Tag: ہالی وڈ

  • چارلٹن ہسٹن: تذکرہ کراچی آمد اور یادگار ملاقات کا

    چارلٹن ہسٹن: تذکرہ کراچی آمد اور یادگار ملاقات کا

    چارلٹن ہسٹن نے حضرت موسیٰ پر بننے والی فلم کے مرکزی کردار کے ساتھ بِن حُر جیسا پُرشکوہ اور عالمی شہرت یافتہ مصور اور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو کا کردار نبھا کر لازوال شہرت پائی۔ وہ پاکستان بھی آئے تھے۔

    امریکی اداکار چارلٹن ہسٹن 4 اکتوبر 1923ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی اور تین برس تک امریکی فضائیہ سے وابستہ رہے۔ ہسٹن کو شروع ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ انھوں نے پرفارمنگ آرٹ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور فوج سے مستعفی ہوکر فلموں میں قسمت آزمائی۔ لیکن فلم میں کام حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ چارلٹن ہسٹن نے بڑی تگ و دو اور محنت کی اور بالآخر کام یابی نے ان کے قدم چومے۔

    ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہسٹن اپنی اہلیہ لِڈیا کے ساتھ شکاگو میں فقط ایک کمرے میں‌ رہنے پر مجبور تھے۔ وہ مقامی آرٹسٹوں کی طرح معمولی معاوضہ پر لائیو ماڈلنگ کرتے رہے۔ قسمت نے یاوری کی تو فلم کے بہترین اداکاروں‌ میں‌ شمار ہوا اور آسکر سمیت متعدد فلمی اعزازات سے نوازے گئے۔ 5 اپریل 2008ء کو آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار چارلٹن ہسٹن بیورلی ہلز میں اپنے گھر پر انتقال کر گئے تھے۔ وہ 84 سال کے تھے۔

    چارلٹن ہسٹن کے بارے میں ناقدین کی رائے تھی کہ وہ دیو مالائی کرداروں میں افسانوی قد و کاٹھ جیسی جان ڈال دینا جانتے تھے۔ دوسری طرف خود ان کی ذاتی زندگی بھی کسی فلم اسکرپٹ سے کم نہیں تھی۔ وہ امریکی ریاست مشی گن کے نواح سے نکلے اور فلمی دنیا کا ایک مقبول چہرہ بنے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں شہری حقوق کا ایک علم بردار بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہِسٹن اپنے بارے میں کہتے تھے کہ وہ بچپن میں شرمیلے، پستہ قد، دبلے اور پُھنسیوں کا شکار رہے۔ لیکن مستقبل کے سہانے سپنے ضرور دیکھتے رہے۔ فضائیہ کی نوکری چھوڑنے کے بعد کڑا وقت گزارا اور فلموں میں کام حاصل کرنے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔

    1952ء میں چارلٹن ہسٹن نے براڈوے میں کام کرنے کے بعد فلم ’دی گریٹیسٹ شو آن ارتھ‘ میں رنگ ماسٹر کا رول نبھایا اور اس کے چار برس بعد مشہورِ‌ زمانہ فلم ’دی ٹین کمانڈمینٹس‘ میں انھوں نے حضرت موسیٰ کا کردار ادا کیا جس نے انھیں لازوال شہرت دی۔ ناقدین کے نزدیک وہ چھ فٹ چار انچ کے قد کے ساتھ ایسے نقوش کے حامل مرد تھے جو کسی سنگ تراش کا شاہکار معلوم ہوتا تھا جب کہ ان کی گونج دار آواز بھی فلم بینوں کو متاثر کرتی تھی۔ ساٹھ کی دہائی کی سائنس فکشن پر مبنی فلم ’پلینٹ آف دی ایپس‘ نے چارلٹن ہسٹن کو پھر کام یابی کے افق پر پرواز کرنے موقع دیا اور پھر ستّر کی دہائی میں ’ارتھ کوئیک‘ اور ’اسکائی جیک جیسی فلموں کے لیے انھیں نہایت موزوں سمجھا جانے لگا۔

    فلم کے ساتھ ہسٹن نے اپنے دور میں اسٹیج پر شیکسپیئر کے ڈراموں میں بھی کردار نبھائے اور میکبیتھ اور انٹونی کو یادگار بنا دیا۔ اپنے کیریئر کے آخری دنوں میں ان کی زیادہ توجہ اسٹیج پر رہی۔

    یہ بات ہے 1980ء اور 82 کی۔ چارلٹن ہسٹن نے اپنی آمد کے اگلے روز امریکن قونصلیٹ کی لائبریری میں ایک پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں سے ملاقات بھی کی تھی۔ کراچی کے سینئر صحافی اور کالم نگار نادر شاہ عادل جو سنیما کے دلدادہ اور اچھی فلمیں‌ دیکھنے کا شوق رکھتے تھے، اس اداکار کے مداحوں‌ میں سے ایک رہے ہیں۔ نادر شاہ اداکار سے خط کتابت بھی کرتے رہے تھے جس پر اداکار نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دراصل اُن دنوں‌ نادر شاہ ایک روزنامے سے وابستہ تھے اور چارلٹن ہسٹن سے اس فلم سے متعلق گفتگو کے لیے ان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ نادر شاہ عادل لکھتے ہیں، ڈائریکٹر پبلک افیئرز شیلا آسٹرین نے میری چارلٹن ہسٹن سے ملاقات کرائی۔ میں نے انھیں 8 سالوں پر محیط وہ ساری تصاویر اور ان کے خطوط دکھائے جو انھوں نے مجھے بھیجے تھے، چارلٹن بہت خوش ہوئے، گفتگو مختصر مگر بہت یادگار رہی۔ شیلا سے کہنے لگے اس صحافی نے مجھ پر کئی مضامین لکھے، مجھے ایک ایمبرائیڈرڈ ٹوپی بھیجی تھی، میں ان کا ممنون ہوں۔

  • ٹام ہینکس:‌ ہالی وڈ اسٹار جو جدید ٹیکنالوجی کا مداح ہے!

    ٹام ہینکس:‌ ہالی وڈ اسٹار جو جدید ٹیکنالوجی کا مداح ہے!

    ٹام ہینکس ہالی وڈ کے سپر اسٹار ہی نہیں بلکہ اب ایک ناول نگار بھی ہیں۔ ایک عام آدمی کی طرح مشکلات اور مصائب دیکھنے والے ٹام ہینکس نے بطور اداکار شہرت اور مقبولیت کے زینے طے کرتے ہوئے کئی فلمی اعزازات اپنے نام کیے۔ ہینکس امریکا اور دنیا بھر میں شوبز ہی کی دنیا کا ایک مقبول نام نہیں بلکہ وہ ثقافتی اعتبار سے بھی خاص اہمیت کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کے مداح اور شائقین ان کے اسٹائل کو اپنا کر خوش ہوتے ہیں اور یہ ٹام ہینکس کی عوامی سطح پر مقبولیت اور پذیرائی کا ثبوت ہے۔

    ٹام ہینکس نے مزاحیہ کرداروں میں اپنی منفرد پہچان بنائی اور فلم سے لے کر ٹی وی تک اپنے کام کی بنیاد پر کئی ایوارڈ جیتے۔ یونانی نژاد امریکی اداکار نے فلم ساز کے طور پر بھی شہرت پائی اور امریکی ثقافت میں آئیکون کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ٹام کی فلمیں دنیا بھر میں پچھلے برسوں میں 10 ارب ڈالر سے زائد کی کمائی کر چکی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ٹام ہینکس ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے شائق ہیں۔ وہ اپنی موت کے بعد بھی فلموں میں نظر آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں‌ ٹام ہینکس نے کہا تھا کہ ‘اب یہ ممکن ہے کہ اگر میں چاہوں تو کسی 7 فلموں کی سیریز کا حصہ بن جاؤں جس میں میری عمر 32 سال سے شروع ہو کر بڑھاپے تک دکھائی جائے۔’

    آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار کا خیال ہے کہ ‘ہر ایک اب اے آئی یا ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی مدد سے خود کو کسی بھی عمر کا دکھا سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ کل میں بس سے ٹکرا کر مر جاؤں، مگر میرا کام ہمیشہ جاری رہے گا’۔ اداکار سمجھتے ہیں کہ ان کا اے آئی ورژن تیار کرنا آسان ہو گا کیونکہ ان کی جسمانی حرکات اور دیگر ڈیٹا کو 2004 کی فلم دی پولر ایکسپریس کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ٹام ہینکس کے مطابق ‘پہلی بار ہم نے ایک ایسی فلم کی تھی جس میں ہمارا بہت زیادہ ڈیٹا کمپیوٹر میں محفوظ کیا گیا، یعنی ہم کیسے نظر آتے ہیں اور وہ فلم دی پولر ایکسپریس تھی۔’

    ٹام ہینکس نے اپنا پہلا ناول The Making of Another Major Motion Picture Masterpiece لکھ کر فلم کی دنیا میں ایک خوب صورت مثال بھی قائم کی اور بطور ناول نگار خود کو متعارف کروایا۔

    اداکار ٹام ہینکس 9 جولائی 1956ء کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے گنجان آباد شہر کونکورڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک اسپتال ملازمہ جینٹ میریلن اور ایک باورچی اموس میفرڈ کے بیٹے تھے۔ والدہ کے آبا و اجداد پرتگالی اور اموس میفرڈ کے بزرگ انگریز تھے۔ یہ جوڑا ٹام ہینکس کی پیدائش کے صرف 4 برس بعد ہی الگ ہوگیا تھا، اور ٹام والد کے ساتھ رہے، لیکن ان کا گھرانا مشکلات کا سامنا کرتا رہا۔ والد کسی ایک جگہ نہیں رہ سکے اور ٹام ہینکس کے بھائی بہن نے بڑے مصائب کا سامنا کیا۔ اس نے ٹام ہینکس کو خاموش اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے والا بنا دیا وہ نہایت شرمیلے تھے لیکن عجیب بات ہے کہ آکلینڈ میں سکونت کے دوران اداکار نے اسکائی لائن ہائی سکول میں داخلہ لیا، جہاں وہ ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگے۔ یوں ان کی حوصلہ افزائی نے شخصیت میں جو کمی رہ گئی تھی، اسے دور کردیا۔ ٹام نے ایک کالج میں دو سال تعلیم کے بعد کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں وہ فٹبال ٹیم کا حصہ بنے اور خوب کھیلے۔

    ٹام ہینکس کالج میں پہنچنے کے بعد پراعتماد ہوچکے تھے اور اسی زمانہ میں ڈراموں اور فلموں میں دل چسپی بڑھ گئی۔ وہ ایسے ناظر تھے جو تھیٹر جاتا اور ہال میں بیٹھ کر بڑے غور سے ڈرامہ دیکھتا اور یوں اداکاری کا شوق انھیں فلم کی دنیا کے سہانے سپنے سجانے پر مجبور کرنے لگا۔ پھر انھوں نے تھیٹر کی تعلیم کے حصول کا ارادہ کیا اور اسی دوران ہینکس کی ملاقات معروف اداکار و ڈائریکٹر وینسٹ ڈولنگ سے ہوئی، جو اوہیو میں گریٹ لیکس تھیٹر فیسٹیول کے سربراہ تھے۔ وینسٹ کے مشورے پر ہینکس نے اس فیسٹیول میں انٹرن شپ حاصل کی، اور پروڈکشن، لائٹنگ، سیٹ ڈیزائننگ اور انتظامی معاملات کا خوب تجربہ حاصل کیا۔

    ہالی وڈ اداکار کے فنی سفر کا باقاعدہ آغاز بھی گریٹ لیکس تھیٹر سے ہوا، جہاں 1977ء میں چلنے والے کھیل The Taming of the Shrew میں ان کو ایک کردار نبھانے کا موقع ملا۔اسی برس ٹام نے ویلیم شیکسپیئر کے شہرہ آفاق ڈرامہ Hamlet میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا۔ 1979ء میں ٹام ہینکس نے نیویارک سٹی کا رخ کیا اور 1980ء میں ریلیز ہونے والی فلم He Knows You’re Alone سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کردیا۔ گو کہ یہ ایک کم بجٹ والی فلم تھی، تاہم اسے بہت پسند کیا گیا تھا۔ تقریباً 4 سال کے وقفے کے بعد 1984ء میں اداکار کی دوسری فلم Splash منظر عام پر آئی، جس نے خوب کمائی کی اور یہی ٹام ہینکس کی ایک کام یاب فلم بھی ثابت ہوئی۔ بعد کے برسوں میں ان کی فلم بینوں میں مقبولیت بڑھی اور وہ عوامی سطح پر بطور اداکار بہت پسند کیے جانے لگے۔ وہ وقت بھی جلد آگیا کہ ہینکس کو ہالی وڈ میں دھڑا دھڑ کام ملنے لگا اور فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ان کے آگے پیچھے پھرنے لگے۔ ٹام ہینکس کی ایک خوبی یہ ہے کہ باوجود فلمی شہرت کے انھوں نے چھوٹی اسکرین کو نظر انداز نہیں کیا اور درجنوں ٹی وی پروگرامز اور ڈراموں میں بھی نظر آئے۔

    1978ء میں امریکی اداکارہ سامینتھا لیوس سے شادی کے بعد ٹام ایک بیٹے اور بیٹی کے باپ بنے لیکن 11 سال بعد ان کا ازدواجی سفر تمام ہوگیا تھا۔ ٹام ہینکس کے اعزازات کی بات کی جائے تو شوبز دو آسکر اور کئی دوسرے فلمی ایوارڈز کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور امریکہ کے علاوہ فرانس اور یونان کی جانب سے بھی ان کو اعزاز دیا گیا ہے۔

    اداکار ٹام ہینکس سات ایمی، چار گولڈن گلوب، دو بار اسکرین ایکٹرز گلڈ، دو شکاگو فلم کریٹیکس، ایک ایمپائر میگزین اور درجنوں دوسرے ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔

  • پانچ ایسی ڈراؤنی فلمیں جنہوں نے نئے رجحانات کو جنم دیا

    پانچ ایسی ڈراؤنی فلمیں جنہوں نے نئے رجحانات کو جنم دیا

    دنیا بھر میں کروڑوں فلمی شائقین ایسے بھی ہیں جو صرف ہارر یعنی ڈراؤنی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سال ایسی متعدد فلموں کو ریلیز کیا جاتا ہے۔

    ان میں بہت کم فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو سالوں بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں رہتی ہیں جنہیں دیکھ کر شائقین کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

    گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ریلیز کی جانے والی ہالی وڈ کی ڈراؤنی فلموں میں کچھ فلمیں ایسی ہیں جنہوں نے لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑا ہے، ان فلموں نے بے خواب راتوں، خوف اور بے چینی کو جنم دیا۔

    زیر نظر مضمون میں فلمی ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں آپ کے لیے پانچ بہترین ہارر فلموں کی فہرست مرتب کی ہے! اگر آپ اسٹڈی فائنڈز کی اس فہرست سے اتفاق نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں! ہمیں کمنٹس میں آپ کی سفارشات پڑھ کر خوشی محسوس ہوگی۔

    ڈراؤنی فلم

    1: "دی ایکسورسسٹ” (1973)

    فہرست میں پہلے نمبر پر ہے 1973 کی شاہکار فلم “The Exorcist””دی ایکسورسسٹ”۔ اسے ہارر فلموں کی تاریخ میں سب سے خوفناک فلم قرار دیا جاتا ہے اور یہ کئی دہائیوں سے اس صنف کے فلم سازوں کے لیے ایک مشعل راہ رہی ہے۔

    اس فلم کی خوفناکیت آج کے معیار کے مطابق چاہے کتنی ہی کم ہو، لیکن اس نے ایسی داستانوں کی بنیاد رکھی جنہوں نے بعد میں آنے والے ہارر فلموں کو نئی جہت اور شکل دی۔

    اس فلم کو طویل عرصے سے اب تک کی سب سے خوفناک فلم اور اب تک کی سب سے بڑی ہارر کلاسک فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

    سائیکو

    2: "سائیکو” (1960)

    فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے الفریڈ ہچکاک کی کلاسک فلم "سائیکو” ‘Psycho’s’۔ اس فلم کی کہانی ایک سیکریٹری کے گرد گھومتی ہے جو چوری کر کے ایک سنسان موٹل میں پناہ لیتی ہے۔ "سائیکو” کو آج بھی ہارر فلموں کا ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے، اور اس نے سلیشر صنف کی بنیاد رکھی۔

    شائننگ

    3: "دی شائننگ” (1980)

    تیسرے نمبر پر فلم ہے "دی شائننگ” ‘The Shining’۔ اس فلم میں اسٹینلے کبریک کی ہدایت کاری اور جیک نکلسن کی لازوال اداکاری نے اسے ایک کلاسک بنا دیا ہے۔ اگرچہ مصنف اسٹیفن کنگ نے اس فلم کو ناپسند کیا لیکن یہ فلم اپنے منفرد اسلُوب اور خوفناک کہانی کے باعث آج بھی دل دہلا دینے والی سمجھی جاتی ہے۔

    سال 1980 میں ریلیز ہونے والی دی شائننگ وہ فلم ہے جو چار دہائیوں بعد بھی لوگوں کو یاد ہے اور اسے ہر دور کی بہترین ہارر فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔

    ہالووین

    4: "ہالووین” (1978)

    چوتھے نمبر پر فلم ہے "ہالووین” halloween ۔جان کارپنٹر کی اس فلم نے ہالووین کو ہارر صنف کا مرکز بنادیا اور مائیکل مائرز کو ایک مشہور قاتل بنا دیا۔ وہ فلم جس نے جیمی لی کرٹس کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔

    اگرچہ فلم نے ابتدائی طور پر زیادہ منافع حاصل نہیں کیا، تاہم بہت کم فلمیں ایسی ہیں جو اس کے خوفناک لیکن بہترین انداز کے لحاظ سے قریب ہیں۔

    ٹیکساس

    5: "دی ٹیکساس چینسا ماساکر” (1974)

    پانچویں نمبر پر ہے "دی ٹیکساس چینسا ماساکر” "The Texas Chainsaw Massacre”۔ یہ فلم ہارر کے بجائے خالص وحشت کو بیان کرتی ہے، جہاں پانچ نوجوانوں کو ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے دیکھ کر آج بھی دل کانپ اٹھتے ہیں۔

    یہ تھیں وہ پانچ ہارر فلمیں جنہوں نے ہارر صنف کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا!

  • ہالی وڈ: بطور ایکسٹرا فلمی دنیا میں قدم رکھنے والے وہ اداکار جو اسٹار بنے

    ہالی وڈ: بطور ایکسٹرا فلمی دنیا میں قدم رکھنے والے وہ اداکار جو اسٹار بنے

    ہالی وڈ میں اپنی بہترین اداکاری کی بدولت شہرت پانے والے کئی فن کار ایسے ہیں جن کے فنی سفر کا آغاز بطور ایکسٹرا ہوا۔ وہ ان فلموں میں ایک یا دو مرتبہ مختصر ترین دورانیے کے لیے ہی پردے پر نظر آئے اور اپنے کیریئر کے آغاز پر متعدد فلموں میں معمولی کردار ادا کیے۔

    یہ ہالی وڈ کے چند وہ نام ہیں جنھیں آج دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے اور مداح ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے ہیں، لیکن فلم کی دنیا میں ان کی آمد بطور ایکسٹرا ہوئی تھی۔

    بریڈ پٹ
    بریڈ پٹ کو بلاشبہ ان کی شان دار پرفارمنس نے ہالی وڈ اسٹار بنایا اور انھوں نے فلم بینوں کے دل جیتے وہ ایسے آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار ہیں جس نے بطور فلم پروڈیوسر بھی قسمت آزمائی امریکی اداکار بریڈ پٹ نے 1987ء میں فلم Less Than Zero سے بطور ایکسٹرا اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ہالی وڈ کے اس بڑے اداکار نے اپنی شہرت اور مقبولیت کے اس سفر میں متعدد چھوٹے کردار بھی نبھائے۔

    رینے زیلویگر
    جنوبی کوریا کی فلم ’پیراسائٹ‘ نے 2020ء میں بہترین فلم کا آسکر جیت کر نئی تاریخ رقم کی۔ یہ آسکرز کی تاریخ کا پہلا تھا کہ انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں بنائی جانے والی فلم نے ’بہترین فلم‘ کا ایوارڈ جیتا۔ اس فلم میں جوڈی گارلینڈ کا کردار رینے زیلویگر نے نبھایا تھا جن کا تعلق امریکہ سے ہے۔ اداکارہ نے فلم پیرا سائٹ کے لیے بہترین اداکارہ کا آسکر ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اس سے پہلے رینے Bridget Jones’s اور Jerry Maguire جیسی فلموں میں اپنی لاجواب اداکاری پر ناقدین سے داد سمیٹ چکی تھیں۔ لیکن 1993ء میں اداکارہ نے بطور ایکسٹرا کام شروع کیا تھا۔ معروف اداکارہ کی بطور ایکسٹرا فلم Dazed and Confused تھی۔

    سلویسٹر اسٹالون
    بطور ایکشن اسٹار فلم کی دنیا میں سلویسٹر اسٹالون کی خوب پذیرائی ہوئی اور وہ نوجوانوں میں خاصے مقبول ہوئے۔ فلم بین اُن کے ایکشن اور اسٹائل کے دیوانے تھے۔ ایکشن فلموں کے اس ہیرو نے بھی متعدد فلموں میں بطور ایکسٹرا کام کیا۔ 1971ء میں فلم Bananas کے اس ایکسٹرا نے بعد میں بھی کئی فلموں میں معمولی کردار ادا کیے اور پھر بطور ایکشن ہیرو ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔

    رگی- ژان پیج
    رگی- ژان پیج (Regé-Jean Page) کو مشہورِ‌ زمانہ نیٹ فلکس کی 2020ء میں ریلیز ہونے والی سیریز Bridgerton نے خوب شہرت دی۔ اداکار نے اس فلم میں ڈیوک آف ہیسٹنگز کا کردار نبھایا، لیکن بطور ایکسٹرا وہ چند سال پہلے اپنا سفر شروع کرچکے تھے۔ اس اداکار کو فلم Harry Potter and The Deathly Hallows: Part 2″ میں شادی کے ایک منظر میں بحیثیت مہمان ایما واٹسن کے پیچھے کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔

    انجلینا جولی
    آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی نے بھی 1982ء میں اپنے والد جون ووئٹ کی فلم Lookin’ to Get Out میں ایکسٹرا کے طور پر کام کیا تھا۔ وہ انتہائی کم عمر تھیں اور بڑے پردے پر پہلی مرتبہ کام کیا تھا۔

    میٹ ڈیمن
    میٹ ڈیمن امریکی اداکار، فلم پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر کے طور پر آج بڑا نام ہیں، لیکن ہالی وڈ میں شہرت اور کام یابیاں سمیٹنے سے پہلے انھوں نے انتہائی معمولی کردار بھی قبول کیے۔ 1988 میں اداکار نے فلم Mystic pizza میں ایکسٹرا کے طور پر کام کیا تھا۔

    جونی ڈیپ
    ہالی وڈ کے بہترین اور مقبول اداکاروں‌ میں شامل جونی ڈیپ نے 1984ء میں فلم A Nightmare on Elm Street میں بطور ایکسٹرا کام کیا تھا۔ بعد میں انھیں Edward Scissorhands اور Pirates of the Caribbean جیسی فلمیں ملیں جن کی بدولت جونی ڈیپ نے اپنے کیریئر کا عروج دیکھا۔

    کیتھرین ہیپ برن
    ماضی کی بات کریں تو لیجنڈری کیتھرین ہیپ برن نے 1920ء کی دہائی میں کئی خاموش فلموں میں معمولی اور بعض ثانوی نوعیت کے کردار نبھائے تھے۔ قسمت نے یاوری کی اور ناطق فلموں کی بدولت کیتھرین ہیپ برن کا نام ہالی وڈ کی عظیم ترین اداکاراؤں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔

  • کارلو پونتی: معروف فلم ساز جنھیں صوفیہ لارین سے شادی کرنے کے بعد مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا

    کارلو پونتی: معروف فلم ساز جنھیں صوفیہ لارین سے شادی کرنے کے بعد مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا

    اپنے دورِ عروج میں صوفیہ لارین پاکستان میں جتنی مقبول اور جانی پہچانی اداکارہ تھیں، ان کے شوہر فلم ساز کارلو پونتی اتنے ہی غیر معروف تھے، حالانکہ دنیائے فلم کے لیے ان کی بے پناہ خدمات ہیں۔

    152 فلموں کے پروڈیوسر، کارلو پونتی سے صوفیہ کی ملاقات کوئی 55 برس پہلے ہوئی تھی جب وہ پندرہ برس کی چھوئی موئی سی چھوکری تھی۔ کارلو پونتی اس وقت بھی ایک جانے پہچانے فلم ساز تھے اور کئی نئے چہروں کو متعارف کرا چکے تھے۔ چھ سات برس تک دونوں کا رومانس چلتا رہا لیکن کارلو چونکہ پہلے سے شادی شدہ تھے اس لیے اطالوی حکومت اور رومن کیتھولک کلیسا دونوں ہی ان کی امکانی شادی کے خلاف تھے۔ ہر طرح کی مشکلات کے باوجود 1957 میں دونوں نے شادی کر لی لیکن سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے اتنی لعن طعن ہوئی کہ دونوں اپنا ملک چھوڑ کر فرانس چلے گئے اور وہاں 1966 میں فرانسیسی قانون کے تحت پھر سے شادی کی۔

    اس واقعے کے بعد اٹلی میں شادی اور طلاق کے سخت قوانین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بعد میں ان قوانین کو خاصا نرم کر دیا گیا۔

    کارلو پونتی کا نام ذہن میں آتے ہی بڑی بڑی فلموں کا خیال آنے لگتا ہے مثلاً ڈاکٹر ژواگو، وار اینڈ پیس، لاسترادا، ٹوئنٹی ففتھ آور، سن فلاور، دی ورڈکٹ اور کیسنڈرا کراسنگ وغیرہ۔

    1962 میں جب کارلوپونتی نے فلم ’ٹو وومین‘ شروع کی تو اس کے ذہن میں صوفیہ لارین ہی کی شخصیت تھی۔ اس بھرپور کردار پر صوفیہ کو بہترین اداکارہ کا آسکر ایوارڈ بھی ملا۔

    اطالوی حکومت کے ساتھ کارلوپونتی کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے تھے۔ اپنا سرمایہ اٹلی سے باہر منتقل کرنے کے الزام میں وہ پندرہ برس تک عدالتوں کی پیشیاں بھگتتے رہے اور ان کے تمام اثاثے بحقِ سرکار ضبط رہے۔ ایک طویل قانونی جنگ کے بعد آخر کار 1980 میں ان کی خلاصی ہوئی اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے اٹلی کو خیر باد کہہ دیا۔ گزشتہ ربع صدی سے وہ سوئٹزرلینڈ میں مقیم تھے۔

    قانونی جنگ میں کارلو کی فتح غالباً اس لیے ممکن ہوئی کہ وہ خود ایک پیشہ ور وکیل تھے اور انہوں نے میلان یونیورسٹی سے وکالت پاس کرنے کے بعد کئی سال اس پیشے میں گزارے تھے۔

    1940 میں وہ ایک فلم ساز کا مقدمہ لڑ رہے تھے، مقدمہ ختم ہوا تو فلم ساز نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی آدھی بنی ہوئی فلم اپنے وکیل کارلو پونتی کو بخش دی۔ کارلو پونتی کو اپنے گلے میں پڑا ہوا یہ ڈھول مجبوراً بجانا پڑا۔

    Old Fashion World نامی یہ فلم جب 1941 میں مکمل ہوئی تو کارلو کو فلم سازی کا چسکا لگ چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے وکالت ترک کر کے اپنی پوری توجہ فلم سازی کی طرف کردی۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ ہالی وڈ کے اسٹوڈیوز کی تیار کردہ ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے تھے جن میں گلیمر تو بہت تھا لیکن زندگی کے روزمرہ حقائق سے جنہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ اٹلی میں ان دنوں ہالی وڈ کے تصّنع اور غیر فطری پن کے خلاف ایک تحریک چل رہی تھی جسے ’نیو ریلیزم‘ کی تحریک کہا جاتا ہے۔

    نیو ریلیزم سے وابستہ فلم ساز اسٹوڈیو کے بڑے بڑے سیٹ چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے گلیوں، بازاروں اور اصلی گھروں میں فلم بندی کی روایت شروع کی۔

    کارلو پونتی نے بھی اس تحریک کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے 1954 میں انتھونی کوئن کو لے کر فلم ’لاسترادا‘ بنائی جس کا ہیرو ایک گشتی بازی گر ہے اور جسمانی کرتب دکھا کر مجمع لگاتا اور پیسے کماتا ہے لیکن وہ اپنی بیوی کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتا اور اس پر بڑی زیادتیاں کرتا ہے۔ عرصۂ دراز کے بعد جب ہیرو کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تو پانی سر سے گزرچکا ہوتا ہے اور اب پچھتاوے کے سوا اسے کچھ نہیں ملتا۔

    اطالوی زبان کی اس فلم کو غیر ملکی فلم کا آسکر ایوارڈ دیا گیا تھا اور یہی فلم انتھونی کوئن کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ایک سنگِ میل ثابت ہوئی کیونکہ اس فلم کے فوراً بعد وہ ایک معمولی اداکار سے اسٹار میں تبدیل ہوگئے۔

    کارلو پونتی کی چند معروف فلمیں

    مِس اطالیہ 1950، اینا 1951، یوروپا 1951، دی بلیک آرچڈ 1958، اے وومن از اے وومن 1961، دی گرل اینڈ دی جنرل 1966، دی فائر مینز بال 1967، گھوسٹ اٹالین ساٹائل 1968، سن فلاور 1970، ہائی اسکول گرل 1974، بریف اِنکاؤنٹر 1974، دی ماسٹرز 1975، بے بی سٹر 1975، سنڈے اینڈ منڈے 1998

    کارلو پونتی اپنی پروڈکشن پر پورا کنٹرول رکھتے تھے اور اُن کے تحت کام کرنے والے معروف ڈائریکٹر، مثلاً ڈیوڈ لین اور فیلینی کی اُن سے جھڑپیں بھی ہو چکی تھیں۔ تاہم کارلو پونتی نے ہمیشہ معیار کو اوّلیت دی اور اپنے ڈائریکٹروں کی کسی معقول تجویز کو کبھی مسترد نہیں کیا۔

    جن دنوں فرانس میں’ نئی لہر‘ کی فلمیں بن رہی تھیں، کارلو پونتی نے کئی نادار فلم سازوں کی مالی امداد کی اور انھیں تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کیں۔ آخر کیوں نہ کرتے؟ فرانس نے انھیں ایک ایسے وقت پناہ دی تھی جب اٹلی نے انھیں ملک بدر کردیا تھا۔

    (فلم اور سنیما کی دنیا کی دو بڑی شخصیات سے متعلق معروف براڈ کاسٹر، مصنّف اور ہدایت کار عارف وقار کی تحریر)

  • ہالی وڈ کے وہ اداکار جنھیں لازوال شہرت حاصل ہوئی

    ہالی وڈ کے وہ اداکار جنھیں لازوال شہرت حاصل ہوئی

    دنیا کی سب سے مشہور اور کام یاب فلم انڈسٹری ہالی وڈ نے کئی چہروں کو وہ شہرت اور پہچان دی جو دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔ یہاں ہم ہالی وڈ کے ان مرد فن کاروں کا ذکر کررہے ہیں جنھیں ان کی بے مثال اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    جیک نکلسن
    جیک نکلسن ہالی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل ہیں جنھیں تین بار اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ 12 مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے لیے فہرست میں شامل کیے گئے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق مائیکل کین کے بعد جیک نکسن وہ واحد اداکار ہیں جنھیں 1960ء سے لے کر 2000ء تک ہر دس برس بعد آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ اداکار جیک نکلسن نے آسکر کے علاوہ فلمی دنیا کے کئی معتبر اور معروف ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ جیک نکسن کی بہترین فلموں میں ”شائننگ، ایز گڈ ایز اٹ گیٹس ون فلیو اور ککوز نیسٹ“ کے نام لیے جاسکتے ہیں جن میں نکسن نے شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    مارلن برانڈو
    مارلن برانڈو کا نام ”آل ٹائم گریٹیسٹ“ اداکاروں کی فہرست میں شامل ہے۔ برانڈو نے فلم کے پردے پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور وہ وقت آیا کہ برانڈو کروڑوں فلم بینوں کو متاثر کرنے والے اداکار بن گئے۔ فلم بین ہی نہیں ہالی وڈ کے کئی اداکار بھی مارلن برانڈو سے بہت متاثر تھے۔ فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ مارلن برانڈو ایک غیر روایتی اداکار تھے جن کے لیے انگریزی میں میتھڈ ایکٹر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مارلن برانڈو نے دو آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور آٹھ مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد کیے گئے۔ اداکار کی بہترین فلموں میں ”دی گاڈ فادر، آن دی واٹر فرنٹ اور لاسٹ ٹینگو ان پیرس کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    ال پچینو
    فلمی دنیا کی تاریخ میں ال پچینو وہ نام ہے جس کی فنی عظمت کو بڑے بڑے فن کار تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کئی عشروں تک فلموں‌ میں اداکاری کے جوہر دکھاتے رہے اور پرستاروں کے ساتھ فلمی ناقدین کو بھی متاثر کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ 70ء کی دہائی میں ال پچینو نے جن فلموں میں کام کیا ان میں بلاشبہ وہ فنِ اداکاری کے عروج پر نظر آتے ہیں۔ ال پچینو آٹھ بار آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور ایک بار آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔ اداکار نے جن فلموں میں لازوال کردار نبھائے ان میں ”سینٹ آف اے وومین“، ڈوگ ڈے آفٹر نون، دی گاڈ فادر پارٹ ٹو شامل ہیں‌۔

    رابرٹ ڈی نیرو
    نیویارک سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈی نیرو کے ماں باپ بھی فن کی دنیا سے وابستہ تھے اور اس جوڑے کے گھر آنکھ کھولنے والے ڈی نیرو کو بھی عظیم ترین اداکاروں میں شمار کیا گیا۔ ڈی نیرو کو ہالی وڈ کے کئی بڑے نام اور دوسرے فن کار اپنا رول ماڈل قرار دے چکے ہیں۔ ڈی نیرو نے دو بار آسکر ایوارڈ حاصل کیا اور سات مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زدگی عمل میں آئی۔ اس اداکار نے جن فلموں میں‌ بے مثال اداکاری کی، ان میں ”رگنگ بل“، دی ڈیئر ہنٹر اور دی گاڈ فادر (پارٹ ٹو) شامل ہیں۔

    ڈینیل ڈے لیوس
    اداکار ڈینیل ڈے لیوس ان اداکاروں میں سے ایک ہیں‌ جنھوں نے ناقابلِ فراموش کردار نبھائے اور شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ ڈے لیوس کا تعلق لندن سے تھا اور ان کے والد معروف شاعر جب کہ نانا بھی ایک مشہور شخصیت تھے۔ ڈے لیوس کو فن و ثقافت سے شروع ہی سے لگاؤ تھا اور وہ ایک باصلاحیت انسان تھے جس نے آگے چل کر برطانوی سنیما کی تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ انھیں بہترین پرفارمنس کی بنیاد پر تین آسکر ایوارڈ دیے گئے۔ ڈینیل ڈے لیوس کی بہترین فلموں میں لنکن، مائی لیفٹ نٹ، اور دیئر ول بی بلڈ شامل ہیں۔

    ٹام ہنکیس
    فلمی دنیا میں ٹام ہینکس کو ایک زبردست اداکار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جن کے حصّے میں اپنی بہترین پرفارمنس کی وجہ سے دو آسکر ایوارڈ آئے۔ وہ پانچ مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے۔ ٹام ہنکیس کی مشہور فلموں میں فاریسٹ گمپ، فلاڈیلفیا اور سیونگ پرائیویٹ ریان شامل ہیں۔

    فلمی صنعت میں اپنی لاجواب ادکاری اور بے مثال پرفارمنس سے کروڑوں لوگوں کو متاثر کرنے والے ان فن کاروں‌ کی فہرست میں کئی اور نام بھی شامل ہیں جن کا ذکر کرنے کو ایک دفتر درکار ہے۔ ان فن کاروں کے علاوہ پال نیومین، جیمز اسٹیوورٹ، پیٹر اوٹول، انتھونی کوئن، ہنری فونڈا، گیری کوپر، کرک ڈگلس کے نام بھی فلمی تاریخ کے بہترین فن کاروں میں‌ شامل ہے۔

  • 2023: باکس آفس پر کام یابیاں سمیٹنے والی ہالی ووڈ کی فلمیں‌

    2023: باکس آفس پر کام یابیاں سمیٹنے والی ہالی ووڈ کی فلمیں‌

    سنیما کی جادوئی دنیا میں کسی فلم کی کام یابی کا درجہ اور کمائی کی انتہا باکس آفس کے ذریعے معلوم کی جاتی ہے۔ سنہ 2023ء میں جہاں کئی بڑے ناموں کے باوجود ہالی ووڈ کی فلموں نے شائقین کو مایوس کیا اور باکس آفس پر بھی امتیازی پوزیشن نہیں پاسکیں، وہیں بعض فلموں نے زبردست کام یابیاں اپنے نام کی ہیں۔

    آج بڑے پردے پر فلم سازی اور پیش کاری کا انداز ہی نہیں‌ تفریح کے ذرایع بھی بدل گئے ہیں، اور ہالی ووڈ بھی نئے رجحانات اپنا رہا ہے۔ یہاں ہم ہالی ووڈ کی اُن چند فلموں‌ کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی وجہ سے سنیما کی رونق بڑھ گئی اور بزنس کے اعتبار سے ان فلموں نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ مستند ویب سائٹ ‘باکس آفس’ موجو پر کام یابی کے اعتبار سے سرِ فہرست فلم ‘ باربی’ رہی جس نے ریلیز کے ساتھ ہی 2023 کے سب سے بڑے اوپننگ بزنس کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل رواں برس ریلیز ہونے والی فلم ‘دی سپر ماریو برادرز’ نے اوپننگ پر ریکارڈ بزنس کیا تھا۔ سپر ماریو برادرز مووی سب سے ہٹ اینیمیٹڈ فلم بن کر سامنے آئی۔ ان کے علاوہ دیگر فلموں نے زبردست بزنس کے ساتھ شائقین کو خوب محظوظ بھی کیا۔

    رواں سال باکس آفس پر کام یاب ہونے والی ہالی ووڈ کی چند فلموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    باربی
    یہ ایک میوزیکل کامیڈی فلم ہے جس میں اداکارہ مارگو روبی اور اداکار رائن گوزلنگ کو شائقین نے بہت پسند کیا اور یہ اس سال کی سب سے کام یاب فلم بن گئی۔

    باربی کو دنیا بھر میں‌ بچّے ہی نہیں‌ بڑے بھی پسند کرتے ہیں۔ اسی کردار پر مبنی یہ فلم ایک ایسی گڑیا کے بارے میں ہے جو اپنی دنیا سے نکل کر اصل دنیا کا سفر کرتی ہے اور وہاں اسے اپنے لیے جگہ کی تلاش ہے۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد دنیا بھر میں باربی ڈولز کی فروخت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ باکس آفس کی مستند ویب سائٹ ‘باکس آفس’ موجو کے مطابق باربی نے دنیا بھر سے ایک ارب 44 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا ہے جو اس سال کسی بھی فلم کا سب سے زیادہ بزنس ہے۔

    دی سپر ماریو برادرز مووی
    ایک ارب 36 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کرنے والی اس فلم کا باکس آفس پر دوسرا نمبر ہے۔ گیمنگ کونسول ننٹینڈو کے مقبول ترین ویڈیو گیم ‘سپر ماریو برادرز’ پر بننے والی اس فلم کو دنیا بھر میں شائقین نے پسند کیا۔

    اس فلم کی کہانی ماریو نامی پلمبر کے گرد گھومتی ہے جو اپنے بھائی کے ساتھ ایک شہزادی کو آزاد کرانے کے لیے نکلتا ہے۔ کرس پریٹ، جیک بلیک اور سیٹھ روجن نے فلم کے کرداروں کو اپنی آواز دی ہے اور شائقین کی توجہ اور دل چسپی حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔

    اوپن ہائمر
    اس فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر نولن ہیں اور اس سال باکس آفس پر اس فلم نے بزنس کے اعتبار سے تیسرا نمبر حاصل کیا ہے۔ فلم نے دنیا بھر سے 95 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا۔ یہ ایٹم بم کے خالق کے نام پر بنائی گئی فلم ہے جس میں کلین مرفی نے جے رابرٹ اوپن ہائمر کا کردار نبھایا ہے۔

    فلم میں ان حالات و واقعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں امریکہ نے ایٹم بم بنانا ضروری سمجھا۔ فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ایٹم بم بنانے کے بعد اس کے موجد میں کیا تبدیلیاں آئیں اور وہ حکومت کے عتاب کا بھی نشانہ بنا۔

    گارڈیئنز آف دی گیلکسی والیوم 3
    ہدایت کار جیمز گن کی اس فلم نے باکس آفس پر 84 کروڑ 55 لاکھ ڈالرز کمائے ہیں۔ فلم میں اسٹار لارڈ اور اس کے ساتھیوں کا سامنا ایک ایسے حریف سے ہوتا ہے جو دنیا کا فاتح بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ فلم میں کامیڈی کے ساتھ ساتھ ایکشن کا بھی تڑکا لگایا گیا ہے۔

    فاسٹ ایکس
    یہ مشہورِ زمان ہ فاسٹ اینڈ دی فیوریس سیزیز کی دسویں فلم باکس آفس پر دنیا بھر سے 70 کروڑ 47 لاکھ سے زائد ڈالرز کمانے کے ساتھ شائقین کی دل چسپی کا مرکز بھی بنی۔ فلم اسٹار کاسٹ پر مشتمل تھی جس میں مرکزی کردار ون ڈیزل نے ادا کیا تھا جس کے پیچھے ایک ایسا شخص پڑ جاتا ہے جو اپنے باپ کی موت کا ذمے دار ڈومینیک اور اس کے ساتھیوں کو سمجھتا ہے۔ اس فلم میں حیران کن اسٹنٹس پیش کیے گئے ہیں۔

    اسپائیڈر مین: اکروس دی اسپائیڈر ورس
    چند سال قبل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اینیمیٹڈ فلم ‘اسپائیڈر مین ان ٹو دی اسپائیڈر ورس’ نے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا اور اس سال اسی سیریز کی یہ دوسری فلم ریلیز ہوئی جس نے دنیا بھر میں 69 کروڑ پانچ لاکھ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا۔ اس فلم کی کہانی بھی مائلز مورالیس نامی نوجوان کے گرد گھومتی ہے جس کی دوسری دنیا کی تمام اسپائیڈر مخلوق مخالف ہوجاتی ہے۔ تاہم مائلز مورالیس اپنے ہم خیال اور اسپائیڈر فرینڈرز کی مدد سے مشکلات سے نکلتا چلا جاتا ہے۔

    دی لٹل مرمیڈ
    والٹ ڈزنی اسٹوڈیو کی فلم دی لٹل مرمیڈ نے دنیا سے تقریباً 57 کروڑ ڈالرز کمائے ہیں۔ اس میوزیکل رومانوی فلم کی کہانی ایریل نامی ایک ایسی جل پری کے گرد گھومتی ہے جس نے کبھی انسانوں کو نہیں دیکھا تھا اور جب پانی میں رہنے والی یہ مخلوق انسانوں کی دنیا میں آتی ہے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    مشن امپاسبل: ڈیڈ ریکننگ پارٹ ون
    مشہور اداکار اور پروڈیوسر ٹام کروز کی اس فلم نے باکس آفس کے مطابق تقریباً 56 کروڑ 75 لاکھ ڈالرز کمائے ہیں۔ فلم کی کہانی امپاسبل مشن فورس نامی ایک تنطیم کے گرد گھومتی ہے جس کا کام دنیا بھر میں امن قائم کرنا اور کسی بھی ایک ملک کی دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کو روکنا ہے۔

    رواں‌ برس انڈیانا جونز کی واپسی اور مشہورِ زمانہ سپہ سالار نپولین پر بننے والی فلم باکس آفس پر ناکام ہوئی۔ اسی طرح یہ سال سپر ہیروز کے لیے بھی زیادہ اچھا نہیں رہا جس کی مثال شیزام، کیپٹن مارول اور دی فلیش ہیں۔

  • فاسٹ اینڈ فیوریس کے اسٹار ون ڈیزل پر جنسی ہراسانی کا الزام

    فاسٹ اینڈ فیوریس کے اسٹار ون ڈیزل پر جنسی ہراسانی کا الزام

    لاس اینجلس: ہالی وڈ کے سپر اسٹار ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ کے اداکار ون ڈیزل پر ان کی ایک سابقہ معاون نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔

    بالی وڈ اداکار ون ڈیزل کی سابق پرسنل اسسٹنٹ ایسٹا جونیسن نے ’فاسٹ فائیو‘ کی شوٹنگ کے دوران اداکار ون ڈیزل کے خلاف ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔

    اداکار ون ڈیزل کی سابقہ معاون ایسٹا جونیسن نے کہا ہے جنسی ہراسانی کا واقعہ 2010 میں ’فاسٹ فائیو‘ کی شوٹنگ کے دوران پیش آیا جب اداکار نے فاسٹ اینڈ فیوریس کمپنی کے ساتھ کام شروع کیا تھا۔

    عدالتی کیس کے مطابق جنسی ہراسانی کے واقعے کے دوسرے دن ایسٹا جونیسن کو نوکری سے فارغ کردیا گیا تھا۔

    ون ڈیزل کی سابقہ معاون نے الزام لگایا ہے کہ انہیں نوکری سے صرف اس لئے نکالا گیا کہ انہوں نے ون ڈیزل کی جنسی خواہش پوری کرنے سے انکار کردیا تھا۔

  • آسکر ایواڈ یافتہ اداکارہ صوفیہ لورین گھر میں گر کر زخمی ہوگئیں

    آسکر ایواڈ یافتہ اداکارہ صوفیہ لورین گھر میں گر کر زخمی ہوگئیں

    ہالی وڈ میں 20 ویں صدی کی چند خوبصورت ترین اداکاراؤں میں سے ایک اور آسکر ایوارڈ یافتہ اطالوی فلم اسٹار صوفیہ لورین اپنے گھر میں گر کر زخمی ہوگئیں۔

    اداکارہ کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جنیوا میں اپنے گھر میں گرنے کے بعد صوفیہ کی سرجری ہوئی ہے، 89 سالہ لورین کا آپریشن ٹھیک رہا اور اب انھیں آرام کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ پھر سے صحتمند ہوجائیں گی۔

    ترجمان نے تفصیلات بتانے سے گریز کیا پر تصدیق کی کہ اس حوالے سے اطالوی میڈیا کی رپورٹس درست ہیں۔

    رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ وہ اتوار کو جنیوا میں اپنے گھر میں حادثاتی طور پر گر گئی تھیں جس کے باعث ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔

    واضح رہے کہ ہالی وڈ کی مشہور اور خوبصورت اداکارہ صوفیہ لورین نے دو آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ پہلا ایوارڈ انھیں 1961 میں ’’La Ciociara‘‘ (دو خواتین) میں میں ماں کا المناک کردار نبھانے پر دیا گیا تھا۔ دوسری بار 1991 میں انھیں کیریئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • ہالی وڈ باکس آفس پر راج کرنے والی ’ باربی‘ ساؤتھ کوریا میں فلاپ ہوگئی

    ہالی وڈ باکس آفس پر راج کرنے والی ’ باربی‘ ساؤتھ کوریا میں فلاپ ہوگئی

    ہالی وڈ کی فلم  باربی نے اپنی افسانوی کامیابی سے نہ صرف ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا بلکہ کئی ریکارڈ بھی توڑ ڈالے ہیں۔

    گریٹا گیروِگ کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم میں آسٹریلوی اداکارہ مارگوٹ روبی نے تصوراتی باربی کا مرکزی کردار ادا کیا، فلم نے تھیٹرز میں غیر معمولی طور پر اچھا بزنس کیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اگرچہ فلم باربی نے دنیا بھر کے باکس آفس پر 1.2 بلین ڈالر کا ریکارڈ بزنس کیا ہے لیکن یہ فلم اب تک مختلف ممالک میں فلاپ رہی ہے۔

    فلم کو دلچسپ موضوعات کی وجہ سے چند ممالک میں اس پر پابندی عائد کی گئی تھی، جب کہ کچھ ممالک میں اسے زیادہ پسند نہیں کیا گیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق الجزائر کویت اور لبنان میں باربی فلم کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے علاوہ فلم جنوبی کوریا میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔

    ’باربی‘ کے لیے اداکارہ مارگوٹ کا خطیر معاوضہ آپ کے ہوش اڑا دیگا

    رپورٹ کے مطابق فلم ایشیائی ملک میں صرف 4 ملین ڈالر کا بزنس کرسکی ہے۔ جنوبی کوریا میں اس فلم کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں حقوق نسواں کو اب بھی ممنوع سمجھا جا رہا ہے۔

    اس رپورٹ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں باکس آفس پر شاندار کلیکشن کے باوجود جنوبی کوریا میں باربی فلاپ رہی لیکن فلم باربی اب بھی دنیا کے دیگر حصوں میں بزنس کر رہی ہے۔

    باربی جو کہ 220 ملین ڈالر کے بجٹ سے بنائی گئی ہے اس نے اپنی ریلیز کے محض دو ہفتے بعد ہی رواں ماہ کے آغاز میں عالمی باکس آفس پر ایک ارب ڈالرز سے زائد کا بزنس کرلیا تھا۔