Tag: گلوکار سلیم رضا

  • سلیم رضا:‌ فلمی دنیا کی خوب صورت آواز

    سلیم رضا:‌ فلمی دنیا کی خوب صورت آواز

    فلم ’’نورِ اسلام‘‘ 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں شامل نعتیہ کلام ’’شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے دَر کے سوالی‘‘ گلوکار سلیم رضا کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوا۔ یہ کلام آج بھی نہایت عقیدت اور فرطِ جذبات سے پڑھا جاتا ہے۔

    سلیم رضا نے پاکستانی فلموں میں‌ پسِ پردہ گلوکار کے طور پر بہت شہرت حاصل کی، وہ 25 نومبر 1983ء کو کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔ سلیم رضا فلمی صنعت میں اپنے زوال کے بعد بیرونِ ملک منتقل ہوگئے تھے اور وہیں انتقال ہوا۔

    سلیم رضا نے پچاس کی دہائی کے وسط میں پاکستان کی اردو فلموں کے لیے کئی گیت ریکارڈ کروائے جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے جس وقت اپنے فلمی گائیکی کے سفر کا آغاز کیا، پاکستان میں عنایت حسین بھٹی، مہدی حسن، احمد رشدی اور منیر حسین جیسے گلوکار بھی انڈسٹری سے جڑے ہوئے تھے۔ سلیم رضا کا کیریئر ایک دہائی تک عروج پر رہا اور پھر فلم ساز اور ہدایت کار نئی آوازوں کی جانب متوجہ ہوگئے تو سلیم رضا کو بہت کم کام ملنے لگا اور وہ مایوس ہوکر کینیڈا چلے گئے۔

    موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی جب کہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کے لیے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز، پنجابی فلموں، اونچے سُروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کے لیے موزوں نہ تھی۔ لیکن کئی گیت سلیم رضا کی آواز ہی میں یادگار ٹھیرے۔

    گلوکار سلیم رضا کو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بہت شہرت ملی۔ گو سلیم رضا فلم نورِ اسلام سے قبل قاتل، نوکر، انتخاب، سوہنی، پون، چھوٹی بیگم، حمیدہ، حاتم، حقیقت، صابرہ، قسمت، وعدہ، آنکھ کا نشہ، داتا، سات لاکھ، عشق لیلیٰ، مراد، نگار، میں اپنی پرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گائیکی کا مظاہرہ کر چکے تھے، مگر مذکورہ نعتیہ کلام انھوں نے جس رچاؤ سے پیش کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔

    سلیم رضا 4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے اور یہاں سلیم رضا کے نام سے شہرت پائی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے گلوکاری کا سفر شروع کیا تھا۔ سلیم رضا کو شروع ہی سے گانے کا شوق تھا۔ اُن کی آواز میں سوز و گداز تھا۔ ریڈیو پاکستان سے سلیم رضا کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ انھیں فلموں تک لے آیا۔

    بطور گلوکار سلیم رضا کی پہلی فلم “نوکر” تھی۔ موسیقار غلام احمد چشتی نے 24 مئی 1955ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں انھیں کوثر پروین کے ساتھ قتیل شفائی کا تحریر کردہ گیت گانے کا موقع دیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’تقدیر کے مالک دیکھ ذرا، کیا ظلم یہ دنیا کرتی ہے‘‘ مگر اس سے چند ماہ قبل سلیم رضا کی آواز میں فلم ’’قاتل‘‘ کا گیت سامنے آچکا تھا۔ اس فلم میں ماسٹر عنایت حسین کی بنائی ہوئی طرز پر انھوں نے قتیل شفائی کا نغمہ ’’آتے ہو یاد بار بار کیسے تمہیں بھلائیں ہم‘‘ گایا تھا۔

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے شامل ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ سلیم رضا نے پنجابی فلموں کے لیے بھی سُریلے گیت گائے۔ اُن کی آواز سے سجی پہلی پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ تھی۔ سلیم رضا نے اس پنجابی فلم کے بعد جگّا، شیخ چلّی، گھر جوائی، لکن میٹی، ڈنڈیاں، منگتی، بلّو جی، پہاڑن، موج میلہ، شیر دی بچّی، جاگیر دار، لٹ دا مال، نیلی بار، یاراں نال بہاراں، وساکھی، دل دیا لگیاں میں‌ بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔

  • یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    1957ء میں فلم ’’نورِ اسلام‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس میں شامل ایک نعت ’’شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے دَر کے سوالی‘‘ بہت مقبول ہوئی اور آج بھی یہ نعت دلوں میں اتر جاتی ہے اور ایک سحر سا طاری کردیتی ہے۔

    یہ نعت گلوکار سلیم رضا کی آواز میں‌ تھی۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور گلوکار تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ سلیم رضا 1983ء میں کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پسِ پردہ گلوکاری کے لیے سلیم رضا کو بہت شہرت ملی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔ گو کہ سلیم رضا نور اسلام سے قبل قاتل، نوکر، انتخاب، سوہنی، پون، چھوٹی بیگم، حمیدہ، حاتم، حقیقت، صابرہ، قسمت، وعدہ، آنکھ کا نشہ، داتا، سات لاکھ، عشق لیلیٰ، مراد، نگار، میں اپنی پرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گائیکی کا مظاہرہ کر چکے تھے اور ان کے بیش تر نغمات بے حد مقبول بھی ہوئے، مگر مذکورہ نعت جس رچاؤ سے پیش کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔

    4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے سلیم رضا قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے جہاں ریڈیو پاکستان سے انھوں نے گلوکاری کا سفر شروع کیا۔ سلیم رضا کے فلمی گائیک کے طور پر کیریئر کا آغاز “نوکر” سے ہوا تھا۔

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے شامل ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ سلیم رضا نے پنجابی فلموں کے لیے بھی سُریلے گیت گائے۔ اُن کی آواز سے سجی پہلی پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس مشہور گلوکار نے اپنے عروج کے زمانے میں دیارِ غیر جانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • نام وَر پاکستانی گلوکار سلیم رضا کا یومِ وفات

    نام وَر پاکستانی گلوکار سلیم رضا کا یومِ وفات

    آج پاکستانی فلمی صنعت کے نام وَر گلوکار سلیم رضا کا یومِ وفات ہے۔ سلیم رضا 25 نومبر 1983ء کو کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سلیم رضا کو بہت شہرت ملی اور ان کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے۔

    4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے سلیم رضا قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے جہاں ریڈیو پاکستان پر گائیکی کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز "نوکر” سے ہوا جس نے انھیں انڈسٹری میں‌ قدم جمانے کا موقع دیا۔

    پاکستان میں گائیکی کے افق کا وہ ستارہ جو کئی برس پہلے ڈوب گیا تھا، اسے فلم انڈسٹری اور سُروں کی دنیا میں جن نغمات کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے انہی میں‌ ایک حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی شامل ہے۔

    کر ساری خطائیں معاف میری تیرے در پہ میں آن گرا
    تُو سارے جہاں کا مالک ہے میرا کون ہے تیرے سوا

    اس حمدیہ کلام کے خالق قتیل شفائی ہیں۔ اس کی طرز تصدق حسین نے ترتیب دی تھی اور سلیم رضا نے اسے اپنی پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔ اسی گلوکار کی آواز میں‌ یہ نعت آج بھی سنی جاتی ہے۔

    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ یثرب کے والی
    سارے نبی تیرے در کے سوالی

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے بہت شامل ہیں۔

    سلیم رضا اپنی شہرت اور مقبولیت کے زمانے ہی میں دیارِ غیر میں جا بسے تھے اور وہیں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔