Tag: گلوکار طلعت محمود

  • طلعت محمود اور جہاں آرا کجن

    طلعت محمود اور جہاں آرا کجن

    طلعت محمود کے والد ماجد کپتان منظور محمود ایک زمانے میں ریاست رامپور (اترپردیش) میں اے۔ ڈی۔ سی کے عہدے پر فائز تھے۔ منظور صاحب عمر میں مجھے سے بہت بڑے تھے لیکن ان کے اہلِ خاندان اور میرے بزرگوں کے دیرینہ مراسم تھے۔ اسی سلسلے سے میرا ان سے تعارف ہوا اور مخلصانہ روابط قائم ہو گئے۔

    پھر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ چلا گیا اور وہ کچھ عرصہ بعد ملازمت چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے۔ ان سے دوبارہ ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں اسسٹنٹ پروگرام ڈائریکٹر بن کر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر متعین ہوا۔

    منظور صاحب اس زمانے میں لکھنؤ میں بجلی کے سامان کی تجارت کرتے تھے اور نظیر آباد بازار میں ان کا شوروم تھا۔ اکثر شام کو ان کے شوروم میں میری ان کے ساتھ نشستیں ہونے لگیں۔ منظور صاحب بہت خوش گلو تھے اور ان کو موسیقی سے خاص شغف تھا۔ میں نے اکثر منظور صاحب کی نظم خوانی اور خصوصاً اقبال کی ‘شکوہ’ اور ‘جواب شکوہ’ ان کی آواز میں لکھنؤ ریڈیو سے نشر کرائیں۔

    عزیزی طلعت اس زمانے میں اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ منظور صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے ذکر کیا کہ: "طلعت کو موسیقی کا بہت شوق ہے۔ میں نے سنا ہے کہ دوستوں میں گایا کرتا ہے۔” میں نے کہا کہ "یہ تو اس کا موروثی شوق ہے۔ مناسب ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ میٹرک سے فراغت پا لے تو اسے میریس میوزک کالج میں داخل کرا دیں۔”

    آخرکار طلعت نے میٹرک پاس کر لیا اور میریس میوزک کالج میں داخلہ لے کر فنِ موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ اس کالج کے پرنسپل پنڈت ٹھاکر اور وائس پرنسپل بڑے آغا تھے۔ یہ دونوں صاحبان لکھنؤ ریڈیو سے کلاسیکی میوزک کے پروگرام باقاعدگی سے نشر کیا کرتے تھے۔ مجھ سے اچھے مراسم تھے۔ میں نے دونوں صاحبان سے کہہ دیا کہ طلعت محمود کا خاص خیال رکھیں۔

    کچھ عرصہ بعد میں نے منظور صاحب سے کہا کہ طلعت کو اب ریڈیو سے پروگرام نشر کرنا چاہیے، کیونکہ میں نے اس کے اساتذہ سے اس کی خوش آوازی اور رسیلے پن کی تعریف سنی ہے۔ میری بات سن کر منظور صاحب کو اطمینان ہو گیا۔

    اس زمانے میں میرے ایک ساتھی پروگرام اسسٹنٹ نرمل کمار بھٹاچاریہ موسیقی کے پروگراموں کے انچارج تھے۔ میں نے ان سے طلعت محمود کا آڈیشن لینے کو کہا۔ آڈیشن کامیاب ہوا اور طلعت کے باقاعدہ پروگرام کا آغاز ہو گیا۔ ایک دو پروگراموں کے بعد ہی طلعت کی پرسوز اور طلسمی آواز نے سامعین کو مسحور کر دیا۔

    کچھ عرصہ بعد میں ڈائریکٹر آف پروگرام کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ شوکت تھانوی (مرحوم) شروع سے لکھنؤ ریڈیو پر بہ حیثیت مصنف مستقلاً موجود تھے۔ ان کے دم سے بڑی رونق رہتی تھی۔ ان دنوں ہم اردو کی قدیم مشہور مثنویوں پر مبنی ریڈیو اوپیرا نشر کیا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں، میں نے مشہور مثنوی "زہر عشق” پر مبنی ریڈیو اوپیرا ترتیب دیا۔ اس میں ہیرو (قمر) کا کردار طلعت محمود نے اور ہیروئن (مہ جبیں) کا کردار جہاں آرا کجن نے ادا کیا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب ابتدائی ریہرسل ہونے لگی تو کجن جیسی معروف اسٹار اور گلوکار کے بالمقابل اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عزیزی طلعت محمود کی پیشانی پر، موسمِ سرما ہونے کے باوجود پسینہ آ گیا تھا۔ دراصل یہ ان کی طبعی شرافت اور شرم و حیا کے باعث تھا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اس پر قابو پایا۔

    "زہرِ عشق” کی ملک گیر مقبولیت میں کجن اور طلعت دونوں کا مرتبہ برابر تھا۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی جیسے متبحر عالم اور مستند ادیب نے خاص طور پر تعریفی خط لکھ کر داد دی تھی۔

    چند ماہ بعد ہم نے حضرت جگر مرادآبادی سے ایک نئی مثنوی "دردانہ” لکھوائی۔ اس کا پلاٹ خود ہم نے تجویز کیا تھا۔ اور اس مثنوی پر مبنی ریڈیو اوپیرا شوکت تھانوی اور میں نے ترتیب دیا۔ یہ اوپیرا میرے ایک ساتھی سید انصار ناصری دہلوی کی زیر ہدایت نشر ہوا، جس کے ہیرو اور ہیروئن بھی طلعت محمود اور جہاں آرا کجن تھے۔

    اس دوران میں نے منظور محمود صاحب کو رائے دی کہ عزیزی طلعت کو بمبئی جانے کی اجازت دے دیجیے۔ اس کی فطری صلاحیتوں کے لیے ریڈیو کا میدان تنگ ہے۔ منظور صاحب کو پھر اندیشہ ہوا کہ فلمی دنیا کا ماحول اس کے چال چلن پر اثرانداز نہ ہو۔ میں نے نہایت وثوق سے منظور صاحب کو طلعت محمود کی فطری نیک سیرتی کا یقین دلا کر مطمئن کر دیا۔

    بالآخر طلعت محمود بمبئی جا کر فلمی دنیا کے آسمان پر چمکے اور خوب چمکے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، مؤرخ، نقّاد اور براڈ کاسٹر عشرت رحمانی کے خط سے اقتباس، بولی وڈ کے مشہور گلوکار اور اداکار طلعت محمود سے متعلق یہ تحریر مقبول ترین فلمی رسالے ‘شمع’ میں 1981ء میں شائع ہوئی تھی)

  • طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود نے ابتدا میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ لکھنؤ میں ریڈیو جیسے اُس زمانے کے مقبول میڈیم کو بنایا اور سامعین میں مقبول ہونے لگے، لیکن پھر اپنے فن کے قدر دانوں اور خیر خواہوں کے مشورے پر بمبئی کی فلم نگری میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ طلعت محمود بمبئی کی فلمی دنیا کے آسمان پر بطور گلوکار چمکے اور خوب چمکے۔

    طلعت محمود کو ہندی سنیما کے لیے گلوکاری کے ساتھ درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع بھی ملا، لیکن اس میدان میں وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ البتہ ساز و آواز کی دنیا میں‌ طلعت محمود کو وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کا مقدر بنی ہے۔ آج بھی ان کے گائے ہوئے فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بالی وڈ کی فلموں کے لیے کئی گیتوں کو اپنی آواز میں امر کر دینے والے طلعت محمود کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    لکھنؤ طلعت محمود کا شہر تھا جہاں انھوں نے 24 فروری 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی اپنے والد کا اثر لیا اور چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر ان کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ان کے فنی سفر کا آغاز تھا اور 1944 میں جب انھیں ایک غیر فلمی گیت گانے کا موقع ملا جس کے بول تھے، ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گیت ان کی وجہِ شہرت بن جائے گا۔ طلعت محمود کو ہندوستان بھر میں اس گیت کی بدولت شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ ہندوستان کے ایک ایسے مسلمان خاندان کے فرد تھے جس میں فلمیں اور اس کے لیے گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا تھا، سو طلعت محمود کو بھی ابتدا میں اپنے گھر اور خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے کسی طرح گھر والوں کو رضامند کرلیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ طلعت محمود شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن وہ اس میدان میں کام یاب نہ ہوسکے۔ فلم لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان اداکاراؤں میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    بھارتی فلم انڈسٹری میں بہ طور گلوکار اُن کی پہچان بننے والا نغمہ فلم آرزو کا ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ تھا۔ ایک اور کام یاب فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے: جیسے شامِ غم کی قسم یا حسن والوں کو، اور یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    طلعت محمود نے اکثر المیہ گانے گائے ہیں، اور اسی لیے ان کو دکھ اور کرب کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ گلوکار طلعت محمود کو بھارت میں فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔