Tag: گلٹی دار طاعون

  • کیا ڈبلیو ایچ او نے طاعون کی خطرناک وبا کی وارننگ جاری کی؟

    کیا ڈبلیو ایچ او نے طاعون کی خطرناک وبا کی وارننگ جاری کی؟

    ایسی متعدد پوسٹس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر ہزاروں مرتبہ شیئر ہوئیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کہا ہے کہ چین میں جولائی 2020 کے آغاز میں گلٹی دار طاعون (bubonic plague) کا ایک کیس سامنے آیا ہے جس سے وبا پھیل سکتی ہے۔

    ان پوسٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ امریکی ادارے سی ڈی سی نے کہا ہے کہ گلٹی دار طاعون کھانسنے سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم یہ دعوے درست نہیں ہیں، عالمی ادارہ صحت کہہ چکا ہے کہ گلٹی دار طاعون کا مذکورہ کیس کسی بڑے خطرے کی نشانی نہیں ہے اور معاملہ اچھی طرح سے نمٹایا جا چکا ہے۔ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے بھی کہا ہے کہ گلٹی دار طاعون عموماً پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

    مذکورہ دعوے فیس بک پر 7 جولائی 2020 کو ایک پوسٹ میں سامنے آئے تھے، جسے 1700 سے زائد بار شیئر کیا گیا، پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ جو معلومات دی جا رہی ہیں وہ بالکل درست ہیں اور ڈبلیو ایچ او اور سی ڈی سی کی جانب سے ہیں، پوسٹ میں جو تصویر شامل کی گئی وہ ایک مومی مجسمے کی ہے جس میں ایک گلٹی دار طاعون کے مریض کو دکھایا گیا ہے۔

    یہ گمراہ کن دعویٰ چین کے خود مختار اندرونی علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کا ایک کیس سامنے آنے کے ایک دن بعد پھیلا۔

    اس پوسٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ کیا گلٹی دار طاعون واپس آ گیا ہے، جو ایک نہایت ہی خطرناک اور مہلک بیماری اور چین میں اس کا ایک مصدقہ کیس سامنے آ گیا ہے۔ اگر اس کے لیے جدید اینٹی بایوٹکس دی جائیں تو اس سے پیچیدگیاں اور موت بھی ہو سکتی ہے۔

    منگولیا میں طاعون کا مصدقہ کیس، حکام نے الرٹ جاری کردیا

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ گلٹی دار طاعون ایک بہت عام طاعون ہے اور یہ متاثرہ پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے، اس میں جسم پر گلٹیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ 7 جولائی کو عالمی ادارہ صحت کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے بیان دیا کہ ہم چین میں گلٹی دار طاعون کے کیسز کی تعداد پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں، فی الوقت وبا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگرچہ تاریخ میں اس طاعون نے بڑی وبائیں برپا کیں، جن میں بلیک ڈیتھ بھی شامل ہے جس نے چودھویں صدی کے دوران 50 ملین افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، تاہم آج اس کا علاج اینٹی بایوٹکس اور دیگر حفاظتی تدابیر سے آسانی سے ہو سکتا ہے۔

    کھانسی کے ذریعے گلٹی دار طاعون کے پھیلاؤ کا دعویٰ بھی بالکل گمراہ کن ہے، پوسٹ میں دعویٰ تھا کہ یہ ایک ایئر بورن وبا ہے اور متاثرہ آدمی کھانستا ہے تو اس سے پھیل سکتا ہے، تاہم سچ یہ ہے کہ سی ڈی سی کے مطابق گلٹی دار طاعون عام طور سے پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

    نمونیا کا طاعون ایک اور قسم ہے اس بیماری کی، جو گلٹی دار طاعون کا علاج نہ ہونے سے ہو سکتا ہے، سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ واحد طاعون ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔

  • منگولیا میں طاعون کا مصدقہ کیس، حکام نے الرٹ جاری کردیا

    منگولیا میں طاعون کا مصدقہ کیس، حکام نے الرٹ جاری کردیا

    چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں طاعون کے کیس کی تصدیق ہونے کے بعد ہر طرف تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، حکام نے اس حوالے سے الرٹ جاری کردیا ہے۔

    سنہ 1346 سے 1353 تک یورپ کی ایک تہائی (5 کروڑ سے زائد افراد) آبادی کا صفایا کردینے والا گلٹی دار طاعون جسے سیاہ موت کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک بار پھر ظاہر ہوگیا ہے۔

    منگولیا میں اس کے ایک کیس کی تصدیق ہوگئی، بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بیانور شہر میں طاعون کی زد میں آنے والا مریض ایک چرواہا ہے جسے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تاہم مریض کی حالت مستحکم بتائی جاتی ہے۔

    ابھی تک علم نہیں ہوسکا کہ وہ اس مرض کا شکار کیسے ہوا۔

    مذکورہ کیس سامنے آنے کے بعد حکام نے لیول 3 کا الرٹ جاری کردیا ہے، اس الرٹ کے تحت ان جانوروں کے شکار اور کھانے پر پابندی ہے جن سے طاعون پھیلنے کا خطرہ ہو۔

    یہ خطرناک مرض بیکٹیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کا علاج اینٹی بائیوٹک دواؤں سے کیا جاتا ہے۔

    ببونک طاعون میں مریض کے جسم پر گلٹی ہوتی ہے اور لمف نوڈز میں سوزش ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پر بیماری کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اس کی علامات 3 سے 7 دنوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں اور کسی بھی دوسرے فلو کی طرح ہوتی ہیں۔

    چوہے اور مارموٹ اس بیکٹیریا کی منتقلی کا آسان ترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

    ببونک طاعون کے کیسز اس سے قبل بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ سنہ 2017 میں مڈغاسکر میں طاعون کے 300 کیس سامنے آئے تھے۔

    گزشتہ سال مئی میں منگولیا میں ہی مارموٹ نامی جانور کھانے کے بعد 2 افراد اس مرض کا شکار ہو کر ہلاک ہوگئے۔

    اس سے قبل سنہ 1665 میں طاعون نے لندن کو اپنا نشانہ بنایا جس میں شہر کا ہر 5 میں سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔ سنہ 1900 سے 1904 کے دوران چین اور ہندوستان میں طاعون کی وبا سے 1 کروڑ 20 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے۔

    ادھر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ادارہ اس کیس کو مانیٹر کر رہا ہے تاہم اس کے وبائی صورت اختیار کرنے کا امکان نہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے مطابق چودہویں صدی کی صورتحال کے برعکس اب ہم جانتے ہیں کہ یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے۔ ہم اسے روکنا اور اس سے متاثر لوگوں کا علاج کرنا جانتے ہیں۔