Tag: گوتم بدھ

  • علّامہ اقبال اور گوتم بدھ

    علّامہ اقبال اور گوتم بدھ

    مذاہب کا سلسلہ، روحانیت، انسانوں کا ان پر اعتقاد اور روحانی شخصیات سے تعلق اتنا ہی قدیم ہے جتنی یہ دنیا۔

    گوتم بدھ کا نام بھی تاریخ میں ایک عظیم روحانی شخصیت اور مصلح کے طور پر زندہ ہے جن کا فلسفۂ حیات ایشیائی ممالک اور بالخصوص برصغیر میں خاصا مقبول ہوا اور اس خطّے میں ان کی تعلیمات کو لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنایا۔ انھیں بدھا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق ان کا اصل نام سدھارتھ تھا جو 563 قبل مسیح یا 480 قبلِ مسیح میں ایک ریاست کے راجہ کے گھر میں پیدا ہوئے، لیکن مادّی زندگی کو ناپسند کیا اور روحانی کشمکش سے دوچار ہونے کے بعد راج پاٹ سے الگ ہو کر خلوت نشینی اختیار کر لی۔ مہاتما بدھ نے نہایت کٹھن وقت گزارا، لیکن ریاضت جاری رکھی اور تلاشِ حق میں مصروف رہے۔ انھوں نے اپنی ریاضت اور مسلسل غور و فکر سے یہ پایا کہ ترکِ دنیا اور نفس کشی ہی انسان کی معراج ہے۔ جب بدھا کو یہ محسوس ہوا کہ اس طرح ایک انسان روحانی بالیدگی حاصل کرسکتا ہے تو وہ اس تصوّر کو دوسروں تک پہنچانے لگے۔ بدھ مت میں چوں کہ ایک خدا کا تصوّر نہیں ہے، اس اعتبار سے ایک فلسفیانہ مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات اصلاحِ نفس پر آمادہ کرتی ہیں۔ یوں بدھ مت کو رواج ملا جس کے بانی گوتم بدھ نے عملی اخلاقیات اور زندگی کے سادہ اصولوں پر زور دیا ہے۔

    گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق، انسانی زندگی میں چار اہم مدارج ہیں، جنھیں ’’چار سچائیوں‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مصائب یا مشکلات پہلی سچائی ہے، جس کا ہر انسان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری سچائی، ان مصائب کی وجہ یعنی انسان کے اعمال ہیں۔ تیسری سچائی، ان مصائب و مشکلات کا خاتمہ اور آخری یہ کہ اعمالِ‌ صالحہ انسان کو اس مشکل سے نجات دے سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گوتم نے کبھی نہ تو خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اپنا بُت بنانے کا حکم دیا۔ یہ سب اُن کی وفات کے بعد شروع ہوا۔ یہ ایک طویل بحث ہے جسے یہیں چھوڑ کر ہم شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی مشہورِ زمانہ کتاب جاوید نامہ کی طرف بڑھتے ہیں جس میں‌ وہ گوتم بدھ سے ملتے ہیں۔

    یہ فارسی کا وہ کلام ہے جس میں اقبال نے بشمول بدھا مختلف غیر مسلم مشاہیر و فلاسفہ کا تذکرہ کیا ہے۔ جاوید نامہ میں علّامہ اقبال نے اپنا کلام مثنوی کی شکل میں لکھا ہے، جو تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ جاوید نامہ کی اوّلین اشاعت 1932 میں ہوئی تھی۔

    یہ دراصل علّامہ اقبال کا خیالی سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے مولانا روم کو اپنا روحانی مرشد ظاہر کیا ہے جو انھیں آسمانوں پر مختلف مقامات کی سیر کرواتے ہیں۔ اس سیر کے دوران علّامہ اقبال عہدِ رفتہ کی نام وَر ہستیوں کی ارواح سے ملاقات کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس مثنوی میں قسم قسم کے علمی و فکری، دینی و سیاسی اور اجتماعی حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا آغاز مناجات سے ہوتا ہے مگر اصل مطالب اس وقت آتے ہیں جب شاعر شام کے وقت دریا کے کنارے مولانا رومی کے بعض اشعار پڑھ رہا ہوتا ہے کہ ان کی روح وہاں حاضر ہوجاتی ہے۔ ان سے سوال و جواب کے بعد علّامہ اقبال کو رومی مختلف شخصیات سے ملواتے ہیں۔

    ہم جانتے ہیں‌ کہ شاعرِ مشرق علّامہ محمّد اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ خاص طور پر نوجوان نسل سے مخاطب ہیں اور اسے اپنی اصلاح کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جاوید نامہ کے علاوہ بانگِ درا میں اقبال کی نظم’’نانک‘‘ کے ابتدائی چند اشعار میں گوتم بدھ کا ذکر آیا ہے۔ نظم کا پہلا شعر ہی اقبال کی نظر میں گوتم کے پیغام کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ جاوید نامہ میں اقبال اور گوتم کی تصوّراتی ملاقات کا ذکر کچھ یوں‌ ہے؎

    قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی
    قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانا کی

    اقبال اپنے کلام میں گوتم بدھ کو راست باز اور انسانوں کو بدی اور ہر قسم کی ایسی برائیوں‌ سے بچانے والا قرار دیتے ہیں جس سے انسان کی روح متاثر ہوتی ہے اور وہ جسمانی کرب کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں‌ گرفتار ہوسکتا ہے۔ جاوید نامہ میں‌ جب سفرِ افلاک کے دوران اقبال اور بدھا کا آمنا سامنا ہوتا ہے، اُس وقت بھی وہ ایک رقاصہ کو سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔

  • سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔

    بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

    اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

    یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا شان دار نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

    کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔

    ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

    ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔

     

    اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

    ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔

     

    اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

    اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔

    1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

    1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

  • سطح آب کم ہونے پر گوتم بدھ کا تراشیدہ مجسمہ ظاہر

    سطح آب کم ہونے پر گوتم بدھ کا تراشیدہ مجسمہ ظاہر

    بیجنگ: چین کے صوبے ژجیانگ میں ایک ڈیم میں پانی کی سطح کم ہونے پر گوتم بدھ کا ایک قدیم مجسمہ ظاہر ہوگیا۔ یہ مجسمہ 600 سال قدیم بتایا جارہا ہے۔

    چین کے صوبے ژجیانگ میں واقع ہونگ مین ڈیم میں جب معمول کے مطابق اس موسم میں پانی کی سطح کم ہوئی تو پانی کے اندر سے گوتم بدھ کا ایک 600 سالہ قدیم مجسمہ تراشیدہ مجسمہ ظاہر ہوگیا۔

    buddha-4

    یہ مجسمہ تقریباً 13 فٹ بلند ہے اور یہ ایک چٹان کے اندر تراشا گیا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ مجسمہ چین کے منگ خانوادے کے دور میں تراشا گیا جس نے تقریباً 300 سال تک چین پر حکومت کی۔

    غیر متوقع طور پر پانی کے اندر سے ظاہر ہونے والا یہ مجسمہ ان آثار قدیمہ کا حصہ ہے جو یہاں دو دریاؤں کے دوراہے پر واقع ہیں۔ ان میں قدیم دور کی بنائی گئی پگڈنڈیاں، کندہ کاری اور ایک بڑے ہال کی بنیاد شامل ہے۔

    buddha-3

    ان آثار قدیمہ کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ چین کی لوک کہانیوں کے مطابق یہ مجسمے مختلف آفات سے حفاظت کے لیے بنائے جاتے تھے۔ اس وقت بھی مقامی آبادی اس مجسمے کے ظاہر ہونے کو نیگ شگون خیال کر رہی ہے۔

    یاد رہے کہ ژجیانگ کا یہ ڈیم سنہ 1958 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس وقت یہاں رہائش پذیر بہت سے لوگوں کو دوسری جگہ منتقل ہونے کا کہا گیا تھا۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کے وقت بھی یہ مجسمہ سطح زمین پر موجود تھا جو کچھ سالوں بعد زیر آب چلا گیا۔

    buddha-2

    ان لوگوں نے جب اس مجسمے کے ظاہر ہونے کی خبریں سنیں تو اس کی زیارت کے لیے انہوں نے ایک بار پھر اپنے پرانے علاقے کا دورہ کیا۔

    حکام کا کہنا ہے کہ مارچ میں سیلابوں کی وجہ سے جب ڈیم میں پانی بھر جائے گا تو یہ مجسمہ ایک بار پھر زیر آب چلا جائے گا۔

    واضح رہے کہ بدھ مت کے ماننے والوں نے ہمیشہ سے گوتم بدھ سے اپنی عقیدت کا اظہار پہاڑوں اور چٹانوں پر اپنے ہاتھوں سے ان کے مجسمے تراش کر کیا ہے۔ چین کے طول و عرض پر ایسے بے شمار غار اور پہاڑی سلسلے ہیں جن میں گوتم بدھ کے انسانی ہاتھوں سے تراشے گئے لاتعداد مجسمے موجود ہیں۔

    مزید پڑھیں: شاہراہ ریشم پر سفر کرتی گندھارا تہذیب

  • پاکستان میں آج پہلی مرتبہ سرکاری طور پر’گوتم بدھ‘کا دن منایا جارہا ہے

    پاکستان میں آج پہلی مرتبہ سرکاری طور پر’گوتم بدھ‘کا دن منایا جارہا ہے

    اسلام آباد: پاکستان آج پہلی مرتبہ سرکاری طورپر وزارتِ قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کے تحت” بدھ مت” کے روحانی پیشوا "گوتم بدھ” کا دن منایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آج میں پہلی بار سرکاری سطح پر بدھ مت کے مذہبی پیشوا’’بُدّھا‘‘کا دن منایا جارہا ہے،اس دن کی مناسبت سےقومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کی وزارت نے اسلام آباد میں خصوصی تقریب ’’وساکھا فیسٹیول‘‘ کااہتمام کیا۔

    budda-post-1

    گوتم بدھ کے دن کے حوالے سے منعقد کی گئی تقریب میں ملکی و غیر ملکی دانشور، مورخین اور مذہبی اسکالرز’’گوتم بدھ‘‘کی حالاتِ زندگی اور اُن کی تعلیمات پر روشنی ڈالیں گے۔

    ذرائع کے مطابق تقریب میں پاکستان کی خصوصی دعوت پر بہ شمول سری لنکا کے پرائمری انڈسٹری کے وزیر ’’ڈیا گیمیج‘‘ 39 رکنی وفد پاکستان آیا ہے،39 رکنی وفد میں 25 "بد ھ بھکشو” بھی شامل ہیں۔

    budda-post-2

    وفد نے تقریب سے پہلے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ اور ادبی ورثہ عرفان صدیقی سے ملاقات کی،اور گوتم بدھ کا دن سرکاری طور پر منانے پر شکریہ ادا کیا،اورسری لنکن صدر کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔

    اس موقع پر مشیرِ وزیرِ اعظم پاکستان، عرفان صدیقی نے سری لنکن وفد کی آمد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’’وساکھا فیسٹیول‘‘ ہر سال منعقد کیا جائے گا، جس میں شرکت کے سکھ یاتریوں کی طرح، بدھ مذہب کے پیروکار بھی ہر سال پاکستان آیا کریں گے۔

    پاکستان میں بدھ مت کے آثار 

    واضع رہے بدھ مت مذہب کی آثار پاکستان میں بھی ملتے ہیں،سوات کے علاقے مینگورہ سے شمال کی طرف 8 کلو میٹر کے فاصلے پر گاؤں منگلور کے پہاڑی علاقے میں بدھا کا پتھر میں کندہ شدہ دنیا کا دوسرا بڑا مجسمہ موجود ہے۔

    buddah 1

    اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے سیاحتی علاقے تخت بائی اور شنگردار میں بھی بدھ مت سے جوڑے گندھارا تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں، جس سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں اس علاقے میں بدھ مت کی جڑیں کتنی گہری تھیں۔

    buddah

    پاکستان میں ٹیکسلا کے قریب پانچویں صدی عیسوی کی بدھ مت کی ایک درسگاہ کے آثار موجود ہیں۔ یہ نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکیوں کے لیے توجہ کا خصوصی مرکز ہیں۔ قدیم دور کی اس درسگاہ کے آثار اُس دور کے انسان کی بودوباش اور ان کی تعمیراتی سوچ کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

    buddah2
    ٹیکسلا کے مقام پر دھرماراجیکا استوپ بدھ مت کی تاریخی باقیات پر مشتمل ایک ایسا کمپلیکس ہے، جو ایک بہت بڑے اسٹوپا اور کئی دیگر تعمیرات پر مبنی ہے۔ یہ کمپلیکس یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

    texilla

    یاد رہے کہ ’بدھ مت‘ تہذیب وتمدن کاعروج اور ابلاغ اس وقت حاصل هواجب اشوک اعظم نے اکثرہندوستان کےعلاقےفتح کرلئےتھےاور ھنددھرم کوچھوڑکر "بدھ مت“ کوقبول کرلیا، توگوتم بدھ کی تعلیمات سےمتاثرهوکر”اپنی فوج ختم“ کردی اور بدھ مت کی اشاعت کیلئےسری لنکا،ہندوستان،برما،چین،انڈونیشیا ملائیشاتک بدھ بکشوؤں کی جماعتیں دےکرروانه کیں۔

    buddah 3

    اسلام آباد سے تیس کلومیٹر دور ضلع ہری پور میں واقع قدیم جولیاں یونیورسٹی کے کھنڈرات کا ذکر کیے بغیربدھ مت کے پاکستان میں موجودگی اور اثرات کو جاننا ناممکن ہے، یہ روحانی درسگاہ اپنی تعمیر کے حساب سے دنیا کی بڑی سے بڑی جامعہ سے کسی طور کم نہیں تھی۔

    jolia1

    joli2

    jolia3

    joliaN

    جولیاں میں میں داخل ہوتے ہی ایک احاطہ ہے جس کی دائیں جانب پیروکاروں کے لیے چھوٹی چھوٹی عبادت گاہیں قائم ہیں، جا بہ جا بدھا کے مجسمے ہیں،جہاں کہیں تو بدھا یکسوئی سے مراقبی کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے شاگردوں کو گیان بانٹتے نظر آتے ہیں، یہ ایک مسحور کن منظر ہے۔

    بدھ مت اور گوتم بدھ

    بدھ مت دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب اور فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرز عمل پر مشتمل ہے، اس کی زیادہ تر تعلیمات کی بنیاد ’’سدھارتھ گوتم ‘‘کی جانب منسوب کی جاتی ہیں،جنہیں بدھ مت کے پیروکار’’روشن خیال استاد‘‘ کہتے ہیں۔

    ایک روایت کے مطابق ’’بدھا‘‘563 قبل مسیح یا 480 قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور چوتھی سے پانچوی صدی قبل مسیح کے درمیان شمال مشرقی بر صغیر میں رہتے تھے،انھوں نے حیات احساسی کو مشکلات سے نجات حاصل كرنا،نروان کا حصول اور تکلیف و پریشانی سے بچنا سكھايا۔

    30 سال کی عمر میں اُن کے برتاؤ میں آئی تبدیلی کو لوگوں نے صاف محسوس کیا وہ حق کی تلاش میں شہر سے نکل کر ویران جگہ میں جا بسے، جہاں گھاس پھوس کھا کر گزارا کیا، اور تن کو ڈھانپنے کے لیے درخت کے پتوں کا استعمال کیا،تاہم جلد ہی انہیں احسا س ہوا کہ یہ وہ ابدی سکون نہیں جس کی انہیں تلاش ہیں۔

    چنانچہ ایک روایت کے مطابق گوتم بدھ ایک برگد کے درخت کے نیچے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے،انہوں نے تہیہ کرلیا، کہ جب تک ان پر حقائق ظاہر نہ ہوئیں گے وہ اسی طرح مراقب رہیں گے۔

    روایت کے مطابق غروبِ آفتاب کے وقت اُن کے قلب پر منکشف ہوا کہ ”پاک و صاف باطن اور خلقِ خدا سے محبت‘‘میں ہی ابدی فلاح کا راز پنہاں ہے۔ انہوں اپنے اوپر ہونے والی اس آگاہی کو ’’دھرما چکرا پراورتنا‘‘ کا نام دیا جس کے معنی مذہب کے پہیے کا چل پڑنا ہے۔

    عام روایات کے مطابق لوگوں کو ابدی فلاح کی طرف بلانے والے ’’گوتم بدھ‘‘ نے 80 سال کی عمر میں 384 قبل مسیح میں اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نظر آتش کردی گئی۔