Tag: ہجرت

  • اردو ادب میں تقسیمِ ہند اور ہجرت کی کہانیاں

    اردو ادب میں تقسیمِ ہند اور ہجرت کی کہانیاں

    تقسیم ہند کے اعلان اور اس کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے اور جو فضا بنی، اس نے اردو ادب پر گہرا اثر ڈالا جس کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے۔ تقسیم اور آزادی کے موضوع پر بڑے مؤثر افسانے لکھے گئے۔ تقسیمِ ہند اور لاکھوں انسانوں کی سرحد کے دونوں اطراف ہجرت ایک ایسا موضوع ہے جس نے اردو ادب کو کئی لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا ہے۔ یہ افسانے بھی ہیں اور ناول بھی جن کی کہانیاں حزنیہ اور طربیہ بھی ہیں۔ یہ انسان کی مختلف شکلوں‌ اور اس کے مختلف روپ ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

    برصغیر کی تاریخ اور خاص طور پر تقسیم اور ہجرت کے موضوع میں‌ دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس حوالے سے چند ادیبوں‌ اور ان کی تخلیقات کا تذکرہ پیش ہے۔

    اردو ادب میں اگر اس دور سے جڑے انسانی المیوں کی حقیقی لفظی جھلکیاں‌ کسی نے پیش کی ہیں‌ تو وہ سعادت حسن منٹو ہیں۔ اس ادیب کی تحریروں کا مجموعہ ’سیاہ حاشیے‘ ان مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے جو ظلم اور ناانصافی کے ماحول کی مؤثر تصویر کشی کرتی ہیں۔

    تقسیم کے پس منظر میں انھوں‌ نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جیسا افسانہ لکھا جسے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

    پاکستان کے نام ور ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی اس دور کے فسادات کو موضوع بنایا۔ اسی طرح شوکت صدیقی، ڈاکٹر انور سجاد، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد نے بھی افسانے، کہانیاں اور ناولوں میں‌ تقسیم اور ہجرت کے المیوں، خوشی اور دکھ کی مختلف کہانیاں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان اور اُس سماج کی مختلف شکلیں‌ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ اور قرۃ العین حیدر کے ’آگ کا دریا‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں جو دراصل ہندوستان کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ کئی انسانی المیوں کی داستان ہے۔

    اُس زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات کی لفظی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتی تخلیقات میں ’کفن دفن، فساد، اندھیرا اور اندھیرا، ہفتے کی شام، لاجونتی، پشاور ایکسپریس، امرتسر اور لال باغ‘ بھی شامل ہیں۔

  • بہار کالونی جسے علم کا جزیرہ کہیے!

    بہار کالونی جسے علم کا جزیرہ کہیے!

    قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کے جنوب میں لیاری ندی کے کنارے، سمندر سے نزدیک ( اب سمندر دور چلا گیا ہے) بِہار سے ہجرت کرنے والوں کے لیے ایک کالونی آباد کی گئی جو بِہار کالونی کہلائی۔

    یہاں کسی نے جھگی نہیں ڈالی، ایک کمرے یا دو کمرے کا مکان سہی سیمنٹ بلاک سے ہی تعمیر کیا، جس نے بھی اِس کالونی کا نقشہ بنایا، خوب بنایا۔

    ندی کی طرف کسی مکان کا رخ نہیں تھا، گلیاں البتہ ندی کے رخ پر تھیں، ندی میں سیلاب آگیا۔ خوب بارش ہوئی، سمندر چڑھا ہوا تھا۔ ندی لبالب بَھر گئی اور پھر جب ندی کے اس طرف شیر شاہ کالونی کے مکانات زیرِ آب آنے لگے تو کسی نے سڑک کاٹ دی اور سارا سیلاب بہار کالونی میں داخل ہوگیا اور گلیوں سے ہوتا ہوا آگے نکل گیا۔ کسی مکان کو نقصان نہیں پہنچا، کوئی دیوار نہیں گری۔

    یہاں آباد ہونے والے بزرگوں میں ممتاز عالمِ دین مولانا عبدالقدوس ہاشمی، روزنامہ ”منشور“ دہلی کے ایڈیٹر حسن ریاض، اسلامی اسکالر پروفیسر یحیٰی ندوی، تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سید نجم الہدیٰ، میجر آفتاب حسن، سیّد محی الدین، سید تقی الدین۔ یہ حضرت حیدرآباد دکن میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھیں مشہور انگریز پائلٹ سڈنی کاٹن راتوں رات اُڑا کر کراچی لے آیا تھا۔

    ریٹائرڈ کیپٹن طاہر حسین ملک جو ٹی۔ ایچ ملک کے نام سے مشہور تھے، پاکستان آکر وکالت کی تعلیم حاصل کی اور پریکٹس کرنے لگے۔ 25 دسمبر (سال یاد نہیں) کو قائدِاعظم کے مزار پر قرآن خوانی کرتے ہوئے دل بند ہوگیا اور وہیں جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

    ڈاکٹر عقیل حسن، حکیم احسن ابراہیمی اور ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر جن کا نام بھول رہا ہوں انہوں نے بڑی خدمت کی کیوں کہ شروع میں ملیریا کا مرض عام تھا۔ زمین سیم زدہ تھی، بعد میں دو سیلابوں کی ’برکت‘ سے دو، دو فٹ مٹی نے آکر بہار کالونی کی تقدیر بدل دی۔

    جوانوں میں بیشتر میٹرک پاس کرکے آئے تھے۔ ملازمت کی اور شبینہ کلاسوں میں پڑھتے ہوئے گریجویٹ بنے، ماسٹرز کیا، پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اس طرح تقریباً سبھی خود پرداختہ و ساختہ(Self made) ہوئے۔ ان جوانوں میں ایک سید ابوظفر آزاد بھی تھے۔ علم اگر روشنی ہے اور جہالت اندھیرا تو یہ جوان آگے چل کر روشنی کا مینار نظر آیا۔ ایک آلِ حسن ملک ابراہیمی تھے جو انگریزی روزنامہ میں مراسلے لکھتے تھے۔

    (کتاب بہار دانش سے اقتباس)

  • اسلامی کیلنڈر میں‌ ایک ہفتہ کتنے دنوں‌ کا ہے؟

    اسلامی کیلنڈر میں‌ ایک ہفتہ کتنے دنوں‌ کا ہے؟

    وقت کی تقسیم، یعنی ثانیوں کو منٹوں میں اور انھیں گھنٹوں میں شمار کرتے ہوئے دنوں، ہفتوں اور مہینوں کے بعد سال اور صدیوں تک پہچان اور شناخت دیتے ہوئے ان کا حساب رکھنا ایک فن اور ریاضت رہا ہے جسے ہم انسانوں‌ نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے کیلنڈر کی شکل دے دی۔

    کیلنڈر کی بات کی جائے تو یہ سورج اور چاند دونوں‌ کی حرکت کے مطابق تیار کیے گئے۔ کلینڈروں‌ کی تاریخ اور ان کی قمری یا شمسی اعتبار سے تقسیم دفتر طلب اور باقاعدہ موضوع ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ جس طرح‌ عیسوی سال کے دنوں‌ کا حساب و شمار کرنے کے بعد کلینڈر کے مطابق اس کا ہفتہ سات دنوں‌ کا ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے اسلامی کیلنڈر میں بھی ہفتے کے سات دن مقرر ہیں؟

    اسلامی یا ہجری کیلنڈر کے سات دنوں‌ میں‌ سے پہلا الاحد (یکشنبہ) ہے جسے اوہد بھی کہتے تھے، دوسرا دن الاثنین (دو شنبہ) ہوتا ہے جسے اہون بھی کہتے رہے ہیں۔ اسی طرح تیسرا دن الثلاثا (سہ شنبہ) ہے جسے اور جُبار بھی کہا جاتا تھا۔ ہجری کیلنڈر کے مطابق ہفتے کا چوتھا دن الاربعا (چہار شنبہ) کہلاتا ہے جب کہ اسی دن کو دُبار بھی کہتے تھے۔ اسلامی ہفتے کا پانچواں دن الخمیس (پنجشنبہ) اور یہی مؤنس بھی پکارا جاتا رہا جب کہ چھٹا دن وہ مبارک دن ہے جسے اسلامی دنیا میں‌ الجمعہ (جمعہ) اور اکثر عروبہ بھی کہتے ہیں۔

    اب ہفتے کے آخری دن کی طرف چلتے ہیں جسے عام طور پر ہم ساتواں دن کہتے ہیں۔ اسے ہجری کیلنڈر کے مطابق عرب دنیا السبت (شنبہ) کے نام سے پہچانتی ہے۔

  • بندروں کی بھرمار سے گاؤں والے ہجرت پر مجبور

    بندروں کی بھرمار سے گاؤں والے ہجرت پر مجبور

    بھارت کے ایک گاؤں میں بندروں کی بھرمار نے گاؤں والوں کو ہجرت پر مجبور کردیا، یہ بندر فصلوں کو تباہ کر رہے تھے جبکہ گھروں میں گھس کر سامان بھی اٹھا لے جاتے تھے۔

    بھارتی گاؤں ناراس پور سے اب تک 20 سے زائد خاندان ہجرت کر کے جا چکے ہیں، وجہ اس گاؤں میں بندروں کی بھرمار ہے جن کی تعداد اندازاً 400 ہے۔

    یہ بندر فصلوں کو تباہ کر کے کسانوں کو مالی نقصان پہنچا رہے تھے جبکہ گھروں میں بھی گھس جاتے جہاں سے وہ مختلف سامان اٹھا کر بھاگ جاتے تھے۔

    تاہم اب گاؤں کے سرپنج نے گاؤں والوں کی مشکل حل کرنے کے لیے ان بندروں کو پکڑنے کے لیے ایک ٹیم بلا لی ہے جنہیں 15 سو روپے دیے جائیں گے۔ اس ٹیم نے اب تک 100 بندر پکڑ کر گھنے جنگل میں چھوڑ دیے ہیں جہاں سے وہ واپس نہ آسکیں۔

    سرپنچ کا کہنا ہے کہ ان بندروں نے گھروں اور فصلوں پر تباہی مچادی تھی اور اس وجہ سے کسان بہت پریشان تھے۔

    ان میں سے کچھ کسان ایسے تھے جنہیں صرف ایک ہی قسم کی فصل اگانے پر مہارت حاصل تھی اور ان کی وہ واحد فصل بھی بندروں کے ہاتھوں تباہ ہوجاتی تھی، چنانچہ کسان پریشان ہو کر یہاں سے جانے لگے تھے۔

    تاہم اب جب کسانوں کو علم ہوا کہ آہستہ آہستہ بندروں کا خاتمہ ہورہا ہے تو وہ اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں۔

  • امریکا سے کروڑوں تتلیوں کی ہجرت

    امریکا سے کروڑوں تتلیوں کی ہجرت

    امریکا کے سرد شمالی علاقوں سے کروڑوں تتلیاں میکسیکو کی طرف ہجرت کر گئیں۔ لاتعداد اڑتی تتلیوں نے آسمان کو ڈھانپ کر اسے اپنے رنگ میں رنگ لیا۔

    ہر سال کی طرح اس سال بھی کم و بیش ایک ارب تتلیاں شمالی امریکا سے نقل مکانی کر کے میکسیکو پہنچ گئی۔

    مونارک نسل کی یہ تتلیاں ہر سال نومبر میں 4 ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے سردیاں گزارنے میکسیکو کے گرم علاقے میں پہنچتی ہیں، جہاں سورج کی گرماہٹ سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی افزائش نسل بھی کرتی ہیں۔

    سیاہ اور نارنجی رنگ کی یہ تتلی امریکا اور کینیڈا میں بڑی تعداد میں موجود ہیں تاہم ہر سال یہ موسم سرما میں گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرتی ہیں اور سردیاں ختم ہونے پر واپس لوٹ آتی ہیں۔

    اس ہجرت کے دوران طویل سفر اور غذائی قلت کی وجہ ان تتلیوں کی بڑی تعداد اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی موت سے ہمکنار ہوجاتی ہے۔ اوسطاً ہر 10 میں سے 4 تتلیاں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل دم توڑ دیتی ہیں۔

    اس تتلی کی اوسط عمر بھی 2 سے 6 ہفتوں پر محیط ہے جس کے دوران یہ 250 سے ایک ہزار کے قریب انڈے دے سکتی ہیں۔

    اس تتلی کی افزائش کا خلا میں بھی کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔

  • منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور بٹوارے کے بعد ہجرت کرنے والوں پر جو قیامتیں گزریں، اسے اس دور میں خاص طور پر ادیبوں نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ پاک و ہند کے نام ور مصنفین نے ہجرت کرتے انسانوں کا دکھ اور اس راستے میں انسانیت کی پامالی کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔

    ہم اردو افسانے کے ایک معتبر نام سعادت حسن منٹو کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنف کے کمال کی نظیر ہیں اور ظلم و ناانصافی کے اس ماحول کی عکاس ہیں۔ یہ کہانیاں منٹو کے مجموعہ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ہیں۔

    دعوتِ عمل
    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔
    صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا
    ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’

    خبردار
    بلوائی مالکِ مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔
    کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔
    ‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’

    پیش بندی
    پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔
    دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔
    تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔
    جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔
    ‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’

  • سال 2018 میں 7 کروڑ افراد نے ہجرت کی، اقوام متحدہ

    سال 2018 میں 7 کروڑ افراد نے ہجرت کی، اقوام متحدہ

    نیویارک : اقوام متحدہ کے پناہ گزین کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مجموعی طور پر گذشتہ 20 برسوں میں دنیا بھر میں تارکین وطن اور بے گھر افراد کی تعداد دُوگنی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ 2018 میں 7 کروڑ سے زیادہ پناہ گزینوں یا مہاجرین کا اندراج عمل میں آیا۔ یہ ایک ریکارڈ ہے مگر یہ تعداد گھروں کو چھوڑنے والے افراد کی حقیقی تعداد سے کم ہے۔

    پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 7 کروڑ 8 لاکھ پناہ گزینوں کی تعداد محتاط عدد ہے۔ بالخصوص جب کہ وینزویلا میں بحران کے سبب فرار ہونے والے افراد کی تعداد کا مکمل طور پر شمار نہیں کیا جاسکا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سال 2017 کے اختتام پر تشدد کے سبب گھروں کو چھوڑ دینے پر مجبور ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 6.85 کروڑ تھی۔

    پناہ گزین کمیشن کے مطابق بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ ایتھوپیا میں نسلی تنازعات اور وینزویلا کا بحران ہے، یہاں معیشت کے ڈھیر ہونے کے سبب خوراک اور دواؤں میں قلت کے باعث روزانہ ہزاروں افراد راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 2016 کے اوائل کے بعد ے وینزویلا سے فرار ہونے والے افراد کی تعداد تقریبا 33 لاکھ ہے، مجموعی طور پر گذشتہ 20برسوں میں دنیا بھر میں تارکین وطن اور بے گھر افراد کی تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔

  • ہنگری میں ہجرت کرنے والے پرندوں کے علاج کا مرکز

    ہنگری میں ہجرت کرنے والے پرندوں کے علاج کا مرکز

    بڈاپسٹ: یورپی ملک ہنگری میں ہجرت کر کے آنے والے اور اس سفر میں زخمی ہوجانے والے پرندوں کے علاج کا مرکز قائم کردیا گیا۔

    مشرقی ہنگری کے ایک نیشنل پارک میں قائم اس مرکز میں افریقہ سے شمالی یورپ تک کا سفر کرکے آنے والے پرندوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس طویل سفر میں یہ پرندے بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر اپنے ننھے پاؤں یا پروں کو توڑ بیٹھتے ہیں۔

    اکثر ہائی وے پر سفر کے دوران یہ گاڑیوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔

    ہر سال اس مرکز میں ہزاروں پرندوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ان میں کچھ پرندے نہایت نایاب اقسام کے ہیں جن کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

    یہاں موجود ڈاکٹرز ان معصوم پرندوں کے زخموں کا علاج کرتے ہیں جبکہ ان کے ٹوٹے پاؤں یا پروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ صحت مند ہونے کے بعد ان پرندوں کو آزاد کردیا جاتا ہے۔

    یہ مرکز عام افراد کے لیے بھی کھلا ہے جہاں آںے والے افراد پرندوں کا علاج ہوتا دیکھتے ہیں اور روبصحت پرندوں سے باتیں بھی کرسکتے ہیں۔

    یاد رہے کہ پرندوں کی ہجرت ہر سال ہونے والا ایک معمول کا عمل ہے جس میں پرندے عموماً شمال سے جنوب میں گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ اس ہجرت کے بعد پرندے اپنی عارضی پناہ گاہوں میں افزائش نسل کا عمل بھی سرانجام دیتے ہیں۔

    تاہم ہجرت کے اس سفر میں ہر سال سینکڑوں پرندے موت کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب: اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں خوفناک بربادی و تباہی دیکھنے والے بچے شدید صدمے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

    حلب میں یونیسف کے فیلڈ آفس کے نگران رڈوسلا رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں تمام بچے اس سے متاثر ہیں اور تمام ہی بچے صدموں اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

    رزاک گزشتہ 15 سال سے یونیسف کے لیے حلب میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کی نفسیات میں یہ ڈرامائی اور پریشان کن تبدیلیاں پہلی بار دیکھی ہیں۔

    child-2

    اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی سے اب تک 8 ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں بچے جنگ کے دوران مارے گئے، کئی ایسے ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ قیدی بنا لیے گئے اور قید خانوں میں انہوں نے سخت اذیتیں سہیں۔

    یونیسف اہلکار رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں نصف سے زائد بچوں کو نفسیاتی علاج اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہے، ان میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں طویل عرصہ تک ماہرین کی زیر نگرانی طبی و نفسیاتی علاج چاہیئے۔

    :دوران جنگ پیدا ہونے والے بچے

    یونیسف کے مطابق حلب میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی عمریں اب 1 سے 5 سال کے درمیان ہیں اور اس مختصر زندگی میں انہوں نے سوائے خون خرابے اور بمباری کے کچھ نہیں دیکھا۔ ’اس نے ان کی نفسیات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے‘۔

    رزاک نے بتایا کہ ان بچوں کے لیے یہ ایک معمول کی سی بات بن گئی ہے کہ وہ کئی دن تک بھوکے رہیں، بمباری ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگیں یا اپنے والدین کے ساتھ زیر زمین بنکرز میں جا چھپیں۔ ’یہ ان کے لیے کوئی خطرے والی بات نہیں۔ یہ ان کے لیے روزمرہ کی معمول کی زندگی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    رزاک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے بھی عادی نہیں کہ ان کے والدین کو ان کی حفاظت کرنی ہے۔ کیونکہ بمباری کے وقت ان کے والدین خود اپنی جانیں بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں، علاوہ ازیں وہ خود اپنے لیے بھوک پیاس اور مختلف نفسیاتی مسائل سے برسر پیکار ہیں۔

    واضح رہے کہ مارچ 2011 سے شروع ہونے والی شام کی اس خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں ایسے ہیں جو شام سے ہجرت کر چکے ہیں اور مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں یا پناہ کی تلاش میں تا حال دربدر پھر رہے ہیں۔

  • فرنیچر ساز کمپنی کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    فرنیچر ساز کمپنی کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    کیا ہوگا جب آپ اپنے گھر کی آرائش کے لیے یہ سوچتے ہوئے سامان خریدنے جائیں کہ وہاں کیا کیا نیا دستیاب ہوگا، جس سے آپ اپنے گھر کو نئے انداز سے سجا سکیں گے، لیکن دکان میں داخل ہو کر آپ کو شدید جھٹکا لگے کیونکہ دکان کسی تباہ حال جنگ زدہ مقام کا منظر پیش کر رہی ہو۔

    ایسا ہی کچھ جھٹکا معروف فرنیچر ساز کمپنی اکیا کے گاہکوں کو لگا جب وہ جدید اور خوبصورت انداز کا فرنیچر اور سامان آرائش خریدنے کے لیے دکان میں داخل ہوئے اور انہیں لگا کہ وہ شام یا عراق کے کسی جنگ زدہ علاقہ میں آگئے ہوں۔

    ikea-2

    ناروے میں اکیا کا ایک اسٹور شامی خانہ جنگی کا شکار ایسے گھر کی طرز پر بنایا گیا ہے جو جنگ میں تقریباً تباہ ہوچکا ہو۔

    ikea-4

    اس انداز میں اسٹور کو ترتیب دینے کا مقصد دراصل عیش و عشرت کی زندگی میں مگن عام افراد کو شامی افراد کی حالت زار کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اکیا نے یہ مہم نارویجیئن ریڈ کراس کی معاونت سے شروع کی ہے۔

    نارویجیئن ریڈ کراس کے مطابق دمشق میں امدادی کاموں کے دوران ان کا سامنا رعنا نامی ایک خاتون سے ہوا جو اپنے خاندان کے دیگر 9 افراد کے ساتھ جنگ زدہ علاقہ سے ہجرت کر کے آئی تھی اور کسی طرح زندگی کی گاڑی کھینچ رہی تھی۔

    دس افراد پر مشتمل یہ خاندان 25 اسکوائر میٹر کے ایک خستہ حال کمرے میں رہ رہا ہے۔ ان کے علاقہ میں شدید خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی جس کے بعد وہ بہ مشکل جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے اور دمشق آگئے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    مزید پڑھیں: گہرے رنگوں سے سجے جنگی ہتھیار

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    رعنا کا کہنا تھا کہ افراتفری کے اس ماحول میں کوئی مکان ملنا تو ناممکن ہی تھا، لہٰذا وہ اس ادھ تعمیر شدہ کمرے میں رہنے لگے۔ رعنا اور ان کے اہل خانہ کو نہ ہی تو لباس میسر ہے اور نہ ہی سردی سے بچنے کے لیے کمبل، زمین پر بچھانے کے لیے گدے کی تمنا تو فقط عیاشی ہے۔

    اکیا کے اسٹور میں قائم یہ گھر اسی رعنا کے گھر کی ہو بہو نقل ہے۔

    اکیا کے دیگر اسٹورز کی طرح یہاں بھی دیوراوں پر پوسٹرز آویزاں کیے گئے ہیں۔ فرق یہ ہے ان پر مشہور افراد کے اقوال یا خوبصورت مناظر کی جگہ شامی جنگ کا شکار خستہ حال بچوں کی کہانیاں درج ہیں۔

    ikea-5

    ikea-7

    اسی طرح اشیا کی قیمت کے ٹیگ پر خریداروں سے شامی مہاجرین کی مدد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

    ikea-6

    ikea-3

    اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی اب تک 4 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہے۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔