Tag: گلوکار

  • ٹیپ ریکارڈر نے اصلیت ظاہر کردی، گریمی ایوارڈ یافتہ گلوکار جعلی نکلے!

    ٹیپ ریکارڈر نے اصلیت ظاہر کردی، گریمی ایوارڈ یافتہ گلوکار جعلی نکلے!

    1980 میں پاپ میوزک کے شائقین کے سامنے ملی وینلی سے متعارف ہوئے۔

    یہ جرمنی کے دو آرٹسٹوں Rob Pilatus اور Fab Morvan کا میوزیکل بینڈ تھا۔ قسمت کی دیوی ان پر ایسی مہربان ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ انھوں نے اس زمانے میں صرف پاپ میوزک کے شیدا نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ موسیقی اور گائیکی کے اہم ناقدین کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
    1988 میں جب گریمی ایوارڈ کا مرحلہ آیا تو نئے آرٹسٹ کے زمرے میں اس میوزک بینڈ کو بھی شامل کیا گیا اور یہ گریمی ایوارڈ لے اڑا۔ یہ ان دونوں آرٹسٹوں کی بڑی اور اہم کام یابی تھی۔ یوں ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور مداحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

    یہ دونوں جب اسٹیج پر آتے تو پرستاروں کی جانب سے داد و تحسین کا وہ شور اٹھتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ یہ آرٹسٹ شائقین کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے تھک جاتے اور بڑی مشکل سے ان کی واپسی ہوتی۔

    ایک روز عجیب بات ہوئی۔ یہ شہرت، مقبولیت، عزت اور مقام سب برباد ہو گیا!

    ہوا کچھ یوں کہ انگلینڈ کے ایک لائیو شو میں یہ دونوں آرٹسٹ اسٹیج پر نہایت پُرجوش انداز میں اپنا آئٹم پرفارم کررہے۔ حاضرین کا جوش بھی دیدنی تھا، مگر اچانک ہی ٹیپ ریکارڈ نے ان نام نہاد پاپ سنگرز کا ساتھ چھوڑ دیا۔ آڈیو ٹیپ پھنس گئی تھی جب کہ وہ لائیو شو تھا!

    اس روز شائقین جب کی سماعتوں سے گیت کا ایک ہی بول بار بار ٹکرایا تو معلوم ہوا کہ ان کے پسندیدہ آرٹسٹ فقط اپنے ہونٹوں کو جنبش دے رہے تھے اور یقیناً کہیں کوئی ٹیپ چل رہا تھا۔ ریکارڈر میں موجود ٹیپ، گیت کے اسی بول Girl, you know it’s true پر اٹکا ہوا تھا۔ ان دونوں پاپ سنگرز نے حالات کی نزاکت کو بھانپ کر وہاں سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا اور اسٹیج سے اتر کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔

    بعد میں اس واقعے کا خوب چرچا ہوا اور اخبارات کے مطابق دونوں نوجوان شائقین کو دھوکا دیتے رہے اور اپنے ٹیپ ریکارڈز کی بدولت خوب دولت کمائی۔ وہ نہایت چالاکی اور مہارت سے کسی مقامی گلوکار کی آواز پر صرف پرفارمنس دیتے تھے۔ اگر اس روز آڈیو ٹیپ نہ پھنستی تو یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہتا۔ بعد میں ان دونوں کے خلاف دھوکا دہی اور جعل سازی کا مقدمہ درج کیا گیا۔

  • برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع دیے جانے کے باوجود طلعت محمود شائقین کو متأثر نہ کرسکے.

    انھوں‌ نے فلم سازوں کو بھی مایوس کیا، مگر اس میدان میں نامراد اور ناکام طلعت محمود آج بھی سُر اور آواز کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ گلوکار کی حیثیت سے مشہور طلعت محمود کو اس وقت کے نام ور فلم ساز اے آر کاردان نے اداکاری کے میدان میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا۔

    برصغیر میں پسِ پردہ گائیکی کے حوالے سے طلعت محمود کا نام شہرت کی بلندیوں پر تھا جب انھوں نے فلم راج لکشمی سائن کی۔ یہ 1945 کی بات ہے۔ وہ بڑے پردے پر ہیرو کے روپ میں نظر آئے۔ اس وقت ممبئی کی فلم نگری میں طلعت محمود کے اس فیصلے کا تو بہت شور ہوا، لیکن بڑے پردے پر اداکار کے روپ میں انہیں پزیرائی نہ ملی۔ پہلی فلم کی ناکامی کے باوجود طلعت محمود کو بڑے بینر تلے مزید فلموں میں رول دیے گئے، لیکن ہر بار ناکامی ان کا مقدر بنی۔

    لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    فلم نگری بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انہوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

    طلعت محمود کے والد آل انڈیا ریڈیو پر نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ لکھنؤ کے طلعت کو بچپن ہی سے گانے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کے بڑے ناموں اور گائیکوں نے ان کے کمال فن کا اعتراف کیا۔

    1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔ بعد میں گلوکاری کے میدان میں کام یابیاں ان کا مقدر بنتی چلی گئیں۔ تاہم اداکاری کے میدان میں بری طرح ناکام رہے۔

  • گلوکار عاصم اظہر پر کنسرٹ کے دوران جوتا اچھال دیا گیا

    گلوکار عاصم اظہر پر کنسرٹ کے دوران جوتا اچھال دیا گیا

    معروف گلوکار عاصم اظہر پر کنسرٹ کے دوران جوتا اچھال دیا گیا، ملک بھر میں ان کے مداحوں نے اس حرکت پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔

    گلوکاری کے شعبے میں بہت جلد اپنا مقام بنانے اور مقبولیت حاصل کرنے والے گلوکار عاصم اظہر پر ان کے کنسرٹ کے دوران ہجوم میں سے کسی نے جوتا اچھال دیا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عاصم اظہر اسٹیج پر پرفارم کر رہے ہیں کہ اچانک تماشائیوں کی طرف سے ان پر جوتا پھینکا گیا، جوتا عاصم کو نہ لگ سکا۔

    واقعے کے باوجود عاصم پرفارم کرتے رہے اور انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

    سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے اس حرکت پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا، عاصم کے مداحوں سمیت دیگر افراد نے بھی اس حرکت کو سخت شرمناک قرار دیا۔

  • سلیم رضا اور مشہور  نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    سلیم رضا اور مشہور نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    پاکستان میں گائیکی کے افق کا وہ ستارہ جو آج سے 36 برس پہلے ڈوب گیا تھا، وہ دل رُبا آواز جو ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی تھی، اسے مداح، فلم انڈسٹری اور سُر و ساز کی دنیا میں آج برسی کے موقع پر پھر یاد کیا جارہا ہے۔ یہ سلیم رضا کا تذکرہ ہے۔ اس پسِ پردہ گائیک کی آڈیو اور ویڈیو ٹیپ میں محفوظ وہ مرھر آواز ہمارے ذہنوں میں آج پھر تازہ ہو گئی ہے۔

    50 اور 60 کی دہائی میں سلیم رضا کا نام شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہا تھا۔ یہ گیت آپ کی یادوں میں آج بھی ضرور محفوظ ہوں گے۔

    اے دل کسی کی یاد میں، ہوتا ہے بے قرار کیوں۔۔
    جانِ بہاراں رشکِ چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن
    کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا

    سلیم رضا نے 4 مارچ، 1932 کو امرتسر کے ایک مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوا تو لاہور کو سکونت کے لیے منتخب کیا جہاں سلیم رضا نے ریڈیو پاکستان سے گائیکی کے سفر کا آغاز کیا اور پھر فلم انڈسٹری تک چلے آئے۔ ان کی گائیکی اور رومانٹک گیتوں کا ذکر تو بہت ہوتا ہے، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اسی گلوکار کی آواز میں ایک حمد اور نعت بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ خوب صورت حمدیہ شاعری دیکھیے۔

    کر ساری خطائیں معاف میری تیرے در پہ میں آن گرا
    تُو سارے جہاں کا مالک ہے میرا کون ہے تیرے سوا

    اس حمد کے خالق مشہور شاعر قتیل شفائی ہیں۔ اس کی طرز تصدق حسین نے ترتیب دی تھی جب کہ سلیم رضا نے اسے اپنی پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔

    اردو زبان کے نام ور گیت نگار تنویر نقوی کی یہ نعت کس نے نہیں سنی ہو گی اور کون ہے جس کے لبوں نے ان اشعار کے ذریعے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار نہ کیا ہو؟

    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ یثرب کے والی
    سارے نبی تیرے در کے سوالی
    جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
    آباد عالم تیرے کرم سے
    باقی ہر اک شے، نقشِ خیالی
    تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
    نیلے فلک کی چادر تنی ہے
    تُو اگر نہ ہوتا، دنیا تھی خالی
    سارے نبی تیرے دَر کے سوالی
    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ۔۔۔۔۔

    اس نعتیہ کلام کو دَف کی تال پر موسیقار حسن لطیف نے کمپوز کیا تھا اور سلیم رضا و ہم نوا نے ریکارڈ کرایا تھا۔

  • علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف بیان قلم بند کروادیا

    علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف بیان قلم بند کروادیا

    لاہور: فلم اسٹاراورگلوکارعلی ظفر نے گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزامات عائد کرنے کے جواب میں دائر کردہ ہتک عزت کے دعوے میں عدالت کو بیان قلم بند کرادیا۔

    تفصیلات کے مطابق گلوکارعلی ظفر کی جانب سے دائر کردہ ہتک عزت کے دعوے کی سماعت لاہورکے ایڈیشنل سیشن جج امجد علی شاہ نے کی ۔ علی ظفرنے اپنا بیان رقم کراتے ہوئے خود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے میشاشفیع کے دعوے کو کردار کشی قرار دے دیا۔

     علی ظفرنے اپنے بیان میں خود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہا  کہ انہوں نے کبھی میشا شفیع کو ہراساں نہیں کیا۔ ان کا کہناتھا کہ منظم سازش کے تحت میشا شفیع مجھے دھمکاتی رہی ہیں۔

    انہوں نے کہابالی وڈ کی سات فلموں میں لیڈنگ کردار ادا کیا، ان فلموں میں تیرے بن لادن، میرے برادر کی دلہن بھی شامل ہیں،کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کئے، میں ایشیاء کے خوبصورت ترین  مرد ہونے کا بھی ایوارڈ حاصل کرچکا ہوں۔

    علی ظفرنے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ایک منظم سازش کے تحت میری کردار کشی کی گئی، تانے بانے کا براہ راست تعلق میشاء سے ہے،مہم کےلئے سوشل میڈیا اکاونٹس کواستعمال کیا گیا، میشاء نے دھمکی آمیزپیغام بھجوایا، اورکہا کہ ریکارڈنگ نہ چھوڑی تومیرے خلاف مہم چلائے گی۔

     علی ظفرنے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ  میشاء کو ہراساں نہیں کیا،انہوں نے اپنی کردار کشی اور ملنے والی دھمکی کے ثبوت عدالت میں پیش کئے،ان ثبوتوں میں میسجز، معاہدے، تصاویر اورسوشل میڈیا پوسٹیں بھی شامل ہیں ۔

    عدالت نے  علی ظفر کا بیان قلم بند کرنے کے بعد گلوکار کی جانب سے دائر کردہ ہتک عزت کے دعوے کی مزید سماعت 3 جولائی تک ملتوی کردی ۔

     سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے علی ظفر نے کہا  کہ تمام ثبوت عدالت میں پیش کردئیے ہیں، معاملہ اب عدالت میں زیرالتواء ہے اس لیے زیادہ بات نہیں کر سکتا۔

    خیال رہے کہ میشا شفیع نے علی ظفر پرہراساں کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے عدالت میں درخواست دائرکی تھی تاہم ان کی درخواستیں مسترد کردی گئیں، جس کے بعد علی ظفر نے میشا شفیع پر 100 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ہے۔

     کچھ عرصہ قبل اے آروائی نیوز کے مارننگ شو میں بات کرتے اس واقعے کے عینی شاہدین نے جیمنگ کے دوران میشا کو  ہراساں کرنے کے الزامات کو رد کیا تھا۔

    پروگرام “باخبر سویرا” میں میوزک پروڈیوسر اسد علی کا کہنا تھا کہ علی ظفر اور میشا کو میں بہت قریب سے جانتا ہوں، جیمنگ سیشن پر دونوں بہت خوش تھے، میشا کےالزامات میں صداقت نہیں ہے۔

  • شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 7 برس بیت گئے

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 7 برس بیت گئے

    کراچی: شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کو بچھڑے 7 برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، ان کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔

    سانسوں کو سروں میں ڈھال دینے کے ماہرمہدی حسن پچیس ہزار سے زائد فلمی وغیر فلمی گیت اور غزلیں گائیں، حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو ان کی خدمات کے اعتراف تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

    انیس سو نواسی میں مہدی حسن کو بھارتی حکومت نے اپنا بڑا ایوارڈ ”کے ایل سہگل“ سے بھی نوازا، مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ اس وقت سے لے کراپنی وفات تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی ،غیر فلمی گیت اور غزلیں پاکستان میں فنِ گائیکی کی نذر کی ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن چکے تھے۔

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

  • جسٹن بیبر کا ٹام کروز کو فائٹ کا چیلنج

    جسٹن بیبر کا ٹام کروز کو فائٹ کا چیلنج

    اپنی فلموں میں ایکشن اسٹنٹ کرنے کے لیے مشہور ٹام کروز کبھی محو پرواز جہاز سے لٹکتے دکھائی دیتے ہیں، تو کبھی دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ سے چھلانگ لگائی دیتے ہیں، اب ایسے دلیر انسان کو لڑنے کا چیلنج کون دے سکتا ہے؟

    تاہم یہ چیلنج کینیڈین گلوکار جسٹن بیبر نے انہیں دیا ہے، کینیڈا سے تعلق رکھنے والے نوجوان گلوکار جسٹن بیبر نے 56 سالہ ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز کو ایم ایم اے فائٹ کا چیلنج دے دیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے جسٹن بیبر نے کہا کہ میں ٹام کروز کو اوکٹا گون میں فائٹ کا چیلنج کرنا چاہتا ہوں، ٹام اگر تم یہ چیلنج قبول نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے تم خوفزدہ ہو اور اس پر کبھی قابو نہیں پاسکو گے۔

    جسٹن بیبر نے ایم ایم اے کی سب سے بڑی تنظیم یو ایف سی کے مالک ڈانا وائٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ اس مقابلے پر کون کون پیسے لگانا چاہتا ہے؟

    جسٹن بیبر کی جانب سے ٹام کروز کو کیے جانے والے چیلنج کے باعث پوری دنیا میں دونوں کے مداح حیرانی میں مبتلا ہیں اور سب کی زبان پر یہی سوال ہے کہ آخر 25 سالہ جسٹن بیبر نے 56 سالہ ٹام کروز کو فائٹ کا چیلنج کیوں دیا۔

    تاحال ٹام کروز کی جانب سے بیبر کے اس ٹویٹ کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

  • گول گپے والا آیا گول گپے لایا

    گول گپے والا آیا گول گپے لایا

    ماضی کے منفرد ومقبول ترین گلوکار احمد رشدی کی36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔احمد رشدی کو دنیا سے گزرے ساڑھے تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

    منفرد آواز کے مالک احمد رشدی نے تین دہائیوں تک فلمی نگری پرراج کیا۔ انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔

    معروف گلوکار احمد رشدی عمدہ اور دلکش نغمات کی بدولت تین دہائیوں تک فلمی صنعت پر چھائے رہے ، شوخ وچنچل اور مزاحیہ گانوں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں انہیں پہلی بارانگریز ی گیت گانے کابھی اعزاز حاصل ہے۔

    احمد رشدی نے اپنے فنی کیریئر کا اغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا، معروف گانے ،بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    احمد رشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا احمدرشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔

    انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم “عبرت”(1951) کے لئے گایا. پھر پاکستان آ کر 1954 میں “بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے. اس کے بعد رشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا. بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے۔

    احمد رشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی۔رشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئیڈل تھے اور کشورکمار نے انگلستان میں رشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرزایجاد کی۔ یہ البیلا گلوکار ہر کردار میں اپنی آواز کا جادو بھر دیتا تھا۔

    چاکلیٹی ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔ ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد بھی احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکا ہے۔

    احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے۔پاکستان کے صد‏‏ر پرویز مشرف کی حکومت نے ان کے انتقال کے بیس سال بعد رُشدی کو ستاره ا متيا ز کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طورپرآیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ بے شمار گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔

    انہوں نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا۔ رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسے لئے موسیقاروں کے لئے گیت گائے۔ وہ بہت شریف النفس انسان تھے. احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔

    احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

    آپ کی تدفین کراچی میں ہی کی گئی۔احمد رشدی کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو کہ اس دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی اپنے فن کے سبب عوام میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔

  • معروف مبلغ جنید جمشید کے مداح ان کی 54ویں سالگرہ پراداس ہیں

    معروف مبلغ جنید جمشید کے مداح ان کی 54ویں سالگرہ پراداس ہیں

    معروف مبلغ جنید جمشید کی آج 54 ویں سالگرہ ہے ،وہ 3 ستمبر 1964 کو کراچی میں  میں پیدا ہوئے تھے اور سنہ 2016 میں ایک فضائی حادثے کے نتیجے میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    اوائل جوانی میں والد کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے جنید جمشید ائیر فورس کا حصہ بنے تاہم نظر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ اپنی خواہش ایف 16 کی اڑان نہ بھر سکے اور فضائیہ کو خیر باد کہا ،بعد ازاں لاہور کی یونیورسٹی آف انجیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ حاصل کر کے تعلیم کو جاری رکھا اور بیچلرز کی ڈگری حاصل کی اور پاک فضائیہ میں بطور کنٹریکٹ اپنی سروس کا آغاز کیا۔

    دورانِ طالب علمی میوزک سے لگاؤ ہونے کے بعد دوست احباب کے ساتھ مل کر ایک بینڈ تشکیل دیا ، جس نے 1983 میں پشاور اور پھر اسلام آباد یونیورسٹی میں اپنی فن کا مظاہرہ کیا، بعد ازاں وائٹل سائن نامی اس بینڈ نے دنیا بھر میں نام روشن کیا اور ’دل دل پاکستان ‘جیسے مشہور نغمے تخلیق کیے۔

    اس نغمے کی بدولت جنید جمشید موسیقی کی دنیا پر ایسے چھائے کہ اگلی پوری دھائی میں ان کو کوئی جوڑ پیدا نہ ہوسکا لیکن پھر اچانک ہی جنید جمشید کی طبیعت میں تبدیلی آئی اور وہ کلین شیو اور مغربی طرز کے جدید کپڑوں میں نظر آنے والے گلوگار و موسیقار لمبی سی داڑھی کے ساتھ ٹیلی ویژن پر نعتیہ کلام اور حمد و ثناء کرتے نظر آئے۔

    جنید جمشید
    گلوکار سے مبلغ جنید جمشید کا سفر

    اچانک تبدیلی پر جنید جمشید نے متعدد بار گفتگو کرتے ہوئے واقعے کا ذکر کیا کرتے تھے کہ گھر سے میوزیکل شو میں جاتے وقت ڈیفنس کے علاقے میں کار کی ٹکر سے ایک کتا جاں بحق ہوگیا تھا ، اس واقعے پر انہوں نے اتر کر کتے کو سڑک سے ہٹایا اور قریب میں واقع خالی پلاٹ پر دفنایا اور اللہ کو گواہ بنایا۔ بس اسی لمحے انہوں نے زندگی تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

    سن 2002 میں تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد جنید جمشید نے اپنے معاشی حالات کے باعث میوزیکل شوز جاری رکھے تاہم 2004 میں موسیقی کی دنیا کو مکمل خیر باد کہہ دیا ۔ آئندہ برس یعنی سنہ 2005 میں جنید جمشید نے نعتوں اور حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا البم ’جلوہ جاناں‘ ریلیز کیا۔

    بعد ازاں’محبوب یزداں‘ 2006 میں اور ’بدر الدجا‘2008 میں اور’بدیع الزماں‘2009 میں ریلیز کیا۔ اس دوران جنید جمشید نے اپنا بزنس بھی شروع کیا جس کی شاخیں آج ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ایک اعلیٰ پہچان رکھتی ہیں۔ آج اُن کی پہچان ٹی وی اسکرین پر ”مذہبی دانشور“کی حیثیت سے ہے انہوں نے ایک نئی دنیا سے خود کو روشناس کروایا اور اُسی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    معروف مبلغ نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں تبلیغ کا کام بہت زور وشور سے کیا، اس دوران اُن کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ امت کو جوڑا جائے اور انتشار سے بچایا جائے، وہ تین سال اے آر وائی پر ہونے والی خصوصی رمضان ٹرانسمیشن سمیت دیگر مذہبی پروگراموں کا حصہ رہے۔

    کراچی کے رہائشی جنید جمشید اُس بد قسمت پرواز پی کے 661 میں سوار تھے جو چترال سے اسلام آباد واپس آتے ہوئے ایبٹ آباد کے مقام پر 7 دسمبر 2016 کو گر کر تباہ ہوگئی تھی ، اس حادثے میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں، جنید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی آخری یادگار تصاویر پوسٹ کی جن میں انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنے دوستوں کے ہمراہ جنت میں ہوں اور دین کا کام کررہا ہوں‘‘۔

    جنید جمشید کی موسیقی کے مداح ہوں ، یا ان کی نعتوں کے ، ان کی کمپئرینگ کے دیوانے ہوں یا ان کے برانڈ کے ، آج ہر آنکھ اس ہر دل عزیز کے لیے اشکبار ہے جو شروع سے یقین رکھتے تھے کہ ہم اس راستے پر کیوں چلیں جس کو ہر کوئی اختیار کرتا ہے۔

  • گلوکارعاطف اسلم کو جشن آزادی پریڈ میں بھارتی گانا سنانا مہنگا پڑ گیا

    گلوکارعاطف اسلم کو جشن آزادی پریڈ میں بھارتی گانا سنانا مہنگا پڑ گیا

    نیویارک: معروف گلوکار عاطف اسلم کو جشن آزادی پریڈ میں بھارتی فلم کا گانا سنانا مہنگا پڑ گیا، شرکاء ناراض ہوکر گلوکار کا کنسرٹ چھوڑ کر چلے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق گلوکار عاطف اسلم نے نیویارک میں منعقدہ جشن آزادی پریڈ میں بھارتی فلم کا مشہور گانا سنا ڈالا، عاطف اسلم کی جانب سے بھارتی گانا گانے پر پاکستانی کمیونٹی سراپا احتجاج ہوگئی، شرکاء نے ناراض ہوکر گلوکار کا کنسرٹ کا بائیکاٹ کردیا۔

    پاکستانی کمیونٹی نے مطالبہ کیا کہ گلوکار عاطف اسلم کا بائیکاٹ کیا جائے، گلوکار کو سوشل میڈیا پر بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا، بھارتی گانا گنگنانے واالے عاطف اسلم نے پریڈ میں قومی پرچم تھامنے سے بھی انکار کردیا۔

    گلوکار محمد علی شہکی نے کہا کہ جشن آزادی پریڈ میں بھارتی گانا گانا مناسب نہیں ہے، مجھ سے کوئی بھارتی گانے کی فرمائش کرتا تو منع کردیتا۔

    ندیم جعفری نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جشن آزادی پریڈ میں بھارتی گانا نہیں گانا چاہئے تھا، عاطف اسلم کے 90 فیصد گانے ہی بھارت میں ریلیز ہوئے ہیں۔

    گلوکار ابرار الحق نے کہا کہ عاطف اسلم کو خیال کرنا چاہئے تھا، غلطی درگزر کردیں، جشن آزادی پریڈ میں عاطف اسلم کو بھارتی گانا نہیں گانا چاہئے تھا، امید کرتا ہوں گلوکار آئندہ اس چیز کا خیال رکھیں گے۔

    واضح رہے کہ نیویارک میں جشن آزادی پریڈ کے موقع پر بھارتی فلم کا مشہور گانا ’تیرا ہونے لگا ہوں‘ گایا تھا جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔