آسکرز 2022 میلے میں بہترین انٹرنیشنل فیچر فلم ایوارڈ اس بار جاپانی فلم نے حاصل کر لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق رواں سال کےاکیڈمی ایوارڈز کا اتوار کو ہالی ووڈ میں منعقدہ تقریب میں اعلان کیا گیا، جس میں جاپانی فلم ’ڈرائیو مائی کار‘ نے بہترین بین الاقوامی فیچر فلم اکیڈمی ایوارڈ جیت لیا ہے۔
اس فلم کی کہانی دراصل جاپان کے مقبول ترین ناول نگار ہاروکی موراکامی کے 2014 میں چھپنے والے افسانوں کی کتاب ’مین ودآؤٹ وومن‘ کی ایک کہانی ’ڈرائیو مائی کار‘ پر مبنی ہے۔ یہ کہانی ایک اداکار کافوکو کی ہے جو نظر خراب ہونے اور ڈرائیونگ لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے ایک 24 سالہ لڑکی مساکی واتاری کو ڈرائیور رکھ لیتا ہے۔
آسکر وصول کرنے کے بعد فلم کے ہدایت کار ہاماگُوچی رِیُوسُکے نے کہا ’اوہ تو آپ آسکر ہیں۔‘ انھوں نے اس فلم میں شامل اداکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ بھی کہا ’ہم نے یہ جیت لیا ہے!‘
2009 کے بعد ڈرائیو مائی کار پہلی جاپانی فلم ہے جس نے آسکر ایوارڈ جیتا ہے، اس فلم نے گزشتہ سال کینز فلم فیسٹیول میں بہترین اسکرین پلے ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔
رواں سال یہ غیر انگریزی زبان کے درجے میں گولڈن گلوب برائے بیسٹ پکچر بھی جیت چکی ہے۔
جاپانی ادیبوں میں شاید ہی کسی کے حصے میں وہ شہرت آئی ہوئی، جو 69 سالہ ہاروکی موراکامی کو نصیب ہوئی۔
موراکامی ان گنے چنے غیرملکی فکشن نگاروں میں سے ہیں، جس کی کتب شایع ہوتے ہی بیسٹ سیلرز کے زمرے میں شامل ہوجاتی ہیں.
ہاروکی موراکامی
"یک سنگھے” موراکامی کے افسانوں کا مجموعہ ہے، جسے سینئر مترجم قیصر نظیر خاور نے اردو روپ دیا ہے، اس کتاب میں بارہ افسانے/ کہانیاں شامل ہیں۔
ان افسانوں میں دیگر زبانوں کے ادب کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور باقاعدہ ذکر بھی، جو ظاہر کرتا ہے کہ مصنف عالمی ادب کا کتنا بڑا مداح ہے۔
وہ شکسپیر سے لے کر کافکا تک اور ایل فرینک بام سے لے کر عربی داستانی ادب تک، سب کا ذکر کرتا ہے۔ ادب کے ساتھ ساتھ موراکامی موسیقی کا بھی شایق ہے.
موراکامی کے افسانوں کا تھیم ہمارے ادیبوں سے یکسر مختلف ہے، موراکامی بھی بھوک اورغربت کی بات کرتا ہے، لیکن اس کے لیے وہ ہمیں کسی غریب کی جھونپڑی میں نہیں لے جاتا، بلکہ وہ اپنے کسی عام سے کردار کی عام سی صورت حال سے بھوک کی انتہا دکھاتا ہے ۔ یہ بھوک اتنی شدید ہوتی ہے کہ افسانہ پڑھتے پڑھتے ہم خود بھوک کی انتہا کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔
موراکامی آج کی شہری زندگی سے تنگ ہے، اسے قدرت سے پیار ہے اور وہ اسی کے قریب رہنا چاہتا ہے، تب ہی وہ اپنے افسانوں میں جگنووں کا ذکر کرتا ہے، صبح اور رات کے سمے لمبی واک کی یاد تازہ کرتا ہے، باہر جانے کے بجائے گھر رہ کر ریکارڈر پر اوپیرا سننے کو ترجیح دیتا ہے۔
آج کی تیز رفتار ، جدید آلات سے بھری زندگی میں جب ہم موراکامی کے کرداروں کو ان الیکٹرانک آلات سے آزاد دیکھتے ہیں تو دل میں کہیں ایک بار یہ خواہش ضرور جنم لیتی ہے کہ کاش ہم بھی واپس پر سکون زندگی کی طرف پلٹ سکیں ۔
ایک چیز جو موراکامی کے افسانے پڑھ کر شدت سے محسوس کی وہ ہے انتظار۔ موراکامی کے ان بارہ افسانوں میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کردار کا انتظار نظر آتا ہے.
قیصر نظیر خاور
کبھی محبوب کا اپنی محبوبہ کے لئے، کبھی شہری زندگی سے سے تنگ شخص کا اپنی پرانی زندگی میں لوٹنے کا انتظار اور کبھی بھوک سے بے چین شخص کا اپنے برگر کا انتظار۔
موراکامی ان حالات و واقعات کو اس مہارت سے کاغذ پر اتارتا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے عام سے واقعات بڑے اور اہم لگنے لگتے ہیں۔
موراکامی چھوٹی سے چھوٹی بات کو تفصیل سے بیان کرنے پر یقین رکھتا ہے، وہ جگنو کا ذکر کرے گا، تو ضروری سمجھے گا کہ قاری کو یہ معلومات فراہم کی جائے کہ یہ جگنو اصل میں کہتے کس بلا کو ہیں.
موراکامی اپنے افسانوں میں ہمیں یاد دلاتا رہتا ہے کہ وہ ایک جاپانی ادیب ہے، وہ اپنے ہر افسانے میں بارہا جاپان کا، اس کے مختلف شہروں اور شاہراؤں کا اور جاپانی کھانوں کا ذکر کرتا نظر آتا ہے۔
یہ قابل مطالعہ کتاب مکتبہ فکر و دانش نے شایع کی ہے، صفحات 256 اور قیمت 500 روپے ہے۔