Tag: گھر سے کام

  • دنیا بھر میں لوگ ورک فرام ہوم کرنا چاہتے ہیں!

    دنیا بھر میں لوگ ورک فرام ہوم کرنا چاہتے ہیں!

    کرونا کی وبا نے جہاں دنیا کو خاصا تبدیل کیا، وہیں گھروں سے کام کرنے کا رجحان بھی متعارف ہوا، اب ڈھائی سال بعد بھی ورکرز اس رجحان کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

    ایک تازہ بین الاقوامی سروے کے نتائج کے مطابق دنیا بھر میں گھر سے کام کرنے والے ورکرز کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی اور یہ افراد گھروں سے کام کرنے کے اپنے موجودہ دورانیے میں اضافے کے بھی خواہاں ہیں۔

    جرمنی کے آئی ایف او انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کی جانب سے شائع ہونے والے اس سروے کے مطابق 27 ممالک میں تمام صنعتوں اور دیگر شعبوں میں ملازمین نے فی ہفتہ تقریباً ڈیڑھ دن گھر سے کام کیا۔

    ڈھائی سال سے جاری کرونا کی عالمی وبا کے دوران جرمنی میں ورکرز کے گھر سے کام کرنے کا اوسط دورانیہ اس سروے کے نتائج سے تھوڑا کم یعنی فی ہفتہ ایک چوتھائی دن بنتا ہے۔

    اس سروے کے نتائج کے مطابق ورکرز کے گھروں سے کام کرنے کا دورانیہ فرانس میں 1.3، امریکا میں 1.6 اور جاپان میں 1.1 دن ہے۔

    آئی ایف او کے ایک محقق اور ورکرز کے گھر سے کام کرنے کے مطالعے کے ایک شریک مصنف ماتھیاس ڈولز کے مطابق، جس طرح کرونا کی وبا نے انتہائی مختصر وقت میں کام سے جڑی زندگی کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا، اس سے پہلے اس طرح کا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا۔

    جرمن سائنسدان نے سٹین فورڈ اور پرنسٹن یونیورسٹیوں سمیت امریکا، برطانیہ اور میکسیکو کے پانچ دیگر تحقیقی اداروں کے ساتھ اشتراک میں سروے کیا۔

    ایک اور سروے میں انکشاف ہوا کہ ملازمین اپنے باسز کے مقابلے میں گھر سے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس سروے میں شامل تمام 27 ممالک میں اوسطاً 36 ہزار جواب دہندگان ہفتے میں 1.7 دن گھر سے کام کرنا چاہتے تھے۔

    کمپنیاں اپنے عملے کو دفتر میں زیادہ دیکھنا چاہتی ہیں، اس ضمن میں کمپنیوں کی طرف سے اپنے ملازمین کے لیے اوسطاً ہر ہفتے گھر سے صرف 0.7 دن کام کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

    سروے کے مطابق جنوبی کوریا میں لوگ اپنے گھر سے کم سے کم یعنی ہر ہفتے صرف آدھا دن کام کرتے ہیں، تاہم جنوبی کوریا سمیت متعدد ممالک میں خاص طور پر اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل کارکنوں کے ایک بڑی تعداد نے اس سروے میں حصہ لیا، لہٰذا یہ نتائج تمام ممالک کے لیے یکساں موازنہ پیش نہیں کرتے۔

  • ایک کمپنی نے وبا کے دوران گھر سے کام پر اکتاہٹ کا حل بھی نکال لیا

    ایک کمپنی نے وبا کے دوران گھر سے کام پر اکتاہٹ کا حل بھی نکال لیا

    سنگاپور: نئے کرونا وائرس سے پھیلنے والی نہایت ہلاکت خیز وبا نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو حد درجے متاثر کیا، وہاں ورکنگ ماحول بھی اس سے متاثر ہوا، اور پہلی بار دنیا بھر میں وسیع سطح پر ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

    جہاں لوگوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا، کہ وہ گھر بیٹھ کر مزے سے کام کر پا رہے ہیں، وہاں جلد ہی لوگوں کو اس سے اُکتاہٹ بھی ہونے لگی، کیوں کہ گھر سے کام کرنے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔

    لیکن انسان سے وابستہ مسائل کا حل نکالنے کے لیے سرمایہ دار ہر وقت مستعد رہتے ہیں، اس مسئلے کا حل بھی انھوں نے نکال لیا ہے، اور سنگاپور کی ایک کمپنی نے ایسے ورکنگ بوتھ بنا دیے ہیں، جہاں ملازمین آرام سے بیٹھ کر گھر کے ماحول سے دور اطمینان سے آفس کا کام کر سکتے ہیں۔

    سنگاپور کی کمپنی سوئچ نے کرونا وبا کے سبب گھر میں کام کرنے سے اُکتاہٹ محسوس ہونے کی شکایت پر یہ نیا حل نکالا ہے، ان ورکنگ بوتھس میں اب وہ فی منٹ ادائیگی کے حساب سے بیٹھ کر دفتر کا کام کر سکتے ہیں۔

    سنگاپور کی کمپنی نے ابتدائی طور پر 60 کے آس پاس ورکنگ بوتھس بنائے ہیں، یہ ورکنگ بوتھس مختلف شاپنگ سینٹرز، کافی شاپس اور عوامی مقامات پر رکھے گئے ہیں، جن میں ایک گھنٹہ کام کرنے کی قیمت 4 سنگاپورین ڈالر سے کم ہے۔

    ایک بوتھ میں ایک شخص بیٹھ کر کام کر سکتا ہے اور سماجی فاصلے کے ساتھ اردگرد کے ماحول سے لطف بھی اٹھا سکتا ہے، بوتھ میں وائی فائی، ایک میز، کرسی، پنکھا اور بجلی کا انتظام ہے۔

    ورکنگ بوتھ میں سینیٹائزر کا بھی التزام کیا گیا ہے، جب کہ بوتھ میں بیٹھنے والے کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی ہے۔سوئچ نامی اس کمپنی نے ایسے بوتھ بھی بنائے ہیں جو تھوڑے سے بڑے ہیں اور جہاں دو افراد بیٹھ کر آفس میٹنگ کر سکتے ہیں۔

    سنگاپورین کمپنی کی جانب سے یہ حل سامنے آنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مستقبل میں آفس ورک کے حوالے سے ایسے آپشنز کو بھی مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس: وزیر اعظم آفس کا اسٹاف محدود، افسران کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت

    کرونا وائرس: وزیر اعظم آفس کا اسٹاف محدود، افسران کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت

    اسلام آباد: کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر وزیر اعظم آفس کا اسٹاف محدود کردیا گیا اور بیشتر افسران و ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر وزیر اعظم آفس کا اسٹاف محدود کردیا گیا، وزیر اعظم آفس کے افسران و ملازمین کے دفتری امور سے متعلق ہدایات جاری کردی گئیں۔

    جوائنٹ سیکریٹری ایڈمن کے علاوہ تمام جوائنٹ سیکریٹریز کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کردی گئی، ڈپٹی سیکریٹریز ہفتہ وار بنیاد پر دفتری امور انجام دیں گے۔ مختلف شعبوں کا اسٹاف ڈیوٹی روسٹر کے مطابق کام کرے گا۔

    جاری کردہ ہدایات میں کہا گیا ہے کہ گھر سے کام کرنے والے جوائنٹ سیکریٹریز فائلز اور دستاویز کے لیے ملازم تعینات کریں۔

    ملازمین کو کہا گیا ہے کہ گھر سے کام کرنے والے افسران فون پر دستیاب رہیں، ایمرجنسی صورت میں افسران کو کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے۔

    خیال رہے کہ ملک بھر میں کرونا وائرس کے کیسز میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں مزید 83 اموات ہوئیں جس کے بعد اموات کی تعداد 2 ہزار 255 ہوچکی ہے۔

    ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 5 ہزار 385 نئے کیسز سامنے آئے جس کے بعد کرونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد 1 لاکھ 13 ہزار 702 ہوگئی ہے۔

  • ٹویٹر ملازمین اب ہمیشہ گھروں سے کام کریں گے

    ٹویٹر ملازمین اب ہمیشہ گھروں سے کام کریں گے

    کیلی فورنیا: سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ٹویٹر نے اپنے ملازمین کو خوشخبری سنائی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو دفتر آنے کے بجائے ہمیشہ گھر سے کام کرسکتے ہیں، ٹویٹر کی اس پالیسی کو کاروباری دنیا کی ترجیحات طے کرنے میں اہم سمجھا جارہا ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جیک ڈورسی کا کہنا ہے کہ ان کے ملازمین اگر چاہیں تو کرونا وائرس ختم ہونے کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے گھروں سے کام کر سکتے ہیں۔

    ٹویٹر ترجمان کے مطابق دفاتر کو کھولنا ہمارا فیصلہ ہوگا تاہم ملازمین دفتر آئیں گے یا نہیں، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ ماہ میں یہ ثابت ہوگیا کہ ملازمین باآسانی گھروں سے کام کرسکتے ہیں تو اگر اب ہمارے ملازمین سمجھتے ہیں کہ وہ اسی طرح زیادہ آرام دہ ہو کر کام کرسکتے ہیں تو ہم ان کی خواہش کو ممکن بنائیں گے۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ اگر ملازمین دفتر آنا چاہیں گے تو ہم دفاتر کو ان کے لیے محفوظ اور مزید آرام دہ بنائیں گے۔

    ادھر امریکی میڈیا کے مطابق چیف ایگزیکٹو جیک ڈورسی کی جانب سے ملازمین کو کی گئی ایک ای میل میں کہا گیا ہے کہ رواں برس ستمبر سے پہلے دفاتر کھولنا ناممکن نظر آتا ہے، جبکہ اس دوران ہونے والے تمام ایونٹس بھی منسوخ کردیے گئے ہیں۔

    ای میل کے مطابق کمپنی سال 2021 کے لیے اپنا شیڈول بعد میں حالات کو دیکھتے ہوئے تیار کرے گی۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کے ختم ہوجانے کے بعد بھی زندگی پہلے کی طرح معمول پر نہیں آسکے گی چنانچہ ٹویٹر کی یہ پالیسی بقیہ کاروباری دنیا کے ٹرینڈز اور ترجیحات طے کرنے میں اہم ثابت ہوگی۔

  • سعودی وزرا کی گھروں سے کام کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

    سعودی وزرا کی گھروں سے کام کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

    ریاض: کرونا وائرس کے بعد کرفیو اور لاک ڈاؤن لگنے اور نقل و حرکت کو محدود کرنے کی وجہ سے سعودی وزرا نے بھی گھروں سے کام کرنا شروع کردیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں وزرا کرونا وائرس سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جاری کردہ سرکاری ہدایات پر خود بھی عمل کر رہے ہیں اور گھروں سے کام کر رہے ہیں۔

    وزرا نے شہریوں کو مثال پیش کرنے کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر تصاویر جاری کی ہیں جس میں وہ آن لائن کام کرتے نظر آرہے ہیں۔

    وزیر افرادی قوت انجینیئر احمد الراجحی، وزیر مواصلات عبداللہ السواحہ اور وزیر تجارت ماجد القصبی کی جاری کردہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی وزارتوں کی کارکردگی کا آن لائن جائزہ لے رہے ہیں۔

    وزارت تعلیم نے سرکاری ویب سائٹ پر وزیر تعلیم ڈاکٹر حمد بن محمد آل الشیخ کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ مختلف صوبوں میں تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے آن لائن بات چیت کر رہے ہیں۔

    وزرا، اعلیٰ عہدیداروں اور بعض بڑے سرمایہ کاروں نے بھی آن لائن ڈیوٹی کی تصاویر جاری کر کے مقامی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ آن لائن کام کرنے والوں کے ساتھ وہ خود بھی شامل ہیں اور وہ ان کے شانہ بشانہ آن لائن کام کر رہے ہیں۔

  • کرونا وائرس: ٹویٹر نے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کردی

    کرونا وائرس: ٹویٹر نے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کردی

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر نے اپنے ملازمین کو دفاتر نہ آنے اور گھر سے کام کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

    ٹویٹر کی ہیومن ریسورس مینیجر جینیفر کرسٹی کا کہنا ہے کہ ٹویٹر کے تمام ملازمین سوموار سے اپنے گھروں سے کام کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ملازمین کی گھر سے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہم جان لیوا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکان کو کم سے کم کردیں۔

    جینیفر کا کہنا ہے کہ جاپان، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا میں واقع ٹویٹر دفاتر کے ملازمین پر گھر سے کام کرنے کی ضروری شرط عائد کردی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ کرونا وائرس کے پیش نظر جاپان پہلے ہی ملک بھر کے تمام اسکول بند کرچکا ہے، جبکہ ہانگ کانگ میں ملازمین ایک مہینے تک گھروں سے کام کرنے بعد سوموار کو دفاتر واپس لوٹے ہیں۔

    اب تک دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 92 ہزار 932 ہوگئی ہے جبکہ 3 ہزار 119 افراد مہلک وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

    دنیا بھر کے 76 ممالک تک یہ وائرس رسائی حاصل کر چکا ہے اور اس کا پھیلاؤ بدستور جاری ہے، شمالی افریقی ملک تیونس میں بھی کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آگیا ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی پہلے کیس کی تصدیق کردی ہے۔