Tag: گوہر جان

  • ‘گوہر جان‘ جن پر ہندوستانی امراء اپنی دولت نچھاور کرتے رہے!

    ‘گوہر جان‘ جن پر ہندوستانی امراء اپنی دولت نچھاور کرتے رہے!

    گوہر جان کا نام انجیلینا تھا۔ وہ اینجلینا سے گوہر اور پھر ‘گوہر جان‘ بنیں۔ موسیقی اور رقص میں یکتا گوہر جان نے زندگی کا تیرھواں سال دیکھا تو اس طرح کہ اُس کا جنم دن بڑے دھوم دھام سے منایا گیا اور یہ اہتمام گوہر جان کو راجاؤں اور امراء میں بطور مغنیّہ متعارف کروانے کے لیے کیا گیا تھا۔

    ریاست دربھنگہ کے مہاراجہ میشور سنگھ کے محل میں 1887ء میں جب گوہر نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو اس کی عمر 14 سال تھی۔ گوہر جانلکش میشور سنگھ کے زندہ رہنے تک دربھنگہ راج سے منسلک رہیں۔ ہندوستان بھر میں‌ گوہر جان کو موسیقی اور گلوکاری کی ملکہ مان لیا گیا اور وہ کئی درباروں سے وابستہ رہیں۔ ان پر راجاؤں، والیانِ سلطنت اور امراء نے خوب دولت اور جواہر نچھاور کیے۔ ان کے پرستار اور ان سے دل لگانے والے بھی بہت تھے۔

    سنہ 1911ء میں دلّی کے دربار میں پرنس آف ویلز کنگ جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر گوہرجان نے الٰہ آباد کی جانکی بائی عرف چھپن چھری کے ساتھ مل کر مبارک باد گائی تھی۔

    گوہر جان کی نانی رکمنی نامی عورت تھی جس نے غدر کے موقع پر یوپی کے شہر اعظم گڑھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر ہارڈی ہیمنگز سے شادی کی تھی اور عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔ اس جوڑے کے گھر جو پہلی لڑکی پیدا ہوئی اس کا نام ایڈلین وکٹوریہ ہیمنگز رکھا گیا۔ دوسری بیٹی کی پیدائش کے بعد شوہر کی اچانک وفات نے رکمنی کو مالی مسائل سے دوچار کردیا۔ اس کی بڑی بیٹی وکٹوریہ کو نوکری کرنا پڑی۔ اس نوکری کے دوران وکٹوریہ کی ملاقات رابرٹ ولیم نامی شخص سے ہوئی اور انھوں نے سنہ 1872 میں شادی کرلی۔ یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی مگر شادی کے بعد وہ ایک بیٹی کے والدین بنے جس کا نام ایلن انجلینا یووارڈ رکھا تھا۔ علیحدگی کے بعد وکٹوریہ کی ملاقات بنارس کے ایک رئیس صاحبزادہ خورشید سے ہوئی جن کے ساتھ وہ اعظم گڑھ سے بنارس چلی گئی اور اسلام قبول کرلیا۔ وکٹوریہ اب ملکہ جان اور اس کی بیٹی ایلن انجلینا کا نام گوہر جان تھا۔ صاحبزادہ خورشید نے ملکہ کو رقص کی تربیت دلوائی اور وہ بنارس میں اپنی گائیکی اور رقص کے لیے مشہور ہوئی۔ ملکہ جان نے اپنی بیٹی کو بھی گائیکی اور رقص سکھانا شروع کردیا۔ بعد میں ملکہ جان اپنی بیٹی گوہر جان کے ساتھ کلکتہ چلی گئی اور وہاں اودھ کے معزول نواب واجد علی شاہ کے دربارمیں ’بائی جی‘ کا مقام حاصل کرلیا۔ یہیں انھوں نے اپنا ایک مکان چت پور روڈ پر خرید لیا اور اپنی بیٹی کی تربیت پر توجہ مرکوز کردی۔ گوہر جان نے پٹیالہ کے کالے خاں عرف کالو استاد، رام پور کے استاد وزیر خاں، اور پٹیالہ گھرانے کے استاد علی بخش سے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ کتھک استاد سے کتھک رقص سیکھا اور پھر وہ وقت آیا جب ہندوستان کی بڑی بڑی شخصیات اور انگریز بھی گوہر جان کے فنِ گائیکی اور رقص کے معترف ہوگئے۔

    جب بیسویں صدی کے اوائل میں گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنیاں‌ ایشیائی ممالک کی طرف متوجہ ہوئیں اور مقامی گلوکاروں‌ کی آوازیں ریکارڈ کرنے کا آغاز ہوا تو گوہر جان پہلی ہندوستانی مغنّیہ تھیں‌ جن کو اس مشین پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کا اعزاز حاصل ہوا۔

    1898ء میں لندن کی ایک کمپنی نے گرامو فون ریکارڈنگ کے لیے ہندوستان میں‌ مہم شروع کی تھی، تو فریڈرک ولیم گیسبرگ نامی ایک ماہر کو کلکتہ بھیجا تھا۔ اس انگریز ماہر نے مختلف شخصیات کی مدد سے ہندوستان میں موسیقی کی محافل اور تھیٹروں تک رسائی حاصل کی اور گلوکاروں کو سنا، مگر کوئی آواز اسے پسند نہ آئی۔ گوہر جان کی آواز اُن دنوں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھیں۔ اسے گوہر جان کو سننے کا موقع ملا تو انھیں ریکارڈنگ کروانے پر رضامند کرلیا۔ 14 نومبر 1902ء کو کلکتے میں گوہر جان کو ریکارڈنگ کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس مغنیہ نے راگ جوگیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    مشہور ہے کہ پہلی مرتبہ ریکارڈنگ کے لیے گوہر جان صبح 9 بجے زیورات سے لدی پھندی اپنے سازندوں کے ساتھ ہوٹل پہنچی تھیں جہاں‌ انھیں‌ بلایا گیا تھا۔ یہ تین منٹ کی ریکارڈنگ تھی جو گوہر جان اور ان کے سازندوں کے لیے ایک نہایت اہم اور یادگار موقع تھا۔ ریکارڈ پر لیبل لگانے میں آسانی کی غرض سے اور محفوظ کی گئی آواز کی شناخت کے لیے انگریزی زبان میں گوہر جان نے مخصوص جملہ ‘مائی نیم از گوہر جان’ بھی ادا کیا تھا، ’مائی نیم از گوہر جان’

    گوہرجان نے محفلوں کی گائیکی سے زیادہ اپنی ریکارڈنگ کے ذریعے ٹھمری، دادرا، کجری، چیتی، بھجن اور ترانہ دور دور کے لوگوں تک پہنچایا۔ انھوں نے بنگالی، پنجابی، مدراسی، عربی، ترکی، سنسکرت اور فارسی میں بھی چند گیت گائے۔ وہ شاعری بھی کرتی تھیں اور تخلص ہمدم تھا۔ گوہر جان نے سنہ 1902 سے سنہ 1920 کے دوران پانچ سو سے زیادہ نغمے ریکارڈ کروائے۔

    گوہر جان تین دہائیوں تک موسیقی کی دنیا میں نام اور دولت کماتی رہیں اور بڑے عیش سے زندگی بسر کی۔ وہ مختلف زیورات اور منہگے ملبوسات پہنا کرتی تھیں۔ گوہر جان کی شادی ان کے طبلہ نواز غلام عباس سے ہوئی لیکن کام یاب نہیں رہی۔ گوہر جان نے خود بھی خوب دولت لٹائی اور کچھ آخری عمر میں‌ مقدمات کی نذر ہوگئی۔ بڑھاپا آیا تو مہاراجہ میسور نے رہنے کو آشیانہ اور پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا۔

    26 جون 1873ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والی گوہر جان کو غزل، ٹھمری، کجری، ترانہ اور دادرا جیسی اصناف پر عبور حاصل تھا۔ گوہر جان 17 جنوری 1930ء کو میسور کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئیں۔

  • چھپن چُھری کون تھیں؟

    چھپن چُھری کون تھیں؟

    بیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ذکر ہے کہ اکبر الہٰ آبادی کی رہائش گاہ “عشرت منزل، الہٰ آباد” میں ایک محفلِ موسیقی برپا ہے۔ ایک مغنّیہ اپنی مدھر آواز میں کچھ یوں گا رہی ہے؛ “بھک بھک بھک دھوئیں کی گاڑی اُڑائے لیے جائے۔”

    اس گیت کے باقی اشعار کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ریل گاڑی مذہب و ملت اور ذات پات کی پروا کیے بغیر ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، امیر و غریب سب کو ہی ساتھ اُڑائے لیے جاتی ہے۔ اُس مغنّیہ کی آواز، میں ایسا اعجاز تھا کہ جو بھی سنے وہ گرویدہ ہو جائے۔

    یہ اُس زمانے کی اتنی ماہر و مقبول گانے والی تھی کہ عوامی گیتوں اور غزلوں کے علاوہ ٹھمری، دادرا اور راگنیاں بھی اس درجہ کمال سے گاتی تھی کہ ان کے گراموفونک ریکارڈ گھر گھر سنے جاتے تھے لیکن بدقسمتی سے بہ مثلِ کوئل وہ آواز کی تو ملکہ تھی مگر چہرے پر نشانات اور داغ ایسے تھے کہ وہ کسی کے سامنے آنے سے کتراتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ایک مہاراجہ اس گائیکہ کا مکمل نام جانکی بائی تھا اور مشہور تھیں‌ چھپن چُھری الہٰ آباد والی۔ موسیقی کی وہ محفل تمام ہوئی تو اکبر الہٰ آبادی خواجہ حسن نظامی کے ساتھ اپنی بیٹھک میں چلے گئے۔ اس اثناء میں زنان خانے سے آواز آئی کہ جانکی بائی آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی زنان خانے کی طرف چل دیے اور تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے اور خواجہ صاحب سے گویا ہوئے کہ جانکی بائی اپنی لکھی ہوئی غزل لے کر آئی تھیں اور اصلاح کی فرمائش کر رہی تھیں اور پھر فرمانے لگے کہ

    “شاعری کا شوق اور نظر اور نذر کے تلفظ کا فرق نہیں جانتی۔ اب میں اس کو صحیح کیا کروں۔”

    ان کی یہ بات سُن کر خواجہ صاحب نے کہا کہ “گانے والی کی غزل میں صحیح زبان کی کس کو توقع ہو گی۔ آپ یوں ہی چھوڑ دیں۔”

    یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ اکبر الہٰ آبادی ان کی شاعری اور کلام کی اصلاح کرتے رہے یا نہیں لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ جانکی بائی نے اپنی شاعری کا دیوان بھی چھپوایا تھا۔

    آخر یہ جانکی بائی کون تھیں؟
    آواز کی ملکہ جانکی بائی کے داغ دار چہرے سے متعلق کئی کہانیاں زبان زدِ عام تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ریوا کے نواب کو انہیں سننے کا موقع ملا اور ساتھ ہی یہ معلوم ہوا کہ وہ پردے کے پیچھے رہ کر آواز کا جادو جگاتی ہیں تو نواب کو تجسس ہوا اور بعد میں جانکی بائی سے اس کی وجہ معلوم کی تو انہوں نے نواب کو بتایا کہ جوانی میں کسی نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اور ان کے چہرے پر چھپّن زخم لگے تھے جس سے چہرہ مسخ ہو کر خاصی حد تک دہشت ناک ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ لوگوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

    جانکی بائی کا آبائی تعلق بنارس سے تھا۔ ان کے والد حلوائی تھے لیکن بدقسمتی سے جانکی بائی کے والدین میں علیحدگی ہوگئی اور ماں بیٹی دونوں بے یارومددگار رہ گئیں جس بنا پر یہ دونوں الہٰ آباد میں آکر بس گئی تھیں۔ یہیں پر انہوں نے رقص، موسیقی اور شاعری میں کمال حاصل کیا اور بے پناہ شہرت حاصل کی۔

    ولیم گسبرگ جو گراموفون ریکارڈنگ کے ابتدائی زمانے کا ایک ماہر ریکارڈسٹ تھا۔ وہ نومبر 1902 میں ہندوستان آیا اور کلکتہ میں اُس زمانے کی دوسری مشہور گائیکہ گوہر جان کے ساتھ ساتھ جانکی بائی کی آواز میں بھی کلاسیکی گانے ریکارڈ کیے۔ گراموفون کمپنی کی بدولت ان کے گائے گئے ریکارڈڈ گیتوں نے انہیں سپراسٹار بنا دیا تھا۔ ان کی ہم عصر اور دوست گائیکہ گوہر جان کے علاوہ انہیں بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سن 1911 میں متحدہ ہندوستان کے تمام شاہی خاندانوں کی موجودگی میں شہنشاہ جارج پنجم کی رسم تاجپوشی میں گانا گانے کے لیے منتخب کیا گیا۔

    انہوں نے خصوصی طور پر شہنشاہ کی تاجپوشی کی تقریب میں گیت “یہ جلسہ تاجپوشی کا مبارک ہو” گا کر سامعین سے خوب داد سمیٹی۔ 1920 کی دہائی میں جانکی بائی اپنے فنی کیریئر کے عروج پر تھیں۔ اس زمانے میں ان کی لائیو پرفارمنس کا معاوضہ دو ہزار روپے تک پہنچ گیا تھا۔ اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر انہوں نے کمپنی سے مزید معاوضے کا مطالبہ بھی کیا جو بالآخر سخت مذاکرات کے بعد منظور کر لیا گیا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر جارج والٹر اور رابرٹ ایڈورڈ بیکٹ جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ صوتی ریکارڈنگ ٹیکنالوجی کے تحت گیت ریکارڈ کروائے اور بعدازاں جیکٹ اور آرتھر جیمز ٹوائن کے ساتھ نئی الیکٹریکل ریکارڈنگ کو بھی اپنایا تھا۔

    جانکی بائی نے اپنی محنت کے بل بوتے پر خوب شہرت و دولت کمائی۔ آپ نے الہٰ باد کے ایک وکیل شیخ عبدالحق سے شادی کی۔ شومئی قسمت یہ شادی کام یاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ ان کے شوہر کی بے راہ روی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں جب انہیں احساس ہوا کہ وہ آنہیں دھوکہ دے رہے ہیں تو فوراً ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر خود کو مکمل طور پر فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے اپنی تمام جائیداد، ریکارڈ اور پرفارمنس کے ذریعے کمائی گئی بے پناہ دولت کو مستحق طلباء و طالبات کو مالی مدد فراہم کرنے، غریبوں میں کمبل تقسیم کرنے، مندروں اور مساجد کو عطیہ کرنے اور مفت کچن چلانے کی غرض سے اپنے ٹرسٹ کو عطیہ کر دی۔ ان کا انتقال 18 مئی 1934 کو الہٰ آباد میں ہی ہوا۔

    (مترجم: انور اقبال)

  • گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے اوائل میں جب گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنیاں‌ ایشیائی ممالک کی طرف متوجہ ہوئیں اور مقامی گلوکاروں‌ کی آوازیں ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو گوہر جان پہلی ہندوستانی مغنّیہ تھیں‌ جنھیں اس مشین پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کا موقع ملا۔ وہ اپنے زمانے کی مشہور کلاسیکی گلوکارہ اور مقبول رقاصہ تھیں جنھوں نے 1930ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1898ء میں جب لندن کی ایک کمپنی نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ گرامو فون ریکارڈنگ مہم شروع کی، تو اس کام کے لیے یہاں ایک ایجنٹ کا انتخاب کرتے ہوئے فریڈرک ولیم گیسبرگ نامی ایک ماہر کو بھی کلکتہ بھیجا گیا۔ اس انگریز ماہر نے مختلف شخصیات کی مدد سے ہندوستان میں موسیقی کی محافل اور تھیٹروں تک رسائی حاصل کی اور گلوکاروں کو سنا، تاہم اسے کوئی آواز نہ بھائی، لیکن اس کی یہ کھوج اور بھاگ دوڑ رائیگاں نہیں گئی۔ گوہر جان کی آواز اُن دنوں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھیں۔

    کمپنی کے نمائندے کو گوہر جان کو سننے کا موقع ملا اور اس نے ملاقات کر کے انھیں ریکارڈنگ کی پیش کش کردی جو بامعاوضہ تھی۔ 14 نومبر 1902ء کو کلکتے میں گوہر جان کو ریکارڈنگ کے لیے بلایا گیا۔ اس مغنیہ نے راگ جوگیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    26 جون 1873ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والی گوہر جان کا پیدائشی نام انجلینا یووارڈ تھا، اور وہ ایک برطانوی کی اولاد تھی، لیکن اس کی ماں وکٹوریہ ہیمنگز جو ایک کلاسیکی رقاصہ اور گلوکارہ تھی، اس نے بعد شوہر سے طلاق کے بعد جب ایک مسلمان سے شادی کی تو اسلام قبول کرلیا اور اپنی بیٹی انجلینا کو گوہر جان کا نام دے دیا۔

    انھوں نے استاد کالے خان، استاد وزیر خان اور استاد علی بخش جرنیل سے رقص اور موسیقی کی تربیت حاصل کی اور کتھک رقص کے ساتھ ساتھ غزل، ٹھمری، کجری، ترانہ اور دادرا کی اصناف پر عبور حاصل کیا۔ 1911ء میں انھیں دہلی دربار میں جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر نغمہ سرا ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    کہتے ہیں کہ گرامو فون ریکارڈنگ کے لیے گوہر جان صبح 9 بجے زیورات سے لدی پھندی اپنے سازندوں کے ساتھ ہوٹل پہنچی تھیں جہاں‌ انھیں‌ بلایا گیا تھا۔ یہ تین منٹ کی ریکارڈنگ تھی جو گوہر جان اور ان کے سازندوں کے لیے ایک نہایت اہم اور یادگار موقع تھا۔ ریکارڈ پر لیبل لگانے میں آسانی کی غرض سے اور محفوظ کی گئی آواز کی شناخت کے لیے انگریزی زبان میں گوہر جان نے مخصوص جملہ ‘مائی نیم از گوہر جان’ بھی ادا کیا تھا۔