Tag: ہاتھ دھونا

  • وہ ڈاکٹر جنہوں نے ہاتھ دھونے کی ترغیب دے کر لاکھوں ماؤں کی جانیں بچائیں

    وہ ڈاکٹر جنہوں نے ہاتھ دھونے کی ترغیب دے کر لاکھوں ماؤں کی جانیں بچائیں

    گزشتہ 2 برسوں میں کرونا وائرس کے دوران ہاتھ دھونے کی اہمیت ایک بار پھر واضح ہوگئی، ہاتھ دھونے کا معمولی عمل بے شمار بیماریوں سے بچا سکتا ہے اور کرونا وائرس نے اس کی یاد دہانی کروا دی۔

    دو صدیاں قبل جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو ہاتھ دھونے کو ایک غیر ضروری عمل سمجھا جاتا تھا، طبی عملہ بھی مختلف مریضوں کو چیک کرنے یا آپریشنز کے بعد ہاتھ دھونا ضروری نہیں سمجھتا تھا اور ان کی اس لاعلمی نے لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    اس حوالے سے انیسویں صدی کے ایک ڈاکٹر کی دریافت کو نہایت اہم خیال کیا جاتا ہے جنہوں نے طبی عملے کو ہاتھ دھونے کی ترغیب دی۔

    ڈاکٹر اگنز سملوائز کی یہ دریافت نہ صرف میڈیکل کے شعبے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑی خدمت قرار پائی، دنیا انہیں ماؤں کے نجات دہندہ کے نام سے جانتی ہے۔

    ڈاکٹر اگنز سنہ 1818 میں ہنگری کے دارالحکومت میں پیدا ہوئے جو اس وقت بدا کے نام سے جانا جاتا تھا، اس کا موجودہ نام بڈاپسٹ ہے۔ وہ طبیعات داں، سائنسداں، اور ماہر امراض زچہ و بچہ تھے۔

    1840 کی دہائی میں جب وہ ویانا کے جنرل اسپتال میں میٹرنٹی وارڈ میں کام کرتے تھے، تب وہاں اس وارڈ کے 2 ڈویژن تھے۔ ایک ڈویژن میں ڈاکٹرز کام کرتے تھے جبکہ ایک مڈ وائفس کے لیے مخصوص تھا۔

    ڈاکٹر اگنز نے دیکھا کہ ڈاکٹرز والے وارڈ میں ڈلیوری کے بعد زچاؤں کی موت کی شرح مڈ وائفس والے وارڈ کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔ یہ زچائیں چائلڈ بیڈ فیور نامی بیماری سے موت کے منہ میں جا رہی تھیں جس میں بچے کی پیدائش کے بعد زچہ کو انفیکشن ہوجاتا تھا اور وہ موت کے گھاٹ اتر جاتی تھی۔

    ڈاکٹر اگنز نے اس کی وجہ تلاش کرنی شروع کی۔ ایک امکان یہ تھا کہ ان ماؤں کی موت پرہجوم وارڈ، غیر صحت مند غذا اور آلودہ ہوا سے ہورہی ہے، لیکن یہ حالات دونوں وارڈز میں یکساں تھے سو انہوں نے اس امکان کو رد کردیا۔

    انہوں نے ایک اور امکان یہ سوچا کہ شاید ان اموات کی وجہ ڈلیوری کے دوران زچہ کی پوزیشن تھی جو دونوں وارڈز کے ماہرین اپنے حساب سے الگ رکھواتے تھے، لیکن یہ مفروضہ بھی جلد ہی رد ہوگیا۔

    پھر ان کی توجہ اس پادری پر گئی جو روزانہ گھنٹی بجاتا ہوا ڈاکٹرز کے وارڈ میں داخل ہوتا تھا، ڈاکٹر اگنز نے سوچا کہ شاید اس سے ماؤں میں کوئی نفسیاتی خوف پیدا ہوتا ہو، تاہم جلد ہی یہ امکان بھی رد ہوگیا۔

    پھر بالآخر سنہ 1847 میں ڈاکٹر اگنز نے اس کی حتمی وجہ دریافت کر ہی لی۔

    ہوا یوں کہ ان کا ایک ساتھی ڈاکٹر ایک پوسٹ مارٹم کے دوران لاش کی کھوپڑی سے زخمی ہوا، انفیکشن کا شکار ہوا اور پھر بالآخر موت کے گھاٹ اتر گیا۔

    ڈاکٹر اگنز نے ایک مفروضہ قائم کیا کہ ممکنہ طور پر لاش کے جسم کے ننھے ننھے ٹکڑے ڈاکٹر کے خون میں شامل ہوگئے اور اسی وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا، اور چونکہ ڈاکٹرز پوسٹ مارٹم کرنے کے فوراً بعد ڈلیوری روم میں جا کر بچے ڈلیور کروانے لگتے تھے تو شاید اسی طرح لاش کے جسم کے ٹکڑے زچہ کے خون میں شامل ہو کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔

    اس مفروضے کی صحت جانچنے کے لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ایک ترش کیمیکل سے بنے کلورینیٹد لائم سے ہاتھ دھوئیں۔

    جب ڈاکٹرز نے ان کی ہدایت پر عمل کیا تو وارڈ میں دوران زچگی شرح اموات میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی۔

    وہ دن اور آج کا دن، درست طریقے سے ہاتھ دھونے کی ضرورت نہ صرف طبی عملے بلکہ عام انسانوں کے لیے بھی ثابت ہوتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر اگنز کی اس دریافت کو اس وقت مخالفت کا نشانہ بنایا جاتا رہا، تاہم جدید دور نے ان کی اس دریافت کی مسلمہ حقیقت پر مہر ثبت کردی ہے۔

    آج ہاتھ دھونے کے عالمی دن کے موقع پر میڈیکل سائنس یقیناً ڈاکٹر اگنز کی شکر گزار ہے۔ انہیں فادر آف ہینڈ ہائی جین اور ہینڈ واشنگ ہیرو بھی پکارا جاتا ہے۔

  • ہاتھ دھونے کا عالمی دن: پاکستان میں سیلاب متاثرین صحت و صفائی کی سہولیات سے محروم

    ہاتھ دھونے کا عالمی دن: پاکستان میں سیلاب متاثرین صحت و صفائی کی سہولیات سے محروم

    آج دنیا بھر میں ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں حالیہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد صحت و صفائی کی سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث ریلیف کیمپس میں وبائی امراض بے قابو ہوچکے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا کی 40 فیصد آبادی یعنی 3 ارب افراد ہاتھ دھونے کے لیے صاف پانی اور صابن سے محروم ہیں یا پھر وہ اس اہم عمل کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔

    دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    یہ 22 لاکھ اموات زیادہ تر ان پسماندہ ممالک میں ہوتی ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات کا فقدان اور بے انتہا غربت ہے۔ اس قدر غربت کہ یہ لوگ ایک صابن خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس بیت الخلا کی سہولت نہیں ہے۔ افریقہ کے جنوبی علاقے میں یہ تعداد 28 فیصد تک ہے۔

    پاکستان میں بھی ہاتھ نہ دھو سکنے والوں کا تناسب اسی طرح ہے یعنی 40 فیصد آبادی ہاتھ دھونے کی سہولیات اور شعور سے محروم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ افراد بیت الخلا کے استعمال کے بعد، کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ نہیں دھوتے۔

    ہاتھ نہ دھونے سے سب سے بڑا خطرہ ڈائریا یعنی اسہال کا ہے جو مناسب طریقے سے ہاتھ دھونے سے 35 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جراثیم زیادہ تر کھانے پینے کے دوران انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ہاتھ، پیر اور منہ کے امراض، جلدی انفیکشن، ہیپاٹائٹس اے اور پیٹ کے امراض بھی ہاتھ نہ دھونے کی عادت کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔

    سیلاب زدہ علاقوں میں صورتحال مزید ابتر

    پاکستان میں رواں برس آنے والے سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے، کروڑوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور ریلیف کیمپس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    ان کیمپس میں مناسب بیت الخلا کی عدم دستیابی کی وجہ سے صفائی کی صورتحال نہایت خراب ہے جس سے بے شمار امراض جنم لے رہے ہیں۔

    زیادہ تر کیمپس میں لوگ کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں جس سے کیمپس میں آلودگی پھیل رہی ہے نتیجتاً لٹے پٹے، بیمار اور کم خوراکی کا شکار سیلاب متاثرین اسہال، ٹائیفائڈ، جلدی اور سانس کے امراض اور دیگر بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس صورتحال کو طبی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل ہے تاکہ صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جاسکے۔

  • درست طریقے سے ہاتھ دھونا کووڈ 19 سمیت متعدد بیماریوں سے بچانے میں معاون

    درست طریقے سے ہاتھ دھونا کووڈ 19 سمیت متعدد بیماریوں سے بچانے میں معاون

    آج دنیا بھر میں ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، کرونا وائرس کی وبا نے ثابت کیا کہ کس طرح صرف ہاتھ دھونے سے نہ صرف کووڈ 19 بلکہ دیگر متعدد بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 1 ارب 90 کروڑ افراد ہاتھ دھونے کی سہولیات (پانی یا صابن) سے محروم ہیں۔ یہ افراد بیت الخلا کے استعمال کے بعد، کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ نہیں دھوتے۔

    پاکستان میں بھی 40 فیصد آبادی ہاتھ دھونے کی سہولیات اور شعور سے محروم ہے۔

    ماہرین کے مطابق جراثیم زیادہ تر کھانے پینے کے دوران انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ہاتھ، پیر اور منہ کے امراض، جلدی انفیکشن، ہیپاٹائٹس اے اور پیٹ کے امراض بھی ہاتھ نہ دھونے کی عادت کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔

    پاکستان میں ہر سال صرف ڈائریا سے 53 ہزار بچے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں، اور صرف پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

    ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے ڈائریا کا خطرہ 30 فیصد اور مختلف اقسام کی سانس کی بیماریوں کا خطرہ 20 فیصد کم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہاتھ دھونے سے ہیضہ، ایبولا وائرس، سارس وائرس اور ہیپاٹائٹس لاحق ہونے کے خطرات میں بھی کمی آتی ہے۔

    دوسری جانب طبی ماہرین نے کرونا وائرس کے خلاف بھی ہاتھ دھونے کو ایک اہم ہتھیار قرار دیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانا پکانے، کھانے اور بچوں کو کھلانے سے قبل ہاتھ دھونے کی عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے اور اسے بچوں کی تربیت کا بھی لازمی حصہ بنایا جائے۔

  • کراچی میں ہاتھ دھونے میں اضافے سے پانی کی قلت، واٹر بورڈ کی عجیب منطق

    کراچی میں ہاتھ دھونے میں اضافے سے پانی کی قلت، واٹر بورڈ کی عجیب منطق

    کراچی: ایم ڈی واٹر بورڈ کراچی نے شہر میں پانی کی قلت کی عجیب و غریب منطق بیان کر دی ہے، اسد اللہ خان کا کہنا تھا کہ ہاتھ دھونے میں اضافے کی وجہ سے پانی زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان نے کراچی میں پانی کی قلت کے مسئلے پر تبصرہ کیا کہ اس وقت کراچی کے لیے 45 فی صد پانی دستیاب ہے، ہاتھ دھونے میں اضافے کے باعث پانی زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔

    واضح رہے کہ کرونا وبا شروع ہوتے ہی ڈاکٹرز اور ماہرین نے عوام کو جو سب پہلی ہدایت جاری کی تھی وہ یہ تھی کہ بار بار صابن سے اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ کرونا وائرس ہاتھوں کے ذریعے منہ یا ناک تک نہ پہنچ سکے۔

    لاک ڈاؤن کے باعث کراچی میں پانی کی قلت کی حقیقت سے پردہ ہٹ گیا

    ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ گرمی کی شدت میں کمی سے کراچی میں پانی کی قلت میں بھی کمی آ جائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ پانی کے مسئلے کے سلسلے میں جلد ان کی وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے ملاقات متوقع ہے، شہر میں صرف 7 ہائیڈرینٹس قانونی طور پر کام کر رہے ہیں، غیر قانونی ہائیڈرینٹس کے خلاف کارروائی کے لیے تفصیلات بھی دے چکا ہوں۔

    خیال رہے کہ کراچی میں لاک ڈاؤن کے دوران جب فیکٹریاں بند ہو گئی تھیں تو پاک کالونی، ریکسر، پرانا گولیمار، بلدیہ اور لیاری کے وہ علاقے جہاں برسوں سے پانی نہیں آ رہا تھا، پانی وافر مقدار میں آنا شروع ہوا۔ اے آر وائی نیوز نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ان علاقوں کے مکینوں کا پانی فیکٹریوں کو فروخت کیا جا رہا تھا۔

  • کرونا وائرس سے بچنے کے لیے صرف ہاتھ دھونا کافی نہیں

    کرونا وائرس سے بچنے کے لیے صرف ہاتھ دھونا کافی نہیں

    سوشل میڈیا پر تصاویر کا ایک مجموعہ تیزی سے وائرل ہورہا ہے جس میں ہاتھ دھونے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

    کرونا وائرس کے پیش نظر عالمی ادارہ صحت نے صحت و صفائی کے بنیادی اصول اپنانے پر زور دیا ہے جن میں ہاتھ دھونا سرفہرست ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل مذکورہ تصاویر میں بتایا گیا ہے کہ صرف ہاتھ دھونے، اور صحیح طریقے سے ہاتھ دھونے میں فرق ہے۔

    معروف امریکی اداکارہ کرسٹین بیل کی جانب سے شیئر کی گئی ان تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ ہاتھ نہ دھونا اور صحیح طریقے سے 30 سیکنڈز تک ہاتھ دھونا کس طرح جراثیم سے بچا سکتا ہے۔

    ان مائیکرو اسکوپک تصاویر میں ہاتھ نہ دھونے، چند سیکنڈ کے لیے ہاتھ دھونے، صابن کے بغیر اور صابن کے ساتھ ہاتھ دھونے اور درست طریقے سے ہاتھ دھونے کے بعد کا فرق دکھایا گیا جس میں جراثیم کی تعداد میں واضح کمی دکھائی دے رہی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    My mom sent me the hand washing black light comparison. 30 SECONDS WITH SOAP YALL!!!

    A post shared by kristen bell (@kristenanniebell) on

    برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق صابن سے اچھی طرح اتنی دیر تک ہاتھ دھوئیں، جتنی دیر میں دو بار ’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘ کا گانا مکمل ہوسکے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ میں اب تک کرونا وائرس کے 206 مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 2 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    برطانیہ سمیت کرونا وائرس 103 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 1 لاکھ 6 ہزار 211 ہو گئی ہے۔

    چین کے بعد سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں جہاں وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 233 ہو گئی، دنیا بھر میں وائرس سے اموات کی تعداد 3 ہزار 600 ہوگئی ہے، جبکہ 60 ہزار 190 افراد صحتیاب ہو چکے ہیں۔

  • پاکستان کی 40 فیصد آبادی ہاتھ دھونے کی سہولیات سے محروم

    پاکستان کی 40 فیصد آبادی ہاتھ دھونے کی سہولیات سے محروم

    آج دنیا بھر میں ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں 40 فیصد آبادی کو ہاتھ دھونے کے لیے صاف پانی اور صابن کی سہولت میسر نہیں ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا کی 40 فیصد آبادی یعنی 3 ارب افراد ہاتھ دھونے کے لیے صاف پانی اور صابن سے محروم ہیں یا پھر وہ اس اہم عمل کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔

    اس کا مطلب ہے کہ یہ افراد بیت الخلا کے استعمال کے بعد، کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ نہیں دھوتے۔ پاکستان میں بھی ہاتھ نہ دھو سکنے والوں کا تناسب اسی طرح ہے یعنی 40 فیصد آبادی ہاتھ دھونے کی سہولیات اور شعور سے محروم ہے۔

    ہاتھ نہ دھونے سے سب سے بڑا خطرہ ڈائریا یعنی اسہال کا ہے جو مناسب طریقے سے ہاتھ دھونے سے 35 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جراثیم زیادہ تر کھانے پینے کے دوران انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ہاتھ، پیر اور منہ کے امراض، جلدی انفیکشن، ہیپاٹائٹس اے اور پیٹ کے امراض بھی ہاتھ نہ دھونے کی عادت کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔

    دوسری جانب پاکستان میں ہر سال ڈائریا سے 53 ہزار بچے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں، اور صرف پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

    ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    پاکستان کے لیے سنہ 2017 اس حوالے سے خطرناک رہا جب پانی کی کمی اور صحت و صفائی کی سہولیات کے فقدان کے سبب روزانہ 46 بچوں کی اموات ریکارڈ کی گئیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہیلتھ کیئر سینٹرز بھی اس حوالے سے تشویشناک صورتحال کا شکار ہیں۔ پاکستان میں 24 فیصد اسپتالوں، کلینکس اور دیگر ہیلتھ کیئر سہولیات میں ہاتھ دھونے کی مناسب سہولیات موجود نہیں جس کے باعث طبی عملہ بھی بغیر ہاتھ دھوئے مریضوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

    طبی عملے اور مریضوں کے ہاتھ نہ دھونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں، جراثیموں اور انفیکشنز کے پھیلاؤ کے خطرے میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانا پکانے، کھانے اور بچوں کو کھلانے سے قبل ہاتھ دھونے کی عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے اور اسے بچوں کی تربیت کا بھی لازمی حصہ بنایا جائے۔

  • ہاتھ دھونا آپ کی زندگی بچا سکتا ہے

    ہاتھ دھونا آپ کی زندگی بچا سکتا ہے

    آج دنیا بھر میں ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہاتھ دھونے اور غذا کے درمیان تعلق کا ہے۔

    ہاتھ دھونے کے عالمی دن کو منانے کا مقصد اس عمل کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو بے شمار جان لیوا بیماریوں سے بچا سکتا ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    یہ 22 لاکھ اموات زیادہ تر ان پسماندہ ممالک میں ہوتی ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات کا فقدان اور بے انتہا غربت ہے۔ اس قدر غربت کہ یہ لوگ ایک صابن خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    ماہرین کے مطابق جراثیم زیادہ تر کھانے پینے کے دوران انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اورہاتھ، پیر اور منہ کے امراض، جلدی انفیکشن، ہیپاٹائٹس اے اور پیٹ کے امراض بھی ہاتھ نہ دھونے کی عادت کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس بیت الخلا کی سہولت نہیں ہے۔ افریقہ کے جنوبی علاقے میں یہ تعداد 28 فیصد تک ہے۔

    اس طرح کی خراب صفائی ستھرائی کی صورت حال کے بعد اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ مذکورہ علاقوں میں بچوں میں ہیپاٹائٹس، نمونیہ اور اسہال جیسی بیماریاں عام ہیں اور اکثر ان سے اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانا پکانے، کھانے اور بچوں کو کھلانے سے قبل ہاتھ دھونے کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔

    طبی ماہرین کے مطابق صابن کے ساتھ اچھی طرح ہاتھ دھونے سے اسہال کا خطرہ 30 سے 50 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔