Tag: گیت نگاری

  • اردو شاعری میں‌ گیت نگاری

    اردو شاعری میں‌ گیت نگاری

    اردو شاعری کا بیش تر سرمایہ فارسی اور عربی سے حاصل ہوا ہے، مگر گیت اردو میں ہندی شاعری کے اثر سے وجود میں آیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گیت خالص ہندوستانی صنفِ سخن ہے۔

    گیت ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی راگ ، سرود اور نغمہ کے ہیں۔ گیت کسی خاص موضوع یا ہیئت کے پابند نہیں ہاں مگر گیت میں محبوب مرد اور عاشق عورت ہوتی ہے۔ جس میں عاشق یعنی عورت اپنے محبوب یعنی مرد سے جذبۂ محبت، نغمگی، نسوانیت، غنائیت اور ترنم ریزی کے ساتھ اپنے والہانہ انداز میں اپنے عشق کا اظہار کرتی ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ گیت صرف ان ہی موضوعات کے لیے ہوتے ہیں۔

    گیت کے موضوعات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے کی وجہ سے عشق، بھگتی، عبادت، محبّت، رزم، بزم غرض وہ ہر شے جو انسانی احساس کا حصہ ہے گیت میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ گیت کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

    ’’ اگر گیت مرد کی طرف سے کہا جائے تو بھی اُس کے مزاج میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ ویسے مرد کے کردار کا ایک نسوانی رخ بھی ہوتا ہے جو اگر گیت میں اپنا اظہار کرے تو اس میں کوئی مزاج بھی نہیں۔ اس سب کے باوجود گیت بنیادی طور پر عورت کے اظہارِ محبّت کی ایک صورت ہے اور اس کے معتدبہ حصّے میں مرد ہی مخاطب اور محبوب ہے۔‘‘

    گیت اپنے منفرد تہذیبی ورثے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے جس میں محبّت اور نغمے کی آمیزش سے پیدا ہونے والی نہایت لطیف و دل کش روایت شامل ہے۔ چوں کہ گیت کا موسیقی سے گہرا ربط ہے، ترنّم اور لَے اور جھنکار اور تھاپ وغیرہ اس کے گائے جانے میں استعمال ہوتے رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گیت پڑھنے سے زیادہ سننے کی چیز ہے۔ جو موسیقی کے ساتھ نمودارہوتا ہے۔

    گیت کے متعلق شمیم احمد لکھتے ہیں: ’’گیت شاعری کا وہ اسلوب ہے جہاں محبّت اور نغمے کا سنگم پوری لطافت کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

    گیت کی کوئی خاص ہیئت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسی بھی ہیئت میں لکھا جاسکتا ہے۔ ویسے عموماً گیت کا مکھڑاہوتا ہے جو دراصل گیت کا پہلا شعر یا پہلا مصرع ہوتا ہے۔ اس کے بعد گیت کے کچھ بند ہوتے ہیں جن کی تعداد عموماً چار یا پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر بند کے بعد گیت کے مکھڑے کا ہم قافیہ ایک مصرع نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ مکھڑے ہی کو دہرایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ہر بند کے بعد مکھڑے کا ہم قافیہ مصرع نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ مکھڑا ہی کو دہرایا جاتا ہے۔ گیت کسی بھی بحر میں لکھا جا سکتا ہے لیکن عموماًچھوٹی بحریں ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی گیت کا مکھڑا ایک بحر میں اور بول مختلف بحر میں ہوتے ہیں۔

    گیت کے تمام بند خیال یا مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ پورے گیت میں ایک ہی خیال کو پیش کیا جاتا ہے۔ گیت کی ہیئت غزل کی ہیئت کی طرح کسی کسائی اور متعین نہیں ہوتی بلکہ ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے۔ اس کا مکھڑا ایک مصرعے کا بھی ہو سکتا ہے یا ایک شعر پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔

    اسی طرح گیت کے جو بند ہوتے ہیں ان میں بھی مصرعوں کی کوئی متعین تعداد نہیں ہوتی۔ کسی گیت میں ہر بند میں چار چار مصرعے ہو سکتے ہیں تو کسی گیت میں تین تین مصرعوں کے بند بھی ہوسکتے ہیں۔ ہر بند کے بعد گیت اپنے مکھڑے کو دہرانے کے لیے فضا ہموار کرتا ہے۔ یہ مصرع مکھڑے کا ہم وزن بھی ہوسکتا ہے یا اس سے کچھ چھوٹا یا بڑا بھی ہو سکتا ہے۔ کہیں کہیں ایک ہی مصرعے کو توڑ کر دو سطروں میں لکھا جاتا ہے۔ غرض یہ کی گیت کی ہیئت میں بڑی لچک ہوتی ہے۔ گیت کی ہیئت کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ گیت کا مکھڑا وہ گیت کے ہر بند کے بعد دہرایا جا سکتا ہے۔

    غزل کی طرح گیت بھی شاعری کی ایک داخلی اور غنائی صنف ہونے کی وجہ سے شخصی جذبات و احساسات کا بے تکلف اور والہانہ اظہار ہوتا ہے۔ گیت میں محبوب سے جدائی کی تڑپ اور وصال کی آرزو مندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ان معنوں میں گیت ایک فراق زدہ عورت کے دل کی صدائے پُر سوز ہے۔ چوں کہ گیت اور سنگیت کا چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے، اس لیے سازوں کی آمیزش گیت کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔

    اردو میں گیت کی روایت امیر خسرو کے عہد سے مانی جاتی ہے۔ امیر خسرو نے راگ راگنیوں کے ساتھ گیت کو پروان چڑھانے کے لیے راگوں کو ایجاد بھی کیا۔ امیر خسرو کے عہد سے تا حال اردو میں جو گیت لکھے گئے اس کا خاص موضوع عشق ہے۔ جدائی غم، اور ملن کی خوشی سے ہمارے گیت بھرے پڑے ہیں۔

    امیر خسرو کی مشہور غزل ’’زحالِ مسکین مکن تغافل‘‘ میں جو مصرعے یا مصرعوں کے ٹکڑے ہندوستانی زبان میں ہیں، انھیں ہم گیت کے اوّلین نقوش کہہ سکتے ہیں۔ ان مصرعوں میں عورت کی طرف سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اور فراق کی کیفیت بیان ہوتی ہے جو گیت کی خصوصیت ہے۔

    (ڈاکٹر آفتاب عرشی(بھارت) کے مقالے سے نقل)

  • مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    9 جون 1990ء کو بھارتی فلمی صنعت کے مشہور نغمہ نگار اور معروف شاعر اسد بھوپالی وفات پاگئے تھے۔ اسد بھوپالی نے جہاں اپنے تحریر کردہ گیتوں سے فلم انڈسٹری میں نام و مقام بنایا، وہیں ان کے تخلیق کردہ گیت کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بھی بنے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال کے ایک گھرانے میں 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی، شروع ہی سے شاعری کا شوق رکھتے تھے اور 28 برس کی عمر میں ممبئی چلے گئے جہاں نغمہ نگار کے طور پر انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، راجندر کرشن اور پریم دھون جیسے گیت نگاروں کا بڑا زور تھا اور ان کے علاوہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری بھی اپنے فن اور قسمت کو آزما رہے تھے، لیکن اسد بھوپالی ان کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جس نے فلم نگری میں قدم رکھا اور گیت نگاری شروع کی۔

    انھیں‌ 1949ء میں فلم ’’دنیا‘‘ کے دو نغمات لکھنے کا موقع ملا جن میں سے ایک گیت محمد رفیع نے گایا جس کے بول تھے، ’’رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے‘‘ اور دوسرا گیت ثرّیا کی آواز میں مقبول ہوا جس کے بول ’’ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا‘‘ تھے۔ یہ دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    چند فلموں کے لیے مزید گیت لکھنے کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے نغمات تحریر کرنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم بعد میں ان کے کیریئر کو زوال آیا اور وہ غیرمقبول شاعر ثابت ہوئے۔

    1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے لگ بھگ سو فلموں کے لیے نغمات تخلیق کیے۔ ’’پارس منی‘‘ وہ فلم تھی جس کے گیتوں نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا، اور بعد میں ’’استادوں کے استاد‘‘ کے گیت امر ہوگئے۔ 1989ء میں اسد بھوپالی نے فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کیے جنھیں پاک و ہند میں‌ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے یہ دو گیت برصغیر کی تاریخ میں‌ امر ہوچکے ہیں اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کے بول ہیں، دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ، اور دوسرا گیت ہے، کبوتر جا، جا جا، کبوتر جا….

    انھوں نے دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ جیسا خوب صورت گیت تخلیق کرنے پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا فلم فیئر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔