Tag: گھریلو تشدد

  • کمالیہ:‌ سسرالیوں کے ظلم کی شکار 22 سالہ سعدیہ 10 دن بعد جان کی بازی ہار گئی

    کمالیہ:‌ سسرالیوں کے ظلم کی شکار 22 سالہ سعدیہ 10 دن بعد جان کی بازی ہار گئی

    ٹوبہ ٹیک سنگھ: پنجاب کی ایک تحصیل کمالیہ میں سسرالیوں کے ظلم کی شکار 22 سالہ سعدیہ 10 روز تک موت سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے شہر کمالیہ میں بائیس سالہ سعدیہ پر سسرالیوں نے تشدد کر کے شدید زخمی کر دیا تھا، جس کے باعث وہ آج جان کی بازی ہار گئی ہے۔

    سعدیہ کو دس دن قبل اس کے شوہر، دیور اور نند نے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی، پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

    کمالیہ کے محلہ بہلول والا کی سعدیہ کا جسم 70 فی صد تک جھلس گیا تھا، جسے تشویش ناک حالت میں الائیڈ اسپتال کے برن یونٹ منتقل کیا گیا، تاہم دس روز تک سعدیہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گئی۔

    یہ بھی پڑھیں:  لاہور : سسرالیوں نے بہو کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، شوہر گرفتار، مقمہ درج

    لواحقین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی بیٹی پر اس کے خاوند علی عمران نے اپنے اہل خانہ کے ہم راہ پٹرول چھڑک آگ لگائی۔

    یاد رہے کہ چھ دن قبل بھی لاہور میں سسرالیوں نے مبینہ طور پر بہو کو تیل چھڑک کر جلا دیا تھا، 35 سالہ نسرین کی تین ماہ قبل شہزاد سے شادی ہوئی تھی، گھر میں اکثر جھگڑا رہتا تھا، نسرین کو اس کے شوہر، دیور اور ساس نے آگ لگائی۔

  • دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی : خواتین و بچوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ 98 فیصد بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ذمہ دار خود والدین ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں بچوں و خواتین کےلیے حقوق کےلیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دبئی فاؤنڈیشن (ڈی ایف ڈبلیو اے سی) نے بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ متاثرین کے ساتھ بدسلوکی میں اکثر ان کے والدین ملوث ہوتے ہیں۔

    دبئی فاؤنڈیشن نے سنہ 2018 میں موصول ہونے والے بدسلوکی کے کیسز کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی ایف ڈبلیو اے سی کو گزشتہ برس 52 بچوں سمیت 1027 افراد کے ساتھبدسلوکی کے کیسز موصول ہوئے تھے۔

    ڈی ایف ڈبلیو اے سی کی ڈائریکٹر گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ’ہم 33 بچوں کو شیلٹر فراہم کررہے ہیں جس میں 54 فیصد کا تعلق امارات سے ہے اور بدسلوکی کا شکار بننے والے بچوں میں 83 فیصد متاثرین کے ساتھ ان کے والد اور 15 فیصد بچوں کے ساتھ والدہ نے بدسلوکی کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی سب سے معمولی اقسام والدین کے ہاتھوں، جسمانی، زبانی اور احساساتی زیادتیاں بشمول مالیاتی اور جنسی بدسلوکی بھی شامل ہیں۔

    گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ہمیں والدین کی جانب سے بچوں کو بے عزتی، جسمانی تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    گنیما حسن البحری نے رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ برس فاؤنڈیشن کو آٹھ کیسز انسانی اسمگلنگ کے وصول ہوئے تھے جس میں پانچ لڑکیاں تھیں جن کی عمریں 13، 14، 15 برس تھی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کے مطابق فاؤندیشن نے بتایا کہ 2017 میں 1200 بدسلوکی کے کیشز وصول ہوئے تھے جبکہ گزشتہ برس 133 کیسز کی کمی آئی تھی۔

  • عدالت نے سندھ حکومت کو خواتین پر تشدد روکنے کے قانون پر عمل درآمد میں ناکام قرار دے دیا

    عدالت نے سندھ حکومت کو خواتین پر تشدد روکنے کے قانون پر عمل درآمد میں ناکام قرار دے دیا

    کراچی: خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف درخواستیں پر سندھ ہائی کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت خواتین پر تشدد روکنے کے قانون پر عمل درآمد میں ناکام رہی۔

    تفصیلات کے مطابق آج سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں خواتین پر گھریلو تشدد کے سلسلے میں دائر درخواستوں کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کیا، عدالت نے تشدد روکنے کے قانون پر عمل درآمد میں سندھ حکومت کو ناکام قرار دیا۔

    عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم جاری کیا کہ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے لیے ضلعی سطح پر خصوصی ٹاسک فورس بنائی جائے۔

    عدالت نے گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو بھی متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرنے کی ہدایت کی، جسٹس صلاح الدین پنہور نے مجسٹریٹس کو حکم دیا کہ وہ خواتین کی شکاتیوں کا فوری ازالہ کریں۔

    یہ بھی پڑھیں:  خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے موبائل ایپلیکیشن متعارف

    سندھ حکومت کو حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ خواتین پر تشدد روکنے کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے، جسٹس صلاح الدین پنہور نے متعلقہ ڈی آئی جیز کو بھی ہدایت کی کہ اس سلسلے میں خواتین کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔

    دریں اثنا، عدالت نے یتیم خانوں اور شیلٹر ہومز کی تفصیلات بھی طلب کر لیں، جسٹس صلاح الدین نے حکومت کو ہدایت کی کہ یتیم خانوں اور شیلٹر ہومز کو مناسب فنڈز فراہم کیے جائیں۔

  • گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    ورجینا وولف نے کہا تھا،”ناول ایک ایسی صنف ہے، جس میں دنیا کا ہر موضوع سمویا جاسکتا ہے۔”

    یہ سچ ہی تو ہے۔ پھر یہ صنف اتنی پرقوت ہے کہ بیانیہ کی الگ الگ تکنیکس، جیسے واقعات نگاری، تجریدی ڈھب، تجزیاتی انداز ، یہاں تک کہ فلسفیانہ موشگافیوں کا بھی بوجھ ڈھو لیتی ہے۔

    صدیوں سے یہ کتاب ہی تھی، جو کسی مسئلے کی نشان دہی اور  عوام میں شعور پیدا کرنے کا موثر  ترین ذریعہ ٹھہری۔ ممکن ہے، نشان دہی کے معاملے میں ٹی وی چینلز کتاب سے آگے نکل گئے ہوں، مگر اثر پذیری میں کتاب اب بھی غالب ہے۔ اور ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔

    موضوع کیا ہے؟

    یہ ناول گھریلو تشدد کے ٹول کے ذریعے ایک ایسے مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے، جس کی جانب شاید کم ہی توجہ دی گئی۔ اور یہ ہے: ذہنی امراض۔

    مصنف کیوں کہ ذہنی معذوری ڈسلیکسیا کا شکار ہے، اسی باعث وہ ان امراض کے اثرات کو، بالخصوص گھریلو تشدد کے تناظر میں زیادہ موثر انداز میں بیان کرسکتا تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ 

    کیا اس نے یہ عمل کاملیت کے ساتھ انجام دیا؟ کسی بھی فکشن نگار کے پہلے ناول اسے اس نوع کی توقع کرنا اپنی اساس ہی میں غیرفطری ہے۔

    احساسات اور رویے، جنھیں قلم بند کیا گیا؟

    ناول نگار نے  ذہنی امراض سے متعلق لاعلمی، عدم توجہی، مریض کے اہل خانہ کی ٹال مٹول جیسے رویے کو  خوبی سے منظر کیا۔

    ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ میں مجبوری کے ایک ایسے احساس کو پیش کیا گیا، جو  معاشرہ افراد، بالخصوص عورت پر عائد کر تا ہے۔ پہلے شادی، پھر بچوں کو پیدایش، اس پر مستزاد مالی طور پر شوہر اور سسرال پر انحصار، یوں وہ کلی طور پر محدود ہو جاتی ہے۔ اس محدودیت کا کرب ہم تک ان صفحات کے ذریعے پہنچتا ہے۔

    کہانی پلاٹ اور کرداروں کی

    یہ حنا کی کہانی ہے، جو مہندی آرٹسٹ ہے، جس کی شادی ماجد سے ہوتی ہے، جو اوروں سے کچھ مختلف ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ آدمی چونک اٹھے۔

    البتہ دھیرے دھیرے پریشان کن واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ تشدد کا عنصر بڑھتا جاتا ہے، ساتھ ساتھ ہم ان واقعات، سانحات کے روبرو ہوتے ہیں، جو ہماری یادوں میں محفوظ ہیں کہ یہ کہانی 2017 تک آتی ہے۔

    بنیادی کردار تو حنا اور ماجد ہی ہیں، باقی کردار ان ہی دو سے جڑے ہوئے ہیں۔ کردار نگاری موثر ہے، کہیں کردار مصنوعی نہیں لگتا۔

    ناول کے آخر تک ہم حنا سے تو ہمدردی محسوس کرتے ہیں، مگر جو ذہنی مریض ہے، یعنی ماجد، اس کے لیے ہم میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور بیانیہ میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو، مگر وہ ناول، جو اسی موضوع پر ہو، اس میں قاری یہ تقاضا ضرور  کرتا ہے۔

    تکنیک اور زبان

    چند صفحات پڑھ کر ہی آپ کو انداز ہوجاتا ہے کہ ناول نگار عصری ادب سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ناول اپنے اختتامیے سے شروع ہوتا ہے، ایک معصوم بچی، خون، مہندی، ایمبولینس اور پھر ایک فائر۔ یہ ایک موثر  آغاز ہے۔

     ہر حصے پر ایک عنوان ٹکایا گیا ہے، چند قارئین کو اس سے الجھن ہوتی ہے، مگر راقم کے نزدیک یہ پڑھت کے عمل کو سہل بناتا ہے، البتہ گرفت کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔  بے شک اِسے مزید موثر بنایا جاسکتا تھا۔

    ناول میں برتی جانے والی زبان کہانی کے تقاضے بڑی حد تک نبھاتی ہے۔ عام بول چال بھی گرفت کیا گیا ہے۔ البتہ رموز و اوقاف کے استعمال اور جملے کو لکھنے کے ڈھب میں بہتری کی گنجایش ہے۔

    جہاں جہاں جزئیات بیان کی گئیں، وہ قاری تک وہ احساس پہنچانے میں کامیاب رہیں، جو لکھاری کا مقصد تھا، چند مناظر واقعی متاثر کن ہیں، جن اضافی معلوم ہوتے ہیں۔

    حرف آخر

    ابھی جان باقی ہے مطالعیت سے بھرپور ناول ہے، یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک حساس موضوع کو منظر کرتا ہے، جس کی بابت ہم کم ہی بات کی اور یہ صرف مسئلہ کو اجاگر کرنے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ کامیابی سےایک کہانی بھی بیان کرتا ہے۔

    ہاں، اسے مزید ایڈٹ کیا جاسکتا تھا،223 صفحات زیادہ تو نہیں، مگر یہ بیانیہ دو سو صفحات میں زیادہ موزوں لگتا۔

    ہم چنگیز راجا کے اگلے ناول سے کیسی امیدیں باندھ سکتے ہیں، اس کی خبر ہم اس ناول سے مل جاتی ہے۔

    علم و عرفان پبلشرز کے زیر اہتمام، اچھے گیٹ اپ میں شایع ہونے والے اس ناول کی قیمت چھ سو روپے ہے۔

  • خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار

    خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار

    پشاور: خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار کرلیا گیا جس میں تشدد کرنے والے شوہر کو 30 ہزار روپے جرمانے اور 3 ماہ قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار کرلیا گیا۔ مجوزہ بل کے مطابق تشدد کرنے والے شوہر کو 30 ہزار روپے جرمانہ اور3 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ شوہر بیوی کو کام کرنے کی جگہ یا کسی اور جگہ دھمکانے پر سزا کا مرتکب ہوگا، جبکہ بیوی کے رشتہ داروں کو دھمکانے پر بھی سزا ملے گی۔

    بل میں کہا گیا ہے کہ ناچاقی کی صورت میں شوہر کو بیوی کی سلامتی کی ضمانت کا پابند بنایا جائے جبکہ شوہر بیوی اور بچوں کو نان نفقہ اور دیگر اخراجات دینے کا بھی پابند ہوگا۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    بل کے مطابق بیوی کی جانب سے جھوٹا الزام لگانے پر اسے 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد ہوگا۔

    خیال رہے اس سے قبل خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسمنٹ یا کم عمری کی شادی کی شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے۔

    زما آواز یعنی ’میری آواز‘ نامی یہ ہیلپ لائن خواتین کو سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اپنے یا کسی اور پر ہوتے گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں درج کروا سکیں۔

    شکایت کے بعد مقرر کردہ کمیٹی درج کی جانے والی شکایات کا جائزہ لے کر فوری طور پر متعلقہ حکام کو ان پر کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کرے گی۔

  • گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار وائرل

    گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار وائرل

    ڈھاکہ: دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں، ادارے اور افراد خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی اور ان کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات میں مصروف ہیں، تاہم اس سلسلے میں بنگلہ دیش میں بنایا جانے والا ایک آگہی اشتہار سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔

    اشتہار کا آغاز ایک دلہن سے ہوتا ہے جس میں اسے شادی کی تقریب کے لیے تیار ہو کر جاتا ہوا دکھایا گیا ہے۔

    اگلے منظر میں وہی خاتون اپنے بال کٹوانے کے لیے سیلون میں موجود ہیں۔

    ہیئر ڈریسر اس کی زلفیں دیکھ کر ان کی تعریف کرتی ہے مگر وہ اپنے بال چھوٹے اور مزید چھوٹے کروانے کے لیے اصرار کرتی ہے جس پر ہیئر ڈریسر ناگواری کا اظہار بھی کرتی ہے۔

    آخر میں جب وہ خاتون اپنے بال چھوٹے کرنے کی وجہ بتاتی ہے تو وہاں موجود تمام افراد کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ وہ خاتون کہتی ہے، ’ان بالوں کو مزید کاٹ دو تاکہ دوبارہ کوئی انہیں جکڑ نہ سکے‘۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں 80 فیصد خواتین تشدد کا شکار

    اس اشتہار کا مقصد بنگلہ دیش میں گھریلو تشدد کے اذیت ناک مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہے۔ اشتہار کے آخر میں دکھایا گیا ہے، ’زلفیں ایک عورت کا فخر ہیں، اس فخر کو اس کی کمزوری مت بنائیں‘۔

    بالوں کی آرائشی مصنوعات کی ایک کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے اس اشتہار کو 35 لاکھ افراد نے دیکھا۔

    ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق بنگلہ دیش کی 87 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    ادارے کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسمنٹ یا کم عمری کی شادی کی شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن قائم کردی گئی۔

    زما آواز یعنی ’میری آواز‘ نامی یہ ہیلپ لائن خواتین کو سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اپنے یا کسی اور پر ہوتے گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں درج کروا سکیں۔

    یہ ہیلپ لائن 9212026-091 اسمبلی کے خواتین پارلیمانی کاکس (ڈبلیو پی سی) نے یو ایس ایڈ کے اشتراک سے قائم کی ہے اور یہ ڈبلیو پی سی کے دفتر سے ہی آپریٹ کی جائے گی۔ خیبر پختونخواہ کی خواتین صبح 9 سے شام 5 بجے تک ٹیلی فون کے ذریعہ یہاں اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ڈبلیو پی سی کی ایک مقرر کردہ کمیٹی درج کی جانے والی شکایات کا جائزہ لے کر فوری طور پر متعلقہ حکام کو ان پر کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کرے گی۔

    منصوبے میں شامل پختونخواہ کی خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ اس ہیلپ لائن کے ذریعے نہ صرف خواتین اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف شکایات درج کروا سکیں گی، بلکہ وہ اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کو مشورے اور تجاویز بھی دے سکیں گی کہ خواتین کی فلاح کے لیے مزید کیا اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    اس ہیلپ لائن کے ذریعہ قانونی مدد کی طلبگار خواتین کو وکلا کی خدمات بھی فراہم کی جاسکیں گی۔

    مزید پڑھیں: آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کو گھر سے باہر جنسی ہراسمنٹ اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے بچانے کے لیے علیحدہ بس سروس کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔

    منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ کے 3 ضلعوں پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس شروع کی جائے گی۔ صوبائی شعبہ ٹرانسپورٹ کے نمائندگان کے مطابق یہ منصوبہ صوبے میں شروع کیے جانے والے ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہے۔

  • گھریلو تشدد سے متعلق قانون کی منظوری ایک اچھاآغاز ہے

    گھریلو تشدد سے متعلق قانون کی منظوری ایک اچھاآغاز ہے

    لاہور: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پنجاب اسمبلی کی جانب سے خواتین کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے بل 2015ء کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس کے موثر نفاذ سے خواتین کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ مجرم انصاف کے کٹہر ے سے نہ بچ سکیں۔

    منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’ ایچ آر سی پی پنجاب اسمبلی کی جانب سے خواتین کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے بل 2015ء کی منظوری کو اس حوالے سے پہلا اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔

    بظاہر یہ بل خواتین پر تشدد کو روکنے اور متاثرہ خواتین کے تحفظ اور بحالی کا ایک نظام تشکیل دینے کی کسی حد تک ایک جامع کوشش ہے۔ اور اس کے لئے یہ بل متعارف کرانے والے اور اس کی حمایت کرنے والے اراکین صوبے کی خواتین کے لئے درست اقدام کرنے پر تعریف کے مستحق ہیں۔

    اس بل میں تشدد کی ایک جامع تعریف، شکایات کے اندراج کو آسان بنانے کے لئے اقدامات، شکایات کی تحقیقات کے لئے ضلعی سطح پر کمیٹیوں کا قیام، اور متاثرہ خواتین کے تحفظ کے لئے محفوظ پناگاہوں کاقیام شامل ہے۔ یہ تمام ضروری اقدامات تعریف کے مستحق ہیں لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ماضی میں محض ظاہری اور قواعد و ضوابط سے متعلق تبدیلیاں موثر ثابت نہیں ہوسکیں۔ قانون میں تبدیلی صرف اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتی ہے کہ اس کا موثر نفاذ کیا جائے اور مجلس قانون ساز اس معاملے پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی رہے اور اس کی نگرانی کو یقینی بنائے۔

    بدقسمتی سے ان لوگوں کی کمی نہیں ہے جو خواتین کو تشدد اور ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفتکرتے ہیں، ان حالات میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مثبت تبدیلی، چاہے وہ معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، سے چشم پوشی نہ کرے، اورلوگوں کو مذکورہ قانون سازی سے متعلق آگہی فراہم کرے۔

    سول سوسائٹی کی تنظیموں اور میڈیا پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قانون، اس پر عمل درآمد کی رفتار، اور اس کے خواتین کے تحفظ پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیں۔

    ہم امید کرتے ہیں کہ حالیہ اقدام کی بدولت ملک بھر کی خواتین کو تشدد سے محفوظ رکھنے کے لئے قانون کے نفاذ میں مدد ملے گی اور وفاقی دارالحکومت کی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اس مرکزی بل کی منظوری کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے جو طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے۔

  • مالکن نے گھریلو ملازمہ کو تشدد کرکے ہلاک کردیا

    مالکن نے گھریلو ملازمہ کو تشدد کرکے ہلاک کردیا

    لاہور کے علاقے عسکری نائن میں تشدد کرکے گھریلو ملازمہ کو ہلاک کرنے کے الزام میں تین ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا، مالکن نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے۔

    مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والی گھریلو ملازمہ دس سالہ ارم اوکاڑہ کی رہائشی تھی مالکن ناصرہ نے اقبال جرم کر لیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اسے ملازمہ پر پیسے چوری کرنے کا شبہ تھا۔ 

    ناصرہ کے شوہر الطاف کے مطابق وہ وقوعہ کے وقت گھر پر موجود نہیں تھا، اس کا کہنا ہے کہ اس بیوی کا ذہنی توازن درست نہیں ہے جبکہ بیٹے ابرار کے مطابق اس نے ملازمہ کو ہسپتال پہنچایا تھ 

    پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش جاری ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ 

    مقتولہ کی غمزدہ ماں نے وزیراعلٰی شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ اسے انصاف فراہم کیا جائے۔