Tag: گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر

  • یونیورسٹیز میں  وائس چانسلرز کی  تعیناتی ، دو بڑی حکومتی جماعتوں میں ٹھن گئی

    یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتی ، دو بڑی حکومتی جماعتوں میں ٹھن گئی

    لاہور : پنجاب میں یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کے معاملے پر دو بڑی حکومتی جماعتوں میں ٹھن گئی، گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ وزیراعلی پنجاب کے تجویز کردہ ناموں میں بعض پر کرپشن کے الزامات ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب میں چودہ یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے معاملے پر نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں اختلافات سامنے آگئے۔

    گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے وائس چانسلرز کی تقرری کیلئےوزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بھیجی گئی سمری پراعتراض اٹھایا اور کہا وزیراعلی پنجاب کی جانب سے وائس چانسلرز کی تقرری کیلئے تین نام دیئےجاتےہیں لیکن انہوں نے صرف ایک نام بھیجا۔

    سلیم حیدر کا کہنا تھا کہ ان ناموں پرہمیں اطمینان نہیں، بعض کے خلاف کرپشن کےالزامات ہیں۔

    وزیر اطلات پنجاب عظمی بخاری نے اس پرردعمل دیتے ہوئے کہا گورنر صاحب وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی، گورنر کا کام اسمبلی اور کابینہ فیصلوں پرمہرلگانا ہوتا ہے۔

    عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ کابینہ کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا مجاز نہیں۔۔ آپ اپوزیشن کا رول ادا کرنے کی بجائے گورنرشپ کو آئینی عہدے تک محدود رہنے دیں، اپوزیشن کا رول ادا کرنے کیلئے پی ٹی آئی کافی ہے۔

  • ہتک عزت قانون حرف آخر نہیں، گورنر پنجاب

    ہتک عزت قانون حرف آخر نہیں، گورنر پنجاب

    گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ ہتک عزت کا قانون حرف آخر نہیں ہے، امید ہے اس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

    تفصلات کے مطابق پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ امید ہے ہتک عزت قانون کا دوبارہ سے جائزہ لیا جائےگا، امکان ہے کہ میں پنجاب حکومت کو ہتک عزت قانون پر نظرثانی کا کہوں۔

    گورنر پنجاب نے کہا کہ ہتک عزت قانون میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی، ہتک عزت قانون مشاورت سے لایا جاتا تو اچھا ہوتا۔

    سردار سلیم حیدر کا مزید کہنا تھا کہ ہتک عزت قانون پر صحافتی تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز سے بات ہونی چاہیے۔

    واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی نے ہتک عزت بل 2024 منظور کیا تھا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ تمام ترامیم مسترد کر دی گئی تھیں۔

    وزیرپارلیمانی امور پنجاب مجتبیٰ شجاع الرحمان نے بل ایوان میں پیش کیا تھا تو اپوزیشن نے ہتک عزت بل کو کالا قانون قرار دیا اور اپوزیشن ارکان نے احتجاجاً بل کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں۔

    ہتک عزت بل کا اطلاق پرنٹ اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہو گا۔ بل کےتحت جھوٹی اورغیرحقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکےگا۔

    بل کا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یوٹیوب، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا۔

    کسی شخص کی ذاتی زندگی اورعوامی مقام کونقصان پہنچانےوالی خبروں پرکارروائی ہوگی۔ ہتک عزت مقدمات کیلئے خصوصی ٹریبونلز قائم ہوں گےجو6ماہ میں فیصلہ کریں گے۔ ہتک عزت بل کےتحت 30لاکھ روپےکا ہرجانہ بھی ہو گا۔

    خیال رہے کہ پاکستان بھر کی صحافتی تنظیموں نے پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا ہتک عزت قانون کو مسترد کردیا تھا۔