Tag: ںئی قسم

  • کرونا وائرس کی نئی قسم، ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی نئی قسم، ماہرین پریشان

    عالمی ماہرین نے کرونا وائرس کی نئی قسم کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے وبا ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہے، ماہرین کے مطابق اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی تعداد حیران کن ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ایک ایسی نئی قسم سامنے آئی ہے جس میں اتنی زیادہ تعداد میں میوٹیشنز ہوئی ہیں جو جسمانی دفاع پر حملہ آور ہو کر بیماری کی مزید لہروں کا باعث بن سکتی ہے۔

    بی 11529 نامی اس نئی کووڈ قسم کے صرف 10 کیسز کی تصدیق 3 ممالک میں جینومک سیکونسنگ کے ذریعے ہوئی مگر اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ قسم مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔

    بی 11529 قسم کے اسپائیک پروٹین میں 32 میوٹیشنز ہوئی ہیں، اسپائیک پروٹین وائرس کا وہ حصہ ہے جس کو زیادہ تر ویکسینز میں مدافعتی نظام کی مزاحمت کے لیے ہدف بنایا جاتا ہے۔

    اسپائیک پروٹین میں میوٹیشنز سے وائرس کی خلیات کو متاثر کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، مگر اس سے مدافعتی خلیات کے لیے بھی وائرس پر حملہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

    یہ نئی قسم سب سے پہلے افریقی ملک بوٹسوانا میں دریافت ہوئی تھی جہاں اب تک اس کے 3 کیسز کی سیکونس سے تصدیق ہوئی، جنوبی افریقہ میں 6 جبکہ ہانگ کانگ میں ایک ایسے فرد میں اس کی تصدیق ہوئی جو جنوبی افریقہ سے واپس آیا تھا۔

    امپرئیل کالج لندن کے وائرولوجسٹ ڈاکٹر ٹام پیکوک نے اس نئی قسم کی تفصیلات ایک جینوم شیئرنگ ویب سائٹ پر پوسٹ کیں۔ انہوں نے اسپائیک پروٹین میں بہت زیادہ میوٹیشنز کے بارے میں بتاتے ہوئے بتایا کہ یہ فکرمند کردینے والی قسم ہے۔

    انہوں نے اپنے ٹویٹس میں بتایا کہ اس قسم کی بہت زیادہ مانیٹرنگ کی ضرورت ہے جس کی وجہ خوفناک اسپائیک پروفائل ہے۔ مگر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ممکنہ طور پر یہ بہت زیادہ متعدی قسم ہے یا کم از کم انہیں یہی امید ہے۔

    یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کے ماہرین نے بتایا کہ دنیا بھر کے سائنسی اداروں کی شراکت داری کے ذریعے برطانوی ادارہ دنیا بھر میں ابھرنے والی کرونا وائرس کی اقسام کی مانیٹرنگ کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وائرسز میں اکثر تبدیلیاں ہوتی ہیں تو یہ غیرمعمولی نہیں کہ نئی میوٹیشنز سے کووڈ کی نئی اقسام منظر عام پر آئے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا نے بتایا کہ انہوں نے لیبارٹری میں تحقیقی کام کے دوران اس نئی قسم میں 2 ایسی میوٹیشنز دریافت کیں جو اسے زیادہ متعدی اور اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرنے والا بناتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز کو دیکھتے ہوئے اس کی مانیٹرنگ کرنا ضروری ہے، مگر کسی وائرس کی اہم ترین خصوصیت اس کا متعدی ہونا جس نے ڈیلٹا کو دنیا بھر میں پھیلنے میں مدد فراہم کی، مدافعتی نظام سے بچنا تصویر کا بس ایک پہلو ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر فرانسس بیلوکس نے بتایا کہ اس قسم میں میوٹیشنز کی بڑی تعداد سے بظاہر عندیہ ملتا ہے کہ یہ کووڈ کے کسی بہت زیادہ بیمار فرد میں ہونے والے وائرس کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ایلفا یا ڈیلٹا سے بننے والی وائرس ناکارہ بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف یہ قسم مزاحمت کرسکتی ہے، مگر اس مرحلے میں یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ یہ کتنی متعدی ہوسکتی ہے، بس کچھ عرصے تک مانیٹرنگ اور تجزیہ کرنا ہوگا۔

  • کرونا وائرس کی ناقابلِ تشخیص قسم دریافت

    کرونا وائرس کی ناقابلِ تشخیص قسم دریافت

    پیرس: فرانس میں کرونا وائرس کی ایک اور نئی قسم کو دریافت کرلیا گیا، ابھی اس بات کا علم نہیں ہوسکا کہ نئی قسم اوریجنل وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرنای یا متعدی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرانس میں کرونا وائرس کی ایک ایسی نئی قسم کو دریافت کیا گیا ہے جس کو پی سی آر ٹیسٹوں میں پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے، ابھی یہ معلوم نہیں کہ یہ کس حد تک جان لیوا یا متعدی ہے۔

    اے آر ایس ہیلتھ سروس کے مقامی ڈائریکٹر اسٹیفن میولیز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ لانیون کے ایک ہسپتال کے بائیولوجسٹ نے حال ہی میں درجنوں اموات پر تحقیق کے دوران اس نئی قسم کو دریافت کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 7 افراد میں کرونا وائرس کی روایتی علامات دریافت ہوئی تھیں حالانکہ ان کے پی سی آر ٹیسٹ منفی رہے تھے، جس کے لیے ناک سے حاصل کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور عموماً بہت زیادہ مستند ہوتے ہیں۔

    اسٹیفن میولیز نے بتایا کہ خون اور نظام تنفس کی گہرائی میں موجود بلغم کے مزید ٹیسٹوں سے ان مریضوں میں کووڈ کی تشخیص ہوئی، یہ سب افراد معمر اور پہلے سے مختلف امراض سے متاثر تھے۔

    اس موقع پر فرنچ ہیلتھ ایجنسی کے ریجنل ڈائریکٹر ایلن تریتے نے بتایا کہ ایک امکان یہ ہے کہ وائرس نظام تنفس کے اوپر اور زیریں حصوں میں برق رفتاری سے پھیل گیا۔

    ان نمونوں کو پیرس کے پیستور انسٹی ٹیوٹ میں جینیاتی سیکونسنگ کے لیے بھیجا گیا تھا، جس کے بعد تصدیق ہوئی کہ یہ وائرس کی ایک نئی قسم ہے۔ اس دریافت کے بعد اس خطے میں ٹیسٹوں اور ٹریسنگ کا عمل بڑھا دیا گیا ہے کہ تاکہ تعین کیا جاسکے کہ یہ نئی قسم دیگر علاقوں تک پہنچی ہے یا نہیں۔

    اے آر ایس کا مزید کہنا ہے کہ ابتدائی تجزیوں میں یہ عندیہ نہیں ملا کہ یہ نئی قسم اوریجنل وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرنای یا متعدی ہے۔