Tag: گوریلا

  • کروناوائرس: گوریلے کو اچانک کیا ہوگیا؟

    کروناوائرس: گوریلے کو اچانک کیا ہوگیا؟

    واشنگٹن: امریکی ریاست فلوریڈا میں بیمار ہونے والے گوریلے کا کرونا ٹیسٹ لے لیا گیا، چڑیا گھر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جلد رپورٹ سامنے آجائے گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 31 سالہ ’شھنگو‘ نامی گوریلا اپنے چھوٹے بھائی سے لڑائی کے بعد شدید زخمی ہوا اور بیمار بھی پڑگیا جس کے باعث اسپتال میں گوریلے کا علاج ہوا اور کرونا ٹیسٹ بھی لیا گیا۔

    گوریلا اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ فلوریڈا کے ایک چڑیا گھر میں رہ رہا تھا اس دوران دونوں میں اچانک لڑائی ہوئی جس کے پیش نظر انتظامیہ نے دونوں کو الگ کردیا اور بخار ہونے کی صورت میں ’شھنگو‘ کا کرونا ٹیسٹ کروایا۔

    زوو انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بیماری گوریلا کا وزن تقریباً 433 پاؤنڈ ہے، مقامی اسپتال سے اس کا کرونا ٹیسٹ کروالیا گیا ہے، امید ہے جلد رپورٹ آجائے گی، علاج کے دوران شھنگو کا ایکس رے اور الٹرا ساؤنڈ بھی کیا گیا۔

    چڑیا گھر انتظامیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذکورہ گوریلے کا اس سے قبل بھی ٹیسٹ کروایا گیا تھا جو منفی آیا تھا، تاہم اب تک گوریلے کو دوبارہ اس کے بھائی کے ساتھ رکھنے سے متعلق فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

  • گوریلا اور انسان کی بے مثال دوستی سوشل میڈیا پر وائرل

    گوریلا اور انسان کی بے مثال دوستی سوشل میڈیا پر وائرل

    کنشاسا: سوشل میڈیا پر گوریلا اور انسان کی بے مثالی دوستی کے چرچے پھیل گئے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افریقی ملک کانگو میں ایسا شخص بھی ہے جو ناصرف گوریلا کو اپنا بچہ سمجھتا ہے بلکہ ان کے ساتھ سیلفیز بھی بنواتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ’پٹرک سادیکی‘ نامی شہری گوریلا کیئر سینٹر میں ملازمت کرتا ہے جہاں اس نے تمام گوریلوں کو اپنا دوست بنالیا ہے، پٹرک جانورں کے ساتھ دن بھر کھیلنے کے علاوہ روزانہ تصویریں بھی بنواتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی دلچسپ تصاویر دیکھیں

  • انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    ہم نے اب تک زمین پر ارتقا کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق ہمارے اجداد، ہم سے ملتے جلتے کچھ جانور تھے جیسے بندر۔ ہم ان کی جدید ترین شکل ہیں۔

    زمین پر موجود زیادہ تر جانداروں کے پاس دم ہے، جیسے مچھلیاں، پرندے اور رینگنے والے جانور۔ بندروں کی کچھ اقسام بھی دم رکھتی ہے۔ لیکن انسانوں کی دم نہیں، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

    دم دراصل 50 کروڑ سال قبل مختلف جانداروں میں منظر عام پر آنا شروع ہوئی۔ تب سے اب تک یہ کئی کاموں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ جیسے چھپکلی کی ایک قسم گیکوس دم میں چربی محفوظ کرتی ہے۔

    پرندے ہوا کے درمیان سے گزرنے کے لیے دم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سانپ کی ایک قسم ریٹل اسنیک اپنی دم سے شکاریوں کو ڈراتے ہیں۔ دوسری طرف ممالیہ جانوروں کی دم کا سب سے بڑا مقصد ان کا جسمانی توازن برقرار رکھنا ہے۔

    اگر آپ زمین پر زندگی کے ارتقا کے بارے میں مطالعہ کریں تو آپ صرف انسان ہی نہیں، بلکہ انسانوں سے ملتے جلتے، اور ارتقائی طور پر انسان کے قریب جانوروں میں بھی دم غائب پائیں گے۔ جیسے گوریلا، چمپینزی یا بن مانس۔

    اور یہ دم کسی کے پاس کیوں ہے اور کسی کے پاس کیوں نہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو مختلف جانداروں کے چلنے پر غور کرنا ہوگا۔

    زمین پر موجود کچھ جاندار 4 پیروں پر چلتے ہیں، کچھ اکڑوں چلتے ہیں جبکہ کچھ، بشمول انسان بالکل سیدھا چلتے ہیں۔

    4 پیروں پر چلنے والے جانداروں کو ہر قدم پر اپنی توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس 2 پیروں پر چلنے والے جاندار، 4 پیروں والے جاندار کی نسبت چلنے پر 25 فیصد کم توانائی کم خرچ کرتے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ 2 پیروں پر چلنے والے زمین کی کشش ثقل کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2 پیروں والے جانداروں کو قدم اٹھانے میں تو توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے، تاہم قدم رکھنے میں ان کی کوئی توانائی نہیں صرف ہوتی اور وہ کشش ثقل کی وجہ سے خودبخود بغیر کسی توانائی کے زمین پر پڑتا ہے۔

    اب جب چلنے میں اس قدر آسانی ہو، تو چلتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور دم کی ضرورت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

    حالانکہ انسانی سر 5 کلو گرام کا وزن رکھتا ہے اور چلتے ہوئے ایک اتنی وزنی شے کو سنبھالنے کے لیے کوئی سہارا درکار ہے۔ تاہم انسانوں اور دیگر 2 پیروں والے جانداروں کو یہ فائدہ ہے کہ ان کا سر چلتے ہوئے، سیدھا اوپر ٹکا رہتا ہے۔

    اس کے برعکس 4 پیروں والے جانوروں کا سر آگے کی طرف ہوتا ہے اور اس کا توازن برقرار رکھنے کے لیے دم معاون ترین ثابت ہوتی ہے۔

    ویسے ہمارے جسم میں اب بھی ناپید شدہ دم کی نشانی موجود ہے۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا جسے ٹیل بون یا دمچی کہا جاتا ہے، اس کی ساخت ایسی ہے کہ موافق تبدیلیوں کے بعد یہاں سے دم نکل سکتی ہے۔

    دم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی حقیقت

    اکثر اوقات ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن کے مطابق کسی بچے نے دم کے ساتھ جنم لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں اب دم کا کوئی تصور نہیں۔

    اس طرح کے کیس میں دم کی طرح دکھنے والا جسم کا حصہ کوئی ٹیومر یا سسٹ ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ یہ مکمل نشونما نہ پا سکنے والا جڑواں جسم بھی ہوسکتا ہے۔

    قوی امکان ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کا اضافی حصہ ہو جو زیادہ نشونما پا کر باہر نکل آیا ہو تاہم یہ صرف چربی اور ٹشوز کا بنا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ہڈی نہیں ہوتی۔

    یہ ریڑھ کی ہڈی کی خرابی ہے جسے طبی زبان میں اسپائنا بفیڈا کہا جاتا ہے، ڈاکٹرز سرجری کے ذریعے بچے کو بغیر کسی نقصان کے اسے باآسانی جسم سے الگ کرسکتے ہیں۔

  • گوریلوں کی انوکھی سیلفی نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی

    گوریلوں کی انوکھی سیلفی نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی

    برازوویلا: عصر حاضر میں سیلفی کے دیوانے بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین تو تھے ہیں لیکن اب اس دوڑ میں گوریلے بھی شامل ہوچکے ہیں۔

    جی ہاں، کانگو کے ایک مقامی پارک میں گوریلے رہتے ہیں جو مزے سے پوز دے کر سیلفی بنواتے ہیں، جن کی سیلفی نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی ہے۔

    اس پارک میں گوریلوں کی اس انداز سے تربیت کی جاتی ہے کہ وہ بہت سے عادات انسانوں والے سیکھ چکے ہیں، اور دو پیروں پر انسانوں کی طرح آسانی سے چلتے بھی ہیں۔

    ان گوریلوں کی نسل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے، برطانوی اخبار کی ویب سائٹ کے مطابق فیس بک پر اس تصویر کو ہزاروں افراد نے لائیک کیا اور سوشل میڈیا پر یہ بھرپور طریقے سے وائرل ہوئی۔

    ویرونگا نیشنل پارک میں 600 مقامی مرد اور خواتین گارڈ کی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں جن کی بھرپور تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    یہ لوگ روزانہ اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر پارک کے اندر غیر معمولی نوعیت کی جنگلی حیات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    خیال رہے کہ مذکورہ تصویر میں نظر آنے والے گوریلے نیشنل پارک کے رینجرز کو ہی اپنے والدین سمجھتے ہیں۔ ان دونوں کے والدین جولائی 2007 میں مارے گئے تھے، اس وقت ان کی عمریں دو اور چار ماہ تھی۔

    اس نیشنل پارک میں ان گوریلوں کی تربیت کی جاتی ہے جن کے والدین کسی حادثے میں ہلاک یا پھر کسی شکاری کا شکار بن جاتے ہیں، بعد ازاں ان کے بچوں کی تربیت اسی پارک میں کی جاتی ہے۔

  • اشاروں کی زبان بولنے والا ذہین گوریلا چل بسا

    اشاروں کی زبان بولنے والا ذہین گوریلا چل بسا

    اشاروں کی زبان سمجھنے اور بولنے والا ذہین امریکی گوریلا کوکو چل بسا۔ کوکو ہالی ووڈ کی کئی فلموں اور ڈاکیو مینٹریز میں جلوہ گر ہوچکا تھا۔

    گوریلا کوکو سنہ 1971 میں کیلیفورنیا میں پیدا ہوا تھا۔ 46 سالہ گوریلا کی ذہانت عام گوریلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ ماہرین کے مطابق اس کا آئی کیو 75 سے 95 کے درمیان تھا جبکہ وہ انگریزی زبان کے 2 ہزار کے قریب الفاظ بھی سمجھتا تھا۔

    کوکو اشاروں کی زبان بھی سمجھتا تھا۔ اسے بلی کے ننھے بچے بے حد پسند تھے اور وہ ان کے ساتھ بہت کھیلا کرتا تھا۔

    گوریلا ہالی ووڈ کی کئی فلموں اور ڈاکیو مینٹریز میں جلوہ گر ہوچکا تھا جبہ کئی اداکار اس کے دوست تھے جن میں آنجہانی ہالی ووڈ اداکار رابن ولیمز بھی شامل ہیں۔

    رابن ولیمز کی موت پر گوریلا بہت رویا تھا اور کئی دن تک اداس رہا تھا۔

    کیلیفورنیا کی گوریلا فاؤنڈیشن کے مطابق گوریلا کی موت سوتے ہوئے واقع ہوئی اور یہ طبعی موت تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    دنیا میں بدلتے موسموں کی وجہ سے تقریباً تمام جانداروں کو خطرات لاحق ہیں اور انہی میں سے ایک جانور گوریلا بھی ہے جس کی نسل کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی ہے جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    gorilla-3

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گوریلا کی ایک نسل گروئر گوریلا کی آبادی میں 77 فیصد کمی آ چکی ہے اور سنہ 1995 سے اب تک ان کی تعداد 7 ہزار سے گھٹ کر 3 ہزار 800 ہوگئی ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جن کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    اور صرف ایک گوریلا ہی نہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق پچھلے 14 سالوں میں افریقی جانوروں کی آبادی میں 24 فیصد کمی آچکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا بے دریغ شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    دوسری جانب گوریلا کی ایک اور قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    یو این ای پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مختلف افریقی ممالک میں پہاڑی گوریلاؤں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 880 ہوگئی ہے۔

    نارویجیئن سیاستدان اور یو این ای پی کے سربراہ ایرک سولہیئم کا کہنا ہے کہ گوریلا انسانوں سے بے حد مماثلت رکھتے ہیں اور ان کا ڈی این اے 99 فیصد انسانوں سے مشابہہ ہوتا ہے۔ ’انسانوں سے اس قدر مشابہت بندر سمیت کسی اور جانور میں نہیں‘۔

    gorilla-2

    افریقی حکام کا کہنا ہے کہ ان گوریلاؤں کا تحفظ افریقہ کی سیاحت میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے جو دنیا بھر میں اپنے فطری حسن اور متنوع جنگلی حیات کی وجہ سے ہی مشہور ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سوئمنگ ٹب میں ناچتا گوریلا

    سوئمنگ ٹب میں ناچتا گوریلا

    شدید گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈے پانی سے نہانا اور اس سے کھیلنا نہایت فرحت بخش احساس ہے جو بچوں اور بڑوں کو ہی نہیں بلکہ جانوروں کو بھی خوشی کا احساس دیتا ہے۔

    گرمی سے پریشان یہ گوریلا بھی پانی کے ٹب میں نہایت مگن ہو کر رقص کر رہا ہے جو دیکھنے والوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دے گا۔

    امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ڈلاس میں واقع چڑیا گھر میں یہ گوریلا انٹرنیٹ پر نہایت مقبول ہورہا ہے جو پانی کے ٹب میں ناچ رہا ہے۔

    اسے دیکھ کر بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سخت گرمی کے بعد ٹھنڈے پانی کے اس ٹب نے اسے جتنی راحت بخشی، آج سے قبل کسی شے نے نہیں دی ہوگی۔

    ویڈیو میں ٹب میں گول گول رقص کرتا یہ گوریلا یقیناً دنیا کا سب سے خوش رہنے والا جانور معلوم ہوتا ہے۔

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی خوشگوار حرکات نہ صرف خود ان جانوروں بلکہ قریب موجود دیگر جانوروں پر بھی جسمانی و ذہنی طور پر مفید اثرات مرتب کرتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    جانوروں کا شکار، فضائی و آبی آلودگی، ان کی پناہ گاہوں کا ختم ہونا اور موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج، یہ تمام وہ عوامل ہیں جو انسان کے تخلیق کردہ ہیں اور ان کی وجہ سے دنیا میں موجود جانور بے شمار خطرات کا شکار ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات میں اس سے قبل 5 عظیم معدومیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور ہم بہت تیزی سے چھٹی عظیم معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق زمین پر موجود جنگلی حیات کی 75 فیصد آبادی کے بہت جلد خاتمے کا خدشہ ہے۔

    ان جانوروں کو درجہ حرارت میں اضافے اور ان کی رہائش گاہوں جیسے جنگلات وغیرہ میں کمی کا سامنا ہے جبکہ انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار ان کی آبادی کو کم کرتا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    کچھ عرصہ قبل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے اور یہ پہلا ممالیہ ہے جو موسم کی وجہ سے اپنے خاتمے کو پہنچا۔

    تاہم کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں انسانوں ہی نے خاتمے سے بچانے کے لیے کوششیں کیں اور ان کوششوں کے باعث یہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔ اب ان کی آبادی خطرے کا شکار ضرور ہے، تاہم انہیں بالکل معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    :پاکستان کا قومی جانور ۔ مارخور

    markhor

    پاکستان کا قومی جانور مار خور کچھ عرصہ قبل تک اپنی بقا کے خطرے سے دو چار تھا۔ مارخور پاکستان اور چین سمیت مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔

    اس کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ اس کا بے دریغ شکار ہے جو اس کے سینگ کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سینگ چین کی قدیم دوائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی آبادی میں کمی کی ایک اور وجہ ٹرافی ہنٹنگ بھی ہے۔ اس مقابلے میں جیتنے والے کو کسی جانور (عموماً مارخور) کا سر انعام میں دیا جاتا ہے۔

    نوے کی دہائی میں اس جانور کی آبادی میں 70 فیصد کمی واقع ہوگئی تھی جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر اس کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔ پاکستان میں مقامی قبیلوں کو تربیت دی گئی کہ وہ اپنے علاقوں میں مار خور کی حفاظت کریں اور اس کے شکار سے گریز کریں۔

    پاکستان میں اس جانور کے لیے اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات نے تاجکستان کو بھی متاثر کیا اور وہاں رہنے والے قبائل نے بھی اس کا شکار کرنے کے بجائے اس کی حفاظت کرنا شروع کی۔

    :امریکا کی ننھی لومڑیاں

    fox

    امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، گزشتہ برس معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئیں۔

    ماہرین کے مطابق اگلے ایک عشرے تک اس لومڑی کی 50 فیصد آبادی ختم ہونے کا خطرہ تھا۔ یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    ان اقدامات کے باعث اس لومڑی کی آبادی میں اضافہ شروع ہوا اور بالآخر یہ معدومی کی زد سے باہر نکل آئیں۔

    :افریقی جنگلات کا اہم حصہ ۔ گوریلا

    gorilla

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی تھی جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جس کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    تاہم گوریلا کی ایک قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    :سائبیرین چیتا

    tiger

    سائبیرین چیتا جسے امور ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے مشرقی ایشیائی مقامات پر پایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں بے شمار چیتے تھے۔ لیکن پھر 90 کی دہائی میں ان کی موجودگی کے آثار ختم ہوگئے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ ہم اس جانور کو کھو چکے ہیں۔

    تاہم کچھ عرصہ قبل آئی یو سی این نے چین اور روس میں حفاظتی پروگرام شروع کیے جن کے باعث ان کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ اس وقت دنیا بھر میں 400 سائبیرین چیتے موجود ہیں۔

    :کاکاپو طوطا

    kakapo

    نیوزی لینڈ کو صدیوں سے اپنا مسکن بنائے کاکاپو طوطا 90 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ منفرد طوطا انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار کے باعث اپنے خاتمے کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

    سنہ 1970 میں جب ان کے تحفظ پر کام شروع کیا گیا تو یہ مشکل سے درجن بھر تعداد میں تھے اور وہ بھی سب نر تھے۔ تکنیکی طور پر یہ نسل معدوم ہوچکی تھی۔

    لیکن پھر نیوزی لینڈ کے جنوبی ساحل کے قریب ایک جزیرے پر 4 مادہ طوطیاں دیکھی گئیں۔ انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا اور ان کی دیکھ بھال شروع کردی گئی۔ آہستہ آہستہ ان کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اب یہ طوطا بھی ایک مستحکم تعداد میں موجود ہے۔