Tag: ہراسمنٹ

  • سندھ میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ تیار

    سندھ میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ تیار

    کراچی: صوبہ سندھ میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ تیار کرلیا گیا۔ مردوں کا خواتین کو چھیڑنا، ہراساں کرنا اور جنسی تشدد ناقابل معافی جرم ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ یعنی سندھ پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس ایکٹ تیار کرلیا۔

    ایکٹ کے مطابق سندھ میں خواتین کو چھیڑنا، ہراساں کرنا اور جنسی تشدد ناقابل معافی جرم ہوگا۔ خواجہ سراؤں کو چھیڑنے والے بھی قانون کی گرفت میں آئیں گے۔

    تمام نجی و سرکاری اداروں میں خواتین کے تحفظ کے لیے کمیٹی بنانا لازم ہوگا۔ انکوائری اتھارٹی 3 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ خواتین ہراساں کیے جانے کی صورت میں تحریری شکایت کرسکیں گی۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    ایکٹ کے مطابق صوبائی محتسب سے بھی براہ راست شکایت کی جاسکے گی۔ انکوائری اتھارٹی شکایت پر 3 دن میں فیصلہ کرے گی۔ قصور وار شخص پر ملازمت سے برطرفی، تنخواہ و مراعات روکنے کی سزائیں بھی ایکٹ میں شامل ہے جبکہ چھیڑ خانی کرنے والے مردوں کی ترقی و انکریمنٹ روکنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

    صوبائی محتسب خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعے کا از خود نوٹس بھی لے سکے گا۔

    ملازمت کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کا ایکٹ آج کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ کابینہ سے منظوری کی صورت میں ایکٹ سندھ اسمبلی میں لایا جائے گا۔

  • 4 سال میں خواتین کو ہراساں کرنے کے 220 واقعات: سینیٹ میں رپورٹ پیش

    4 سال میں خواتین کو ہراساں کرنے کے 220 واقعات: سینیٹ میں رپورٹ پیش

    اسلام آباد: سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی محتسب نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 4 سال میں ہراساں کرنے کے 220 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 50 کی متعلقہ محکموں کی جانب سے انکوائریز کروا کر وفاقی محتسب کو دی گئیں۔

    تفصلات کے مطابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا۔ وزیر برائے آبی وسائل نے سینیٹ میں اپنا تحریری جواب جمع کروایا۔

    وزیر آبی وسائل کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے متعدد خلاف ورزیوں کی کوشش کی گئی، سندھ طاس معاہدے کے تحت تنازعات کو باضابطہ روک دیا گیا۔ کشن گنگا اور رتل پلانٹ منصوبوں کے نقشوں میں خلاف ورزی کی گئی۔

    وزیر کا کہنا تھا کہ مستقل سندھ طاس کمیشن کی سطح پر مذاکرات ناکام ہوئے۔ پاکستان معاملہ حل کروانے کے لیے عالمی عدالت کے پاس لے گیا۔ ثالثی عدالت نے کشن گنگا سے متعلق حتمی ایوارڈ کا اعلان 2013 میں کیا۔

    تحریری جواب میں مزید کہا گیا کہ میام، لور کلنائی، اوریکل رول پر اعتراض کمیشن کی سطح پر حل کیے جا رہے ہیں۔ معاملات کمیشن کے اجلاس میں زیر بحث لائے جائیں گے۔

    دوسری جانب خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق وفاقی محتسب کی 4 سال کی تفصیلی رپورٹ بھی سینیٹ اجلاس میں پیش کی گئی۔

    وفاقی محتسب نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 4 سال میں ہراساں کرنے کے 220 واقعات رپورٹ ہوئے، 50 کی متعلقہ محکموں کی جانب سے انکوائریز کروا کر وفاقی محتسب کو دی گئیں۔

    رپورٹ کے مطابق خواتین کو ہراساں کرنے میں ملوث 49 افراد پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ 2 واقعات میں ملوث افراد ملازمت سے فارغ کیے گئے، 7 واقعات میں ملوث ملازمین کو چھٹیوں پر بھیجا گیا جبکہ 15 واقعات میں ملوث افراد کی ترقیاں اور تنخواہوں میں اضافہ روکا گیا۔

  • می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    چند دن قبل ہالی ووڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر بالی ووڈ کی کئی اداکاروں نے یکے بعد دیگرے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جس نے ہالی ووڈ انڈسٹری سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

    معروف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سمیت اب تک ہالی ووڈ کی 20 سے زائد اداکارؤں نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں تھیں تب ہاروی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی، 2 اداکاراؤں نے ہاروی پر ریپ کا الزام بھی لگایا۔

    اداکاراؤں کے ان الزامات کے بعد امریکا اور برطانیہ کے تمام تحقیقاتی ادارے متحرک ہوگئے اور ہاروی وائنسٹن کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئیں۔

    ہاروی نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک فلم ساز ادارہ ’میرا مکس فلمز‘ بنایا تھا، اس ادارے نے ہاروی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا، جبکہ اس کے نام پر بنے دوسرے ادارے ’دی وائنسٹن‘ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اسے برطرف کر دیا ہے۔

    یہی نہیں بلکہ آسکر اور بافٹا ایوارڈز کی تنظیموں نے بھی اپنی جیوری سے ہاروی کی رکنیت معطل کر دی ہے۔

    جنسی ہراسمنٹ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کا آغاز ہوگیا جس کے تحت دنیا بھر کی خواتین نے آواز اٹھائی کہ وہ زندگی میں کس مرحلے پر جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنیں۔

    یہ ہیش ٹیگ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے حد مقبول ہوا اور بھارتی اداکارہ ودیا بالن اور ریچا چڈھا سمیت متعدد خواتین نے اس معاملے پر آواز اٹھائی کہ انہیں کس عمر میں، کن حالات میں اور کس طرح جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا گیا۔

    تاہم پاکستان میں اس مہم کو اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے کی کچھ متنازعہ ٹوئٹس نے معاملے کو ایک اور رنگ دے دیا اور ہراسمنٹ کا لفظ ہر مرد و خواتین کے منہ سے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں سنا جانے لگا جس نے اس معاملے کی حساسیت کو کم کردیا۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف شعبہ جات کی چند خواتین سے رابطہ کیا اور ان سے ان کے کیریئر میں ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کے تجربات کے بارے میں پوچھا۔

    عافیہ سلام ۔ صحافی / سماجی کارکن

    مختلف سماجی اداروں سے منسلک عافیہ سلام اس بارے میں کہتی ہیں کہ پاکستان میں دراصل جنسی ہراسمنٹ کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ ’جب آپ خود کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ انتہا پر پہنچ کر سوچتے ہیں کہ آپ کے ساتھ جسمانی طور چھیڑ چھاڑ یا زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے‘۔

    شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خواتین کی اکثریت نے اس معاملے میں اپنی آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ بقول عافیہ سلام کے، جب انہوں نے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا تو ان کی اپنی بیٹی نے پریشان ہو کر ان سے پوچھا، ’یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ کیا واقعی آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے‘۔

    تب عافیہ نے ہراسمنٹ کی صحیح لفظوں میں تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنسی ہراساں کرنے کا مطلب جنسی زیادتی نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’جنسی ہراسمنٹ اور جنسی حملہ دو الگ چیزیں ہیں، جنسی حملہ کرنا تشدد کے زمرے میں آتا ہے جبکہ جنسی طور پر ہراساں ہونا ایک عام بات ہے اور بدقسمتی سے شاید ہی کوئی پاکستانی عورت اس ہراسمنٹ سے محفوظ رہی ہو‘۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ ہر وہ شے جو آپ کو عدم تحفظ کا احساس دے، ہراسمنٹ ہے۔ ’اب یہ ہراسمنٹ خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے، اور مردوں کی طرف سے مردوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جب جنس مخالف کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ جنسی ہراسمنٹ کہلاتی ہے‘۔

    انہوں نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عمر کے اس حصے میں جب زندگی اپنی تمام تر آسائشوں سے بھرپور سے ہے، ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ ’نوجوانی میں کالج، یونیورسٹی کے لیے بسوں میں لٹک کر بھی سفر کیا ہے، بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر بسوں کا انتظار بھی کیا ہے، اس وقت اندازہ ہوتا تھا کہ عورت ہونا کتنا مشکل ہے‘۔

    باہر نکلنے والی خواتین کو گھورے جانا بھی نہایت پریشان کرتا ہے۔ اس بارے میں عافیہ کا کہنا تھا، ’خواتین کو گھورنے کے لیے تو شکل و صورت، اور عمر کی کوئی قید نہیں۔ پاکستان میں شعوری یا لا شعوری طور پر خواتین کو گھورے جانا بدقسمتی سے ایک نہایت عام بات بن چکی ہے، لیکن جو اس گھورنے کی ہراسمنٹ کا شکار ہورہی ہوتی ہیں کوئی ان سے جا کر پوچھے، ایسے وقت میں دل چاہتا ہے کہ انسان کہیں کسی کمرے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور کبھی باہر نہ نکلے‘۔

    خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے

    صوبہ پنجاب، اقوام متحدہ برائے خواتین (یو این ویمن) کے تعاون سے مختلف شہروں کے عوامی مقامات کو خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں چند روز قبل پنجاب حکومت اور یو این وومین کا ایک ایونٹ منعقد ہوا جس میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوشوں کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا گیا۔

    تقریب کے دوران پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف وومین کی چیئرمین فوزیہ وقار نے بتایا، ’ایک بار ایک نو عمر لڑکا مجھے گھور رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تم آخر دیکھ کیا رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا، کچھ خاص نہیں، بس خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے‘۔

    گویا یہ کام نا چاہتے ہوئے لاشعوری طور پر سرزد ہوتا ہے جو خواتین کا باہر نکلنا عذاب بنا دیتا ہے۔

    حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی جہاں خواتین کے بغیر برقعہ اور نقاب کے باہر نکلنے پر پابندی ہے، وہاں بھی لوگ برقع میں ملبوس خواتین کو گھورنے سے باز نہیں آتے۔ کسی انگریز نے اس صورتحال کا مشاہدہ کیا تو اسے بی ایم او ۔ بلیک موونگ آبجیکٹ کا نام دے ڈالا۔

    مرد کا ساتھ ہونا ضروری

    عافیہ سلام نے کہا کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی بعض اوقات آپ کو باہر نکلنے کے لیے کسی مرد کا ساتھ چاہیئے ہوتا ہے چاہے وہ آپ کا 10 سالہ بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

    انہوں نے کہا، ’اکثر لڑکیاں فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ وہ اس سیٹ پر بیٹھے جس کے دوسری طرف کوئی مرد موجود ہو۔ راشن لینے جارہے ہیں تو دکان داروں کی غیر ضروری چھیڑ چھاڑ اور گفتگو سے بچنے کے لیے بھی کسی مرد کا ساتھ ضروری ہے‘۔

    ان کے مطابق وہ تمام حالات جو آپ کو مردوں کی موجودگی میں غیر آرام دہ، غیر محفوظ اور ذہنی طور پر پریشان کرے، ہراسمنٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ ’چاہے وہ خاتون کی موجودگی میں مردوں کی آپس میں معنی خیز گفتگو ہو، خاتون سے براہ راست ذو معنی گفتگو ہو، بلا سبب دیکھنا ہو یا بغیر کسی ضرورت کے بات کرنا ہو۔ یہ ہراسمنٹ کا ابتدائی مرحلہ ہے‘۔

    دیگر مرحلوں میں دفاتر میں خواتین کے کاموں میں بلا وجہ مین میخ نکالنا، کسی ذمہ داری کے لیے مردوں کو صرف اس لیے ترجیح دینا کہ ’خواتین کیا کرسکتی ہیں‘، میٹنگز میں خواتین کی بات نہ سننا، اور اس کے بعد براہ راست خاتون کی ذات کو نشانہ بنانا، برا بھلا کہنا، خواتین کو کمتر محسوس کروانا آجاتے ہیں۔

    مزید دیگر مرحلوں میں خواتین ملازمین کا استحصال کرنا، ان کی سہولیات جیسے تنخواہ، تعطیلات وغیرہ میں خلل ڈالنا، انہیں جان بوجھ کر دیر تک دفتر میں بٹھائے رکھنا شامل ہے۔

    عافیہ کا کہنا تھا کہ پہلے کے زمانے اور تھے، پہلے جب دو دوست یا دو بھائی آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا انداز گفتگو اور الفاظ الگ ہوتے ہیں، لیکن اسی وقت ان کے بیچ کوئی خاتون یا ان کی بہن آجاتی تو ان کا انداز گفتگو بالکل مختلف اور تمیز دار ہوجاتا تھا، ’مگر اب یہ صورتحال خال ہی نظر آتی ہے‘۔

    عافیہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نئی نسل میں لڑکا اور لڑکی میں کوئی تخصیص ہی نہیں رہی، اکثر لڑکیاں بھی اپنے مرد دوستوں یا کولیگز کے ساتھ نامناسب انداز گفتگو اور گالیوں سے بھرپور خراب زبان میں گفتگو کرتی ہیں اور پھر آگے چل کر یہی عادت جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں جا پہنچتی ہے۔

     مرد بھی ہراسمنٹ کا شکار

    عافیہ کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی یہ صورتحال صرف خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آتی بلکہ کم عمر لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ’اپنے ملازمین، بڑے کزنز، استادوں کی طرف سے لڑکوں کو ہراس کیا جانا بھی عام بات ہے جو ان پر منفی ذہنی اثرات مرتب کرتا ہے جو تاعمر ان کے ساتھ رہتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق ’خواتین تو پھر اس معاملے میں کسی سے مدد لے سکتی ہیں، لڑکے بیچارے تو شرمندگی کے مارے کسی کو بتا ہی نہیں سکتے۔ وہ ساری عمر نہیں بتا پاتے کہ ان کے ساتھ بچپن میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے‘۔

    ڈاکٹر آزادی فتح ۔ استاد

    یونیورسٹی میں باشعور طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہوئے ایک خاتون استاد کو کس قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر آزادی فتح کہتی ہیں کہ اپنے کولیگز کی طرف سے بہت کم ایسی شکایات ہوتی ہیں، تاہم نوجوان طلبا کی جانب سے بے حد ہراسمنٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر آزادی جامعہ کراچی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچرر اپنی ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔

    ان کے مطابق طالب علموں کی جانب سے بعض اوقات جملے کسے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ پیش آتی ہے جب کوئی طالبہ حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی یونیورسٹی میں بطور معلمہ اپنے فرائض انجام دینے لگتی ہے۔ اب اسے ان لڑکوں کو پڑھانا ہے جو صرف ایک سال قبل تک اس کے کلاس فیلوز یا جونیئرز تھے، تو ایسی صورت میں وہ اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کو درگزر کرنا ہی بہتر سمجھتی ہے۔

    ڈاکٹر آزادی نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے سبب اب استاد اور طالب علم کا تعلق صرف درسگاہ تک محدود نہیں رہا، ’اب سوشل میڈیا پر آپ کے طلبا بھی آپ کے دوست ہیں جو آپ کی تصاویر پر کمنٹس کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے کلاس میں بھی بتاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طالب علم میسجز کر کے پرسنل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز استاد اور مذکورہ شاگرد کے درمیان ایک لکیر کھینچ دیتی ہے اور اب وہ معلمہ اس شاگرد کے ساتھ خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدم تحفظ کا یہ احساس آپ کو خواتین کولیگز کی جانب سے بھی ہوتا ہے جب وہ دیکھتی ہیں کہ آپ پراعتماد ہیں، اور مرد و خواتین کولیگز سے ایک ہی لہجے میں بات کر رہی ہیں، ایسے میں دیگر کولیگز کا کہنا ہوتا ہے، ’کیا بات ہے بہت ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں‘۔

    ڈاکٹر آزادی کے مطابق یہ رویہ آپ کو ذہنی طور پر بے سکون کردیتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتے۔

    ڈاکٹر سارہ خرم ۔ ڈاکٹر

    اس بارے میں جب ہم نے طب کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سارہ خرم سے بات کی انہوں نے طب کے شعبے میں موجود کئی اخلاقی اصول و قوانین کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ جب ایک مریض ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتا ہے تو وہ اس کو اپنی تمام تفصیلات دے دیتا ہے۔

    ان کے مطابق ’ایسے کئی کیسز ہوچکے ہیں جب میڈیکل پروفیشنلز نے ان معلومات کا غلط استعمال کیا۔ یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ جب مریض اپنی بیماری و دیگر تمام تفصیلات اپنے طبی ماہر کو بتاتا ہے کہ تو وہ معلومات اس کے پاس امانت ہوتی ہیں۔ مریض اپنے ڈاکٹر کو ان تمام محسوسات و کیفیات سے آگاہ کردیتا ہے جو وہ عموماً کسی سے نہیں کہتا۔ ’اب ڈاکٹر کو مریض کے نجی معاملات پر اخلاقی دسترس حاصل ہوجاتی ہے اور اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان معلومات کو اپنے پاس راز ہی رکھے‘۔

    اسی طرح انہوں نے کہا کہ جب کوئی خاتون کسی مرد ڈاکٹر یا مرد کسی خاتون ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو ڈاکٹر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں صرف ڈاکٹر ہی بن کر چیک کرے، مرد یا عورت بن کر نہیں۔ یہ اصول اس وقت بے حد ضروری ہے جب آپ مریض کے جسم کو چیک کر رہے ہیں۔

    بینش گل ۔ ایئر ہوسٹس

    اس حوالے سے جب ایک فضائی میزبان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی ایئرلائن کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر جنسی ہراسمنٹ کا تجربہ ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق ایک معاملے کے سلسلے میں انہیں کسی غلطی کا ذمہ دار ٹہرایا گیا تو ان سے اچھوتوں کی طرح برتاؤ کیا جانے لگا۔ دفتر میں کئی مقامات پر ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ معاملہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا۔

    بینش نے بتایا کہ اس شعبے میں آنے والی بعض خواتین ضروت مند بھی ہوتی ہیں جو بحالت مجبوری کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے خواتین عملے کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے ان کے ساتھ مرد عملے کی جانب سے بدسلوکی، اور بدزبانی عام ہے۔

    زینب مواز ۔ مصورہ

    زینب مواز ایک مصورہ ہیں اور مختلف اداروں سے آرٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے مشہور آرٹ کالج میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔

    اپنے تجربات کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ اس پیشے میں طاقت کا استعمال عام ہے۔ ’بطور ٹیچر مجھ پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ با اثر افراد کے بچوں کو امتحانات میں پاس کروں۔ اس طرح سے ان طلبا کا حق مارا جاتا تھا جو واقعی قابل ہوتے تھے‘۔

    زینب کہتی ہیں کہ ہمارے پاس زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ وہ ہراسمنٹ سینئرز، جونیئرز اور کولیگز کسی کی بھی جانب سے ہوسکتی ہے۔


    مذکورہ بالا تمام خواتین کی متفقہ رائے تھی کہ ہراسمنٹ اب ایسا موضوع نہیں رہا جس سے آنکھیں چرا لی جائیں۔ اس موضوع پر بات کرنے اور اس سے تحفظ کے بارے میں سوچنے کی ازحد ضرورت ہے۔

  • باہر نکلنے والی خواتین کو کیسا سلوک سہنا پڑتا ہے؟

    باہر نکلنے والی خواتین کو کیسا سلوک سہنا پڑتا ہے؟

    خواتین کو گھروں سے باہر تنگ کیا جانا اور اس موضوع پر گفتگو کرنا شاید ہمارے معاشرے کا ایک عام معمول بن چکا ہے۔ گھر سے باہر راہگیروں کی جانب سے چھیڑ چھاڑ، آوازیں کسنا، ٹکرا کر گزرنا اور گھورنا وہ تجربات ہیں جن سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی ہر باہر نکلنے والی لڑکی کو گزرنا پڑتا ہے۔

    کچھ مرد خواتین کو تنگ کرنے والے افراد کو برا سمجھتے ہیں اور خود بھی ایسی حرکتوں سے پرہیز کرتے ہیں، لیکن اگر انہیں حقیقت میں کبھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے جس سے روزانہ خواتین گزرتی ہیں تو یقیناً ان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو میں اسی صورتحال کو پیش کرنے کے لیے ایک منفرد تجربہ کیا گیا۔ تجربے کے تحت معروف اداکار ثاقب سمیر کو برقع پہنا کر ایک دن گھر سے باہر گزارنے کے لیے کہا گیا۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    اس ایک دن میں ثاقب کو جو تجربات ہوئے وہ انہیں بے حال کردینے کے لیے کافی تھے۔

    سب سے پہلے وہ بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ چند منٹوں بعد ہی وہاں سے گزرنے والے راہگیروں نے ان کا کھڑا ہونا محال کردیا۔ رکشے والے اور بائیک والے رک رک کر انہیں اشارے کرنے لگے۔

    بعد میں جب وہ بس میں بیٹھے تب ان کے سامنے ایک اور شخص آ کر بیٹھ گیا جو گٹکا تھوکنے کے بہانے سے ان کی کھڑکی کے پاس آ کر ان کے قریب ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ بعد ازاں اس شخص نے ان کے کاندھے کو چھو کر سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ بھی کیا۔

    اس کے بعد جب ثاقب ایک مارکیٹ میں گئے تو دکان دار نے مختلف بہانوں سے ان کا ہاتھ چھونے کی کوشش کی۔ اس دوران کئی افراد ان سے ٹکرا کر بھی گزرے۔

    مزید پڑھیں: عالمی یوم خواتین پر سب سے ایماندارانہ پیغام

    دن کے اختتام پر بالآخر جب ثاقب نے اپنا برقع اتارا تو وہ پسینے میں شرابور اور سخت بے حال تھے۔ ان کی حالت اس قدر ابتر تھی کہ وہ کچھ بولنے سے بھی قاصر تھے۔

    انہوں نے کہا، ’میں خود مرد ہوں، لیکن اس وقت مجھے مردوں پر شدید غصہ آرہا ہے‘۔

    ثاقب کا کہنا ہے کہ اس تجربے کے دوران بعض اوقات تو انہیں اس قدر شدید غصہ آیا کہ ان کا دل چاہا کہ وہ برقع اتار پھینکیں اور سامنے موجود شخص کی لاتوں اور گھونسوں سے تواضع کردیں، لیکن مصلحتاً وہ خاموش رہے۔

    ثاقب کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کو چھیڑنے والے مردوں کے ساتھ بھی یہی تجربہ کیا جائے، شاید اسی طرح انہیں اپنے گھناؤنے افعال کا احساس ہوسکے اور وہ باز آجائیں۔

  • خواتین اپنے ساتھ زیادتی کی خود ذمہ دار ہیں: بھارتی سیاستدان

    خواتین اپنے ساتھ زیادتی کی خود ذمہ دار ہیں: بھارتی سیاستدان

    نئی دہلی: بھارت میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات کے بعد متنازعہ بیانات نے ایک بار پھر طوفان کھڑا کردیا۔ اس بار یہ بیان بھارتی سیاستدانوں نے دیا ہے جن میں کرناٹک کے وزیر داخلہ بھی شامل ہیں۔

    اپنے بیانات میں بھارتی سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ سال نو کے جشن کے دوران بنگلور میں خواتین کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے واقعات کی ذمہ دار خواتین خود ہیں۔

    مزید پڑھیں: نربھے ریپ کیس ۔ مجرم نے مقتولہ کو ہی زیادتی کا ذمہ دار قرار دے دیا

    واضح رہے کہ بھارتی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں نئے سال کا جشن اس وقت ناخوشگوار صورتحال میں تبدیل ہوگیا جب نشے میں دھت افراد نے وہاں موجود خواتین کو بری طرح ہراساں کیا اور ان سے بدسلوکی کی۔ بعد ازاں منظر عام پر آنے والی فوٹیج میں متعدد لڑکیوں اور خواتین کو روتے ہوئے دیکھا گیا۔

    واقعہ کے بعد ملک بھر میں غم و غصہ پایا جارہا تھا کہ بھارتی سیاستدانوں کی جانب سے دیے گئے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ملک بھر میں طوفان کھڑا ہوگیا۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں خواتین پر حملوں سے تحفظ کے لیے ’پینک‘ بٹن

    بھارتی ریاست کرناٹک کے وزیر داخلہ جی پرمیشور سے جب نیو ایئر کی شام پیش آنے والے واقعات کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ خواتین کا مغربی لباس دراصل مردوں کو ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

    home-minister
    کرناٹک کے وزیر داخلہ

    انہوں نے کہا کہ جب خواتین مغربی لباس پہن کر باہر نکلیں گی تو اس طرح کے واقعات تو پیش آئیں گے۔

    دوسری جانب سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو اعظمی نے بھی ان واقعات کا ذمہ دار خود خواتین کو قرار دے دیا۔

    اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا، ’آج کل کے دور میں جو خاتون جتنا کم لباس پہنتی ہے، اسے اتنا ہی زیادہ فیشن ایبل سمجھا جاتا ہے۔ اگر میری بیٹی یا بہن بھی سورج غروب ہونے کے بعد رات دیر تک کسی اجنبی شخص کے ساتھ باہر رہے، تب بھی یہ غلط بات ہے‘۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    بھارتی سیاستدانوں کے ان بیانات کے بعد ملک بھر میں شدید اشتعال پایا جارہا ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور دیگر افراد نے کرناٹک کے وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

  • خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے سدباب کے لیے موبائل ایپ تیار

    خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے سدباب کے لیے موبائل ایپ تیار

    لاہور: خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے ازالے کے لیے اب جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ پنجاب سیف سٹی انتظامیہ نے ایسی موبائل ایپ بنا لی ہے جو ایسے واقعات کے خلاف اقدامات کرنے میں مدد دے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے اشتراک سے پنجاب سیف سٹی انتظامیہ نے ایک موبائل ایپ بنائی ہے جس کے تحت خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعے کو فوری رپورٹ کر سکیں گی۔

    اس ایپ کے تحت اسے استعمال کرنے والی خاتون جیسے ہی وارننگ سگنل پریس کریں گی، فوراً ہی ڈولفن فورس کے قریبی دستے کو واقعہ اور جائے وقوع کی اطلاع موصول ہوجائے گی اور وہ حرکت میں آجائے گی۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ڈولفن فورس کے علاوہ قریبی پولیس اسٹیشن میں اسی کام کے لیے متعین اہلکار اور پولیس رسپانس یونٹ کے اہلکار بھی ان شکایات پر ایکشن لینے کے ذمے دار ہوں گے۔

    اینڈرائیڈ فون کے لیے بنائی جانے والی اس ایپ میں موصول ہونے والی شکایت کے ازالے کے لیے اسے سیف سٹی پراجیکٹ کے ساتھ اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔

    پنجاب سیف سٹی انتظامیہ کے چیف آپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر خان کا کہنا ہے کہ یہ ایپ نہ صرف 24 گھنٹے فعال رہے گی بلکہ اسے انٹرنیٹ کا کنکشن نہ ہونے کی صورت میں بھی بآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی ۔ مینار پاکستان نارنجی رنگ سے روشن

    پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار کے مطابق اس ایپ کے ذریعہ خواتین صوبے میں اپنے (خواتین کے) متعلق قوانین سے بھی آگاہی و معلومات حاصل کرسکتی ہیں۔

    اس منصوبے کا پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر آج افتتاح کردیا جائے گا۔