Tag: ہشام اول

  • ہشام اوّل: اندلس کا ایک نیک نام حکمراں

    ہشام اوّل: اندلس کا ایک نیک نام حکمراں

    اندلس کی امارتِ امویہ کا تذکرہ مسلم تاریخ میں پڑھنے کو ملتا ہے جس کا بانی عبد الرحمن الداخل تھا۔ اسی عبدالرحمن کے بیٹے ہشام نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کا جانشیں بنا اور 788ء سے 796ء تک حکمرانی کی۔ محققین کے مطابق ہشام کا انتقال 16 اپریل کو ہوا تھا۔ اسے ہشام اوّل کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    ہشام اوّل یا ہشام بن عبدالرحمن کے باپ نے 756ء میں خلافتِ عباسیہ کے مقابل امارتِ قرطبہ کو ایک خود مختار امیر کے طور پر سنبھالا تھا۔ عباسیوں کے دمشق پر قبضہ کرنے اور اموی خلافت کو ختم کرنے کے بعد عبدالرحمن اموی خاندان کا زندہ بچ جانے والا ایک شہزادہ تھا۔ بعد میں اس کی حکومت کو اس کے بیٹے ہشام نے آگے بڑھایا۔ ہشام کو اپنے اقتدار کے شروع ہی میں اپنے بھائیوں سلیمان اورعبداللہ کی جانب سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ان کو زیر کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ ہشام کے بارے میں تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ وہ ایک رحم دل، نرم طبیعت کا مالک، عادل اور فراخ دل حکم ران تھا۔ وہ مذہب کا بھی پابند تھا۔ ابن الاثیر کے الفاظ میں اس کو عمر بن عبدالعزیز جیسا حکم ران کہا جاسکتا ہے۔ مشہور ہے کہ وہ بھی معمولی کپڑے پہن کر قرطبہ کے بازاروں میں گھومتا پھرتا اور عوام کی شکایات سنتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہشام کی سخاوت کی کوئی حد نہ تھی۔ ہشام ہر مفلس کا مددگار اور ہر مظلوم کا حامی تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود اس کا نظم و نسق بہت سخت تھا۔ بغاوتوں کو ہشام نے بڑی سختی سے کچلا اور اس حوالے سے کوئی رعایت نہ کی۔ وہ معمولی جرم کو بھی نظرانداز نہیں کرتا تھا۔

    ہشام کے دور میں بعض اہم تعمیراتی کام بھی ہوئے۔ اس نے قرطبہ کی اس جامع مسجد کو مکمل کرایا جسے اس کے والد نے شروع کیا تھا۔ اس نے اپنی مملکت کے شہروں میں بڑی بڑی عمارتیں بنوائیں اور کئی دفاتر تعمیر کیے۔ اس کی حکومت کو 793ء میں مسیحی فرینکس سے خطرہ ہوا تو ہشام نے لشکر کشی کی۔ ہشام ابتدائی بغاوتوں پر قابو پانے کے بعد ایک باغی سردار مطروح بن سلیمان کو سزا دینے کے لیے بڑھا، جس نے فرینک شارلمین کو ہسپانیہ پر حملہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ باغی سردار مارا گیا، سارا گوسا اور بارسیلونا ایک مرتبہ پھر اموی حکمران کے زیراثر آ گئے۔ اپنی مملکت میں امن قائم کرنے کے بعد ہشام اس قابل ہو گیا تھا کہ شمالی ہسپانیہ کی طرف توجہ کر سکے، سرحد کے مسیحی قبیلوں نے حملے شروع کر رکھے تھے۔ ان کی سرکوبی ضروری تھی۔ چنانچہ اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کرتے ہوئے اپنی فوج کیتبالونیہ سے فرانس میں داخل کی اور دوسرے لشکر نے گلیشیا کے قبائلی لوگوں کو شکست دی۔ ان قبیلوں نے عربوں کے ساتھ صلح کر لی۔

    ہشام کے دور میں مالکی فقہ کو رواج دیا گیا۔ وہ امام مالکؒ کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا، چنانچہ ہشام کی کوشش سے جزیرہ نما ہسپانیہ میں مالکی فقہ رائج ہو گیا۔ ہشام کا اقتدار آٹھ سال قائم رہا۔ بوقت وفات اس کی عمر صرف 40 برس تھی۔ ہشام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اسلامی قوانین کے نفاذ کی پوری کوشش کی اور خود بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہا۔

    ہشام کی تدفین قصر قرطبہ کی گئی۔ اسے خدا نے چھے بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا۔

  • ہشام اوّل کے خلاف سلیمان کی بغاوت: امارتِ قرطبہ کا ایک ورق

    ہشام اوّل کے خلاف سلیمان کی بغاوت: امارتِ قرطبہ کا ایک ورق

    مؤرخین نے ہشام اوّل کو نرم دل، رعایا پرور اور نیک و عبادت گزار حکم راں لکھا ہے جو بہترین نظم و نسق اور اپنے حسنِ سلوک کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ وہ امارتِ قرطبہ کے بانی اور پہلے حکم ران عبدالرّحمٰن الداخل کا بیٹا تھا جو اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا۔

    ہشام بن عبدالرحمٰن الداخل کا سنِ پیدائش 26 اپریل 757ء بتایا جاتا ہے جس کی زندگی کا سفر آج ہی کے دن 796ء میں ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ وہ امارتِ قرطبہ کے دوسرے حکم ران کی حیثیت سے 788ء میں تخت پر بیٹھا تھا۔ ہشام ایک علم پرور، ادب دوست خلیفہ ہی مشہور نہیں بلکہ اپنے محاسن و اخلاق کی بنا پر عوام میں‌ بھی مقبول رہا۔

    وہ قرطبہ میں پیدا ہوا تھا۔ ہشّام کی کنیت ابوالولید تھی۔ اسے عبدالرحمٰن الدّاخل نے اپنی زندگی میں ہی اپنا ولی عہد مقرر کر کے بطور جانشین اس کے نام کا اعلان کر دیا تھا۔ ہشّام کے بھائی سلیمان کو والد کا یہ فیصلہ سخت گراں‌ گزرا تھا، لیکن مجال نہ تھی کہ اختلاف کرتا۔

    مؤرخین اس سے متعلق ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے: ایک مرتبہ عبدالرحمٰن الدّاخل نے اپنے ان دونوں بیٹوں کی ذہانت اور قابلیت کی آزمائش کے لیے انھیں‌ اشعار سنا کر شاعر کا نام پوچھا۔ ہشام نے شعر سن کر بتایا کہ اس کا حافظہ کہتا ہے یہ اشعار امرؤ القیس کے ہیں اور میرا گمان ہے کہ یہ اشعار اس نے ہمارے امیر ہی کی شان میں کہے ہیں۔ عبدالرحمٰن نے اسے سراہا اور اس کا جواب قبول کیا اور پھر دوسرے اشعار سلیمان کے سامنے پڑھے مگر اُس نے کہا کہ مجھے عربوں کے اشعار یاد کرنے کی فرصت نہیں، کیوں کہ مجھے اس سے زیادہ دوسرے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں۔ عبدالرحمٰن یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ یہ واقعہ احمد محمد المقری کی مشہور تصنیف میں موجود ہے۔

    788ء میں عبدالرحمٰن الدّاخل کا انتقال ہو گیا۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ: ’’جس وقت عبدالرحمٰن نے سفرِ آخرت اختیار کیا تو اُس وقت اُس کا بڑا بیٹا سلیمان طلیطلہ میں حکم رانی کر رہا تھا اور اُس کا دوسرا بیٹا ہشام ماردہ کا انتظام سنبھالے ہوئے تھا۔ عبدالرحمٰن نے اِسی کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ تیسرا بیٹا عبد اللہ مسکین وفات کے وقت قرطبہ میں موجود تھا۔ اپنے باپ کے مرنے پر اپنے بھائی ہشام کی حکومت کی بیعت کر لی اور اُس کو خبر پہنچائی۔ چنانچہ ہشام ماروہ سے قرطبہ آیا اور حکم رانی کی عبا پہن کر حکم رانی کرنے لگا۔

    ہشام کی حکومت قائم ہوتے ہی اُس کے بڑے بھائی سلیمان نے بغاوت کر دی اور اپنے ہمراہ طلیطلہ کے باشندوں سمیت جنگ پر اتر آیا۔ ہشام کا چھوٹا بھائی عبد اللہ بھی پسِ پردہ سلیمان سے جا ملا اور محض غائبانہ بیعت کی آڑ میں موقع پاکر قرطبہ سے فرار ہو گیا اور سلیمان کے پاس پہنچ کر بغاوت کے منصوبے میں اُس کا شریکِ کار ہو گیا۔ ہشام نے دونوں کو پیش قدمی کرنے کا موقع نہ دِیا خود فوج لے کر روانہ ہو گیا۔ طلیطلہ شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے وہاں مقابلہ نہ کرنے کا سوچا۔ طلیطلہ کے محاصرے کو دو مہینے گزر گئے مگر مقابلے کے لیے سلیمان کی کوئی سپاہ نہ نکلی اور ہشام واپس قرطبہ آگیا۔ عبد اللہ نے جب دیکھا کہ ہشام کی فتح مندی عروج پر ہے تو وہ سلیمان کو چھوڑ کر تمرد چلا گیا اور ہشام پر بھروسا کرتے ہوئے بغیر امان طلب کیے بغیر کسی اطلاع کے قرطبہ میں آگیا جہاں ہشام اُس سے حسنِ سلوک سے پیش آیا۔ چند روز بعد سلیمان نے مصالحت کرنی بہتر سمجھی اور ہشام نے اُسے اپنے خاندان سمیت اندلس سے چلے جانے کی اجازت دے دی۔ جہاں سے وہ مراکش میں بربر قبائل کے ساتھ سکونت پر آمادہ ہو گیا اور یوں جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔

    ہشام نے محض 39 سال کی عمر میں قرطبہ میں وفات پائی۔ اس نے اپنے بیٹے الحکم بن ہشام کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ ہشام کی تدفین قصرِ قرطبہ میں‌ کی گئی۔