوکار تھے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔