Tag: گوگل ایپ

  • گوگل کی مقبول ترین ایپ کل سے بند کردی جائے گی

    گوگل کی مقبول ترین ایپ کل سے بند کردی جائے گی

    معروف امریکی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے سیکڑوں ملین سے زائد ڈاؤن لوڈ کی گئی ایپلی کیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس کا عندیہ گزشتہ سال دیا گیا تھا۔

    عام طور پر اکثر گوگل کی جانب سے اپ ڈیٹس کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تاہم اب گوگل نے اپنی ایک اہم ایپ کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    غیر ملکی ویب سائٹ لائیومنٹ ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق 500ملین سے زیادہ ڈاؤن لوڈز والی گوگل پوڈ کاسٹ ایپ کل مورخہ 2 اپریل کو امریکہ میں بند ہونے جارہی ہے، پوڈ کاسٹ کئی پلیٹ فارمز پر دلچسپ اور معروف سمجھا جاتا ہے۔

    Google Podcasts

    گوگل نے صارفین سے اپنے ڈیٹا کو یوٹیوب میوزک یا کسی اور سروس پر منتقل کرنے پر زور دیا ہے، پوڈ کاسٹ اب بھی ڈاؤن لوڈ کیے جاسکتے ہیں لیکن شٹ ڈاؤن کی تاریخ کے بعد اسٹریم نہیں کیے جاسکتے۔

    رپورٹ کے مطابق گوگل کی جانب سے یہ خیال سامنے آیا ہے کہ کاروبار کے لیے الگ ایپ بنانے کے بجائے موجودہ ایپس میں ہی اسے شامل کرلیا جائے۔

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے گوگل نے گوگل پوڈ کاسٹ کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ ہار نہیں مانی بلکہ پوڈ کاسٹ کے آئیڈیا کو ایک اور پلیٹ فارم یوٹیوب میوزک پر شفٹ کردیا ہے۔

    Music

    کمپنی اپنے تمام ریسورسز دو ایپس کے بجائے ایک ایپ پر لگانے کا ارادہ رکھتی ہے، یعنی یوٹیوب میوزک پر۔

    گوگل کی جانب سے گزشتہ سال ستمبر میں ایپ بند کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا، ساتھ ہی گوگل کی جانب سے صارفین سے کہا جا رہا ہے کہ یوٹیوب میوزک کی سروس حاصل کرنے کے لیے صارفین کو پیسے دینے پڑیں گے۔

    اگر صارفین کو پوڈ کاسٹ تک حصول چاہیے تو انہیں 2 اپریل سے انویسٹ کرنا پڑے گا تاہم گوگل کی جانب سے فی الحال یہ اقدام امریکی صارفین کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

    گوگل کا کہنا ہے کہ صارفین چاہیں تو پوڈ کاسٹ ڈیٹا کو یوٹیوب میوزک ایپ پر شفٹ کر سکتے ہیں یا پھر کوئی دیگر پوڈ کاسٹ کا انتخاب بھی کرسکتے ہیں۔

    shutting down

    پوڈ کاسٹ کو ٹرانسفر کا طریقہ

    سب سے پہلے گوگل پوڈکاسٹ ایپ کو اوپن کریں۔ اس کے بعد ایکسپورٹ سبسکرپشنز کے آپشن پر کلک کریں۔

    تیسرے اسٹیپ کے طور پر ایکسپورٹ انڈر ایکسپورٹ ٹو یوٹیوب میوزک پر کلک کریں اور پھر ٹرانسفر ٹو یوٹیوب میوزک ایپ پر کلک کریں۔

  • وائس اور ویڈیو کالز کے لیے گوگل نے نئی ایپ کا اعلان کر دیا

    وائس اور ویڈیو کالز کے لیے گوگل نے نئی ایپ کا اعلان کر دیا

    گوگل وائس اور ویڈیو کالز کے لیے Meet اور Duo کو ایک ہی ایپ میں ملانے جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گوگل نے گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی 2 ویڈیو کالنگ ایپس Duo اور Meet کو اب ایک ہی ایپ میں یک جا کرنے جا رہا ہے۔

    گوگل کا کہنا ہے کہ بہت جلد صارفین کو ایک ہی گوگل میٹ دستیاب ہوگا، اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ واحد کالنگ ایپ ہوگی جو صارفین کی زندگی کا ناگزیر حصہ بن جائے گی۔

    گوگل نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ ان دونوں ایپس کو ملانے سے جدید مواصلاتی ٹولز کے کئی مسائل حل ہوں گے۔

    گوگل ورک پلیس کے سربراہ حاویر سولٹیرو نے کہا کہ یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ لوگ کس ٹول کو استعمال کرنے جا رہے ہیں، کس مقصد کے لیے، اور کن حالات میں اس کا انتخاب کرتے ہی، ہماری ڈیجیٹل زندگی لاکھوں مختلف چیٹ ایپس سے بھری ہوئی ہے، ان میں سے کسی کا مقصد کچھ ہے اور کسی کا کچھ، چند کام کے لیے اور کچھ ذاتی مقاصد کے لیے ہم استعمال کرتے ہیں۔

    اب گوگل کا ارادہ ہے کہ ان سب کو اکٹھا کرنے کے لیے جی میل ایڈریس اور فون نمبر استعمال کیا جائے، سولٹیرو نے کہا کہ اب اس طریقے سے آپ تک پہنچنے کے قابل ہونا واقعی اہم بات ہے، اور پھر یہ ایپ آپ کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت بھی دے گی کہ آیا آپ تک پہنچنا ہے یا نہیں۔

    سولٹیرو نے گوگل میں اپنے زیادہ تر دور میں ‘اس رسائی’ کے خیال کو بہت فروغ دیا ہے، جس کی وجہ سے گوگل نے میٹ اینڈ چیٹ کو اپنی دیگر کئی سروسز میں ضم کیا۔

    تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک تو ہے لیکن اس کی وجہ سے گوگل سروسز بے ترتیب اور پیچیدہ ہو گئی ہیں، جلد بازی میں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ ملانے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ چند سالوں میں Meet ہر قسم کی میٹنگز اور گروپ چیٹس کے لیے ایک طاقت ور پلیٹ فارم بن گیا ہے، جب کہ Duo ایک میسجنگ ایپ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔

    اب گوگل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ڈیو کے تمام فیچرز کو میٹ میں لے کر آ رہا ہے، جو دونوں کا ایک بہترین کمبنیشن ہوگا۔

    تاہم فی الوقت یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ Duo کا کیا بنے گا، کیا اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا؟ یہ ایپ گوگل نے 2016 میں لانچ کی تھی، تاکہ ون ٹو ون ویڈیو کالز آسان ہوں، اس ایپ میں ایسی کئی مفید چیزیں ہیں جو Meet میں نہیں ہیں۔

  • کیا گوگل کی مدد سے جلد کے امراض کی تشخیص ہوسکے گی؟

    کیا گوگل کی مدد سے جلد کے امراض کی تشخیص ہوسکے گی؟

    گوگل نے حال ہی میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک آن لائن ٹول متعارف کروایا ہے جو جلد کے امراض کی ابتدائی تشخیص کرسکے گا، تاہم ماہرین اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی گوگل کی جانب سے جلد کے امراض کی ابتدائی تشخیص کے لیے بنائے گئے آن لائن ٹول پر ماہرین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے حقیقت سے بالاتر قرار دیا ہے۔

    گوگل نے گزشتہ ماہ مئی میں ہی آرٹیفشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کی مدد سے تیار کیے گئے اپنے آن لائن ٹول سے متعلق اعلان کیا تھا اور اب مذکورہ ٹول کی تکمیل مکمل ہونے پر ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

    گوگل کے مطابق اس نے کئی تحقیقات اور جلد کے امراض میں مبتلا ہزاروں افراد کی تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد تین سال کی محنت سے مصنوعی ذہانت کا ایک سسٹم تیار کیا ہے جو کہ سی ٹی اسکین کی طرح کام کرتا ہے۔

    گوگل نے مئی 2021 میں اپنے بلاگ میں بتایا تھا کہ ڈرماٹولوجی اسسٹنٹ ٹول ٹھیک ایسے ہی کام کرتا ہے، جیسے اب بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے اسکریننگ کی جاتی ہے۔

    گوگل کے مطابق مذکورہ ٹول کی تیاری کے وقت مصنوعی ذہانت کے سسٹم کو 65 ہزار مختلف رنگوں، مسائل اور بیماریوں کی تصاویر دکھائی گئی تھیں۔

    گوگل نے بتایا تھا کہ مذکورہ ویب ایپلی کیشن کی طرز کے ٹول کے ذریعے کوئی بھی صارف اپنے موبائل کے کیمرے سے تصاویر کھینچ کر اپنے ساتھ ہونے والے مسئلے کی ممکنہ نوعیت معلوم کر سکے گا۔

    تاہم گوگل کے مذکورہ ٹول پر ماہرین جلد نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی جلد کے رنگوں کو مکمل طور پر پہچاننے کی اہلیت نہیں رکھتا اور مذکورہ ٹول صرف گوری، بھوری یا سیاہ رنگت ہی پہنچان پائے گا جب کہ گوری رنگت کے بھی مختلف درجے ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ مذکورہ مصنوعی ذہانت کے ٹول سے بیماری یا مسئلے کی معلومات حاصل کرنے والے افراد مزید پریشانی اور تذبذب کا شکار ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹول کسی بھی طرح جلد، بالوں اور ناخن کے مسائل کو درست انداز میں نہیں پہچان پائے گا اور ممکنہ غلط تشخیص کے نتیجے میں لوگ پریشان ہوجائیں گے۔

    خیال رہے کہ گوگل نے اگرچہ مذکورہ ٹول تیار کرلیا ہے، تاہم اسے تاحال عوام کے استعمال کے لیے فراہم نہیں کیا گیا، اسے حکومتوں اور صحت سے متعلق اداروں کی منظوری کے بعد ہی استعمال کے لیے عام کیا جائے گا۔