Tag: ہالی وڈ

  • اولیویا ڈی ہیویلینڈ: ہالی وڈ کے سنہری دور کی آخری بڑی اداکارہ

    اولیویا ڈی ہیویلینڈ: ہالی وڈ کے سنہری دور کی آخری بڑی اداکارہ

    اولیویا ڈی ہیویلینڈ 104 برس زندہ رہیں۔ وہ ہالی وڈ اور امریکی فلموں کی معروف اداکارہ تھیں جنھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ انھوں نے شہرہ آفاق فلم گون ود دا ونڈ میں کام کیا تھا۔

    ‘گون ود دا ونڈ’ (Gone with the Wind) 1939ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ ہالی وڈ کے سنہری دور کی یادگار ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ اس فلم میں اولیویا ڈی ہیویلینڈ کو ملینی کے کردار نے نمایاں پہچان دی۔ یہ فلم اُس زمانے کے لسانی اور نسلی تعصبات کے پس منظر میں‌ بنائی گئی تھی جس میں امریکہ میں خانہ جنگی اور امریکی معاشرے میں غلامانہ نظام کی عکاسی نے شائقین کی توجہ حاصل کی۔ گون ود دا ونڈ نے 10 آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور ریکارڈ بزنس کرنے والی فلم بنی۔ اس فلم کی کہانی مارگریٹ مچل کے 1936ء کے ناول سے ماخوذ ہے۔ اس کے ہدایت کار وکٹر فلیمنگ تھے۔

    فلم کی کہانی امریکی جنوب کی ریاست جارجیا کی جاگیر کے مالک کی بیٹی اسکارلیٹ اوہارا کے گرد گھومتی ہے۔ اسکارلیٹ کے بارے میں پہلا تأثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کھلنڈری، مغرور، گھمنڈی قسم کی لڑکی ہے اور کئی امیر گھرانوں کے نوجوان اس کی ایک نگاہِ التفات کے منتظر رہتے ہیں لیکن وہ دل ہی دل میں ایشلے نامی ایک جاگیر دار کے بیٹے کو چاہتی ہے۔ اداکارہ اولیویا کو ملینی کے روپ میں فلم کی ہیروئن اسکارلیٹ کی گہری دوست اور رشتے دار دکھایا گیا ہے۔

    اولیویا 1916ء میں‌ پیدا ہوئی تھیں۔ برطانوی نژاد امریکی اولیویا ڈی ہیویلینڈ نے فلمی دنیا میں 1935ء سے 1988ء تک اپنی پہچان کا سفر جاری رکھا۔ اداکارہ نے 49 فیچر فلموں میں کام کیا اور ان کا شمار اپنے وقت کے معروف اداکاروں میں ہوتا ہے۔ 2020 میں آج ہی کے روز ہیویلینڈ نے دنیا کو الوداع کہا۔ وہ سنیما کے سنہرے دور کی ایسی اداکارہ تھیں جس نے ایک صدی سے زائد عرصہ دنیا میں گزارا۔

    اولیویا ڈی ہیویلینڈ کی بہن جین فونٹین بھی اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں مگر آپس میں‌ ان کے تعلقات اچھے نہیں‌ تھے اور فلمی دنیا میں ان کے مابین تنازع رہا۔

    اداکارہ اولیویا نے 2 اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیے جو ‘ٹو ایچ یس اون اور ‘دی ہیئرس جیسی فلموں میں ان کی عمدہ کارکردگی پر دیے گئے تھے۔

    اولیویا ڈی ہیویلینڈ ایک ایسے گھرانے کی فرد تھیں‌ جس میں ان کے سرپرست تدریس اور آرٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ اولیویا کے والد پروفیسر جب کہ والدہ اسٹیج اداکارہ اور مقامی سطح پر بطور گلوکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اولیویا اور ان کی بہن کو اداکاری والدہ کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے والدین کی ملاقات جاپان میں ہوئی تھی اور انھوں نے شادی کر لی تھی۔ بعد میں اختلافات پیدا ہوئے اور اس جوڑے میں علیحدگی ہوگئی۔ ان کی والدہ نے دوسری شادی کر لی۔ چھوٹی عمر میں اولیویا ڈی ہیویلینڈ نے موسیقی، شاعری اور اداکاری میں دل چسپی لینا شروع کر دیا تھا۔ والدہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ اولیویا نے مقامی موسیقی اور اس کے ساتھ پیانو جیسا ساز بجانا سیکھا۔ ان کی عمر کم تھی لیکن وہ اکثر اپنی ماں کی زبانی شیکسپیئر کے ڈراموں کے مکالمے سنتی تھیں اور یہ سب ذہن نشین کرلیتی تھیں۔ اس طرح انھیں ڈرامہ اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔

    1933ء میں نوجوان ہیویلینڈ نے تھیٹر کے لیے اُس مشہورِ زمانہ داستان کا ایک کردار نبھایا جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول رہی ہے یعنی ایلس ان ونڈر لینڈ! یہ اس دور کا ایک مقبول کھیل تھا۔ اولیویا ہیویلینڈ اس سے قبل اسکول کی سطح پر متعدد ڈراموں میں پرفارمنس کا مظاہرہ کرچکی تھیں۔ 1935ء میں انھیں کیپٹن بلڈ میں کام کرنے کا موقع ملا جو ایک کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کو شائقین نے بے حد سراہا اور ڈی ہیویلینڈ نے فلم بینوں ہی نہیں ناقدین کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔پہلی مرتبہ بطور اداکارہ دی نیویارک ٹائمز اور ورائٹی جیسے مقبول میگزین میں اولیویا کا ذکر کیا گیا۔ یہ فلم چار اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی۔ اس شان دار کام یابی کے بعد اگلے برس وہ ایڈونچر آف رابن ہڈ جیسی مقبول کہانی کا حصہ بن گئیں اور مزید شہرت سمیٹی، لیکن عجیب بات ہے کہ اس فلم کے بعد ان کا یہ سفر تھم سا گیا۔ اس کے بعد فلموں میں وہ اپنے کرداروں کی بدولت نمایاں نہ ہوسکیں۔

    92 سال کی عمر میں انھوں نے امریکی حکومت کی جانب سے نیشنل میڈل آف آرٹس وصول کیا تھا۔ 1953ء میں اداکارہ اولیویا ڈی ہیویلینڈ پیرس منتقل ہوگئی تھیں اور تاعمر وہیں رہیں۔ انھیں دوسری عالمی جنگ سے قبل فلمی دور کی آخری بڑی اداکارہ کہا جاتا ہے۔

  • ہالی ووڈ کی یادگار رومانٹک فلمیں

    ہالی ووڈ کی یادگار رومانٹک فلمیں

    پاکستان اور بھارت کی طرح دہائیوں پہلے امریکا اور ہالی وڈ کی رومانٹک فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز تھیں‌ اور بڑے پردے پر زبردست کام یابیاں سمیٹنے والی اکثر فلموں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

    ہالی ووڈ کی بعض رومانٹک فلموں سے متاثر ہو کر بعد میں ہندوستان اور پاکستان میں بھی فلمیں بنائی گئیں جو کام یاب ثابت ہوئیں۔ محبّت کے جذبے پر بنائی گئی ہالی وڈ کی فلموں میں بھی ہیرو، ہیروئن اور ایک ولن یا ظالم سماج کے ساتھ قربتیں، فاصلے، جذباتی کشمکش اور طربیہ یا المیہ انجام ہی دکھایا جاتا رہا ہے، لیکن وہاں جدید تکنیکی وسائل کے علاوہ پیشکش کا انداز اور کہانی پر توجہ ایسی فلموں کو زیادہ پُراثر اور جان دار بناتی ہیں۔

    امریکا میں بھی ایک نسل جو اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے، وہ اسے فلموں کا سنہری دور تصوّر کرتی ہے اور اپنے زمانے کی فلموں کو شان دار یادگار قرار دیتی ہے۔ 1939ء کی فلم گون ود دی ونڈ (gone with the wind)، 1942ء میں بنائی گئی کاسا بلانکا (Casablanca)، 1957ء کی شاہ کار فلم افیئر ٹو ریمبر (an affair to remember) اور کئی دوسری فلموں کو شائقینِ سنیما نے زبردست پذیرائی اور سندِ قبولیت بخشی۔ یہاں ہم ہالی ووڈ کی چار رومانٹک فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جو اُس دور کی یادگار فلمیں‌ ہیں۔

    ’’سابرینا‘‘(Sabrina)
    ’’سابرینا‘‘(Sabrina) نے 1954ء میں ریلیز کے ساتھ ہی شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار بلی وائلڈر تھے اور وہی اس کے مصنّف بھی۔ یہ ان کے کیریئر کی ایک کام یاب فلم تھی۔ ہدایت کار کے کمالِ فن کے علاوہ اداکاروں کی پرفارمنس کو بھی کسی فلم کی کام یابی اور پذیرائی میں بنیادی دخل ہوتا ہے۔ اس فلم کی ہیروئن ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ آڈرے ہیپ برن تھیں۔

    جذبۂ محبّت پر مبنی اس فلم میں ہیروئن یعنی سابرینا ایک لکھ پتی آدمی کے بیٹے کے پیار میں دیوانی ہوجاتی ہے۔ اس کا نام ڈیوڈ تھا اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیوڈ کی منگنی ہوچکی ہے۔ یہ منگنی اس نے اپنے باپ کے اصرار پر ایک اور امیر کبیر آدمی کی بیٹی سے کی تھی۔ یہ ایک قسم کی کاروباری منگنی تھی اور دونوں کے والدین اس رشتے میں‌ اپنا اپنا مالی فائدہ اور کاروباری مفاد دیکھ رہے تھے۔ اس قسم کی فلمیں‌ پاک و ہند میں بھی بہت بنا کرتی تھیں۔ کبھی ایک غریب اور ایک مال دار گھرانا دکھایا جاتا تو کہیں دونوں خاندان نہایت امیر کبیر اور بااثر ہوتے تھے جس میں محبّت ہر رکاوٹ پار کرلیتی اور انجام طربیہ ہوتا اور کہیں نہایت درد ناک انجام دکھایا جاتا۔ فلم سابرینا میں محبّت کو اس وقت مشکل سے دوچار ہونا پڑتا ہے جب ڈیوڈ کے والدین اسی کے چھوٹے بھائی کو سابرینا کی توجہ ڈیوڈ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے اس سے مراسم بڑھانے کو بھیجتے ہیں۔ یہ موضوع اس وقت بھی بہت عام بلکہ پائمال بھی تھا، لیکن اسکرین پلے بہت شان دار طریقے سے لکھا گیا تھا، جب کہ ہدایت کاری اور اداکاروں کی پرفارمنس نے اسے خاص بنا دیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی ایک شان دار رومانوی فلم تھی۔

    ’’لو افیئر‘‘
    1939ء میں فلم ’’لو افیئر‘‘ بڑے پردے پر سجائی گی تھی جو بہت خوب صورت اور ایک پُرتأثر فلم تھی۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک قابلِ‌ ذکر فلم ہے کیوں کہ اس کی کہانی کو کئی بار فلمایا گیا اور نئے انداز سے پیش کر کے شائقین کی توجہ حاصل کی گئی۔ اس رومانٹک فلم کی کہانی نے نئے ٹائٹل کے ساتھ ہر بار شائقین کو متأثر کیا اور یہ ان کے دلوں میں اُتر گئی۔ مون کے نام معروف اداکار و ہدایت کار وارن بیٹی نے اس فلم کو بڑے پردے پر پیش کیا تھا۔ اس میں‌ فرانس کے مشہور اداکار چارلس بوائر اور آئرین ڈو کو انھوں نے بطور ہیرو اور ہیروئن آزمایا تھا۔

    اس فلم کی کہانی دو اجنبیوں کی اتفاقیہ ملاقات سے شروع ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن اس ملاقات سے پہلے وہ دونوں ہی منگنی کر چکے تھے۔ فلم دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں‌ بھی لڑکا اور لڑکی کے مابین نسبت ٹھہر جانے یا شادی طے ہوجانے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اور اب یہ منگنی ان کے لیے مسئلہ بن گئی تھی۔ وہ دونوں ایک بحری جہاز میں سفر کے دوران اس محبّت میں‌ گرفتار ہوئے تھے۔

    لڑکے اور لڑکی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی محبّت کو شادی کے تعلق میں بدلنے کے لیے اپنی نسبت کو ختم کرنے یا قائم رکھنے کا فیصلہ کریں۔ وہ ایک منصوبہ بناتے ہیں‌ اور آپس میں طے کرتے ہیں‌ کہ سفر ختم ہونے کے چھے ماہ بعد نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں ملیں گے۔ اگر اس وقت تک ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبّت اسی طرح قائم رہی تو وہ اپنی اپنی منگنی توڑنے کا اعلان کر دیں گے اور آپس میں‌ شادی کر لیں گے۔ لیکن فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اتفاقات اور حادثات کے سبب ان کا یہ منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس فلم نے شائقین کو بہت محظوظ کیا اور کام یاب فلم ثابت ہوئی۔

    ’’این افیئر ٹو ریمببر‘‘
    اسی کہانی کو ’’این افیئر ٹو ریمببر‘‘ میں بھی پیش کیا گیا تھا جو 1957ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، اس میں مرکزی کردار کیری گرانٹ اور ڈیبوراکار نے نبھائے تھے۔ اس میں‌ بھی وہی بحری جہاز اور منگنی شدہ مسافر لڑکا لڑکی کو دکھایا گیا ہے جو نیویارک کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ وہاں وہ اپنے اپنے منگیتروں سے ملنے جارہے تھے۔ لیکن جہاز میں ہونے والی ان کی یہ ملاقات انھیں ایک دوسرے کی محبّت میں باندھ دیتی ہے اور وہ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایک مقرر وقت کے بعد وہ طے شدہ جگہ ملاقات کریں گے۔ اگر انھیں ایک دوسرے کی محبّت کی شدت محسوس ہوگی تو وہ منگنیاں توڑ کر آپس میں شادی کر لیں گے۔ فلم آگے بڑھتی ہے اور وہ وقت آتا ہے جب ہیرو یعنی کیری گرانٹ طے شدہ وقت پر اس جگہ پہنچ جاتا ہے، لیکن رات گئے تک انتظار کرنے کے باوجود لڑکی وہاں نہیں‌ آتی اور وہ مایوس ہو کر لوٹ جاتا ہے۔

    وہ سمجھتا ہے کہ لڑکی کی محبّت سچّی نہیں تھی۔ اس نے اپنا قول و قرار فراموش کردیا ہے۔ کچھ عرصے بعد اچانک ان دونوں کا ایک جگہ آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر ہیرو سرد مہری دکھاتا ہے اور لڑکی کو بے وفائی کا طعنہ دیتا ہے۔ بعد میں اس پر کُھلتا ہے کہ ہیروئن ایک حادثے کا شکار ہو کر ٹانگوں سے معذور ہوچکی تھی اور اسی لیے مقررہ وقت پر اس کے پاس نہیں‌ آسکی تھی۔ لیکن وہ اس سے اسی طرح‌ محبّت کرتی تھی جس کا اقرار اس نے اوّلین ملاقات کے بعد کیا تھا۔

    ’’لو اسٹوری‘‘
    ستّر کی دہائی میں امریکا میں‌ بننے والی فلم ’’لو اسٹوری‘‘ کی کہانی ایک ناول پر مبنی تھی۔ اس وقت ہدایت کار آرتھر ہلر نے مرکزی کردار کے لیے نئے چہروں کو آزمایا تھا۔ کہانی میں نو عمر لڑکا اور لڑکی کو کالج فیلو دکھایا ہے۔ ہیروئن کا تعلق ایک غریب گھرانے سے جب کہ ہیرو کا باپ انتہائی دولت مند اور ایک مغرور شخص بھی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے ایک غریب لڑکی کو قبول نہیں‌ کرسکتا تھا، تب لڑکا اپنے باپ کی مرضی کے خلاف شادی کے لیے لڑکی کو لے کر پادری کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اس شادی کی صورت میں اسے باپ کی تمام دولت سے بھی محروم ہونا پڑتا لیکن اسے اس بات کی پروا نہ تھی۔ پادری کے پاس جاتے ہوئے کار کو حادثہ پیش آتا ہے۔ زخمی ہیرو کئی دن تک بے ہوش رہتا ہے جب کہ ہیروئن کا چہرہ جھلس کر مسخ ہو چلا تھا۔

    لڑکا دولت مند باپ کی اکلوتی اولاد تھا اور حادثے کی اطلاع پاکر باپ کا دل پیسیج جاتا ہے۔ وہ اس کا علاج کروانے کے ساتھ اسپتال والوں کو رقم کا لالچ دے کر جھوٹ بولنے پر مجبور کردیتا ہے، ہوش آنے پر لڑکے کو بتایا جاتا ہے کہ لڑکی حادثے میں ہلاک ہو چکی ہے۔ ہیرو کا دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف دولت مند باپ اس لڑکی کو دھمکیوں اور لالچ دے کر اپنے بیٹے کی زندگی سے نکل جانے پر آمادہ کر لیتا ہے اور کافی روپیہ خرچ کرکے اس کے چہرے کی پلاسٹک سرجری بھی کروا دیتا ہے۔ یہ ایک طویل مگر سسپنس سے بھرپور کہانی ہے جس کے آخر میں لڑکا اپنی محبّت کو پا لیتا ہے۔

  • ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان کو دنیا ایک باکمال ہدایت کار اور بہترین فلم ساز کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے، لیکن وہ ہالی وڈ میں ایک ایسے تنازع کا سبب بھی بنے تھے جس پر ردعمل تقریباً نصف صدی بعد سامنے آیا اور کازان کو فلمی ستاروں‌ کے جھرمٹ میں‌ خفّت کا سامنا کرنا پڑا۔

    1999ء تک ایلیا کازان کئی شان دار اور یادگار فلمیں‌ انڈسٹری کے نام کرچکے تھے، اور اس سال آسکر ایوارڈ کی جو تقریب سجائی گئی، اس میں لائف ٹائم اچیومنٹ کے لیے ایلیا کازان کا نام پکارا گیا تھا، کیمرے کی آنکھ نے حاضرین کی صفوں میں‌ کشمکش اور اضطراب دیکھا۔ کچھ فن کار جو کازان کے استقبال کے لیے تالیاں بجانے لگے تھے، سینئر فن کاروں کو خاموش اور مضطرب پاکر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ عجیب فضا بن گئی تھی اور جلد ہی منتظمین پر تنقید شروع ہوگئی جس سے واضح ہوگیا کہ اس محفل میں ایسے فن کار موجود ہیں جو کازان کو ‘غدار’ سمجھتے ہیں اور اس ایوارڈ کا مستحق نہیں‌ گردانتے۔

    دراصل 1950ء کے عشرے میں ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان ایسے فن کاروں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا سبب بنا تھا جس کے بعد ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، اور انھیں ‘غدار’ کہا گیا، لیکن کازان کی خوش قسمتی تھی کہ اپنی مخالفت کے باوجود انڈسٹری میں کوئی بھی ان کی کام یابیوں کا راستہ نہیں روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار کہلائے اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچان بنائی جو آج بھی قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں وہ قابلِ تقلید ہدایت کار سمجھے گئے جن کا کام دیکھ کر نوآموز بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 2003ء میں آج ہی کے دن تمام ہوا۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خرید و فروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے متنازع بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں‌ کمیونسٹوں کی گرفت کی جارہی تھی اور ان پر شک کیا جارہا تھا۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی کمیٹی سے جو بات چیت کی تھی، اس سے فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی پر مبنی ہیں۔

  • اپنے خواب کا تعاقب کرتے جیک لیمن کی کہانی

    اپنے خواب کا تعاقب کرتے جیک لیمن کی کہانی

    جیک لیمن 8 سال کا تھا جب اس کے دل میں فلم میں کام کرنے کی امنگ پیدا ہوئی اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش نے جنم لیا۔ وہ ہیرو بننے کا خواب دیکھنے لگا تھا۔

    اس کا تعلق امریکا سے تھا، جہاں اس نے 8 فروری 1925ء کو آنکھ کھولی۔ اسکول گیا تو وہاں‌ نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ٹیبلو اور اسٹیج ڈراموں میں حصّہ لینا شروع کر دیا۔ اس طرح اسے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا اور اس کا اعتماد بھی بڑھا۔ جب اس نے ہاورڈ کالج میں‌ قدم رکھا، تو وہاں ڈرامیٹک کلب کا وائس پریذیڈنٹ بنا دیا گیا۔ بعد کے برسوں میں اسے ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور اس کے بچپن کا خواب پورا ہوا۔ آج اسے ہلکی پھلکی مزاحیہ فلموں کے شان دار ہیرو کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    جیک لیمن کی فلمیں کلاسیک میں شمار کی جاتی ہیں۔ اس مشہور اور باکمال اداکار کی فلمیں سوشل کامیڈی پر مبنی ہوتی تھیں۔ اس نے برطانیہ اور امریکا میں شائقین کو نہ صرف اپنی پرفارمنس سے محظوظ اور متاثر کیا بلکہ ہالی وڈ کو بھی متعدد باکمال فن کار دیے۔ اسے مزاحیہ فن کاروں کی فہرست میں‌ نمایاں مقام حاصل ہے جن کی پرفارمنس سے بعد میں‌ آنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سمیت جیک لیمن نے ہالی وڈ کے کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ 1959ء میں Some Like It Hot منظرِ عام پر آئی اور باکس آفس پر دُھوم مچا دی، یہ جیک لیمن کے کیریئر کی کام یاب ترین کامیڈی فلم تھی۔

    جیک کی ایک اور ایوارڈ یافتہ فلم ’’دی اپارٹمنٹ‘‘ 1960ء میں ریلیز ہوئی جو امریکی کامیڈی فلم تھی۔ اس فلم میں جیک سولو ہیرو کی حیثیت سے پردے پر نظر آیا اور اس میں ہیروئن کا کردار فلم اسٹار شرلے میکلین نے نبھایا تھا جو نہایت خوب صورت اور باصلاحیت فن کار تھی۔

    جیک کی اس فلم نے دس اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زدگی حاصل کی اور اس میں سے پانچ ایوارڈ لے اڑی۔ اس کے علاوہ جیک لیمن کی چند مشہور فلموں میں مسٹر رابرٹ، دی اپارٹمنٹ، اوڈ کپل شامل ہیں۔ اس فن کار کی ڈائیلاگ ڈلیوری بہت زبردست تھی اور اس حوالے سے جیک کو بہت سراہا جاتا تھا۔

    کامیڈی فلموں اس ہیرو کی آخری فلم 1991ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ وہ 29 جون 2001ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔

  • کیتھرین کو یقین تھا کہ انھیں ضرور یاد رکھا جائے گا

    کیتھرین کو یقین تھا کہ انھیں ضرور یاد رکھا جائے گا

    کیتھرین ہیپبرن کو نجانے کیوں یہ یقین تھا کہ انھیں موت کے بعد ضرور یاد کیا جاتا رہے گا۔

    اس خوب صورت اور نازک اندام اداکارہ کی وجہِ شہرت ہالی ووڈ میں ان کی کام یاب فلمیں ہیں۔ انھوں‌ نے اپنی متاثر کُن اداکاری پر آسکر ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    کیتھرین ہیپبرن ایک امیر اور نہایت خوش حال گھرانے کی فرد تھیں۔ انھیں ایک ایسی عورت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے جس نے زندگی کے مختلف ادوار میں غیر روایتی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے زندگی کو اپنی نگاہ سے دیکھا اور اپنی مرضی کے مطابق بسر کیا۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907 کو پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔

    ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے گریجویشن کے بعد اسٹیج کی دنیا سے اپنے شوبز کیریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے نیو یارک کے مشہور براڈوے تھیٹرسے کئی ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور مقبولیت حاصل کی۔

    کیتھرین نے اپنی اداکاری سنیما کے شائقین کو ہی نہیں ناقدین کو بھی متاثر کیا اور چار اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔ اس کے بعد بھی وہ متعدد بار اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کی گئیں۔

    ان کی پہلی فلم 1932 میں سامنے آئی۔ اداکاری کے ابتدائی زمانے میں انھیں حقوقِ نسواں کی حامی عورت کے مختلف کردار سونپے گئے اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ انھوں نے کئی فلموں میں کام کیا اور خود کو منواتی چلی گئیں۔ ان کی چند فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔

    ہیپبرن کو پہلا اکیڈمی ایوارڈ 1933 میں ملا۔ یہ ایوارڈ فلم مارننگ گلوری کے ایک کردار کے لیے دیا گیا تھا۔ فلاڈلفیا اسٹوری وہ فلم تھی جو بہت پسند کی گئی۔ یہ ان کی ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں سے ایک ہے۔

    اس خوب صورت اداکارہ کی زندگی کا سفر 2003 میں تمام ہوا۔ موت کے وقت وہ 96 برس کی تھیں۔

  • کرونا: کیا ’’جیمز بانڈ‘‘ مبینہ سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

    کرونا: کیا ’’جیمز بانڈ‘‘ مبینہ سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

    خفیہ ایجنٹ 007 کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔ اسے آپ ’’جیمز بانڈ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

    ہالی وڈ کی بلاک بسٹر سیریز میں لگ بھگ سات دہائیوں سے اس کردار کو شائقین کی بھرپور توجہ اور دل چسپی حاصل ہے۔

    جیمز بانڈ کے کردار کو 1953 میں تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ معروف ناول نگار ایان فلیمنگ کی اختراع ہے۔ انھوں نے بانڈ سیریز کے بارہ ناول لکھے۔

    1964 میں وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو خفیہ ایجنٹ کے اس سلسلے کو دوسرے چھے ناول نگاروں نے لکھنا شروع کیا اور خطروں سے کھیلنے والے اس پُرسرار کردار پر متعدد ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔

    برطانوی خفیہ ایجنٹ جیمز بانڈ کے اس مقبولِ عام کردار کو اپنے وقت کے نام ور اداکاروں نے نبھایا اور شائقین کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

    اس کردار کے خالق نے ناول میں بتایا تھا کہ جیمز بانڈ ایک سفید فام وجیہہ مرد ہے، جسے دنیا ایجنٹ 007 کے نام سے جانتی ہے۔

    اس کردار نے خطروں سے کھیلتے ہوئے اپنے اسٹائل اور مخصوص اشیا جیسے گلاسز، ہیئراسٹائل، کوٹ اور ٹائی کے علاوہ بندوق تھامنے کے منفرد انداز سے بھی شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ مداحوں نے یہی گیٹ اپ اپنایا اور اسی کی طرز کا لباس اور ہیئر اسٹائل بنانے لگے، جو جیمز بانڈ کی شخصیت سے ان کے بے حد متاثر ہونے کا ثبوت ہے۔

    فلمی دنیا میں ’’جیمز بانڈ‘‘ کا سفر طویل اور مالی طور پر فائدہ مند ثابت ہوا۔

    1962 میں بانڈ سلسلے کی پہلی فلم ’’ڈاکٹر نو‘‘ تھی اور اداکار شین کونری کا اس ایجنٹ کے روپ میں سامنے آنا گویا تہلکہ خیز ثابت ہوا، اس اداکار نے سنیما کے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ جیمز سیریز میں بانڈ گرل کا کردار بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس کے لیے اداکارہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

    ’’جیمز بانڈ‘‘ نے کئی اہم اور مشکل ترین کام انجام دیے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں جہاں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے اور اس کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر مختلف مفروضے گردش میں ہیں جن میں وائرس کو لیبارٹری میں تیار کردہ حیاتیاتی ہتھیار اور اس کے ذریعے مخصوص ممالک کی معیشت کو برباد کرکے مفادات کی تکمیل بتایا جارہا ہے۔ تاہم عام آدمی کے لیے اس کی حقیقت جاننا آسان نہیں۔

    کیا جیمز بانڈ جیسا ذہین اور شاطر ایجنٹ اس سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

  • کھلاڑی سے اداکار بننے تک شہرت اور مقبولیت برقرار رکھنے والی شخصیات

    کھلاڑی سے اداکار بننے تک شہرت اور مقبولیت برقرار رکھنے والی شخصیات

    کھلاڑیوں‌ کے فلم یا ٹیلی ویژن اداکار بن جانے کے بعد اگر اس میدان میں‌ ان کی پرفارمنس اور باکس آفس پر کام یابی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں‌ ضرور کچھ تفریق کی جاسکتی ہے، لیکن یہ جن شخصیات کا تذکرہ ہے انھوں‌ نے ہر میدان میں اپنی شہرت اور مقبولیت ضرور برقرار رکھی ہے۔

    آپ کی دل چسپی کے لیے کھیل کی دنیا کے وہ چند نام جو اب فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں‌ اداکار اور میزبان کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

    ڈوین جانسن کی شہرت کا سفر تو بطور ریسلر شروع ہوا تھا، لیکن ہالی وڈ نے انھیں مشہور ترین اداکاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ وہ راک کی عرفیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ممی ریٹرنز اور اسکورپین کنگ جیسی مشہورِ زمانہ فلموں میں ڈوین جانسن نے کردار نبھا کرخوب شہرت حاصل کی۔ اس کے بعد فاسٹ اینڈ فیوریئس جیسی فلم نے ان کی شہرت کو مہمیز دی۔

     

     

    امریکا سے تعلق رکھنے والے مشہور ریسلر جان سینا آج ایک کام یاب اداکار اور ٹیلی ویژن کی دنیا کے مقبول میزبان ہیں۔ وہ پہلوانی کے میدان میں مقبولیت سمیٹنے والی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں شوبزنس کی دنیا میں بھی زبردست کام یابی ملی۔ انھوں نے ایکشن فلم 12 راؤنڈ میں جہاں اپنی اداکاری سے شائقین کی توجہ حاصل کی وہیں جب کامیڈی فلم ٹرین ریک میں کردار سونپا گیا تو اسے بھی خوبی سے نبھایا اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔

     

     

    فٹ بال کے میدان کا روشن ستارہ وینی جانز جب معروف ہدایت کار گائے رچی کی نظروں میں آیا تو وہ اسے سنیما میں لے آئے اور ایک کام یاب اداکار ثابت ہوئے۔ وہ لگ بھگ دو عشروں سے فلم اور ٹی وی پر اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

     

     

    جوڈو کی کھلاڑی رونڈا روزی نے بیجنگ اولمپکس میں کانسی کا تمغا اپنے نام کیا تھا۔ ان کی جوڈو میں مہارت نے فلم سازوں کو متوجہ کیا اور یوں وہ بڑے پردے کی اداکارہ بن گئیں۔ رونڈا روزی کو فلم نگری کے روشن ستاروں سلویسٹر اسٹالون، میل گبسن اور ہیریسن فورڈ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ تاہم اداکاری کی وجہ سے انھیں کھیل کی دنیا سے دور ہونا پڑا۔

     

     

    امریکا کے ایک اور فٹ بالر کارل ویدر نے کئی دہائی قبل کھیل کے میدان کو چھوڑ کر فلم نگری میں قدم رکھا تھا۔ انھیں پریڈیٹر جیسی مشہور فلم میں ہالی وڈ کے نام ور اداکار آرنلڈ شوارزنیگر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی ایک فلم ایکشن جیکسن میں ان کے مرکزی کردار کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ یہ تین دہائی قبل ریلیز ہونے والی فلم ہے۔

     

  • اپنے بچوں‌ کی تصویریں‌ بیچنے والے ہالی وڈ کے مشہور ترین فن کار

    اپنے بچوں‌ کی تصویریں‌ بیچنے والے ہالی وڈ کے مشہور ترین فن کار

    شوبزنس انڈسٹری کے مشہور ترین نام اور چمکتے دمکتے ستارے تو ایک طرف دنیا بھر میں فلم اور پرفارمنس آرٹ کے مختلف شعبوں سے وابستہ کم معروف فن کار بھی اشتہارات میں کام کرنے اور کسی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لیے کمپنیوں سے بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

    اسی طرح شہرت کے آسمان کی بلندیوں پر محوِ پرواز آرٹسٹوں کی ہر سرگرمی، ان سے متعلق کوئی نیا انکشاف یا ان کے ساتھ پیش آنے والا کوئی بھی واقعہ ایک بڑی خبر کے طور پر نشر ہوتا ہے۔

    ہالی وڈ کی بات کی جائے تو دنیا بھر میں موجود سنیما کے شائقین اس انڈسٹری سے وابستہ فن کاروں کی نجی زندگی اور ان کے معمولات سے گویا ہر پَل آگاہ رہنا چاہتے ہیں۔ مداح خاص طور پر اپنے محبوب اداکاروں اور گلوکاروں کی خانگی زندگی سے جڑے واقعات میں گہری دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    اگر یہ کہا جائے تو تعجب کیسا کہ پرستاروں کی دل چسپی کا سلسلہ صرف ان فن کاروں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ان کے اہلِ خانہ کی بھی شادی سے لے کر موت تک ہر واقعے اور سرگرمی کے بارے میں جاننے کی جستجو کرتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ ہالی وڈ کے نام ور آرٹسٹوں کی گھریلو زندگی یا ان کی کسی نجی تقریب کی کوئی تصویر یا کسی واقعے کی ویڈیو اگر کسی کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کا زبردست مالی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ آرٹسٹ بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کی نجی زندگی کی کوئی تصویری جھلک یا ویڈیو میڈیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے اور اسی لیے وہ خود ہی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہاں ہم ان ایکٹریسز کا ذکر کررہے ہیں جنھوں نے اپنے گھر میں ننھے مہمان کی آمد کے بعد ان کی تصاویر مختلف اخبار اور رسائل کو دے کر ان سے کروڑوں روپے وصول کیے۔

    امریکا کی مشہور گلوکارہ جینیفر لوپیز نے 2008 میں اپنے جڑواں بچوں ڈیوڈ اور ایمی کی پہلی تصویر پیپلز میگزین کو تقریباً 38 کروڑ روپے میں فروخت کی تھی۔
    ہالی وڈ کی معروف جوڑی انجلینا جولی اور بریڈ پٹ کے گھر 2008 میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔ انجلینا جولی نے ان بچوں کی پہلی تصویر پیپلز میگزین کو تقریبا 90 کروڑ روپے میں فروخت کی تھی۔
    عالمی شہرت یافتہ اداکارہ جیسیکا البا نے اوکے میگزین سے اپنی بچی کی تصویر شایع کرنے کا معاوضہ لیا تھا۔ جیسیکا البا اور کیش وارن کے ہاں 2008 میں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے نرمیری وارن رکھا۔ اس جوڑے نے اپنی بچی کی پہلی تصویر کی قیمت 9 کروڑ روپے وصول کی۔
    ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ اور سنگر کرسٹینا آگیولیرا کے بیٹے کا نام میکس لیرون بریٹمین ہے جس کی پیدائش کے بعد پہلی تصویر پیپلز میگزین میں شایع ہوئی۔ اس تصویر کے لیے کرسٹینا کو 9 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔
    ہالی وڈ کا ایک اور مشہور نام اینا نکول اسمتھ ہے جس نے بیٹی کا نام ڈینیلین برک ہیڈ رکھا. پیدائش کے بعد اس بچی کی پہلی تصویر اوکے میگزین میں شایع ہوئی جس کے لیے اینا نکول کو 12 کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے.

  • ایک جوکر، جو دہشت اور خوف کی علامت بن گیا

    ایک جوکر، جو دہشت اور خوف کی علامت بن گیا

    لاس اینجلس: چند دوستوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن جانے والا جوکر کئی برس بعد لوٹ آیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق عام طور پر جوکر کو ہنسنے ہنسانے، تفریح فراہم کرنے والے کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مگر اس جوکر کی کہانی یکسر مختلف ہے.

    یہ جوکر خوف اور دہشت کی علامت ہے، ایک ایسا عفریت، جس کا خوف بچوں‌ کے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے اور اب یہ 27 برس بعد اپنا انتقام لینے لوٹ آیا ہے.

    یہ کہانی ہے رواں برس 6 ستمبر کو ریلیز ہونے والی معروف فلم اٹ چیپٹر ٹو (It Chapter Two) کی، جو 2017 میں ریلیز ہونے والی فلم ’اٹ ‘کا دوسرا پارٹ ہے.

    مزید پڑھیں: ہالی ووڈ کی نئی کرائم تھرلر فلم ’’جوکر‘‘ کا نیا ٹریلر ریلیز

    یہ فلم اپنے عہد کے ممتاز فکشن  نگار اسٹیفن کنگ کے ناول پر مبنی ہے، جسے ماضی میں بھی کئی بار فلمایا جاچکا ہے، مگر اس کا سحر کم نہیں ہوا.

    اسٹیفن کنگ ایک امریکی مصنف ہیں، جو سسپنس، ہارر اور فینٹاسی جیسی ادبی اصناف میں اپنی مثال عام ہیں. ان کے کئی ناولز کو فلموں کے قالب میں ڈھالا گیا، جن میں‌ اسٹینلے کوبرک کی "دی شائینگ” نمایاں ہے.

    فلم کو دنیا بھر میں‌ مختلف زبانوں میں ریلیز کیا جائے گا، پروڈیوسرز ریکارڈ بزنس کی توقع کر رہے ہیں.

  • معروف ہالی وڈ اداکارنے 17 برس چھوٹی اداکارہ سے شادی کرلی

    معروف ہالی وڈ اداکارنے 17 برس چھوٹی اداکارہ سے شادی کرلی

    لندن:افریقی نژاد برطانوی ہالی وڈ اداکار ادریس اکونا ایلبا نے خود سے 17 برس کم عمر اداکارہ اور سابق حسینہ 29 سالہ سیبرینا ڈھورے سے شادی کرلی۔خیال رہے کہ 46 سالہ ادریس ایلبا کی یہ تیسری شادی ہے، اس سے قبل ان کی پہلی دونوں شادیاں طلاق پر ختم ہوئی تھیں۔

    ادریس ایلبا کے والدین کا تعلق افریقی ملک گھانا سے تھا جو بعد ازاں برطانیہ منتقل ہوئے، جہاں ادریس ایلبا کی پیدائش ہوئی۔ادریس ایلبا نے پہلی شادی 1999 میں ہانی کم نامی خاتون سے کی جو 2003 میں طلاق پر ختم ہوئی اور انہیں ان سے ایک بیٹی بھی ہوئی۔

    پہلی شادی کی ناکامی کے بعد ادریس ایلبا نے دوسری شادی سونیا نکولے ہیملن سے 2006 میں کی جو محض 4 ماہ تک جاری رہی ۔پہلی دونوں شادیوں کی ناکامی کے بعد ادریس ایلبا نے برطانوی میک اپ آرٹسٹ نیانا گارتھ سے تعلقات استوار کرلیے اور انہیں ان سے 2014 میں ایک بیٹا بھی ہوا، تاہم بعد ازاں دونوں الگ ہوگئے۔

    ادریس ایلبا نے تیسری شادی افریقی نڑاد کینیڈین نڑاد ماڈل و سابق حسینہ 29 سالہ سیبرینا ڈھورے سے مراکش میں شادی کی ہے ، شادی کو سادگی سے انجام دیا گیا اور انتہائی محدود مہمانوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

    فیشن میگزین ’ووگ‘ کے مطابق ادریس ایلبا اور سیبرینا ڈھورے نے مراکش میں خاموشی سے شادی کی اور دونوں نے معاہدے کے تحت شادی کی تصاویر کے حقوق فیشن میگزین کو دیئے۔