Tag: ہائی جیکنگ

  • چین کی کالعدم بی ایل اے کی جانب سے جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کی مذمت

    چین کی کالعدم بی ایل اے کی جانب سے جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کی مذمت

    اسلام آباد: چین نے کالعدم بی ایل اے کی جانب سے جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کی مذمت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے پاکستان میں کالعدم بی ایل اے کی جانب سے ٹرین ہائی جیکنگ کی مذمت کی ہے، وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ کا کہنا ہے چین دہشت گردی کی ہر قسم کا مخالف ہے۔

    انھوں نے کہا چین دہشت گردی کے مقابلے، اتحاد و استحکام، علاقائی امن اور عوام کی حفاظت کے لیے پاکستان کی کوششں میں اس کی معاونت جاری رکھے گا۔

    ترجمان ماؤننگ نے کہا چین ہر قسم کی دہشت گردی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، اور انسداد دہشت گردی سیکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان ڈھاڈر میں جعفر ایکسپریس پر کالعدم بی ایل اے نے حملہ کر کے ٹرین ہائی جیک کر لی ہے، جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 30 دہشت گردوں کو مارا گیا ہے، جب کہ یرغمال 190 مسافر بازیاب کیے گئے ہیں۔

    سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں ہیں، خواتین اور بچوں کی خودکش بمباروں کے ساتھ موجودگی پر انتہائی احتیاط برتی جا رہی ہے، دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔

    جعفر ایکسپریس حملہ، یرغمالی مسافروں کیساتھ خودکش بمبار بیٹھے ہونے کا انکشاف

  • ڈی بی کوپر: وہ شخص جو ہوا میں غائب ہوگیا اور آج تک نہ ملا!

    ڈی بی کوپر: وہ شخص جو ہوا میں غائب ہوگیا اور آج تک نہ ملا!

    دنیا بھر میں ہائی جیکنگ کے بے شمار واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں لیکن نصف صدی قبل ہونے والا ایک واقعہ اپنی مثال آپ ہے جس نے امریکی تحقیقاتی اداروں کو ناکوں چنے چبوادیے اور وہ ہے ڈی بی کوپر کیس۔

    سال 1971 میں امریکی مسافر طیارہ ہائی جیک کرنے والا ملزم کون تھا کہاں گیا کسی کو اس کے بارے میں آج تک مکمل علم نہیں ہوسکا اور مقدمے کی فائل آج بھی ادھوری ہے۔

    ہوا کچھ یوں کہ 24نومبر 1971 کی دوپہر ڈین کوپر نامی شخص نے امریکی ریاست اوریگون میں پورٹ لینڈ ایئر پورٹ پر اورینٹ ایئرلائنز کی واشنگٹن جانے والی فلائٹ #305کا یکطرفہ ٹکٹ خریدا اور جہاز میں سوار ہوگیا، جس کے بعد ایف بی آئی کی تاریخ کا ایک بڑا اور غیر حل شدہ معمے کا آغاز ہوا۔

    ایف بی آئی
    ایف بی آئی کی جانب سے ملزم کے جاری خاکے — فوٹو ایف بی آئی

    کب کیا ہوا؟ 

    اس خوش لباس مسافر کا نام ٹکٹ پر تو ڈان کوپر درج تھا مگر بعد ازاں یہ ’ڈی بی کوپر‘ کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوا، ڈین کوپر جو دیکھنے میں کوئی بزنس مین لگ رہا تھا خاموشی سے جاکر جہاز کی پچھلی نشست پر براجمان ہوگیا اور اپنے لیے ایک مشروب کا آرڈر دیا۔

    مذکورہ طیارے میں عملے کے علاوہ ڈان کوپر سمیت37 مسافر موجود تھے، پرواز کے اڑان بھرنے کے تھوڑی دیر بعد دن کے تقریباً تین بجے اس نے ایئر ہوسٹس کو بلاکر اس کے ہاتھ میں ایک تحریری نوٹ تھمایا جس میں دھمکی آمیز جملہ درج تھا کہ میرے پاس موجود بریف کیس میں ایک بم رکھا ہوا ہے لہٰذا وہ چُپ چاپ ساتھ والی نشست پر بیٹھ جائے۔

    کاپی ٹکٹ
    بورڈنگ پاس کی کاپی

    یہ دیکھ کر ایئر ہوسٹس کی ہوائیاں اڑ گئیں لیکن اس نے اس خوف کو مسافروں پر ظاہر نہ ہونے کی خاطر اس کا کہا مان لیا جس کے بعد اس نے بریف کیس کو ہلکا سا کھول کر اس میں موجود بم کی جھلک ایئر ہوسٹس کو دکھائی اور بند کردیا۔

    ایئرہوسٹس نے اس کی ہدایات کے مطابق عمل کیا، ڈی بی کوپر نے اسے اپنے بقیہ مطالبات بتاتے ہوئے 2 لاکھ ڈالرز اور 4 پیرا شوٹس طلب کیے جو سیئٹل ایئرپورٹ پر جہاز لینڈ کرنے کے بعد فراہم کیے جانے تھے۔

    کوپر کی جانب سے رقم سے متعلق بھی پراسرار قسم کا مطالبہ کیا گیا کہ مطلوبہ رقم میں صرف 20ڈالر کے نوٹ شامل ہوں اور اس بات پر زور دیا کہ اس کو جو نوٹ دیے جائیں، وہ ایک ہی سیریز کے نہ ہوں۔

    ایئرہوسٹس نے فوری طور پر کپتان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا جس نے ایئر پورٹ حکام کو ملزم کے مطالبات سے متعلق بتایا، اب تک جہاز کے مسافر اس تمام ترصورتحال سے بے خبر تھے۔

    ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق بعد ازاں سیئٹل ایئرپورٹ لینڈنگ سے قبل پولیس اور فضائی عملے کی جانب سے رقم اور پیراشوٹس کو اکٹھا کیا جارہا تھا اور دوسری جانب پائلٹ طیارے کو ایئرپورٹ کے گرد گھماتا رہا۔

    ہائی جیکر نے دھمکی دی تھی کہ اگر مطابات منظور نہ ہوئے تو وہ مسافروں سمیت جہاز کو بم سے اڑا دے گا، پائلٹ نے یہ پیغام سنتے ہی انٹرکام پر اعلان کیا کہ طیارہ ایک تکنیکی خرابی کے باعث لینڈ کرنے والا ہے۔

    ساڑھے 3 گھنٹے تک ہوا میں رہنے کے بعد طیارہ لینڈ ہوا، جس کے بعد مسافروں کی حفاظت کے پیش نظر ہائی جیکر کو رقم اور پیرا شوٹس خاموشی سے فراہم کردیے گئے جس کے بعد تمام 36مسافروں اور عملے کے دو افراد کو اتار دیا گیا۔

    ہائی جیکر کی ہدایت پر جہاز میں دوبارہ ایندھن بھرا گیا اور جہاز میکسیکو کے لیے روانہ ہوا، اس موقع پر سارا عملہ کاک پٹ کے اندر موجود تھا جبکہ اکیلا ہائی جیکر کاک پٹ کے باہر۔

    اڑان بھرنے کے بعد ملزم نے پائلٹ کو ہدایت دی کہ وہ طیارے کو 150 ناٹ کی رفتار پر دس ہزار فٹ کی بلندی تک لے جائے جس پر من و عن عمل کیا گیا۔

    امریکہ
    ہائی جیکنگ کے دوران کوپر نے یہ ٹائی پہن رکھی تھی جو وہ طیارے میں ہی چھوڑ گیا۔ ایف بی آئی نے اس کی مدد سے بعد میں ڈی این اے حاصل کیا

    اس وقت تک بہت رات ہوچکی تھی اور موسم کافی خراب تھا اس کے باوجود ڈی بی کوپر نے پیراشوٹ پہن کر رقم کا بیگ پکڑا اور عملے کو بتائے بغیر جہاز سے چھلانگ لگادی۔

    وہ دن ہے اور آج کا دن کوئی نہیں جانتا کہ ڈین کوپر کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ وہ دو لاکھ ڈالر کی رقم لے کر جہاز سے کودا اور چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا۔

    پیرا شوٹ
    ڈی بی کوپر کو دیے گئے چار پیرا شوٹوں میں سے ایک پیرا شوٹ

    اس بات کا انکشاف بعد میں ہوا کہ اس چالاک اور شاطر ہائی جیکر نے 20 ڈالر کے نوٹ ہی کیوں مانگے تھے؟

    وہ اس لیے کہ اس طرح رقم کا مجموعی وزن 21 پاؤنڈ بنتا ہے، اگر اس سے کم مالیت کے ڈالر ہوتے تو وزن زیادہ ہوجاتا اور چھلانگ لگانا جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا، اگر 20 سے بڑی مالیت کے نوٹ ہوتے تو وزن تو کم ہوجاتا لیکن ان کا استعمال کرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا۔

    دوسری جانب ایف بی آئی نے بھی کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کیا اور ملزم کو وہ تمام نوٹ فراہم کیے جن کا کوڈ لیٹر ’ایل‘تھا۔

    سال 1971سے 2016 تک ایف بی آئی نے ڈی بی کوپر کا سراغ لگانے کی پوری کوشش کی، ریکارڈ کے مطابق یہ ایک سفید فام شخص تھا، جس کا قد 6 فٹ ایک انچ اور وزن 77 سے 80 کلوگرام، عمر چالیس سے 50 سال کے درمیان، بھوری آنکھیں، سیاہ بال قابل ذکر تھے۔

    ایف بی آئی نے معاملے تہہ تک جانے کیلئے ہزاروں افراد سے پوچھ گچھ کی اور واقعے کے 5 سال بعد تک 800 سے زائد افراد کو مشتبہ بھی قرار دیا مگر پھر بھی کچھ حاصل نہ کرسکی۔

    کہانی کا اہم موڑ

    اس واقعے کے تقریباً نو سال بعد سنہ1980میں ایک آٹھ سالہ بچے نے ایک ایسی چیز دریافت کی جس کے بعد اس کیس میں کچھ پیشرفت ہوئی۔

    آٹھ سالہ برائن انگرام واشنگٹن کے دریائے کولمبیا کے کنارے پر کھیلتے ہوئے کھدائی کررہا تھا جہاں اسے 20 ڈالرز کا ایک بنڈل ملا جس میں مجموعی طور پر 5 ہزار 8 سو ڈالرز کے پھٹے پرانے نوٹ تھے۔

    ڈالر
    1980 میں ایک بچے کو دریا کے پاس سے ملنے والے 20 ڈالر کے پھٹے پرانے نوٹ

    ایف بی آئی کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے سیریل نمبرز دیکھ کر اس بات کی تصدیق کی کہ یہ وہی نوٹ ہیں جو تاوان کی مد میں ڈی کوپر کو ادا کیے گئے تھے۔

    جس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ شاید کوپر چھلانگ لگانے کے بعد کسی وجہ سے مرگیا کیوں کہ وہ رات کے اندھیرے میں ایک ویران اور جنگلی علاقے میں گرا تھا۔ یہ زیادہ تر لوگ اس بات سے متفق نہیں تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ جو نوٹ ملے، وہ شاید چھلانگ کے دوران کوپر کے ہاتھ سے گر گئے ہوں یا حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے جان بوجھ کر گرا دیئے گئے ہوں۔

    دریا کے کنارے سے نوٹ دریافت کرنے والے بچے برائن انگرام کو 6 سال کے بعد اس رقم میں سے 2 ہزار 760 ڈالرز بطور انعام دیئے گئے۔ برائن نے سال 2008 میں 20 ڈالر کا ایک نوٹ 37 لاکھ ڈالرز میں نیلام کیا۔

    اسی نوعیت کی ایک اور واردات

    ہائی جیکنگ کی مذکورہ واردات کے 5 ماہ بعد بالکل اسی نوعیت کی ایک اور واردات کی گئی جس میں رچرڈ فلوئیڈ نامی ملزم نے مطالبات منظور ہونے بعد جہاز سے چھلانگ تو لگائی لیکن پکڑا گیا، شک کی بنیاد پر اس کی شناختی پریڈ کروائی گئی جس میں فلائٹ اٹینڈینٹ نے ملزم کا چہرہ دیکھ کر اسے پہچاننے سے یہ کہہ کر انکار دیا کہ یہ وہ شخص نہیں ہے۔

    بعد ازاں ملزم رچرڈ فلوئیڈ جس کا اصلی نام رچرڈ میکو ئے تھا کو 45 سال قید کی سزا سنائی گئی مگر اگست 1974 میں وہ جیل سے فرار ہوگیا اور بعد ازاں ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

    ایف بی آئی جگہ جگہ خاک چھاننے کے باوجود ڈی بی کوپر کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل نہ کر سکی اور بالآخر سال 2016میں تھک ہار کر اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ کیس کی تفتیش کے لیے مختص وسائل کو دیگر مقدمات کیلئے استعمال کیا جائے گا۔

  • ہائی جیکنگ یا کچھ اور : 10 سال قبل غائب ہونے والا طیارہ ’MH370‘کیوں نہ مل سکا؟

    ہائی جیکنگ یا کچھ اور : 10 سال قبل غائب ہونے والا طیارہ ’MH370‘کیوں نہ مل سکا؟

    سال 2014کو کوالالمپور سے بیجنگ جانے والا ملائشیا کا مسافر طیارہ اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد غائب ہوگیا، اس واقعے کو گزرے 10 سال گزر گئے لیکن اس طیارے تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔

    تفصیلات کے مطابق ملائیشین ایئر لائنز کی پرواز ایم ایچ 370 بوئنگ 777 اپنے 227 مسافروں اور عملے کے 12 ارکان کے ساتھ 8 مارچ 2014 کو کوالالمپور سے بیجنگ جاتے ہوئے ریڈار سے اچانگ غائب ہوگئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دس سال کی طویل مدت کے دوران متعدد تحقیقات اور تلاش کے باوجود طیارے کی گمشدگی نے بے شمار قیاس آرائیوں اور سازشی نظریات کو جنم دیا ہے، یہاں تک کہ ولادیمیر پوتن اور کم جونگ ان کو بھی ایم ایچ 370 کی گمشدگی کے بارے میں سازشی نظریات میں ملوث کیا گیا ہے۔ ۔

    یہ مسافر طیارہ ویتنام کی فضائی حدود میں داخل ہونے اور بحر ہند کی جانب مغرب کی طرف پرواز کرنے کے فوری بعد شمال کی طرف پرواز کرتے ہوئے بہت دور چلا گیا تھا۔

    ایک منٹ بعد کوالالمپور میں کنٹرولرز نے طیارے کو ملائیشین ساحل سے ویتنام جانے والے راستے کے تقریباً ایک تہائی فاصلے پر ’ایگری‘ سے گزرتے ہوئے دیکھا، چند سیکنڈز کے اندر ہی ایم ایچ 370 ریڈار اسکرین سے غائب ہوگیا۔

    گمشدہ طیارے کی تلاش کیلیے اب تک ملائیشیا، چین اور آسٹریلیا کی جانب سے 46ہزار مربع میل پر محیط سمندر کے اندر بڑے پیمانے پر تلاش کے باوجود لاپتہ طیارے کے بارے میں کوئی ٹھوس اطلاع نہیں مل سکی حالانکہ ایم ایچ 370کی تحقیقات اور تلاش میں 102 ملین پاؤنڈ لاگت آئی ہے جو شعبہ ہوا بازی کی تاریخ کی سب سے مہنگی زیر سمندر تحقیقات ہے۔

    رپورٹ کے مطابق طیارے کی تلاش کا کام سال 2017 میں روک دیا گیا تھا اور اس کے بعد طیارے کو تلاش کرنے کی نجی کوششیں بھی بے سود ثابت ہوئیں مختلف لوگوں نے بھی اپنے طور پر لاپتہ طیارے کو تلاش کرنے کا دعویٰ کیا لیکن وہ بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

    گزشتہ سال ایک ریٹائرڈ آسٹریلوی ماہی گیر کٹ اولیور نے دعویٰ کیا کہ سال 2014 میں اس کے ٹرالر  نے آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں تقریباً 55 کلومیٹر دور سمندر سے ہوائی جہاز کا ایک پر نکالا تھا۔

    Officers

    طیارے کا ملبہ افریقہ کے مشرقی ساحل اور آسٹریلیا کے مغرب میں 1500 کلومیٹر دور جنوبی بحر ہند میں مڈغاسکر تک دریافت ہوا ہے۔ مجموعی طور پر طیارے کے 41 ٹکڑے برآمد ہوئے ہیں لیکن ہوائی جہاز کی صحیح سمت اور آخری منزل اور یہ کیوں ہوا میں غائب ہوا، اس بات کا حتمی طور پر کچھ تعین نہیں کیا جاسکا۔

    واقعے کے دس سال بعد ملائیشیا نے اس کی نئی تلاش شروع کرنے کی تجویز پیش کی ہے، جس میں مسافروں کے اہل خانہ کو نئی امید دی گئی ہے کہ پرواز ایم ایچ 370 کے ساتھ اصل میں کیا ہوا تھا؟۔

    خودکش یا انتقامی حملہ :

    عام طور پر یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ جہاز کے کپتان زہری احمد شاہ نے طیارے کو جان بوجھ کر تباہ کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کپتان نے اپنے شریک پائلٹ کو کاک پٹ سے باہر نکال دیا اور جہاز میں موجود تمام لوگوں کے ساتھ جان بوجھ کر خود کو مارنے کے لیے جہاز کو کریش کرنے سے پہلے مواصلاتی نظام بند کردیا۔

    ہوا بازی کے ماہرین کے ایک گروپ کے مطابق پائلٹ نے 40ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کے دوران جان بوجھ کر ایسا قدم اٹھایا گیا تاکہ جہاز میں سوار تمام افراد کی آکسیجن بند کرکے انہیں مار ڈالا جائے۔

    pilot

    دوسری جانب ایک متبادل نظریہ یہ بھی ہے کہ ایم ایچ 370 کے کیبن میں آکسیجن ختم ہوگئی تھی جس سے سب کا دم گھٹ گیا جب پائلٹ جہاز کی ہنگامی لینڈنگ کے لیے جگہ تلاش کررہے تھے، لیکن ایسا کرنے سے پہلے ہی کریش ہوگیا۔

    کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس یا شمالی کوریا یا کسی اور نامعلوم مسافر کی مدد سے طیارے کو ہائی جیک کیا گیا کیونکہ ایم ایچ 370 کو جان بوجھ کر اس کی پرواز کے راستے سے بالکل اسی جگہ سے ہٹایا گیا تھا جہاں یہ ملائیشیا اور ویتنام کے ریڈار سسٹم کی حد سے باہر ہوا اور زمین سے نظر نہیں آرہا تھا لیکن انہیں شک ہے کہ یہ خودکشی کے ارادے سے تھا۔

     debris

    اس کے علاوہ ایرو اسپیس کے ماہر جین لوک مارچینڈ نے گزشتہ سال ایک لیکچر میں دعویٰ کیا تھا کہ پرواز ایم ایچ370 کے اچانک غائب ہونے کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کام تجربہ کار پائلٹ نے انجام دیا تھا۔

    کچھ دیگر ماہرین اس واقعے کو سیاسی نظر سے دیکھتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ شمالی کوریا نے سال 1969 میں کورین ایئر لائنز وائی ایس الیون کے ہائی جیکنگ کے واقعے کو دہرایا ہے۔

    ان کے مطابق اس طیارہ اور اس کے مسافروں کو شمالی کوریا لے جایا گیا، اس سے پہلے کہ ان میں سے 39 کو دو ماہ بعد جنوبی کوریا واپس کر دے۔

    تجزیہ نگار جیف وائز کے مطابق ایم ایچ 370 روس نے چوری کیا اور اسے ولادیمیر پوٹن کے حکم پر قازقستان لے جایا گیا۔