ہرمن ہیسے کو شروع ہی سے جادوئی کہانیاں اور دیو مالائی داستانیں پسند تھیں۔ وہ کہانیاں پڑھتا اور اپنے تصور میں انوکھی اور انجانی دنیا آباد کرکے لطف اندوز ہوتا رہتا۔ ان کہانیوں میں وہ اس قدر ڈوب جاتا کہ ان کے کردار اسے اپنے اردگرد نظر آنے لگتے اور ہرمن ہیسے اپنی چشمِ تصور سے پُراسرار واقعات کو رونما ہوتے دیکھتا۔ بعد کے برسوں میں وہ خود ایک ناول نگار کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانا گیا اور اس کی کہانیوں کو بے پناہ مقبولیت ملی۔
ہرمن ہیسے 19 جولائی 1877 کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا اور ایسے گھرانے کا فرد
بنا جس کا ماحول مذہبی اور روایات کا پابند تھا۔ اس کے والدین اپنے مذہب کی تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزارتے اور وہ ان کے جانے کے بعد اپنے چشمِ تصور سے ایک مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔ ہرمن ہیسے نے شعور اور آگاہی کی مسافتیں طے کیں تو خود کو لکھنے کی طرف مائل پایا۔ اس نے قلم تھاما اور اپنے تخیل کے سہارے کہانیاں لکھنے لگا۔ مگر اسے یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کی تعریف ہو گی اور اس کے ناول مقبول ہوں گے۔ہرمن ہیسے کو لکھنے کا شوق اس وقت ہوا جب اس نے کتابوں کی خرید و فروخت سے معاش کا سلسلہ باندھا۔ اسی دوران وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر ایک ادیب کی حیثیت سے سفر شروع ہوگیا۔
اس جرمن ادیب نے شاعری بھی کی، مگر اس کی وجہ شہرت فکشن ہے۔ ہرمن ہیسے 25 سال کا تھا جب اس کا ایک شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے پذیرائی نہ مل سکی۔ 1905 میں اس نے ایک ناول Beneath the Wheel شایع کروایا جو ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ حوصلہ افزائی نے ہرمن ہیسے کے قلم کو مہمیز دی اور اس نے کئی افسانے اور کہانیاں تخلیق کیں۔ ان کا موضوع یورپ کے معاشرتی رویے اور اخلاقی قدریں تھیں جن کو اس نے اپنے کرداروں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ وہ معاشرے کا تضاد، کھوکھلا اور بگڑتے ہوئے طور طریقوں کو قارئین کے سامنے لایا۔
The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
اس کے ناول
سدھارتھ کا اردو ترجمہ ہندوستان بھر میں مقبول ہوا۔ اس پر ناقدین اور اہل قلم نے تبصرہ کیا اور آج بھی اس ناول اور اس کے مرکزی کردار پر بحث کی جاتی ہے اور یہ آج بھی مقبول ناول ہے۔ ہرمن ہیسے کا یہ ناول 1922 میں شایع ہوا تھا اور 1946 میں سدھارتھ پر ناول نگار کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ہرمن ہیسے اپنے مذہبی اور فرسودہ سسٹم کے خلاف مختلف صورتوں میں بغاوت کرتا رہا۔ وہ ایک مشنری اسکول سے بیزار ہو کر بھاگ گیا تھا۔ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی اور سوسائٹی کی گلی سڑی روایات اور جبر کے خلاف بولتا بھی رہا۔ 1911ء میں ہرمن ہیسے نے برصغیر کا رخ کیا اور سیلون، سنگا پور، سماٹرا اور انڈیا کا سفر کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت اس کو جرمن فوج میں رضا کار کے طور پر قیدیوں کی نگرانی کرنا پڑی اور وہیں اس نے جنگ اور اس کی ہولناکی کا گہرا ادراک کیا اور رزمیہ شاعری کے خلاف لکھنے لگا۔
جرمنی میں دائیں بازو کے متعصب قلم کار ہرمن ہیسے کی مخالفت کرنے لگے اور جب اسے غدار قرار دے کر اس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی گئی اور تو وہ سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ ہرمن ہیسے نے تین شادیاں کی تھیں، مگر اس کی ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں رہی۔ بعض وجوہ کی بنا پر اس نے اپنا نفسیاتی اور روحانی علاج بھی کروایا۔ دراصل ہیسے کے والد کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شدید بیمار ہوا اور اس کی بیوی پاگل ہو گئی۔ یہ سب واقعات بھی اس کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بنتے رہے۔ وہ 9 اگست 1962ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔
کہتے ہیں کہ آخری عمر میں وہ گوشہ نشیں ہو گیا تھا اور گھر کے صدر دروازے پر یہ تحریر چسپاں کردی تھی کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔