Tag: ہدایتکار برسی

  • مسعود پرویز:‌ لالی وڈ کو متعدد یادگار اور معیاری فلمیں دینے والا ہدایت کار

    مسعود پرویز:‌ لالی وڈ کو متعدد یادگار اور معیاری فلمیں دینے والا ہدایت کار

    مسعود پرویز نے بطور ہدایت کار پاکستانی سنیما کو متعدد یادگار فلمیں دیں اور وہ ان ہدایت کاروں میں سے تھے جنھوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے فلم بینوں کو معیاری تفریح فراہم کی۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ ہدایت کار مسعود پرویز 2001ء میں ‌آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرد تھے۔ اردو کے معروف افسانہ نگار اور فلم نویس سعادت حسن منٹو کا شمار بھی مسعود پرویز کے قریبی عزیزوں میں ہوتا تھا۔ ہدایت کار مسعود پرویز بھی امرتسر کے باسی تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور بطور ہدایت کار فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے۔ 1918ء میں پیدا ہونے والے مسعود پرویز نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی میں بطور ہیرو بھی کام کیا تھا۔ پاکستانی فلمی صنعت میں مسعود پرویز نے کئی برس کے سفر میں اپنی فنی مہارت اور تجربے سے بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی فلموں کو یادگار بنا دیا۔ انھوں نے اردو زبان میں 13 اور پنجابی میں اٹھ فلمیں بنائیں۔ مسعود پرویز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ نیف ڈیک نے ان کے فن و تجربہ سے استفادہ کیا۔ یہ وہ ادارہ تھا جس کے تحت قوم میں جذبۂ حب الوطنی ابھارنے اور جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے فلمیں‌ بنائی گئیں۔ اس ادارے کے تحت تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی کہانی سے ماخوذ فلم 1979 میں‌ خاک و خون کے نام سے بنائی گئی تھی۔

    1957ء میں مسعود پرویز کو بطور ہدایت کار فلم انتظار کے لیے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو 6 صدارتی ایوارڈ دیے گئے تھے جن میں سے ایک مسعود پرویز کے نام ہوا۔

    مسعود پرویز نے فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر فلم انڈسٹری کا سب سے متعبر نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا جب کہ ان کی ڈائریکش میں دوسری فلمیں بھی نگار ایوارڈ لینے میں کام یاب رہیں۔

    فلم ڈائریکٹر مسعود پرویز نے لاہور میں وفات پائی اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • وی شانتا رام: وہ باکمال ہدایت کار جس نے ایک عہد کو متاثر کیا

    وی شانتا رام: وہ باکمال ہدایت کار جس نے ایک عہد کو متاثر کیا

    مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک ایسے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر محفوظ ہے جس نے اپنے کام سے ایک عہد کو متأثر کیا۔ وہ تھیٹر سے فلم کی دنیا میں آئے تھے اور ہندوستانی سنیما کو کئی بے مثال اور یادگار فلمیں دیں۔ ہندوستانی فلمی صنعت میں ان کا نام ایک عظیم ہدایت کار کے طور پر زندہ ہے۔

    فلمی دنیا میں اپنی فنی عظمت کے نقوش ثبت کرنے والے شانتا رام نے 1901ء میں ہندوستان کے شہر کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام شانتا رام راجا رام ونیکدرے تھا۔ وی شانتا رام 30 اکتوبر 1990ء کو چل بسے تھے۔

    پروڈیوسر اور ہدایت کار وی شانتا رام نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا اور بعد فلم سازی اور اداکاری بھی کی، ان کی بنائی ہوئی فلمیں مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ 1929ء کی بات ہے جب شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے اپنے شہر کولہا پور میں پربھات فلم کمپنی شروع کی تھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    فلم ساز شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ ان کی فلمیں‌ سماجی جبر کے خلاف ہوتی تھیں۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کو اپنی فلموں میں نشانہ بناتے اور اس میڈیم کے ذریعے انسان دوستی کا پرچار کرتے تھے۔ فلم بینوں کو یہ موضوعات بہت متاثر کرتے تھے۔ شانتا رام فلمی دنیا میں‌ بھی اپنے صبر و تحمل، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفہ کے لیے مشہور رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی رنگین فلم ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولہا پور سے پونے منتقل کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں جو بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ وہ خود ترقی پسند خیالات اور امید افزا کہانیاں‌ سنیما کو دینے میں مصروف رہے۔ وہ ایک اختراع کار اور ایسے آرٹسٹوں میں سے تھے جن کی فلموں‌ میں سے سب پہلے ہندوستانی عورت کی زندگی کو بھی نمایاں کیا گیا۔

    1937ء میں شانتا رام نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    تین شادیاں کرنے والے وی شانتا رام بیس برس کی عمر میں‌ ویملا بائی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے جو ان کی پہلی شریکِ حیات تھیں۔ یملا بائی کی عمر شادی کے وقت 12 برس تھی۔ ان کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ 1941ء میں وی شانتا رام نے اپنے وقت کی معروف اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں سندھیا نامی ایک کام یاب اداکارہ ان کی تیسری بیوی بنی، جو بے اولاد رہی۔ وی شانتا رام تیسری شادی کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی دیکھی گئیں۔ شکنتلا ان کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلموں‌ کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی زیادہ تر فلمیں مقبول ہوئیں اور آج بھی فلمی ناقدین اور تبصرہ نگار اس دہائی میں شانتا رام کی فلموں کا ذکر کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج (جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔ سندھیا کو شانتا رام نے اپنی اس فلم میں کاسٹ کیا تھا۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔ یہ ایک انتہائی شان دار فلم تھی، جس نے فلم بینوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

    وی شانتا رام کا عروج 1950ء کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ وہ خود کو بدلتی ہوئی فلم انڈسٹری میں اجنبی محسوس کرنے لگے اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی ہندوستانی سنیما کے سنہرے دور کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔ وی شانتا رام کو 1985ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1992ء میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

  • انگمار برگمین:‌ عالمی سنیما کا معتبر نام

    انگمار برگمین:‌ عالمی سنیما کا معتبر نام

    عالمی سنیما کی تاریخ کے چند عالی دماغ اور باکمال ہدایت کاروں میں ایک نام انگمار برگمین کا بھی شامل ہے۔ ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ جیسی شاہ کار فلمیں برگمین نے ہی سنیما کو دی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی بہترین دستاویزی فلمیں‌ اس ہدایت کار کے فن و تخلیق میں انفرادیت کا ثبوت ہیں۔

    سنیما سے پہلے انگمار برگمین نے اسٹیج اور ریڈیو کی دنیا میں بھی اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کو منوایا تھا۔ ان کی فلموں کا موضوع عام حالات، ازدواجی زندگی کے مسائل اور مذہبی فکر پس منظر رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سنیما اور جدید دنیا سے تعلق جوڑنے والے انگمار برگمین نے ایک قدامت پسند اور شاہی دربار سے وابستہ پادری کے گھر میں‌ آنکھ کھولی تھی اور وہ ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں مذہبی تعلیمات اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔

    انگمار برگمین 14 جولائی 1918 کو سویڈن کے ایک شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کے غصّے سے سبھی ڈرتے، ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن برگمین نے اس ماحول اور والد کی خواہشات کے برخلاف الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔

    برگمین کی نے اسی مذہبی سوچ اور مخصوص فکر کے حامل افراد، ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، انسانوں کی محرومیوں کو بڑے پردے پر کہانیوں کی شکل میں پیش کیا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ ہی نہیں ڈائریکشن بھی انگمار برگمین کی تھی۔ یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی ہے، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے۔ 1937 میں انھوں نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا اور یہاں تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع رہا جس نے ان کے ذہن کو مزید سوچنے، کھوجنے اور سوالات قائم کرنے پر اکسایا۔ یہیں انگمار برگمین اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹ لکھنے لگے۔ 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اگلے برس، یعنی 1943 میں ان کی زندگی میں‌ ایلس میری فشر رفیقِ حیات بن کر شامل ہوئی مگر 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

    1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

    1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

    1976 میں انگمار برگمین نے ایک بدسلوکی پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا اور متعلقہ اداروں نے اسے غلطی قرار دے کر انگمار سے معذرت کی۔ لیکن انھوں‌ نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا تھا۔

    عالمی سنیما کا یہ بڑا نام 30 جولائی 2007ء کو منوں مٹی تلے جا سویا۔ انھیں انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔ تین مرتبہ انگمار برگمین کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1970ء وہ آسکر ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے جب کہ 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں برگمین کو ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی انگمار برگمین کے حصّے میں‌ آئے اور وہ سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت شمار کیے گئے۔

  • پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

    پرکاش مہرا: ایک کام یاب فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار

    پرکاش مہرا بولی وڈ کے وہ ہدایت کار تھے جن کی ایک فلم نے امیتابھ بچن کو ‘اینگری ینگ مین’ اور ‘سپر اسٹار’ بنا دیا تھا۔ 17 مئی 2009ء کو پرکاش مہرا چل بسے تھے اور امیتابھ بچن زندگی کے ان آخری لمحات میں بھی پرکاش مہرا کے ساتھ تھے۔

    13 جولائی 1939ء کو پرکاش مہرا نے اتر پردیش کے شہر بجنور میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں سنیما کا جادو ہندوستانیوں پر چل چکا تھا۔ اپنے وقت کے کئی بڑے فلم ساز، باکمال فن کار اور بڑے بڑے تخلیق کار فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے تھے اور ان کی فلمیں زبردست کام یابیاں سمیٹ رہی تھیں۔ متحدہ ہندوستان کے نوجوان سنیما کے دیوانے تھے اور جن کو موقع ملتا وہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کی خاطر اس وقت کے فلمی مرکز بمبئی پہنچ جاتے۔ پرکاش مہر بھی تقسیمِ ہند کے بعد بطور اداکار قسمت آزمانے ممبئی پہنچے تھے۔ یہ 60 کی دہائی تھی۔ ان کے کریئر کا آغاز فلم اجالا اور پروفیسر جیسی فلموں سے ہوا۔ لیکن پھر وہ ہدایت کاری کی طرف چلے گئے۔ 1968ء میں ایک فلم ‘حسینہ مان جائے گی’ ریلیز ہوئی اور یہ بطور ہدایت کار پرکاش مہرا کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں ششی کپور نے دہرا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے بعد پرکاش مہرا نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور شان دار کام کی بدولت فلمی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔

    1973ء میں فلم زنجیر ریلیز ہوئی جو نہ صرف پرکاش مہرا کے لیے بلکہ امیتابھ بچن کے کریئر میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فلم کا معاہدہ امیتابھ بچن نے ایک روپیہ میں کیا تھا۔زنجیر ریلیز ہوئی اور ہر طرف دھوم مچ گئی۔ اس شان دار آغاز کے بعد امیتابھ اور پرکاش مہرا کی سپر ہٹ فلموں کا گویا سلسلہ ہی چل نکلا۔ فلم لاوارث، مقدر کا سکندر، نمک حلال، شرابی، ہیرا پھیری اور دیگر فلموں نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔

    امیتابھ بچن کا بولی وڈ کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں میں پرکاش مہرا سے ایک خاص اور گہرا جذباتی تعلق تھا۔ پرکاش مہرا ہندی فلموں کے کام یاب ترین ہدایت کار اور فلم ساز تھے جن کا ایک حوالہ نغمہ نگاری بھی ہے۔ پرکاش مہرا مشہور فلمی شاعر انجان سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان سے گہری دوستی بھی تھی۔ انجان نے پرکاش کی شاعری سن کر ان کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی شاعری بہت مقبول ہوگی۔ پرکاش نے بعد اپنی کئی فلموں میں اپنے تحریر کردہ گیت شامل کیے جن میں او ساتھی رے، تیرے بنا بھی کیا جینا…، لوگ کہتے ہیں میں شرابی ہوں، جوانی جانِ من. حسین دلربا، دل تو ہے دل، دل کا اعتبارکیا کیجے وغیرہ شامل ہیں۔

    فلمی دنیا میں‌ یہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی کہ ان کی زیادہ تر فلموں کا ہیرو لاوارث ہوتا ہے، اکثر لوگ پرکاش مہرا سے اس پر تعجب کا اظہار کرتے اور اس کا سبب دریافت کرتے، لیکن پرکاش مہرا اس سوال پر ہنستے ہوئے لوگوں کو ٹال دیتے تھے۔

    بولی وڈ کے اس باکمال ہدایت کار فلم ساز کی ذاتی زندگی کا ایک بڑا المیہ بچپن میں ماں کے انتقال کے بعد والد کا دماغی توازن کھو دینا تھا اور اس کی وجہ سے پرکاش مہرا نے اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں کو ایک قسم کی محرومی اور تکلیف کے احساس کے ساتھ گزارا تھا۔ باپ کی یہ دیوانگی شاید انھیں ایک قسم کے لاوارث ہونے کا احساس دلاتی تھی اور شاید پرکاش مہرا نے اپنے اسی دکھ کو فلموں میں ایک لاوارث ہیرو کی شکل میں پیش کیا۔

    سال 2001ء میں فلم "مجھے میری بیوی سے بچاوٴ” کے بعد پرکاش مہرا کا فلمی سفر گویا تمام ہوگیا تھا۔ یہ فلم بری طرح‌ فلاپ ہوگئی تھی ان کی شریکِ حیات بھی انہی دنوں ان کا ساتھ چھوڑ گئیں جس کا پرکاش مہرا کو بہت دکھ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں جن لوگوں سے قریب رہے اور دوستی کی، اسے تاعمر نبھایا۔

  • بمل رائے: فلمی دنیا کا ساحر

    بمل رائے: فلمی دنیا کا ساحر

    ہندوستانی سنیما کو بمل رائے نے کئی یادگار فلمیں دیں جو اس نگری میں آنے والے فن کاروں‌ کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوئیں۔ بمل رائے ایک ایسے عظیم فن کار تھے جو اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے اور بامقصد تفریح کے قائل تھے۔ اسی سوچ کے ساتھ وہ بطور ہدایت کار سنیما میں مصروف رہے۔ سات جنوری 1966ء کو بمل رائے ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ اس فلم ساز اور ہدایت کار کی عمر 56 سال تھی۔

    بمل رائے کا تعلق سو پور سے تھا جو آج بنگلہ دیش کا حصّہ ہے۔ انھوں نے 1909ء کو ایک زمین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد کی وفات کے بعد کنبے کی ذمہ داریاں ان پر آن پڑیں۔ تقیسمِ ہند کے بعد نوجوان بمل رائے کلکتہ چلے گئے جہاں فلمی صنعت میں قدم رکھا۔ بمل رائے باصلاحیت اور نہایت ذہین تھے۔ وہ ہدایت کار بننے سے قبل ایک فوٹو گرافر کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں کام کرکے اپنی صلاحیتوں کو منوا چکے تھے۔ بمل رائے اپنے کام میں‌ ماہر تھے اور کیمرے کے پیچھے ان کی فن کارانہ صلاحیتوں اور نظر کا تال میل غضب کا تھا۔ اسی کی بدولت فلمی دنیا میں‌ قسمت نے ان پر یاوری کی اور ان کے سفر کا آغاز اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہوگیا۔ اس حیثیت میں کام کرکے بمل رائے نے اپنے علم اور تجربے میں اضافہ کیا۔ بعد میں بمبئی چلے گئے جہاں‌ فلمی صنعت میں کام اور مواقع بہت تھے۔ اس شہر میں‌ بمل رائے نے بھرپور انداز سے اپنے فنی اور تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ وہ بنگلہ اور ہندی سنیما کے کامل ہدایت کاروں میں شمار ہوئے۔

    دو بیگھا ان کی وہ فلم تھی جس نے زمین داروں اور ساہو کاروں کے ساتھ ایک کسان کی زندگی کو پردے پر پیش کیا۔ اس فلم نے تہلکہ مچا دیا۔ انھیں‌ عالمی فلمی میلے اور مقامی فلمی صنعت کے کئی ایوارڈ دیے گئے۔ اس فلم کو کلاسیک میں شمار کیا جاتا ہے۔

    بنگلہ فلموں کے بعد ہندی سنیما میں‌ انھوں نے سماجی موضوعات پر ایسی شان دار فلمیں دیں‌ جن کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ وہ نظریاتی آدمی تھے اور اپنے فن کو بامقصد اور تعمیری انداز میں‌ پیش کرنا جانتے تھے۔ بمل رائے ذات پات کے مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فلموں میں محکوم اور پسے ہوئے طبقات اور استحصال کا شکار افراد کی زندگی کو پیش کیا۔

    اس عظیم ہدایت کار نے اپنی فلموں کے ذریعے سماجی انقلاب لانے کی کوشش اور ناانصافیوں کی نشان دہی کرتے رہے۔ وہ فلم کی چکاچوند اور جگمگاتی ہوئی دنیا میں اپنے مقصد کو فراموش کرکے شہرت اور دولت کے پیچھے نہیں‌ بھاگے۔

    پرنیتا، دیو داس، سجاتا، پرکھ، بندنی اور مدھومتی وغیرہ بمل رائے کی شان دار فلمیں ہیں۔

  • فلمی دنیا کے ’’دادا‘‘ نذرُ الاسلام کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے معروف ہدایت کار نذرُ الاسلام نے 1977ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم آئینہ سے پہچان بنائی۔ یہ اردو زبان میں‌ بنائی گئی فلم تھی جو سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ یہ فلم 401 ہفتے تک پردے پر رہی جو ایک ریکارڈ تھا۔

    11 جنوری 1994ء کو نذرُ الاسلام وفات پاگئے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ فلمی صنعت میں انھیں ’’دادا‘‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا تھا۔ بطور ہدایات کار آخری زمانے میں انھوں نے فلم لیلیٰ بنائی تھی۔

    نذرُ الاسلام نے 19 اگست 1939ء کو کلکتہ میں آنکھ کھولی۔ وہ نیو تھیٹرز کلکتہ کے دبستان کے نمائندہ ہدایت کار تھے۔ فنی زندگی کا آغاز ڈھاکا سے بطور تدوین کار کیا۔ پھر ہدایت کار ظہیر ریحان کے معاون بن گئے۔ چند بنگالی فلموں کے بعد ایک اردو فلم کاجل بنائی جو بے حد مقبول ہوئی۔ انھوں نے بعد میں ایک بنگالی فلم اور ایک اور اردو فلم پیاسا کی ہدایات دیں۔ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکا کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے اور یہاں کئی کام یاب فلمیں‌ بنائیں۔

    مغربی پاکستان میں نذرالاسلام نے فلم ساز الیاس رشیدی کے ساتھ اپنے نئے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی فلموں میں حقیقت، شرافت، آئینہ، امبر، زندگی، بندش، نہیں ابھی نہیں، آنگن، دیوانے دو، لو اسٹوری، میڈم باوری کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ فلمیں باکس آفس پر کام یاب رہیں۔

    بنیادی طور پر ایک تدوین کار یا فلم ایڈیٹر تھے جنھوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی فلموں سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ معروف ہدایت کار ظہیر ریحان کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔

    نذرُ الاسلام کی ڈھاکہ میں دوسری اور آخری اردو فلم پیاسا (1969) تھی جس میں سچندا، رحمان اور عظیم مرکزی کردار تھے۔ سبل داس کی موسیقی میں احمد رشدی کا گیت "اچھا کیا دل نہ دیا، ہم جیسے دیوانے کو…” سپرہٹ ہوا تھا۔

    ہدایت کار نذر الاسلام کی پاکستان میں پہلی فلم احساس تھی جو 1972 میں‌ پیش کی گئی۔ اس کے گانے بہت مقبول ہوئے تھے اور گلوکاروں کو بھی اس فلم نے زبردست شہرت اور مقبولیت دی تھی۔ لیکن فلم کسی بڑی کام یابی سے محروم رہی تھی۔

    1980ء میں بھی نذرالاسلام کو تین فلموں کی ڈائریکشن دینے کا موقع ملا تھا۔ بندش ان میں سب سے کام یاب فلم تھی جو لاہور میں پلاٹینم جوبلی کرنے والی پہلی اردو فلم تھی۔ یہ فلم انڈونیشیا میں بنائی گئی تھی اور وہاں کی ایک اداکارہ بھی اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھی۔ نذرالاسلام نے کل 30 فلمیں بنائی تھیں جن میں سے 20 اردو فلمیں تھیں۔

    ماضی کے اس معروف فلمی ہدایت کار کو لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے منفرد ہدایت پرویز ملک کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے منفرد ہدایت پرویز ملک کا تذکرہ

    پرویز ملک اُن ہدایت کاروں میں‌ سے ایک تھے جنھوں نے اپنی فلموں کے لیے منفرد موضوعات کا چناؤ کیا، اور موسیقی اور شاعری پر خاص توجہ دی۔ انھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو متعدد کام یاب فلمیں دیں جو ان کی فنی مہارت اور کمال کی یادگار ہیں۔

    پرویز ملک 1937ء کو پیدا ہوئے تھے اور 2008 میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ پاکستانی فلموں کے چاکلیٹی ہیرو اور مقبول ترین اداکار وحید مراد کے ہم جماعت تھے۔ پرویز ملک ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکا چلے گئے جہاں انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور 1963ء میں وطن واپس آئے۔ یہاں اس وقت ان کے دوست اپنے والد کے فلمی ادارے کے تحت کام شروع کرچکے تھے جس میں پرویز ملک بھی شامل ہوگئے اور ہیرا اور پتھر، ارمان اور احسان جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔

    پرویز ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں کو ناقدین اور شائقین دونوں کی طرف سے بہت پزیرائی ملی۔ پہچان، تلاش، پاکیزہ، انتخاب، ہم دونوں، دوراہا اور غریبوں کا بادشاہ جیسی فلمیں پرویز ملک ہی کی یادگار ہیں۔

    پرویز کی تین فلموں گمنام، کام یابی اور غریبوں کا بادشاہ) کو اس وقت ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا گیا تھا۔ فلمی صنعت کے لیے ان کے کام اور خدمات پر انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‎ سے بھی نوازا گیا۔ پرویز ملک کو فلمی صنعت کے لیے ان کے منفرد کام اور فلموں کی بدولت مدتوں یاد رکھا جائے گا۔