ہندوستان کے نوابوں، راجاؤں اور مہاراجاؤں کے بعض ناگفتہ بہ واقعات اور ان کی عجیب و غریب عادات یا مشاغل کا تذکرہ بدیسی صحافیوں اور مؤرخین نے اپنی تصانیف میں کیا ہے، جن میں سے بعض افسوس ناک بھی ہیں اور دل چسپ بھی۔ لیری کولنس، دامنک لیپئر کی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کا ایک باب اسی پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے جس میں ’محل اور شیر، ہاتھی اور جواہرات‘ کے عنوان سے مہاراجہ گوالیار کا ایک عجیب و غریب مگر دل چسپ مشغلہ بیان کیا ہے۔ مہاراجہ کے اس مشغلے نے اپنے وقت کے کئی امراء اور منصب داروں کو مصیبت میں گرفتار کیا اور ایک روز وائسرائے اور ان کے اہلِ خانہ بھی برے پھنسے۔ سعید سہروردی کا ترجمہ کردہ یہ اقتباس پڑھیے۔
"اِسی طرح مہاراجہ گوالیار نے لوہے کی ایک بہت بڑی میز بنوائی۔ اُس پر چاندی کی پٹڑیاں بٹھائی گئیں جن کی لمبائی 250 فٹ سے زیادہ تھی۔ یہ میز کھانے کے کمرے میں رکھ دی گئی۔ دیوار میں سوراخ کر کے پٹڑیاں اِس طرح آگے بڑھائی گئیں کہ اُس میز کا ربط مہاراجہ کے باورچی خانے سے قائم ہو گیا۔ اُس کے بعد ایک کنٹرول پینل بنایا گیا، جس میں نہ جانے کتنے سوئچ، الارم، سگنل اور لیور لگے تھے۔ یہ پینل میز پر فٹ کر دیا گیا۔ مہاراجہ کے مہمان میز کے چاروں طرف بیٹھتے اور مہاراجہ خود کنٹرول پینل کو قابو کرتے تھے۔ وہ سوئچ دباتے، لیور اُٹھاتے گراتے، نہ جانے کیا کھٹر پٹر کرتے۔
چاندی کی پٹڑیوں پر ٹرین دوڑتی، رکتی، سرکتی اور بھاگتی رہتی تھی۔ وہ ٹرین باورچی خانے میں جاتی تھی جہاں ملازم چپاتی، ترکاری اور دوسرے کھانے ٹرین کے کھلے ڈبوں میں رکھ دیتے تھے۔ مال سے لدی ہوئی ٹرین کھانے کے کمرے میں آتی تھی۔ مہاراجہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جس مہمان کے سامنے چاہتے ٹرین کو روک دیتے اور وہ اپنی پسند کی چیزیں نکال لیتا۔ اِسی طرح وہ جسے بھوکا رکھنا چاہتے تو کنٹرول کے مخصوص بٹن دبا دیتے تو مال سے لدی ہوئی ٹرین بچارے مہمان کے سامنے سے بغیر رکے سرسراتی ہوئی آگے نکل جاتی تھی۔
ایک رات مہاراجہ نے وائسرائے اور اُس کے اہلِ خانہ کو کھانے پر مدعو کیا تو کنٹرول پینل میں شارٹ سرکٹ ہو گیا۔ مال سے لدی ہوئی گاڑی باورچی خانے سے تیر کی طرح آئی اور طوفانی رفتار سے میز کا چکر کاٹنے لگی اور رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کھلے ڈبوں سے سبزی، دال، گھی، تیل اچار اچھل اچھل کر مہمانوں کے کپڑوں پر گرنے لگا۔ مہمان توبہ بول گئے۔ ریلوں کی تاریخ میں اِس قسم کا حادثہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔”