Tag: ہالی وڈ کی مشہور فلمیں

  • یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    ہالی وڈ کی کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کرنے والے مارلن برانڈو کو ایک لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے جو 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 3 اپریل 1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر پائی اور وفات سے تین سال قبل تک فلمی پردے پر کام کرتے رہے۔

    برانڈو نے فلموں میں اداکاری کا آغاز 1950ء میں فلم ’دی مین‘ سے کیا۔ اس فلم میں وہ ایک چھبیس سالہ مفلوج مریض کے بہروپ میں نظر آئے۔ کہتے ہیں انھوں نے اپنے پہلے کیریکٹر کو خوبی سے نبھانے کے لیے کئی دن مقامی اسپتال میں بستر پر گزارے۔

    برانڈو ان اداکاروں میں شامل ہیں‌ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسکرین پر نظر آئے اور خود کو اہم فن کار ثابت کیا۔ انھوں نے 40 سے زائد فلموں میں کردار نبھائے۔ ’دی وائلڈ ون‘ 1953ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی وہ فلم تھی جس میں برانڈو نے بدمعاش گروہ کے سرغنہ کا کردار ادا کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ تاہم 1972ء میں بننے والی ’دی گاڈ فادر‘ میں ان کا مافیا ڈان کا کردار ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ یہ ہالی وڈ کی کلاسک فلموں میں سے ایک تھی جس پر برانڈو کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ اس سے قبل ’اے اسٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘ وہ فلم تھی جس کے ایک کردار کے لیے وہ یکے بعد دیگرے چار مرتبہ آسکر کے لیے نام زد ہوئے، تاہم پہلا آسکر 1954ء میں بننے والی فلم ’آن دی واٹر فرنٹ‘ میں باکسر کا کردار ادا کرنے پر ملا۔ دوسرا آسکر ’دی گاڈ فادر‘ کے کردار پر دیا گیا۔

    ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ کے بعد برانڈو نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    مارلن برانڈو اپنے فنی کیریئر کے دوران آٹھ مرتبہ فلمی دنیا کے سب سے معتبر ایوارڈ ’آسکر‘ کے لیے نام زد ہوئے اور دو مرتبہ اس کے حق دار قرار پائے۔

    ’دی وائلڈ ون‘ ’اسٹریٹ کار نیمڈ ڈزائر‘ اور ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ برانڈو کی وہ فلمیں‌ تھیں جنھوں‌ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کا سبب بنیں۔

    2001ء میں اس فلمی ستارے نے ’دی اسکور‘ میں کام کیا۔ جرائم پر مبنی اس کہانی میں انگریزی فلموں کے شائقین اور مداحوں نے آخری مرتبہ مارلن برانڈو کو اسکرین پر دیکھا۔

  • Gone  with  the Wind کی ریلیز میں دو سال تاخیر کیوں‌ ہوئی؟

    Gone with the Wind کی ریلیز میں دو سال تاخیر کیوں‌ ہوئی؟

    1939ء میں ہالی وڈ کی فلم Gone with the Wind (گون وِد دا وِنڈ) ریلیز ہوئی جس نے شائقین اور ناقدین سبھی کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس فلم نے مختلف زمروں‌ میں اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے کا ریکارڈ بنایا اور شان دار آرٹ فلم قرار پائی۔ اسے ہالی وڈ میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

    ہدایت کار وکٹر فلیمنگ کی یہ شاہ کار بعد میں آنے والوں کے لیے مثال بنی جس کا سبب ان کی محنت اور کسی موقع پر سمجھوتا نہ کرنا تھا۔ اس کی تفصیل میں‌ جانے سے پہلے جان لیں‌ کہ فلم میں مرکزی کردار کس نے نبھایا۔ کلارک گیبل اور ویوین لیہہ وہ اداکار ہیں‌ جنھوں نے اپنی پرفارمنس سے اس کہانی میں‌ رنگ بھردیے، جب کہ لیزلی ہارورڈ اور اولیویا نے بھی مرکزی کردار نبھاتے ہوئے شان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور شائقین کی توجہ کا مرکز بنے۔

    اس فلم کی کہانی ایک ایسی بُری عورت کے گرد گھومتی ہے جو مختلف حالات کا سامنا کرتی ہے اور پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، تب وہ ایک وفادار بیوی بن جاتی ہے۔ یہ رومان پرور کہانی مارگریٹ مِچل کے ناول سے ماخوذ تھی۔ یہ ناول 1936 میں‌ منظرِ‌عام پر آیا تھا۔

    اس فلم میں‌ رومانس کے ساتھ انسانی نفسیات کے پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی کے عکس بند کیا گیا تھا جسے ناقدین اس فلم کی بڑی خصوصیت قرار دیتے ہیں۔

    اہم اور دل چسپ بات یہ ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر نے اس کے اسکرپٹ پر کوئی سمجھوتا نہیں‌ کیا اور فلم کی کہانی متعدد بار لکھوائی گئی۔ کہانی کاروں‌ میں‌ سڈنی ہاورڈ ، جوسوارلنگ اور ربین ہیچ شامل تھے۔ انھوں نے ڈائریکٹر کے کہنے پر کئی بار اسکرپٹ میں‌ ترامیم کیں۔

    آرٹ ڈیزائنر ولیم کیمرون نے بھی اس فلم کے لیے بہت محنت کی تھی جسے بہت سراہا گیا اور انھوں‌ نے اکیڈمی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ اس فلم کی تکمیل میں‌ دو سال کی تاخیر بھی ہوئی جس کا سبب کرداروں اور اسکرپٹ کے حوالے سے ڈائریکٹر کا مطمئن نہ ہونا تھا۔

    مارگریٹ مِچل کا ناول بھی جس سے اس فلم کی کہانی ماخوذ تھی، 1936ء میں‌ اپنی اشاعت کے بعد خاصا مقبول ہوا۔ مارگریٹ مِچل کا تعلق امریکا سے تھا جہاں‌ وہ صحافت سے منسلک تھیں۔ یہ ناول ان کی واحد ادبی تخلیق تھی جس پر انھیں‌ اس سال نیشنل بک ایوارڈ دیا گیا اور اگلے برس پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائیں۔

    فلم کی بات کی جائے تو اسے زبردست کام یابی ملی اور متعدد زمروں میں‌ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئی۔ شان دار فلم، بہترین اداکارہ اور معاون اداکارہ، بہترین ڈائریکٹر، بیسٹ آرٹ ڈائریکشن اور ایڈٹنگ کے اعزازات اس فلم نے اپنے نام کیے۔

  • فوٹو گرافی: سائنسی تجربات کے دوران کیا کچھ ہوا!

    فوٹو گرافی: سائنسی تجربات کے دوران کیا کچھ ہوا!

    1727 میں جرمن سائنس داں ڈاکٹر ہرمیان اسکولرس ایک روز سلور نائٹریٹ میں کھڑیا ملا رہے تھے۔ اس مرکب میں کھڑکی کے ذریعہ سورج کی شعاعیں پڑ رہی تھیں جس سے وہ مرکب آہستہ آہستہ سیاہ ہوتا جارہا تھا۔

    اس کی بدلتی ہوئی رنگت دیکھ کر ڈاکٹر اسکولرس نے اس پر یہ تجربہ کرنا شروع کیا کہ وہ بار بار مرکب کو سورج کی روشنی کے سامنے رکھنے لگے۔ آخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سلور نائٹریٹ اور کھڑیا مٹی کے مرکب پر سورج کی روشنی کا سیدھا اثر پڑتا ہے۔

    کہتے ہیں اس وقت لندن کے ایک سائنس داں لوئی بھی غالبا اسی موضوع پر تحقیق کررہے تھے، لیکن 1781 میں ان تجربات کے تمام کاغذات اور ان کا فارمولا آسٹریلیا کے ایک سائنس داں جوزف ویزوپ کے ہاتھ آگیا۔

    اس موقع پر ان کے معاون چیس ہیوم نے ان کے سامنے فوٹو گرافی کے عمل پر تحقیق کرنے کی تجویز پیش کی۔

    ڈاکٹر ویزوپ کے لڑکے تھامس کو جب اپنے والد کی تحقیق کا علم ہوا تو وہ انھی کے فارمولے کی بنا پر کیمرے کی ایجاد میں مصروف ہوگئے۔

    مسلسل کوشش کے بعد تھامس نے 1799 میں ہوائیاں نامی مرکب ایجاد کیا۔ آج کل تصویروں کو پائیدار اور مستقل بنانے کے لیے اسی کو کام میں لایا جاتا ہے۔

    لگاتار تجربے کرتے رہنے اور کڑی محنت کے باعث تھامس کی صحت گرنے لگی اور 1805 میں صرف 35 سال کی عمر میں یہ عظیم سائنس داں راہیِ ملکِ عدم ہوا۔

    (پریم پال اشک کی کتاب فلم شناسی سے ایک ورق)

  • کھلاڑی سے اداکار بننے تک شہرت اور مقبولیت برقرار رکھنے والی شخصیات

    کھلاڑی سے اداکار بننے تک شہرت اور مقبولیت برقرار رکھنے والی شخصیات

    کھلاڑیوں‌ کے فلم یا ٹیلی ویژن اداکار بن جانے کے بعد اگر اس میدان میں‌ ان کی پرفارمنس اور باکس آفس پر کام یابی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں‌ ضرور کچھ تفریق کی جاسکتی ہے، لیکن یہ جن شخصیات کا تذکرہ ہے انھوں‌ نے ہر میدان میں اپنی شہرت اور مقبولیت ضرور برقرار رکھی ہے۔

    آپ کی دل چسپی کے لیے کھیل کی دنیا کے وہ چند نام جو اب فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں‌ اداکار اور میزبان کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

    ڈوین جانسن کی شہرت کا سفر تو بطور ریسلر شروع ہوا تھا، لیکن ہالی وڈ نے انھیں مشہور ترین اداکاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ وہ راک کی عرفیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ممی ریٹرنز اور اسکورپین کنگ جیسی مشہورِ زمانہ فلموں میں ڈوین جانسن نے کردار نبھا کرخوب شہرت حاصل کی۔ اس کے بعد فاسٹ اینڈ فیوریئس جیسی فلم نے ان کی شہرت کو مہمیز دی۔

     

     

    امریکا سے تعلق رکھنے والے مشہور ریسلر جان سینا آج ایک کام یاب اداکار اور ٹیلی ویژن کی دنیا کے مقبول میزبان ہیں۔ وہ پہلوانی کے میدان میں مقبولیت سمیٹنے والی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں شوبزنس کی دنیا میں بھی زبردست کام یابی ملی۔ انھوں نے ایکشن فلم 12 راؤنڈ میں جہاں اپنی اداکاری سے شائقین کی توجہ حاصل کی وہیں جب کامیڈی فلم ٹرین ریک میں کردار سونپا گیا تو اسے بھی خوبی سے نبھایا اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔

     

     

    فٹ بال کے میدان کا روشن ستارہ وینی جانز جب معروف ہدایت کار گائے رچی کی نظروں میں آیا تو وہ اسے سنیما میں لے آئے اور ایک کام یاب اداکار ثابت ہوئے۔ وہ لگ بھگ دو عشروں سے فلم اور ٹی وی پر اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

     

     

    جوڈو کی کھلاڑی رونڈا روزی نے بیجنگ اولمپکس میں کانسی کا تمغا اپنے نام کیا تھا۔ ان کی جوڈو میں مہارت نے فلم سازوں کو متوجہ کیا اور یوں وہ بڑے پردے کی اداکارہ بن گئیں۔ رونڈا روزی کو فلم نگری کے روشن ستاروں سلویسٹر اسٹالون، میل گبسن اور ہیریسن فورڈ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ تاہم اداکاری کی وجہ سے انھیں کھیل کی دنیا سے دور ہونا پڑا۔

     

     

    امریکا کے ایک اور فٹ بالر کارل ویدر نے کئی دہائی قبل کھیل کے میدان کو چھوڑ کر فلم نگری میں قدم رکھا تھا۔ انھیں پریڈیٹر جیسی مشہور فلم میں ہالی وڈ کے نام ور اداکار آرنلڈ شوارزنیگر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی ایک فلم ایکشن جیکسن میں ان کے مرکزی کردار کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ یہ تین دہائی قبل ریلیز ہونے والی فلم ہے۔