Tag: گلیشیئرز

  • گلیشیئرز والے علاقوں میں گلیشیائی جھیلیں پھٹنے کے واقعات کا خطرہ بڑھ گیا

    گلیشیئرز والے علاقوں میں گلیشیائی جھیلیں پھٹنے کے واقعات کا خطرہ بڑھ گیا

    پشاور: خیبر پختونخوا کے گلیشیئرز والے علاقوں میں گلیشیائی جھیلیں پھٹنے کے واقعات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

    پی ڈی ایم اے کے مطابق چترال، دیر، سوات، کوہستان کی ضلعی انتظامیہ کو گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے بڑھتے خطرے کا الرٹ جاری کیا گیا ہے، اور ہدایت کی گئی ہے کہ عوام گلیشیئرز کے ممکنہ پھٹنے سے متعلق خبردار رہیں۔

    ضلعی انتظامیہ کو حساس مقامات کی نگرانی اور آبادی کے انخلا کی مشقیں یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے، پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ندی نالوں کے قریب غیر ضروری نقل و حرکت نہ کی جائے اور گاڑیاں بہتے پانی میں نہ لے جائیں۔

    ممکنہ متاثرہ علاقوں میں انخلا کے مقامات تیار کرنے اور ریسکیو سروسز الرٹ رکھی جائیں، سیاحوں کو محتاط رہنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، پی ڈی ایم اے نے سڑکوں کی بروقت بحالی کے لیے این ایچ اے، ایف ڈبلیو او، سی اینڈ ڈبلیو کو بھی الرٹ کر دیا ہے۔


    ملک بھر میں مون سون بارشوں کا تباہ کن اسپیل، چوبیس گھنٹوں میں مزید 17 افراد جاں بحق


    الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ ممکنہ خطرے کی صورت میں ہنگامی اقدامات یقینی بنائے، عوامی آگاہی مہم شروع کی جائے، اور نقصانات سے بچاؤ کے اقدامات سے آگاہ کیا جائے، نیز پی ڈی ایم اے کا ایمرجنسی آپریشن سینٹر مکمل فعال ہے اور عوام 1700 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ گلگت بلتستان میں بارشوں سے لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے، جس سے قراقرم ہائی وے تتہ پانی کے مقام پر بند ہو گئی ہے، ترجمان صوبائی حکومت فیض اللہ فراق کے مطابق کچھ مسافر گاڑیاں پھنس گئی ہیں، سڑک کی بحالی کا کام شروع کیا جا چکا ہے، اور بند شاہراہ جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہے۔

    پولیس نے خبردار کیا ہے کہ دیامر میں بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، مسافر حضرات سفر سے قبل راستے کی صورت حال معلوم کریں، کیوں کہ دیامر اور کوہستان کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے، حالیہ بارشوں اور سیلاب سے دیامر کے بالائی علاقوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، رابطہ سڑکیں متاثر اور عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔

  • پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع برفانی گلیشئرز نہ صرف قدرتی حسن کا شاہکار ہیں بلکہ ملک کے دریاؤں، زراعت، توانائی اور انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی وسیلۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات نے ان برفانی خزانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    پاکستان کے گلیشئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے

    آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلیشئرز کی پگھلنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو خشک، بنجر اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کے پاس 7200 سے زائد گلیشئرز موجود ہیں، جو دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی برفانی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ بیافو، بالتورو، سیاچن، پسو اور ہسپر جیسے گلیشئرز نہ صرف قدرتی عجوبے ہیں بلکہ پاکستان کے دریاؤں، خاص طور پر دریائے سندھ، کے پانی کی اصل بنیاد بھی ہیں۔

    پاکستان میں اس وقت اندازاً 7200 سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد گلیشئرز تیزی سے پگھلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مئی و جون 2025 میں گلگت اور ہنزہ میں غیر معمولی گرمی کی لہریں آئیں، جنہوں نے گلیشئرز کے غیر موسمی پگھلاؤ کو مزید بڑھا دیا۔

    2024–2025 کے دوران، اقوام متحدہ اور مقامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 33 سے زائد گلیشئرز ایسے زونز میں آ چکے ہیں جہاں گلشیل لیک آؤٹ فلیش فلڈز(GLOFs) کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 2024-25 کے دوران گلگت بلتستان اور چترال میں کم از کم 9 بڑے GLOF واقعات ریکارڈ ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں اب تک 12 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں گھروں کی تباہی، زرعی اراضی کا نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی شامل ہے، جب کہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور پاکستان میٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق 2025 تک پاکستان کے 80 فیصد گلیشئرز میں پگھلاؤ کے آثار واضح ہو چکے ہیں جب کہ بیافو، ست پارہ، چوغولنگما جیسے گلیشئرز کی برف میں سالانہ 1.2 میٹر تک کمی نوٹ کی گئی جب کہ کئی گلیشئرز اپنی سطح کا 20 تا 25 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، لکڑی جلانے اور صنعتوں سے اٹھنے والے ذرات گلیشئرز پر جمع ہو کر سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور برف کو تیز رفتاری سے پگھلاتے ہیں جب کہ شمالی علاقوں میں بے قابو ہوتی سیاحتی سرگرمیاں، پلاسٹک ویسٹ اور تعمیرات، ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔

    گلیشیئرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ وقتی طور پر تو ضرور پر بڑھے گا، لیکن آنے والی دہائیوں میں پاکستان میں شدید پانی کی قلت متوقع ہے۔ پاکستان کی زراعت، جو دریائے سندھ پر انحصار کرتی ہے، اس سے تباہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہائیڈرو پاور کا انحصار دریاؤں پر ہے، اور پانی کی کمی کی صورت میں بجلی کی شدید قلت اور لوڈشیڈنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے پیدا ہونے والے سیلاب دیہاتی علاقوں کو اجاڑ سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں سے ماحولیاتی پناہ گزین شہروں کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔

    GLOF-11 پروجیکٹ کے تحت وارننگ سسٹمز کی تنصیب، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 اور ایڈاپٹیشن پلانز جیسے اقدامات کے ذریعے جہاں گلیشیئر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران میں کمی لائی جا سکتی ہے وہیں مقامی کمیونٹیز میں آگاہی کی کمی، محدود تحقیق و ڈیٹا شیئرنگ، پائیدار سیاحت اور فضلہ مینجمنٹ کے فقدان کے چیلنجیز کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا۔

    گلیشیئر مانیٹرنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے ساتھ، شمالی علاقوں میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ مقامی افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے، قومی و صوبائی سطح پر ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے، صنعتی آلودگی اور سیاہ کاربن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

    پاکستان کے گلیشیئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو پانی، خوراک، توانائی اور انسانی زندگی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماحولیاتی جنگ اب برف کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے، اور اس میں خاموشی شکست کی علامت ہے۔

  • گلگت بلتستان میں ندی نالوں میں طغیانی کے واقعات کی وجہ سامنے آ گئی

    گلگت بلتستان میں ندی نالوں میں طغیانی کے واقعات کی وجہ سامنے آ گئی

    گلگت: گلگت بلتستان میں بڑھتے درجہ حرارت سے گلیشیئرز پگھلنے میں تیزی آ گئی ہے، جس کے باعث پہاڑی علاقے کے ندی نالوں میں طغیانی آ رہی ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 2800 سے زائد گلیشیائی جھیلوں کے مسکن گلگت بلتستان میں بدترین سیلابی صورت حال کا خدشہ ہے، کیوں کہ گلگت کے اوسط درجہ حرارت میں 0.5 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    آبی ریلوں میں اب تک کئی سڑکیں اور سرکاری و نجی املاک بہہ چکی ہیں، شیگر میں دریائے برالڈو میں آنے والے سیلاب نے زرعی زمینوں، درختوں اور گاؤں سے جوڑنے والی سڑک کو تباہ کر دیا۔

    ندی نالوں میں پانی کی سطح بلند ہونے سے مختلف سڑکوں، لنک روڈز، پھسو گوجال میں شاہراہ قراقرم، ہوٹلوں اور سرکاری عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، محکمہ موسمیات نے تیزی سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلگت کی برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے بھی خبردار کر دیا ہے۔

    جی بی کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کے مطابق گلگت بلتستان میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران اوسط درجہ حرارت میں کافی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں ہیٹ ویو اور گلیشیئرز پگھلنے میں تیزی آ گئی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک میں آبادی پر فوری کنٹرول کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آبادی بم پھٹ چکا ہے، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے ساتھ آبادی کو کنٹرول کرنا ہوگا کیوں کہ پاکستان میں آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

  • شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    جنوبی وسطی یورپ کے اہم پہاڑی سلسلے الپس کی بلندیوں پر ایک جھیل دریافت کی گئی ہے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    یہ جھیل برائن میسٹر نامی ایک کوہ پیما نے دریافت کی، جھیل الپس پہاڑی سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ بلانک پر دیکھی گئی اور یہ سطح سمندر سے 11 ہزار 100 فٹ بلند ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس جھیل کی تشکیل اس ہیٹ ویو کی وجہ سے ہوئی جس نے گزشتہ ماہ پورے یورپ کو بری طرح متاثر کیا۔ کوہ پیما میسٹر کا کہنا تھا کہ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ صرف 10 دن کی شدید گرمی نے برفانی پہاڑ کو پگھلا کر ایک جھیل تشکیل دے دی۔

    میسٹر کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے اس سے صرف 10 دن قبل ہی ایک اور کوہ پیما اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اس وقت یہ حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور یہاں کسی جھیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ صرف 10 دن میں یہاں ایک جھیل نمودار ہوگئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Time to sound the alarm… The problem here? These two pictures were taken only 10 days apart… It was taken earlier on June 28th, the second one was shared by Paul Todhunter. Only 10 days of extreme heat were enough to collapse, melt and form a lake at the base of the Dent du Géant and the Aiguilles Marbrées That I know, this is the first time anything like that as ever happened. Southern Europe and the Alps have been struck by a massive heatwave with temperature ranging from 40 to 50 degrees, the below 0 freezing altitude was as high as 4,700m (15,400ft) and during the day temperatures as high as 10 degrees Celsius (50 F) were felt on top of Mont Blanc 4,810m (15,780ft)… This is truly alarming glaciers all over the world are melting at an exponential speed… My interview with @mblivetv can be found here! https://montblanclive.com/radiomontblanc/article/massif-du-mont-blanc-un-petit-lac-se-forme-a-plus-de-3000-m-daltitude-48453 #climbing #climber #climb #frenchalps #savoie #savoiemontblanc #hautesavoie #outdoors #globalwarming #mountaineering #mountains #mountain #montagne #montaña #montagna #montanhismo #mountaineer #alpinist #alpinism #alpinisme #alpinismo #alpi #alps #environment #savetheplanet #climatechange #montblanc @patagonia @beal.official @millet_mountain @blueiceclimbing

    A post shared by Bryan Mestre (@bryanthealpinist) on

    انہوں نے کہا کہ یہ اس قدر بلند حصہ ہے کہ یہاں پر صرف برف کی موجودگی ممکن ہے، ’جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری بوتلوں میں موجود پانی جم جاتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یورپ میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران کئی شہروں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شدید گرمی کے باعث کئی افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پر جھیلیں دیکھی جارہی ہیں۔ ماہرین اس سے قبل برفانی خطے انٹارکٹیکا میں بھی جھیلیں بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

  • پہاڑوں کا عالمی دن: آئیں پربتوں سے باتیں کریں

    پہاڑوں کا عالمی دن: آئیں پربتوں سے باتیں کریں

    آج دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے پہاڑوں اور پہاڑوں کے قریب رہنے والی آبادیوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    پہاڑ دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پارکس کا 56 فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔

    اسی طرح دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب افراد پہاڑوں میں آباد ہیں جبکہ دنیا کی نصف آبادی غذا اور پینے کے صاف پانی کے لیے پہاڑوں کی محتاج ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کا سب سے پہلا اثر پہاڑی علاقوں پر ظاہر ہوتا ہے۔

    ایسے موقع پر خشک پہاڑوں کے ارد گرد آبادی مزید گرمی اور بھوک کا شکار ہوجاتی ہے، جبکہ کلائمٹ چینج کے باعث برفانی پہاڑ یعنی گلیشیئرز بہت تیزی سے پگھلنے لگتے ہیں جس سے دریاؤں میں سیلاب کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    پاکستان کے خوبصورت پہاڑی سلسلے

    پاکستان میں 5 ایسی بلند برفانی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 26 ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 اور نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں واقع ہے۔

    آئیں پاکستان میں واقع خوبصورت پہاڑی سلسلوں اور پربتوں کی سیر کریں۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ

    کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    دنیا کی 8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سلسلہ کوہ قراقرم

    سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔

    کے ٹو

    کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی لمبائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر ہے۔ بے شمار ناکام کوششوں اور مہمات کے بعد سنہ 1954 میں اس پہاڑ کو سر کرنے کی اطالوی مہم بالآخر کامیاب ہوئی۔

    نانگا پربت

    نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8 ہزار 1 سو 25 میٹر ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ نانگا پربت کو سب سے پہلے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے 1953 میں سر کیا۔

    سلسلہ کوہ ہندوکش

    سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی 7 ہزار 7 سو 8 میٹر ہے۔

    کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ

    صوبہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ حسین قدرتی مناظر کا مجموعہ اور نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    کارونجھر کے پہاڑ

    صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں واقع کارونجھر کے پہاڑ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

  • پاکستان میں گلیشیئرز کی اونچائی میں اضافہ، لیکن پانی کی کمی کا خدشہ

    پاکستان میں گلیشیئرز کی اونچائی میں اضافہ، لیکن پانی کی کمی کا خدشہ

    اسلام آباد: شمالی علاقوں میں رہنے والے افراد کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ ان کے علاقوں میں موجود گلیشیئرز کی اونچائی اور ان کی برف میں اضافہ ہورہا ہے، تاہم یہ عمل ملک میں پانی کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

    ایریزونا یونیورسٹی میں پاکستانی گلیشیئروں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ گو کہ دنیا بھر میں عالمی درجہ حرارت بڑھنے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر کے گلیشیئروں کی برف پگھل رہی ہے، تاہم پاکستان میں اس کے برعکس عمل ہورہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستانی گلیشئیروں پر برف پگھلنے کی رفتار میں کمی واقع ہورہی ہے جس سے دریاؤں میں کم پانی آنے اور ملک میں پانی کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مستقبل قریب میں پاکستانی دریاؤں میں پانی کی 7 فیصد کمی دیکھی جاسکتی ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گلیشیئروں کے بڑھنے کی وجہ درجۂ حرارت میں کمی کے علاوہ اس علاقے میں بادلوں اور نمی کا ہونا اور تیز ہواؤں کا نہ چلنا ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں 5 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں۔ یہ گلیشیئر بر اعظم انٹار کٹیکا کے بعد دنیا بھر میں سب سے بڑے گلیشیئر مانے جاتے ہیں اور پاکستانی دریاؤں کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات کے برعکس ہونے والے اس عمل کو قراقرم اینا ملی (بے قاعدگی یا غیر معمولی) قرار دیا ہے۔

    یہ تحقیق ایریزونا یونیورسٹی میں ایک پاکستانی محقق فرخ بشیر، اور 3 امریکی محققین شوبن زنگ، ہوشن گپتا اور پیٹر ہیزنبرگ نے کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    مختلف ماحولیاتی مسائل بشمول موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) اس وقت دنیا کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، اور جس کی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، ماحولیاتی مسائل کی طرف توجہ دینا ایک احمقانہ بات ہے۔

    لیکن شاید ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کی جڑ بھی کہیں نہ کہیں انہی ماحولیاتی مسائل سے جڑی ہے جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے ان 4 بنیادی پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہیں جو دراصل ماحولیات کی خرابی کی وجہ سے ہیں اور جو ہر شخص سے تعلق رکھتے ہیں۔

    :کلائمٹ چینج کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ملک

    کلائمٹ چینج کی ایک بڑی وجہ کاربن سمیت مختلف زہریلی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ان گیسوں کے اخراج میں آگے ہیں اور اس میں چین اور امریکا سرفہرست ہیں۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا کلائمٹ چینج یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے، لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا شکار پہلے 10 ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔

    flood

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔

    سنہ 2010 میں آنے والا سیلاب، جسے اقوام متحدہ نے تاریخ کا تباہ کن سیلاب قرار دیا، اپنے ساتھ 2000 ہزار افراد کی جان لے گیا جبکہ اس سے لگ بھگ پونے دو کروڑ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے ملک کی معیشت کو 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    :پانی کی شدید قلت

    ایک طرف تو ملک کے بالائی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں، دوسری جانب پاکستان میں میٹھے (پینے کے) پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی آنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    پاکستان میں گلیشیئرز کی تعداد 5 ہزار ہے اور گزشتہ برس ان علاقوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا جس کے باعث ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا۔

    water

    ماہرین کے مطابق ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد دریاؤں اور سمندروں میں پانی میں یکایک اضافہ ہوگا جو قریبی آبادیوں کو سیلاب کی صورت تباہ کرے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوگا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔

    ایک اور وجہ بارشوں کے پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ نہ کرنا بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان وجوہات کے باعث اگلے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    :زراعت میں کمی

    پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع اور تبدیل ہوتے پیٹرن، اور پانی کی کمی کے باعث زراعت بھی نقصان کا شکار ہے۔ کسی سال ہماری کھڑی فصلیں تیز بارش میں بہہ جاتی ہیں، اور کسی سال بوائی کے موسم میں بارش نہ ہونے کے باعث فصلیں ہی نہیں اگ پاتیں۔

    drought

    پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کلائمٹ چینج اسی ڈھب سے وقوع پذیر ہوتا رہا تو سنہ 2080 تک صوبہ خیبر پختونخوا سے زراعت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ صوبہ ایک بنجر اور قحط زدہ علاقہ بن جائے گا۔

    :شمسی تونائی سے مالا مال ۔ لیکن محروم ملک

    پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں اب تک بجلی پیدا کرنے اور بجلی گھروں کو چلانے کے لیے تیلوں اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ہے۔

    solar

    ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس دولت کو کام میں لانے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شمسی توانائی کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جاسکے تو یہ بغیر کسی ایندھن کے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔

  • برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے برفانی خطے انٹارکٹیکا میں نیلے پانیوں کی جھیلیں بن رہی ہیں جس نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    lake-2

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے فیس بک اور گوگل کے دفاتر ڈوبنے کا خدشہ

    ماہرین نے بتایا کہ اس کی وجہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    حال ہی میں عالمی خلائی ادارے ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب گلوبل وارمنگ ان برفانی خطوں کی برف کو گلابی بھی بنا رہی ہے۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

  • قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں قطب شمالی کی برف گلابی ہورہی ہے؟

    گلابی یا شربتی رنگ کی ’واٹر میلن سنو‘ کہلائی جانے والی یہ برف آنکھوں کو تو بے حد خوبصورت لگتی ہے لیکن درحقیقت یہ ایک بڑے خطرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

    قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    pink-1

    یہ عمل اونچائی پر واقع علاقوں جیسے قطب شمالی اور گرین لینڈ میں پیش آتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل ایک سنگین صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ قطب شمالی کی برف کا گلابی ہونا ظاہر کرتا ہے کہ گلیشیئرز کا ’البیڈو‘ اثر اپنی صلاحیت کھو رہا ہے۔

    البیڈو افیکٹ کا مطلب گلیشیئرز کا سورج کی شعاعوں کو منعکس کرنا ہے۔ سخت برف سے بنے ہوئے گلیشیئرز پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ اس سے ٹکرا کر واپس آسمان کی طرف پلٹتی ہے۔ اگر یہ عمل نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ گلیشیئر ان شعاعوں کو جذب کر رہا ہے۔

    pink-2

    اس کے کئی نقصانات ہیں۔ ایک یہ گلیشیئرز پگھل کر عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ کریں گے جس سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ دوسرا سورج کی روشنی   کے واپس آسمان میں نہ جانے سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور دنیا کے مختلف ممالک میں گرمی بڑھے گی۔

    دوسری جانب برف پگھلنے سے یہاں موجود جانور جیسے برفانی ریچھ، برفانی لومڑی وغیرہ کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

    یہ عمل گلیشیئر میں ’سرخ کائی‘ کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ گلیشیئر میں جتنی زیادہ سرخ الجی یا کائی موجود ہوگی اتنا ہی وہ گلیشیئر سورج کی روشنی جذب کرے گا۔

    اس کی مثال ہم یوں لیتے ہیں کہ گرمیوں کے موسم میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے سے منع کیا جاتا ہے کیونکہ گہرے رنگ سورج کی روشنی کو زیادہ جذب کرتے ہیں نتیجتاً پہننے والے کو شدید گرمی لگنے لگتی ہے۔

    arctic-3

    اس کے برعکس ہلکے رنگ کے کپڑے سورج کی شعاعوں کو روک کر اسے منعکس کرتے ہیں یعنی واپس پھینک دیتے ہیں۔

    اسے ہم ایک سائیکل بھی کہہ سکتے ہیں۔ سورج کی روشنی گلیشیئرز میں جذب ہوکر سرخ الجی پیدا کرے گی اور سرخ الجی سورج کی مزید روشنی کو اپنے اندر جذب کرے گی یوں گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

    واضح رہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کے باعث قطب شمالی کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    pink-4

    پاکستان بھی کلائمٹ چینج کے شکار ممالک میں سے ایک ہے جہاں موجود 5000 گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث شمالی علاقوں کو شدید سیلابوں کا خطرہ لاحق ہے۔

  • حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں نصب یہ نظام گلیشیئرز کے پگھلنے کی صورت میں سیلابوں سے قبل از وقت آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریباً 5000 گلیشیئرز موجود ہیں اور یہ 15 ہزار اسکوئر کلومیٹر کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم سائنسدانوں کے مطابق درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    gl-3

    محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق صرف پچھلے عشرے میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں 23 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ پوری دنیا کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔

    گذشتہ ماہ وفاقی حکومت نے مشاہداتی نظام (مانیٹرنگ سسٹم) کو وسعت دینے کے لیے 892.5 ملین روپے کی منظوری دی تھی۔

    اس 4 سالہ منصوبے کے ذریعہ وہاں کے درجہ حرارت، نمی، بارشوں کے موسم میں تبدیلی اور ہوا کی رفتار کے بارے میں زیادہ درست معلومات حاصل کی جاسکیں گی تاکہ گلیشیئرز کے پگھلنے کی اصل رفتار، اس کے نقصانات اور اس کے بچاؤ کے اقدامات کیے جاسکیں۔

    گلیشیئرز پگھلنے کا سب سے بڑا خطرہ سطح سمندر میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ اضافہ سیلاب کی شکل میں کنارے بسی ہوئی آبادیوں، دیہاتوں اور قصبوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    gl-6

    اس مشاہداتی نظام کے ذریعہ سیلاب سے 60 سے 90 منٹ قبل اس سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے اور یوں کنارے بسی آبادی کو محفوظ مقامات تک پہنچنے کا وقت مل سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی ایک وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا بھی تھا۔ اس سیلاب نے ملک کے ایک تہائی رقبہ اور 1.4 کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا جبکہ اس کے باعث 1600 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں سیلاب سے قبل از وقت آگاہی کے لیے ایس ایم ایس سروس اور دیگر کئی وارننگ سسٹم کی تشکیل کے لیے 16.6 بلین روپے کا منصوبہ بھی وفاقی حکومت کو بھجوایا ہے جو منظوری کا منتظر ہے۔

    اس سے قبل ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں خاصا اضافہ ہوگیا۔

    gl-2

    ماہرین کے مطابق عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے جو مضر اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں ان میں گلیشیئرز کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی کی مدت میں اضافہ اور صحرائی علاقوں میں وسعت (ڈیزرٹیفکیشن) شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کے موسم کے دورانیہ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ برف باری کے موسم کے دورانیہ میں کمی ہورہی ہے۔ اس دورانیہ میں کمی کی وجہ سے گلیشیئرز پر برف رک نہیں پارہی اور یوں دنیا بھر کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔