Tag: ہتک عزت قانون

  • ہتک عزت قانون کے تحت کوئی بھی فیصلہ عدالتی فیصلے سے مشروط

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے ہتک عزت قانون کے تحت کسی بھی فیصلے کوعدالتی فیصلے سے مشروط کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ہتک عزت قانون کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔

    عدالت نے استفسار کیا یہ قانون کیسے آزادی اظہار رائے اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، اگر چیف منسٹر کوئی بیان دے تو آپ اس کو عدالت لے آئیں گے یہ غلط بات ہے۔ یہ قانون ہوسکتا ہے تیز ترین انصاف کی فراہمی کے لیے ہو۔

    درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چیف منسٹر جھوٹ نہ بولے ، وزیر اطلاعات پنجاب صبح سے لیکر شام تک جھوٹ بولتی ہیں، اس قانون میں ٹرائل سے قبل ہی ملزم کو 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ قانون بنیادی حقوق اور آئین کیخلاف ہے، اس قانون کے ذریعے عوام کی زبان بندی کرنےکی کوشش کی گئی ہے اور آزادی اظہار کو ختم کیا جا رہا ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت اس قانون کو آئین سے متصادم اور کالعدم قرار دیتے ہوئے مسترد کرے۔

    وکیل نے بتایا کہ اس قانون کے تحت ٹریبونل بھی وزیراعلی کی مرضی سے بننے ہیں، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ اگر چیف جسٹس کوئی نام بھیجیں اور کسی وزیر کو پسند نہ آئے تو کیا وہ اپنی مرضی کا جج لگا سکتا ہے۔

    عدالت نے قانون کے تحت کسی بھی فیصلے کو عدالتی فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے اٹارنی جنرل ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور حکومت پنجاب کو نوٹس جاری کردیا۔

  • ہتک عزت قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری

    ہتک عزت قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری

    لاہور : پنجاب حکومت نے ہتک عزت قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے بعد صوبے پھر میں نیا قانون بن گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صحافیوں کا احتجاج نظر انداز کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے ہتک عزت قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے قانون کا اطلاق فوری طور پر پنجاب بھر میں ہوگا، بل کے تحت ٹرائل سے قبل تیس لاکھ روپے تک ہرجانہ بھجوایاجا سکے گا۔

    قائم مقام گورنر نے سات جون کو اسمبلی کی جانب سے بھجوائے گئے مسودے پر دستخط کئے تھے، مسودے میں لفظ پنجاب ہتک عزت ایکٹ 2024 کا استعمال کیا گیا ہے۔

    گذشتہ روز ہتک عزت بل کی منظوری کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا ، جس میں تمام صحافی تنظیموں نے بل کو انسان دشمن قانون قرار دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : ہتک عزت بل قانون بنتے ہی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

    کمیٹی اجلاس میں حکومتی تقریبات، وفاقی وصوبائی بجٹ کی کوریج سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بل کے خلاف موثر قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے گی۔

    اجلاس میں کہنا تھا کہ اقوام متحدہ، دیگرعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سےبھی رابطہ کیا جائے گا۔

    صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے قانون کیخلاف انصاف کیلئے ہائیکورٹ جانے کا بھی اعلان کیا تھا۔

  • ہتک عزت قانون حرف آخر نہیں، گورنر پنجاب

    ہتک عزت قانون حرف آخر نہیں، گورنر پنجاب

    گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ ہتک عزت کا قانون حرف آخر نہیں ہے، امید ہے اس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

    تفصلات کے مطابق پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ امید ہے ہتک عزت قانون کا دوبارہ سے جائزہ لیا جائےگا، امکان ہے کہ میں پنجاب حکومت کو ہتک عزت قانون پر نظرثانی کا کہوں۔

    گورنر پنجاب نے کہا کہ ہتک عزت قانون میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی، ہتک عزت قانون مشاورت سے لایا جاتا تو اچھا ہوتا۔

    سردار سلیم حیدر کا مزید کہنا تھا کہ ہتک عزت قانون پر صحافتی تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز سے بات ہونی چاہیے۔

    واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی نے ہتک عزت بل 2024 منظور کیا تھا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ تمام ترامیم مسترد کر دی گئی تھیں۔

    وزیرپارلیمانی امور پنجاب مجتبیٰ شجاع الرحمان نے بل ایوان میں پیش کیا تھا تو اپوزیشن نے ہتک عزت بل کو کالا قانون قرار دیا اور اپوزیشن ارکان نے احتجاجاً بل کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں۔

    ہتک عزت بل کا اطلاق پرنٹ اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہو گا۔ بل کےتحت جھوٹی اورغیرحقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکےگا۔

    بل کا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یوٹیوب، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا۔

    کسی شخص کی ذاتی زندگی اورعوامی مقام کونقصان پہنچانےوالی خبروں پرکارروائی ہوگی۔ ہتک عزت مقدمات کیلئے خصوصی ٹریبونلز قائم ہوں گےجو6ماہ میں فیصلہ کریں گے۔ ہتک عزت بل کےتحت 30لاکھ روپےکا ہرجانہ بھی ہو گا۔

    خیال رہے کہ پاکستان بھر کی صحافتی تنظیموں نے پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا ہتک عزت قانون کو مسترد کردیا تھا۔

  • صحافی تنظیموں  نے پنجاب حکومت کا ہتک عزت قانون مسترد کردیا

    صحافی تنظیموں نے پنجاب حکومت کا ہتک عزت قانون مسترد کردیا

    لاہور : پی ایف یو جے اور کے یوجے دستور نے پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا ہتک عزت قانون کو مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پی ایف یو جے اور کےیوجےدستورنے پنجاب حکومت کاہتک عزت قانون مستردکردیا ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کاہتک عزت قانون پر اظہارتشویش کرتے ہوئے کہا کہ سچ کہنے،دکھانےاورچھاپنےپریقین رکھتے ہیں۔

    اےایچ خانزادہ کاکہنا تھا کہ صحافیوں کی زبان بندی کیلئےپنجاب حکومت آمرانہ ڈگر پرچل پڑی، ہتک عزت قانون کی منظوری پنجاب حکومت کومہنگی پڑے گی۔

    پی ایف یوجے نے مزید کہا کہ حکومت آئین سےمتصادم بل میں صحافیوں کےتحفظات کوختم کرے۔

    کےیوجےدستور نے کہا کہ آمرانہ ادوارمیں بھی آزادی صحافت پرشب خون مارنےکی کوشش کی گئی . آزادی صحافت پرشب خون مارنےکی کوشش صحافیوں نےاتحادسےناکام بنائی، صحافی برادری ایسےکسی قانون کو تسلیم نہیں کرےگی۔

    خیال رہے گذشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت بل دوہزارچوبیس کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے صحافیوں کا احتجاج مسترد کردیا گیا تھا.

    ایوان میں شدید ہنگامہ کے دوران اپوزیشن ارکان نے کالا قانون نامنظورکے نعرے لگائے اور بل کی کاپیاں پھاڑدیں، جس پر اجلاس پانچ منٹ کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔

    اپوزیشن لیڈراحمدخان بھچر نے بل منظورکرنے کے بجائے کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کیا،صحافیوں نے پریس گیلری سےواک آؤٹ کرکےایوان کے باہراحتجاج کیا۔

    صحافی رہنماؤں نے کہا پنجاب حکومت نےدھوکا دیا،شب خون مارا،بل کیخلاف سارےصحافی ایک ہیں ملک بھرمیں احتجاج ہوگا۔

  • جھوٹی خبروں کے تدارک کیلئے پنجاب حکومت کا بڑا فیصلہ

    جھوٹی خبروں کے تدارک کیلئے پنجاب حکومت کا بڑا فیصلہ

    حکومت پنجاب نے جھوٹی، من گھڑت اور غیر حقیقی خبروں کے تدارک کے لیے صوبے بھر میں ہتک عزت قانون کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا۔

    مذکورہ ہتک عزت قانون 2024کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ان جھوٹی اور غیرحقیقی خبروں پر ہوگا جس سے کسی فرد یا ادارے کا تشخص خراب ہو۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کا اطلاق ان جھوٹی خبروں کے تدارک کیلئے کیا جائے گا جو کسی شخص کی پرائیویسی اور پبلک پوزیشن کو خراب کرنے کیلئے پھیلائی جائیں گی۔

    ذرائع کے مطابق ہتک عزت آرڈیننس 2002 اس قانون کے اطلاق کے بعد سے تبدیل ہو جائے گا، پنجاب حکومت نے ہتک عزت قانون 2024 کا بل صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا۔

    ہتک عزت بل 2024 اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا، کمیٹی ہتک عزت بل 2024 پر اپنی سفارشات آئندہ دو روز میں پیش کرے گی۔

    کمیٹی کی سفارشات کے بعد بل صوبائی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا، اسمبلی سے منظوری کے بعد بل کا اطلاق صوبے میں فی الفور کر دیا جائے گا۔

  • ہتک عزت قانون میں سوشل میڈیا بھی شامل، ذرائع

    ہتک عزت قانون میں سوشل میڈیا بھی شامل، ذرائع

    لاہور : وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت گزشتہ روز صوبائی کابینہ کے اجلاس میں ہتک عزت کے قانون میں ترمیم اور دیگر امور پر غور و خوص کیا گیا تھا۔

    اس حوالے سے ذرائع وزارت قانون کا کہنا ہے کہ محکمہ قانون پنجاب کی جانب سے ہتک عزت قانون میں ترمیم کیلئے سفارشات تیار کرلی گئی ہیں۔

    ذرائع کے مطابق مجوزہ ترمیم کو کابینہ کے بعد صوبائی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا، ہتک عزت ایکٹ2017کا اطلاق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ہوگا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اب غلط خبر نشر اور شائع کرنے پر 6 ماہ قید یا 3 لاکھ روپےجرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

    ہتک عزت مقدمات کی سماعت کیلئے الگ عدالتیں قائم کی جائیں گی، عدالتوں کو 3 ماہ میں ہتک عزت کے مقدمات نمٹانے ہوں گے۔

    اس کے علاوہ نئی مجوزہ عدالتیں ہائی کورٹ کے ماتحت چیف جسٹس کی مشاورت سے بنیں گی، مجوزہ ترمیم کو کابینہ کے بعد صوبائی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گی۔