Tag: گھارو

  • گھارو میں ملزمان کی فائرنگ، 2 پولیس اہلکار شہید

    گھارو میں ملزمان کی فائرنگ، 2 پولیس اہلکار شہید

    ٹھٹھہ: صوبہ سندھ کے علاقے گھارو میں ملزمان کی فائرنگ سے 2 پولیس اہلکار شہید اور 2 زخمی ہوگئے، ملزمان کے خلاف علاقے میں آپریشن کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے علاقے گھارو میں 2 گروپوں میں کشیدگی کے مقدمے میں پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے گئی جس کے دوران ملزمان نے پولیس پر فائرنگ کردی۔

    ترجمان ٹھٹھہ پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے 2 پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔

    ترجمان کے مطابق شہید اہلکاروں میں اے ایس آئی سخی محمد بخش اور علی نواز چنڑ شامل ہیں، فائرنگ میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔

    واقعے کے بعد اعلیٰ پولیس افسران بھی گھارو پہنچ گئے ہیں، ملزمان کے خلاف علاقے میں آپریشن کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔

  • بلاول بھٹو نے دھابیجی پمپ ہاؤس منصوبے کا افتتاح کردیا

    بلاول بھٹو نے دھابیجی پمپ ہاؤس منصوبے کا افتتاح کردیا

    دھابیجی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت پانی کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، کراچی کے ساتھ گھارو کو بھی پانی فراہم کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے دھابیجی پمپ ہاؤس منصوبے کا افتتاح کیا، افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت پانی کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، پورے صوبے میں پانی کا مسئلہ ایک دن میں حل نہیں کر سکتے۔

    بلاول کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی پہلی ترجیح پانی کا مسئلہ حل کرنا ہے، دھابیجی میں نئے پمپنگ اسٹیشن کا منصوبہ اہم ہے۔ ہزاروں کلومیٹر کی پائپ لائن بچھائی جس سے پانی کی بچت ہوئی۔ کراچی کے ساتھ گھارو کو بھی پانی فراہم کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ وفاق سے مطالبہ ہے جو وعدے کیے وہ پورے کرے، ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ کو اپنا حق دے۔ وفاق سے اپنے مطالبے کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں وعدہ کیا تھا کہ ڈی سیلی نیشن منصوبے شروع کروائیں گے۔ پانی کے وزیر نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ سندھ کا پانی چوری ہو رہا ہے۔ میرے صوبے میں وفاق کی طرف سے ایک پتھر نہیں لگا۔

    انہوں نے کہا کہ عوام دشمن حکومت سے عوام کو حقوق دلانا ہوگا، طاقت کا سر چشمہ عوام ہے یہ ماننا پڑے گا ورنہ گھر جانا پڑے گا۔ آئین کے مطابق جو عوام کا حق ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہم اپنے حق سے زیادہ نہیں مانگ رہے۔

    بلاول کا مزید کہنا تھا کہ سندھ کے عوام ہم سے ناراض ہیں، ایک سال سے سندھ میں کرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ سندھ حکومت سازشوں کے باوجود کام کررہی ہے اور کرتی رہے گی۔

  • ہوا سے بجلی کی پیداوار شروع، گھارومیں پلانٹ کا باقاعدہ افتتاح

    ہوا سے بجلی کی پیداوار شروع، گھارومیں پلانٹ کا باقاعدہ افتتاح

    گھارو: برطانیہ کے تعاون سے ہوا سے بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی، ونڈ پاور پلانٹ سے ہزاروں افراد کو سستی اور ماحول دوست بجلی دستیاب ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق گھارو میں زیفر پاور ونڈ فارم کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو نے بھی بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ گھارو میں لگائے جانے والے 50 میگاواٹ کے پلانٹ کو برطانوی حکومت کے ادارے کا تعاون حاصل ہے، زیفر پاور ونڈ یومیہ 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا جس سے ہزاروں شہری مستفید ہوں گے۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تھامس ڈریو کا کہنا تھا کہ پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات مضبوط اور گہرے ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے میں برطانوی ماہرین اور ادارے نے کردار ادا کیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت پاکستان میں مزیدسرمایہ کاری کی خواہاں ہے۔

    یاد رہے کہ برطانوی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے، مذکورہ پلانٹ دو سال سے زائد کے عرصے میں مکمل ہوا جو برطانیہ کی نیم سرکاری کمپنی کے ماہرین نے تیار کیا۔

  • وزیر اعظم کا ٹھٹھہ اور سجاول کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان

    وزیر اعظم کا ٹھٹھہ اور سجاول کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان

    ٹھٹھہ: وزیر اعظم نواز شریف نے ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کو گیس دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے ٹھٹھہ کے لیے 500 بستروں کے اسپتال کے قیام کا اعلان بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف آج ٹھٹہ کے دورے پر ہیں۔ دورے کے موقع پر انہوں نے مکلی کرکٹ گراؤنڈ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔

    خطاب کے دوران وزیر اعظم نے ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔

    انہوں نے ٹھٹھہ اور سجاول کی 50 کلو میٹرسٹرکوں کی تعمیر، سیوریج اور پینے کے پانی کے لیے 20، 20 کروڑ روپے، دونوں ضلعوں میں گیس کی فراہمی اور ٹھٹھہ میں 500 بستروں کے اسپتال کے قیام کا اعلان کیا۔

    علاوہ ازیں وزیر اعظم نے گھارو اور کے ٹی بندر کے منصوبے کے لیے بھی 50 کروڑ کی گرانٹ کا اعلان کیا۔

    جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم سندھ کی تعمیر نو کریں گے۔ سندھ کے دیہاتوں، گوٹھوں اور قصبوں کونیا ولولہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹھٹھہ والوں کو ہیلتھ کارڈ دیں گے۔ ہیلتھ کارڈ پر بیمار افراد کا مفت علاج کیا جائے گا۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں بجلی کی صورتحال مسلسل بہتر ہو رہی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ بل ادا کریں تاکہ مسلسل بجلی مل سکے۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی سے حیدر آباد تک موٹر وے بن رہی ہے۔ اب حیدر آباد سے سکھر تک موٹر وے کی تعمیر جلد شروع ہوگی۔ ٹھٹھہ اور سجاول میں بجلی، پانی اور گیس کے بعد یونیورسٹی بھی آئے گی۔

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

  • کے الیکٹرک سے پاک اسٹیل کو خطرہ ہے،سی ای او ظہیراحمد خان

    کے الیکٹرک سے پاک اسٹیل کو خطرہ ہے،سی ای او ظہیراحمد خان

     کراچی :پاکستان اسٹیل ملز کےسی ای او میجرجنرل ریٹائرڈ ظہیراحمد خان نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک کسی کی بات نہیں سنتی۔گھارو پمپنگ اسٹیشن پربجلی کی بندش سے پاکستان اسٹیل کو خطرہ ہے۔

    کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں میجر جنرل ریٹائرڈ ظہیر احمد خان کا کہنا تھا کہ گھارو پمپنگ اسٹیشن پر فروری سے اب تک 44 مرتبہ ٹرپنگ ہوئی ہے ، جس سے پانی کا ذخیرہ 110 ملین گیلن سے کم ہوکر 25 ملین گیلن رہ گیا ہے ،انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے رواں ماہ 20 فیصد پیداواری ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے ،

    انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پانی کے ریزروائیر کا لیول پندرہ گیلن کی کم ترین سطح پر آگیا ہے،جس کی وجہ سے اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید کو پانی کی فراہمی بند ہوچکی ہے ، ظہیر احمد خان نے کہا کہ بجلی کی بندش اور پانی کی قلت سے اسٹیل ملز کے کچھ پلانٹس کو بند کیا گیا ہے اور اس وقت صرف دو پلانٹس کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت پیدوار حکومت سندھ اور گورنر سندھ پانی اور بجلی کے مسلے کو حل کریں