Tag: ہلاکو خان

  • ہلاکو خان:‌ غارت گرِ بغداد جس کا مدفن دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے!

    ہلاکو خان:‌ غارت گرِ بغداد جس کا مدفن دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے!

    عرب دنیا میں مسلمانوں کی عظمت اور شان و شوکت کے زوال اور فن و ثقافت میں امتیازی وصف کے حامل شہر بغداد کے تاراج کیے جانے کے ذکر کے ساتھ ہی ہلاکو خان کا نام بھی ایک ظالم اور سفاک حملہ آور کے طور پر لیا جائے گا۔ وہ چنگیز خان کا پوتا اور تولوئی خان کا بیٹا تھا جو قتل و غارت گری میں اپنے دادا اور باپ کے نقشِ قدم پر چلتا رہا۔

    ہلاکو خان موت کی ایک وجہ ناسازیٔ طبع اور دوسرا سبب گھوڑے کا بدک جانا بتایا جاتا ہے۔ اس ناگہانی افتاد میں ہلاکو خان نے اپنا توازن کھو دیا اور اس کا سَر زمین پر لگنے سے موت واقع ہوگئی۔ ہلاکو خان کو تاریخ کے اوراق ایل خانی سلطنت کا بانی بتاتے ہیں۔

    مؤرخین کے مطابق ہلاکو خان کو اس کے بھائی نے 1256ء میں ایران کی طرف بھیجا تھا جہاں ایک باغی گروہ سر اٹھا چکا تھا۔ اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ہلاکو وہاں مسلسل لڑائی میں مصروف رہا، اور کئی علاقوں کو فتح کر لیا۔ بعد میں ہلاکو خان بغداد کی طرف متوجہ ہوا۔ اس وقت وہاں المستعصم کی حکومت تھی۔ یہ شہر علم و فنون اور معاشرت میں ممتاز تھا، لیکن مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہاں‌ خلیفہ المستعصم کے زمانے میں‌ فرقہ واریت اور افراتفری بڑھ چکی تھی اور بغداد میں حکم راں اپنی فوج سے غافل اور سرحدوں کے دفاع سے بے نیاز ہوچکا تھا۔ یہ مسلم حکومت کے زوال کا دور تھا۔ ہلاکو خان نے اسی زمانے میں‌ بغداد کا رخ کیا اور اسے اجاڑ کر رکھ دیا۔

    اردو کے مشہور ادیب اور طنز و مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی نے اس پر زوالِ‌ بغداد کے عنوان سے ایک مضمون میں‌ لکھا تھا جس سے یہ پارے ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں: "بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتّھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔

    ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چناں چہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔

    یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرفِ باریابی بھی بخشا۔

    جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آجائیں۔ چناں چہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔

    شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونے کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالی شان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوش نما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوانِ فردوسی کیا تھا ایک قابلِ دید نظارہ۔

    دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگِ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطحِ آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔

    بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچے بلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔

    جامع مسجد نہایت ہی خوب صورت اور عالی شان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصرُ الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسّی ہاتھ (112 فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔

    بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جاں فشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔

    تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔

    چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔”

    ہلاکو خان کا سنہ پیدائش 1215ء اور جائے پیدائش منگولیا ہے لیکن محققین تاریخِ وفات میں اختلاف رکھتے ہیں۔ بعض کے نزدیک ہلاکو خان 8 فروری 1265ء کو چل بسا تھا، مگر تاریخ پر مبنی بعض کتب میں ہلاکو خان کی موت کی تاریخ 12 فروری لکھی ہے۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہلاکو خان کا مدفن تاحال دریافت نہیں‌ کیا جاسکا۔

  • بغداد کو تاراج کرنے والے ہلاکو خان کا مقبرہ کہاں ہے؟

    بغداد کو تاراج کرنے والے ہلاکو خان کا مقبرہ کہاں ہے؟

    مسلمانوں کی عظمت، شان و شوکت کے زوال اور علم و فنون میں‌ ممتاز شہر بغداد کی بربادی کے تذکرے کے ساتھ ہلاکو خان کا نام بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ چنگیز خان کا پوتا اور تولوئی خان کا بیٹا ہلاکو بھی قتل و غارت گری اور سفاکی میں اپنے دادا اور باپ کی طرح مشہور ہوا۔

    منگول تاریخ کے اس سفاک حکم راں کا سنِ پیدائش 1215ء ہے اس کی پیدائش منگولیا کی ہے جب کہ تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ بعض مؤرخین نے آٹھ اور بعض نے اس کا یومِ وفات 12 فروری 1265ء بتایا ہے۔ ہلاکو خان کی موت کی ایک وجہ ناسازیٔ طبع اور دوسرا سبب گھوڑے کا بدک جانا بتایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور زمین پر متعدد بار سَر لگنے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ وہ ایل خانی سلطنت کا بانی تھا۔ اس کا مقبرہ تاحال دریافت نہیں‌ کیا جاسکا۔

    مؤرخین کے مطابق ہلاکو خان کو اس کے بھائی نے 1256ء میں ایران کی طرف بھیجا تھا جہاں ایک باغی گروہ سر اٹھا چکا تھا۔ اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ہلاکو مسلسل لڑائیوں‌ میں‌ مصروف رہا، اور کئی علاقوں کو فتح کرلیا۔ یہی ہلاکو خان جب بغداد کی طرف متوجہ ہوا تو وہاں المستعصم کی حکومت تھی اور بغداد اس زمانے میں علم و فنون اور معاشرت میں ممتاز شہر تھا، جس کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہاں‌ خلیفہ المستعصم کے زمانے میں‌ فرقہ واریت اور افراتفری بڑھ گئی تھی جب کہ حکم ران اپنی فوج اور سرحدوں کی حفاظت کی طرف سے بے نیاز تھے۔

    اردو کے مشہور ادیب اور طنز و مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی نے اس پر زوالِ‌ بغداد کے عنوان سے ایک مضمون میں‌ لکھا: "بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتّھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔

    ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چناں چہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔

    یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرفِ باریابی بھی بخشا۔

    جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آجائیں۔ چناں چہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔

    شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونے کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالی شان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوش نما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوانِ فردوسی کیا تھا ایک قابلِ دید نظارہ۔

    دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگِ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطحِ آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔

    بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچے بلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔

    جامع مسجد نہایت ہی خوب صورت اور عالی شان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصرُ الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسّی ہاتھ (112 فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔

    بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جاں فشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔

    تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔

    چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔”

  • ہلاکو خان نے اُمُّ البلاد کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کے لیے اس کے دادا بھی مشہور تھے

    ہلاکو خان نے اُمُّ البلاد کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کے لیے اس کے دادا بھی مشہور تھے

    بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتّھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔

    ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چناں چہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔

    یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرفِ باریابی بھی بخشا۔

    جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آجائیں۔ چناں چہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔

    شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونے کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالی شان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوش نما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوانِ فردوسی کیا تھا ایک قابلِ دید نظارہ۔

    دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگِ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطحِ آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔

    بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچے بلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔

    جامع مسجد نہایت ہی خوب صورت اور عالی شان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصرُ الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسّی ہاتھ (112 فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔

    بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جاں فشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔

    تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔

    چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔

    (اردو کے مشہور ادیب اور ممتاز طنز و مزاح نگار مرزا عظیم بیگ چغتائی کے مضمون سے انتخاب)

  • شہر بغداد کس نے بسایا، کیسے اجڑا؟

    شہر بغداد کس نے بسایا، کیسے اجڑا؟

    دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد قدیم بغداد 775 سے لے کر 932 عیسوی تک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔

    یہ وہ شہر ہے جس کی تاریخ میں‌ مثال دی جاتی تھی، اسے علم و ادب، فنون و ثقافت کا گہوارہ کہا جاتا تھا اور مؤرخین نے اسے مسلم شان و شوکت کی ایک عظیم تہذیب اور برتر ثقافت کی یادگار لکھا ہے۔

    مشہور ہے کہ ابوجعفر بن المنصور نے سن 762 میں بغداد کی بنیاد رکھی اور ان کی بسائی ہوئی یہ بستی چند عشروں‌ بعد دنیا کی تاریخ کا عظیم ترین شہر بن گیا۔ اس زمانے میں بغداد کا چرچا سن کر ہندوستان سے لے کر مصر تک علم و فنون میں‌ یکتا، قابل، باصلاحیت شخصیات اور دانائے وقت یہاں کا رخ کرنے لگے۔ ان میں ادیب و شاعر، فلسفی، مفکر، سائنس دان اور مختلف علوم کے ماہر شامل تھے۔ اس وقت تک وہاں‌ کے مسلمانوں نے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا تھا اور پھر یہ شہر ان قابل شخصیات کی آمد کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔

    بغداد نے عباسی خلفا کا زمانہ دیکھا اور یہاں‌ خلیفہ ہارون الرشید اور مامون نے عظیم دارالترجمہ قائم کیا جس میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دیگر زبانوں کی کتب ترجمہ کی گئیں۔ تاریخ دانوں‌ نے لکھا ہے کہ یہ کتب صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور اس کے عروج میں اہم کردار ادا کیا۔

    بغداد میں علما اور فضلا کی عزت اور توقیر بڑھائی جاتی، علمی مشاغل کو اہمیت دی جاتی اور مشہور ہے کہ ایسے باکمالوں کو ان کی کتابوں کے وزن کے برابر سونا یا جواہرات ان کی نذر کیے جاتے تھے۔

    عظیم الشان مساجد، کتب خانے، مدارس، کے علاوہ بغداد میں‌ ہر قسم کے ساز و سامان سے بھرے ہوئے بازار تھے۔ یہ شہر ایک منگول حملہ آور کی افواج کے ہاتھوں‌ تاراج ہوا اور بعض تاریخ‌ نویسوں‌ نے لکھا ہے کہ اسی بربادی نے مغربی تہذیب کو پنپنے کا راستہ دیا۔

    مستعصم باللہ بغداد کے 37 ویں اور آخری خلیفہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے 1258 عیسوی کو مشہور منگول حاکم ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس روز شہر میں‌ خون ریزی اور لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے علم و فنون اور تہذیب و ثقافت کا گویا ہر نقش اجاڑ دیا۔

    تاریخ کے اوراق میں‌ بغداد کی ایسی کئی عالم فاضل شخصیات کے نام محفوظ ہیں‌ جنھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے اور ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔

    فارسی کے عظیم شاعر شیخ سعدی خاصا عرصہ بغداد میں رہے تھے۔ ان کے علاوہ علم کیمیا کا روشن نام جابر بن حیان، الجبرا کے بانی الخوارزمی، فلسفے اور حکمت کے دو عظیم نام الکندی اور الرازی، مشہور مفکر اور عالم الغزالی، عربی کے مشہور شاعر ابو نواس، تاریخ دان طبری اور کئی عالمِ دین اسی شہر کے باسی تھے جو دنیا کے لیے علم کے خزانے چھوڑ گئے۔