پاکستانی آج 78 واں یوم آزادی منا رہے ہیں ایک 100 سالہ بزرگ عبدالشکور نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی دلخراش سنا دی۔
پاکستانی آج 78 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان بننے میں جہاں تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی جدوجہد کارفرما ہے۔ وہیں بھارت سے نئے ملک پاکستان بسنے کے لیے ہجرت کرنے والوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ یہ لہو سے رنگی اور آگ وخون کا دریا پار کر کے آنے والوں کی وہ داستان ہے جو سننے والوں کو لرزا دیتی ہے۔
آج بہت کم لوگ ایسے رہ گئے ہیں جنہوں نے پاکستان اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے دیکھا اور پھر وہ ہجرت کی صعوبتیں برداشت کر کے پاکستان پہنچے۔ ان میں ہی ایک فیصل آباد کے 100 سالہ بزرگ عبدالشکور بھی ہیں جنہوں نے والدہ اور دو بھائیوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی۔
فیصل آباد کے علاقے گوبند پورہ میں مقیم 100 سالہ عبدالشکور ہر سال 14 اگست کو جشن آزادی جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ انہوں نے بھیگی آنکھوں سے ہجرت کے وقت ڈھائے جانے والے مظالم اور مسلمانوں کے قتل عام کی داستان سنائی۔
قیام پاکستان کے وقت لدھیانہ کے گاؤں کوٹلہ اجنیر کے زمیندار خاندان سے تعلق رکھنے والے عبدالشکور کی عمر 22 سال تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے 6 ماہ قبل ان کے گاؤں میں بانی پاکستان قائد اعظم نے جلسہ کیا تھا اور الگ وطن کی نوید سنائی تھی۔
بزرگ نے بتایا کہ جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے والدہ اور دو بھائیوں کے ہمراہ لدھیانہ سے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ پیدل اور بیل گاڑی پر صعوبتوں بھرا سفر کر کے وہ والٹن کیمپ پہنچے۔
عبدالشکور جو ایک صدی دیکھ چکے ہیں۔ اپنے پوتوں اور پڑپوتوں کو قیام پاکستان کے خونچکاں حالات سناتے ہوئے اور اپنے آبائی علاقے کی یادوں میں گم ہو کر اداس اور آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت ہندو اور سکھ بلوائیوں نے دودھ پیتے بچوں کو نیزوں میں پرویا۔
ویڈیو رپورٹ: قمر الزماں
عبدالشکور اور ان جیسے لاکھوں مسلمان اس یقین کے ساتھ پاکستان پہنچے تھے کہ ایک آزاد ملک میں زندگی گزار سکیں گے ۔ اب یہ نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لئے بھرپور کردار ادا کرے۔