Tag: گوشت

  • لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کیا صحت کے لیے مفید ہوتا ہے؟

    لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کیا صحت کے لیے مفید ہوتا ہے؟

    جدید سائنس کی دنیا میں گوشت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لیبارٹری میں گوشت تیار کیا جارہا ہے، اب جانوروں کے گوشت کے بجائے لیب سے تیار شدہ مصنوعی گوشت کی خریداری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    ہمارے پلیٹ تک گوشت پہنچانے کے لیے بہت سی کمپنیاں لیبارٹری میں اس طریقہ پر کام کر رہی ہیں تاکہ یہ اصلی گوشت سے بہتر اور اس سے زیادہ ذائقہ دار ہوسکے، کچھ کمپنیاں مصنوعی گوشت کو پہلے ہی فروخت کرنے کے لیے پیش کر چکی ہیں۔

    یہ ایک قسم کا مصنوعی گوشت ہے لیکن یہ مکمل طور پر مصنوعی بھی نہیں ہوتا، اسی وجہ سے لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کو مختلف نام بھی دیے گئے ہیں۔

    ابتدائی طور پر اسے ویٹ میٹ کے نام سے موسوم کیا گیا، لیکن لوگوں نے اس نام کو پسند نہیں کیا پھر اسے لیب میٹ کا نام دیا گیا اور یہ نام گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب بھی ہوا، لیکن بعد میں اسے کلچرڈ میٹ یا کلٹی ویٹیڈ میٹ کا نام دیا گیا۔

    اس طرح سے گوشت تیار کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جانوروں کو ذبح کیے بغیر لیبارٹری میں گوشت تیار کیا جائے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے اپنی کتاب تھاٹس اینڈ ایڈونچر میں اس طرح کے گوشت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہم مرغی کے بریسٹ اور ونگز کھانے کے لیے پوری مرغی کو کیوں بڑا کرتے ہیں؟

    یقیناً سائنس نے آج اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہم فصلوں کی طرح گوشت کو بھی لیبارٹری میں اگا کر کھا سکتے ہیں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مستقبل میں غذائی تحفظ ایک اہم موضوع ہوگا اور مویشی پالنا ماحولیاتی تبدیلی کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوگا، ایسے میں کلٹی ویٹیڈ میٹ کو مستقبل میں کھائے جانے والے خوراک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    اس کے بننے کا عمل ٹیسٹ ٹیوب سے بائیو ریکٹر تک ہی ہے، اس کو بنانے کے لیے جانوروں کے خلیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بائیوپسی طریقے کے ذریعہ خلیے کو جمع کیا جاتا ہے پھر اسے گرم اور صاف کنٹینر میں رکھا جاتا ہے۔ اس برتن میں ایک محلول ہوتا ہے جس میں نمکیات، پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹ ہوتا ہے جو خلیے کی نشوونما کے لیے ضرورت ہوتی ہے، ان کی مدد سے خلیے تقسیم ہوتے ہیں۔

    ایک چھوٹے سے بائیو ریکٹر میں چکن نگٹس کو بنانے میں دو دن لگتے ہیں، ہر خلیہ 24 گھنٹے میں دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ لیبارٹری میں خلیات سے گوشت کے ٹکڑوں کے علاوہ کچھ اور نہیں تیار کیا جاسکتا نہ ہی جلد، نہ ہڈیاں اور نہ چربی۔ چربی کے خلیات بننے کے لیے مختلف حالات اور مختلف غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا چربی کے خلیات کو الگ سے بڑھانا پڑتا ہے۔

    لیبارٹری میں تیار کیے گئے گوشت اور چربی کی کوئی شکل نہیں ہوتی ہے، وہ صرف بہت سارے خلیوں کا ایک گچھا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے لیبارٹری کے گوشت کو برگر یا چکن نگٹس کے طور پر پیش کیا گیا لیکن ان کا ذائقہ گوشت جیسا ہی ہوتا ہے۔

    صاف ستھرے ماحول میں تیار کیے جانے سے اس گوشت میں بیماری اور کیمیائی آلودگی کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

  • جدہ: ایکسپائرڈ گوشت برآمد ہونے پر ریستوران کے خلاف کارروائی

    جدہ: ایکسپائرڈ گوشت برآمد ہونے پر ریستوران کے خلاف کارروائی

    ابو ظہبی: سعودی عرب کے شہر جدہ میں جدیدہ کی بلدیاتی کاؤنسل کے انسپکٹرز نے شہر کے معروف ریستوران پر چھاپہ مار کر زائد المیعاد گوشت برآمد کرلیا۔

    میونسپلٹی کے ماتحت جدہ الجدیدہ بلدیاتی کاؤنسل کی چیئر پرسن عزۃ العسبلی نے کہا ہے کہ الزہرا محلے کے ایک فاسٹ فوڈ ریستوران سے چوتھائی ٹن زائد المیعاد گوشت برآمد ہوا ہے جو انسانی استعمال کے قابل نہیں تھا۔

    العسبلی نے مزید کہا کہ ریستوران کی انتظامیہ صفائی نظام کی پابندی نہیں کر رہی تھی، کھانے پینے کی اشیا جس جگہ ذخیرہ کی گئی تھیں وہاں صفائی غیر معیاری تھی۔

    بلدیاتی کاؤنسل نے خلاف ورزی پر ریستوران کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے خراب گوشت ضبط کرلیا اور اسے تلف کروا دیا۔

    بلدیاتی کاؤنسل کے انسپکٹرز ان دنوں تجارتی اور غذائی اشیا کا کاروبار کرنے والے اداروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور مقررہ قوانین و ضوابط کی پابندی پر عمل یقینی بنا رہے ہیں۔

  • سبزی کے بیجوں سے مصنوعی گوشت تیار

    سبزی کے بیجوں سے مصنوعی گوشت تیار

    دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر غذائی قلت کا خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے اور اس کے لیے متبادل ذرائع ڈھونڈے جارہے ہیں، اب حال ہی میں کچھ کمپنیوں نے گوشت کا متبادل تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گوشت کے متبادل ذرائع کی مارکیٹ فوڈ ٹیک کمپنیوں کے درمیان تیزی سے ترقی پانے والے رجحان کے طور پر سامنے آئی ہے۔

    یہ کمپنیاں ماحول دوست، آسانی سے تیار ہونے والی، معتدل قیمت اور سب سے اہم، لذیذ طریقے تلاش کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔

    اسی ضمن میں اسرائیلی اسٹارٹ اپ مور فوڈز نے کدو اور سورج مکھی کے بیجوں سے بنائے گئے متبادل پروٹین کی ایک نئی شکل تیار کی ہے۔

    یہ کمپنی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کدو اور سورج مکھی کے بیجوں کا تیل نکالنے کے بعد اس کے بچ جانے والے گودے کو استعمال کرتے ہوئے اسے گوشت کے ایک قابل عمل متبادل میں تبدیل کرتی ہے۔

    کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) لیونارڈو مارکووٹز کا کہنا ہے کہ لوگ جس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ اجزا کی واقفیت کے احساس سے آتا ہے جس میں بعض اوقات گوشت کا متبادل کمی کا حساس دلاتا ہے۔

    ہم سپر فوڈ اجزا کا استعمال کر کے اس احساس کو حاصل کرتے ہیں جس سے ہر کوئی واقف ہے، قیمتوں میں مسابقت کے ساتھ ساتھ کھانے کے اس نئے تجربے سے لطف اندوز ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافے کے لیے لیبل کو بہت مختصر اور سمجھنے میں آسان رکھا جاتا ہے۔

    اسرائیل میں کئی ریستورانوں نے پائلٹ پروجیکٹس شروع کیے ہیں جن میں کھانے کی مزید مصنوعات پیش کی جاتی ہیں، ان میں میکسیکا، پیٹا بستا اور کیفے بٹی شامل ہیں۔

    کمپنی اس سال کے آخر میں یورپی یونین کی مارکیٹ میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔

    ایک اور فوڈ ٹیک کمپنی، فلائنگ اسپارک نے اپنے گوشت کے متبادل کو فروٹ فلائی کے لاروا سے تیار کر کے قدرے زیادہ غیر روایتی بنایا ہے۔

    اگرچہ یہ سنتے ہی منہ میں پانی تو نہیں آتا، لیکن کمپنی کا دعویٰ ہے کہ لاروا سے حاصل ہونے والی مصنوعات کو پودوں پر مبنی حریفوں پر ایک فائدہ ہے۔

    حال ہی میں فلائنگ اسپارک نے تھائی فوڈ بنانے والی کمپنی تھائی یونین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جو اس کا 20 ٹن پروٹین پاؤڈر خریدے گی۔

    تھائی یونین پالتو جانوروں کی خوراک کی تیاری میں پروٹین کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو فلائنگ اسپارک کی مصنوعات کے لیے مثالی مارکیٹ ہو سکتی ہے۔

    کمپنی کے بانی اور سی ای او ایرن گرونیچ کہتے ہیں کہ ہمیں فلائنگ اسپارک کی مصنوعات اور ٹیکنالوجی پر تھائی یونین کے اعتماد کے اظہار پر فخر اور بہت زیادہ قدر ہے۔

  • گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    سرخ گوشت کھانے کے نقصانات سے انکار نہیں اور اس کا زیادہ استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گوشت خوری اور کینسر کے درمیان مزید شواہد سامنے آگئے، برطانیہ میں 5 لاکھ افراد کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ گوشت خوری سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    سائنسدانوں کی جانب سے گوشت کے زیادہ استعمال اور کینسر کے درمیان تعلق پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے لیکن اب سائنس دانوں کو اس حوالے سے مزید شواہد ملے ہیں کہ زیادہ گوشت خوری کئی طرح کے سرطان کی وجہ بن سکتی ہے اور گوشت کم کھانے سے تقریباً تمام اقسام کے سرطان سے بچاؤ ممکن ہے۔

    برطانوی ماہرین کی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جتنا زیادہ گوشت کے استعمال میں اضافہ ہوگا اتنا ہی زیادہ کینسر کا خطرہ بھی بڑھتا جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت خوری سے سن یاس کے بعد بریسٹ کینسر، بڑی آنت اور پروسٹیٹ کینسر کا خدشہ بطورِ خاص پیدا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں برطانوی بائیو بینک میں موجود ڈیٹا بیس سے 4 لاکھ 72 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا اور ایک عرصے تک ان پر نظر رکھی گئی جس میں لاکھوں افراد کی اوسط عمر 40 سے 70 برس تھی اور مسلسل 11 برس تک ان کی طبی کیفیات کا جائزہ لیا جاتا رہا۔

    اس تحقیقی جائزے سے معلوم ہوا کہ 2006 سے 2010 کے درمیان یہ تمام افراد کینسر سے دور اور تندرست تھے، ان میں سے 52 فیصد افراد نے ہفتے میں پانچ مرتبہ گوشت کی عادت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ مچھلی، سرخ گوشت اور خنزیر وغیرہ کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔

    43 فیصد افراد نے صرف مچھلی کھانے کا اعتراف کیا جبکہ 10 ہزار یعنی 2.3 فیصد افراد نے صرف سبزی کھانے کا اعتراف کیا۔

    تاہم گیارہ برس بعد ان میں سے 54 ہزار سے زائد افراد خطرناک کینسر میں مبتلا ہو چکے تھے، انہیں بڑی آنت، پروسٹیٹ، اور خواتین کو چھاتی کا سرطان لاحق ہوچکا تھا۔

    تحقیق سے یہ بھی علم ہوا کہ سبزیاں کھانے سے عددی طور پر سرطان کا خطرہ 14 فیصد کم ہوجاتا ہے جبکہ مچھلی کھانے والوں میں اس کی شرح 10 فیصد کم دیکھی گئی اور زیادہ گوشت کھانے والے افراد میں کینسر کی شرح میں اضافہ سامنے آیا۔

  • مریخ پر رہنے کے لیے گوشت خوری چھوڑنی ہوگی

    مریخ پر رہنے کے لیے گوشت خوری چھوڑنی ہوگی

    معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک مریخ پر رہائشی کالونی بنانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ وہاں رہنے والے افراد کو گوشت خوری ترک کرنی پڑے گی۔

    اسٹار لنک اور برین چپ جیسے اچھوتے منصوبوں کے خالق ایلون مسک مستقبل میں انسانوں کے لیے سرخ سیارے پر رہائشی کالونی بنانے کے تصور پر کام کر رہے ہیں۔

    اس کالونی میں لوگ شیشے کے بنے گنبدوں میں رہنے کے ساتھ اپنے لیے غذا بھی شمسی توانائی پر چلنے والے ہائیڈرو پونک فارمز میں اگائیں گے۔

    انسانوں کو مختلف سیاروں پر بسانے کے خواہش مند ایلون مسک کا پہلا ہدف سرخ سیارے پر ایک مستحکم رہائشی آبادی کا قیام ہے۔

    ایلون مسک نے 2002 میں اسپیس ایکس کا قیام بھی اسی مقصد کے تحت کیا تھا اور اس ہدف کو ہزاروں اسٹار شپ فلائٹس کے ذریعے حاصل کرنے کی توقع ہے۔

    ایلون مسک کے اس منصوبے کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ مریخ پر رہائش اختیار کرنے والے پہلے 100 افراد کو محدود وسائل کی وجہ سے صرف سبزیوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا کیونکہ فی الحال وہاں گلہ بانی کرنا ممکن نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ایلون مسک کی سرخ سیارے پر 5 ہزار افراد کے لیے قائم کی گئی کالونی میں صرف سبزیوں اور پھلو ں کو ہی اگایا جاسکے گا۔

    ان ہائیڈرو پونک 4 منزلہ اور 0.3 اسکوائر میل پر محیط فارمز کو اسٹار شپ کے ذریعے سرخ سیارے تک پہنچایا جائے گا۔

  • سعودی عرب: کبوتر کے گوشت کی طلب میں اضافہ

    سعودی عرب: کبوتر کے گوشت کی طلب میں اضافہ

    ریاض: سعودی عرب میں کبوتر کی گوشت کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے جس کے بعد کبوتر کی پیداوار میں اضافے کے لیے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔

    سعودی عرب کی ماحولیات، پانی اور زراعت کی وزارت نے بتایا ہے کہ اس نے سنہ 2025 تک مقامی سطح پر کبوتروں کی سالانہ پیداوار کو 280 فیصد اضافے کے ساتھ 4.5 کروڑ تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

    اس سلسلے میں زرعی کمپنیوں کو اس میدان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے علاوہ دیگر مطلوبہ اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔

    وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اس وقت پیداواری صلاحیت میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے، اس کا مقصد کبوتروں کے گوشت کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

    وزارت کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں کبوتروں کی سالانہ پیداوار 1.6 کروڑ ہے جو 12.25 ہزار ٹن گوشت کے مساوی ہے، اس وقت کبوتروں کی پیداوار سے متعلق 100 سے زیادہ منصوبے چل رہے ہیں۔

  • گوشت کمپنی پر سائبر حملہ، گوشت کی فراہمی بند

    گوشت کمپنی پر سائبر حملہ، گوشت کی فراہمی بند

    دنیا کی سب سے بڑی گوشت فراہم کرنے والی کمپنی کے انفارمیشن سسٹم پر سائبر حملہ ہوگیا جس کی وجہ سے گوشت کی فراہمی بند ہوگئی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق گوشت فراہم کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی پر سائبر حملہ کر دیا گیا۔ سائبر حملہ گوشت فراہم کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی جے بی ایس کے انفارمیشن سسٹم پر ہوا جس کی وجہ سے گوشت کی فراہمی بند ہوگئی۔

    جے بی ایس کے جاری کردہ بیان کے مطابق سائبر حملہ کمپنی کے آسٹریلیا اور شمالی امریکا میں موجود یونٹس پر ہوا جس سے کمپنی کا آسٹریلیا میں موجود یونٹ بند ہوگیا۔

    کمپنی کا کہنا تھا کہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا تاہم اس دوران کسٹمرز اور سپلائرز کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ سائبر حملے کی وجہ سے ہزاروں ملازمین کو کام سے روک دیا گیا ہے۔

    گوشت پروسیسنگ کی صنعت ریگولیٹری معیارات کی تعمیل کرنے کے لیے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے علاوہ جانوروں سے باخبر رہنے اور درجہ بندی کے لیے کمپیوٹر اور سافٹ ویئر سسٹم پر انحصار کرتی ہے۔

  • گوشت کھانے سے درجنوں افراد کی حالت غیر۔۔۔ وجہ کیا بنی؟

    گوشت کھانے سے درجنوں افراد کی حالت غیر۔۔۔ وجہ کیا بنی؟

    مشرقی افریقی ملک زیمبیا میں زہر آلود گوشت کھانے سے 24 افراد کی حالت خراب ہوگئی جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    یہ واقعہ زیمبیا کے مغربی علاقے نالولو ضلع میں پیش آیا، مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق مشتبہ طور پر زہر آلود گوشت کھانے سے 24 افراد کی حالت غیر ہوگئی، تمام افراد کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا۔

    پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد میں 12 کم عمر ہیں جبکہ دیگر لوگ بالغ ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ واقعہ ضلع کے ایک دور دراز علاقے میں پیش آیا ہے۔

    پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش بھی جارہی ہے اور ذمہ داران کا تعین کیا جارہا ہے۔

  • پولٹری فارم کی ورکر گوشت پیسنے والی مشین میں آگئی، لرزہ خیز ویڈیو

    پولٹری فارم کی ورکر گوشت پیسنے والی مشین میں آگئی، لرزہ خیز ویڈیو

    روس میں ایک ہولناک حادثے میں پولٹری فارم کی ورکر گوشت پیسنے والی مشین میں آگئی، اس کے ساتھی اس کی مدد کو دوڑے لیکن اس کے لیے کچھ نہ کرسکے۔

    یہ لرزہ خیز واقعہ روس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیش آیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی جاری کردی گئی ہے۔ فوٹیج ایک پولٹری فارم کی ہے جہاں ایک خاتون ورکر مرغی کا گوشت اٹھا کر ایک سے دوسرے کنویئر پر منتقل کر رہی ہیں۔

    اس دوران اچانک ورکر کا ہاتھ مشین میں پھنس جاتا ہے اور وہ مشین میں کچلتی ہوئی آگے کی طرف چلی جاتی ہے۔

    ورکر کی بھیانک چیخیں سن کر اس کے ساتھی بھاگ کر وہاں پہنچتے ہیں لیکن وہ اس کی کوئی مدد کرنے سے قاصر رہتے ہیں، میڈیکل رپورٹ کے مطابق ورکر موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی تھی۔

    واقعے کے بعد ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی جس نے اپنی رپورٹ میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کو حادثے کی وجہ قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گوشت پیسنے والی مشینوں کے ارد گرد کوئی حفاظتی شیلڈ نہیں تھی اور کوئی بھی شخص آسانی سے مشینوں کے نہایت قریب جاسکتا تھا۔

    رپورٹ میں پولٹری فارم انتظامیہ کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا جس کے بعد اب پولٹری فارم مالکان اور اس نجی کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کا امکان ہے جو فارم کو ملازمین فراہم کرتی تھی۔

  • لیبارٹری میں تیار گوشت کے کباب فروخت کے لیے پیش

    لیبارٹری میں تیار گوشت کے کباب فروخت کے لیے پیش

    لیبارٹری میں پہلی بار تیار کردہ گوشت کو فروخت کے لیے پیش کردیا گیا، اس کا ذائقہ بالکل اصلی گوشت جیسا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق گائے کے خلیوں کے ساتھ تیار کردہ دنیا کے پہلے تھری ڈی گوشت کو کباب بنا کر فروخت کے لیے پیش کر دیا گیا، اس کا ذائقہ بالکل اصلی گوشت جیسا ہی ہے جو آپ کسی قصاب سے خرید کر کھاتے ہیں۔

    اسرائیلی کمپنی نے گائے کے خلیوں سے اس گوشت کو تیار کیا ہے جس میں کسی بھی جانور کو ذبح نہیں کیا جاتا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے دو جانوروں کے خلیوں کو لیب میں ملا کر اسٹیک تیار کیا گیا ہے، یہ مصنوعی لیکن اصلی گوشت ہے جو خاص کر ان لوگوں کے لیے ہے جو جانوروں کو ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور ان کا گوشت کھانے سے اجتناب کرتے ہیں۔

    تھری ڈی کباب وسائل کی کمی کے باعث مہنگا ہے تاہم آہستہ آہستہ اس کی قیمت میں کمی کر دی جائے گی۔

    اس سے قبل سنگاپور میں بھی لیبارٹری میں تیار کردہ مرغی کا گوشت فروخت لیے پیش کیا گیا تھا۔