Tag: ہمالیہ

  • جب ہندوکش ہمالیائی خطوں کی شان دار کہانیاں اسکرین کی زینت بنیں

    جب ہندوکش ہمالیائی خطوں کی شان دار کہانیاں اسکرین کی زینت بنیں

    اسلام آباد: نمائش اور فلم اسکریننگ پر مبنی ایک تقریب میں ہندوکش ہمالیائی خطوں کی شان دار کہانیوں کو اسکرین کی زینت بنا کر ناظرین کو اس خطے کی معدوم ہوتی خوش نما روایات سے روشناس کرایا گیا۔

    اسلام آباد میں ’ایکو آف دی سلک روٹس: بیٹوین ماؤنٹینز اینڈ ڈیزرٹ‘ کے عنوان کے تحت لاجوَرد کی جانب سے ثقافتی ورثے اور ماحولیاتی بحران پر الائنس فرانسز اسلام آباد میں ایک نمائش اور فلم اسکریننگ کے ایونٹ کا انعقاد کیا گیا، جس میں 150 سے زائد افراد نے شرکت کی۔

    اس تقریب میں ہندوکش ہمالیہ اور وسطی ایشیائی خطوں کی کہانیوں، روایات اور تحفظ کی کوششوں کو پیش کیا گیا، جس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کے درمیان ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانا تھا۔ نمائش میں پہاڑی کمیونٹیز اور تاریخی سلک روٹس کے درمیان تعلقات کو اجاگر کیا گیا، جہاں معدوم ہوتی روایات، نوادرات، اور کہانیوں کو پیش کیا گیا، جو صدیوں سے ان خطوں کا حصہ ہیں۔

    ہندوکش

    شرکا نے ان نمائشوں اور فلموں میں گہری دل چسپی کا اظہار کیا، جنھوں نے ان علاقوں کو درپیش چیلنجز اور لاجوَرد کے تحفظ کی کوششوں کو منفرد انداز میں پیش کیا۔

    اس شام میں بلتی کھانوں کی خصوصی پیش کش بھی شامل تھی، جس نے اس خطے کی ثقافتی میراث کو اجاگر کرتے ہوئے ایک منفرد ذائقہ دار تجربہ فراہم کیا۔ مہمانوں نے لاجوَرد ٹیم کے ساتھ بات چیت کی اور ان نازک پہاڑی ماحولیاتی نظام میں جاری تحفظاتی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔

    لاجوَرد کے تحت ورثے کی دستاویز بندی، آرکیٹیکچرل تحفظ، اور کمیونٹی انگیجمنٹ کے ذریعے ہندوکش ہمالیہ خطے میں ثقافتی ورثے اور ترقی کے لیے کام کیا جاتا ہے۔

  • دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی گلہری دریافت

    دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی گلہری دریافت

    ماہرین نے پہلی بار دنیا کا نایاب ترین ممالیہ جانور دریافت کرلیا ہے، یہ اڑنے والی گلہری ہے اور اسے پہلی بار ہمالیہ کے دامن میں دیکھا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلوی سائنس دانوں نے ہمالیہ کے دامن میں دنیا کا نایاب ترین ممالیہ جانور دریافت کیا ہے۔ یہ ایک اڑن گلہری ہے جو ایک میٹر سے زیادہ لمبی ہوتی ہے اور اس کا وزن 2.5 کلو ہوتا ہے۔

    سائنس دان اسے تقریباً 130 سالوں سے جانتے ہیں، لیکن پہلے سمجھا جاتا تھا کہ اس کی واحد انتہائی نایاب قسم پاکستان کی دور دراز وادیوں میں ہی رہتی ہے، لیکن اب آسٹریلیا اور چین کے محققین نے اس اڑن گلہری کی دو مزید اقسام کا پتہ چلایا ہے، جن کے بارے میں سائنس کو پہلے علم نہیں تھا۔

    آسٹریلین میوزیم کے اہم سائنس دان پروفیسر کرسٹوفر ہیلگن اور ریسرچ ایسوسی ایٹ اسٹیفن جیکسن کی یہ دریافت پیر کو زولوجیکل جرنل آف لینن سوسائٹی میں شائع ہوئی ہے۔

    اون رکھنے والی اس اڑتی گلہری کے عجائب گھر میں موجود نمونوں سے حاصل کردہ معلومات استعمال کرتے ہوئے اور اب تک کی گئی عملی مہمات کا ڈیٹا استعمال کر کے ان کی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ یہ بڑی اور روئیں دار گلہریاں تین علیحدہ مقامات پر مختلف اقسام کی آبادیاں بنا چکی ہیں، جن میں سے دو اقسام بالکل نئی ہیں۔

    انہیں تبت کی اونی اڑن گلہری اور چینی صوبہ یونان کی اونی اڑن گلہری کے نام دیے گئے ہیں۔

    پروفیسر ہیلگن کہتے ہیں کہ یہ دریافت ماہرینِ حیوانات کو نئی سائنس بلکہ نئے ممالیہ جانوروں کی طرف لے جائے گی، یہ دنیا کی سب سے بڑی گلہریاں ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کو سنہ 2021 میں سائنسی نام دیا جا رہا ہے۔

    نرم رواں رکھنے والی گلہریوں کی یہ نئی اقسام جینیاتی اور جسمانی اعتبار سے دوسری گلہریوں سے کافی مختلف ہیں۔ پھر یہ دنیا کی چھت پر رہتی ہیں یعنی ہمالیہ کے دامن اور تبت کی سطح مرتفع پر۔

    ڈاکٹر جیکسن کے مطابق یہ گلہریاں 4 ہزار 800 میٹرز کی بلندی پر رہتی ہیں، یہ ماؤنٹ ایورسٹ کی آدھی بلندی بنتی ہے، جہاں زیادہ تر علاقہ انسانی آبادی سے خالی ہے اور بہت کم جانور یہاں آباد ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک میٹر لمبی ریشمی رواں رکھنے والی یہ گلہری دنیا میں سب سے بڑی ہے۔ یہ رات کو جاگنے والا جانور ہے اور اس کی لومڑی جیسی لمبی دم ہے۔

    چین میں ان اونی اڑن گلہریوں کی آبادی کے حوالے سے شبہات تو پہلے سے موجود تھے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔ مشرقی ہمالیہ کے خطے میں جو یونانی اونی اڑن گلہری دریافت ہوئی ہے، وہ عالمی حیاتی تنوع کے تین مقامات کا سنگم ہے، ہمالیہ، جنوب مغربی چین کے پہاڑ اور ہند برما۔

    دوسری نئی قسم، تبتی اونی اڑن گلہری، جنوبی سطح مرتفع تبت میں پائی جاتی ہے جو چین کے علاقے تبت اور بھارتی ریاست سکم کے درمیان ہے۔

    سائنس دانوں کو امید ہے کہ تبتی اونی اڑن گلہری اب بھی چین، بھارت اور بھوٹان کے اونچے مقامات پر ہوگی۔ اس گلہری کی تینوں اقسام ان مقامات سے اوپر ہی رہتی ہیں جہاں درخت اگ سکتے ہیں یعنی 24 سو میٹر سے اوپر۔

    ڈاکٹر جیکسن نے کہا کہ ابھی بہت سی معلومات موجود نہیں ہیں، لیکن دانت بہت ہی خاص ہوتے ہیں اور یہ صنوبر کے باریک پتوں سے خوراک حاصل کرتی ہیں، جو ایک غیر معمولی خوراک ہے۔

    یہ دور دراز علاقوں میں رہتی ہیں اور ان کی تمام ہی اقسام شکار، اپنے قدرتی مساکن سے محروم ہونے اور درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے مسائل سے دو چار ہیں۔

  • وزیر اعظم نے ہمالیائی بھورے ریچھ کی ویڈیو شیئر کر دی

    وزیر اعظم نے ہمالیائی بھورے ریچھ کی ویڈیو شیئر کر دی

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے آج اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ہمالیائی بھورے ریچھ کی دل چسپ ویڈیو شیئر کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ ہمالیہ کے بھورے ریچھ کو قراقرم نیشنل پارک میں شامل کر لیا گیا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا قراقرم نیشنل پارک میں برفانی چیتے، مارکو پولو بھیڑ بھی ہیں، یہ بھورے ریچھ، برفانی چیتے، او ر مارکو پولو بھیڑ معدومیت سے دوچار انواع ہیں۔

    انھوں نے ٹویٹ میں ایک دل چسپ ویڈیو بھی شیئر کی ہے، جس میں ہمالیائی بھورا ریچھ اٹھکیلیاں کھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی اس پر یوں سرخی جمائی ’حال ہی میں پاکستان کے اعلان کردہ قراقرم نیشنل پارک میں موجود ایک ہمالیائی بھورے ریچھ کی اٹھکیلیاں!‘

    وزیر اعظم عمران خان نے مزید لکھا ’اس نیشنل پارک میں نایاب جانوروں کی جن دیگر انواع کا تحفظ کیا جائے گا ان میں برفانی چیتا اور پُرشِکوہ مارکو پولو بھیڑ شامل ہیں۔

  • اپنی طرف بلاتے، لبھاتے، فلک بوس پہاڑوں کا عالمی دن

    اپنی طرف بلاتے، لبھاتے، فلک بوس پہاڑوں کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے پہاڑوں اور پہاڑوں کے قریب رہنے والی آبادیوں کی حالت بہتر بنانے اور  ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ’پہاڑ نوجوانوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں‘ ہے۔ اس کا مقصد پہاڑوں میں رہنے والی آبادیوں اور خصوصاً نوجوانوں کی طرف توجہ دلانا ہے جن کی زندگی آسان نہیں۔

    زندگی کو آسان بنانے کے لیے پہاڑوں سے کی جانے والی ہجرت بے شمار مشکلات ساتھ لاتی ہے۔ یہ ہجرت زراعت میں کمی، زمینی کٹاؤ اور وہاں کی مقامی ثقافت و روایات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

    پہاڑ دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پارکس کا 56 فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔

    اسی طرح دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب افراد پہاڑوں میں آباد ہیں جبکہ دنیا کی نصف آبادی غذا اور پینے کے صاف پانی کے لیے پہاڑوں کی محتاج ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کا سب سے پہلا اثر پہاڑی علاقوں پر ظاہر ہوتا ہے۔

    ایسے موقع پر خشک پہاڑوں کے ارد گرد آبادی مزید گرمی اور بھوک کا شکار ہوجاتی ہے، جبکہ کلائمٹ چینج کے باعث برفانی پہاڑ یعنی گلیشیئرز بہت تیزی سے پگھلنے لگتے ہیں جس سے دریاؤں میں سیلاب کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    پاکستان کے خوبصورت پہاڑی سلسلے

    پاکستان میں 5 ایسی بلند برفانی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 26 ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 اور نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں واقع ہے۔

    آئیں پاکستان میں واقع خوبصورت پہاڑی سلسلوں اور پربتوں کی سیر کریں۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ

    کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    دنیا کی 8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سلسلہ کوہ قراقرم

    سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔

    کے ٹو

    کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی لمبائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر ہے۔ بے شمار ناکام کوششوں اور مہمات کے بعد سنہ 1954 میں اس پہاڑ کو سر کرنے کی اطالوی مہم بالآخر کامیاب ہوئی۔

    نانگا پربت

    نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8 ہزار 1 سو 25 میٹر ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ نانگا پربت کو سب سے پہلے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے 1953 میں سر کیا۔

    سلسلہ کوہ ہندوکش

    سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی 7 ہزار 7 سو 8 میٹر ہے۔

    کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ

    صوبہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ حسین قدرتی مناظر کا مجموعہ اور نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    کارونجھر کے پہاڑ

    صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں واقع کارونجھر کے پہاڑ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

  • صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    کھٹمنڈو: دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی ایک تہائی برف سنہ 2100 تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔

    یہ انکشاف انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ تجزیاتی رپورٹ میں کیا گیا۔ یہ رپورٹ 5 سال کے اندر تیار کی گئی جس میں 22 ممالک اور 185 اداروں کے 350 سے زائد ماہرین کی مدد لی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    خیال رہے کہ کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق وسیع برفانی تودوں پر مشتمل ہندو کش اور ہمالیہ کا یہ خطہ انٹار کٹیکا اور آرکٹک خطے کے بعد تیسرا قطب ہے۔ یہ خطہ 3 ہزار 5 سو کلو میٹر پر محیط ہے اور پہاڑوں کا یہ سلسلہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی جہاں کسان خشک سالی کے دوران برفانی تودوں کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر گزارا کرتے ہیں۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

    مذکورہ رپورٹ کی سربراہی کرنے والے فلپس ویسٹر کا کہنا ہے کہ یہ وہ ماحولیاتی بحران ہے جس کے بارے میں کسی نے نہیں سنا۔

    ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ 8 ممالک تک پھیلے ہوئے ہمالیہ ہندوکش کے سلسلے میں موجود برفانی تودوں سے ڈھکی ہوئی بہت سی چوٹیوں کو ایک صدی میں چٹانوں میں تبدیل کرچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر سنہ 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات بھی اٹھائے جائیں تب بھی سال 2100 تک خطے کی ایک تہائی سے زائد برف پگھل جائے گی، اور اگر ہم رواں صدی کے دوران گرین ہاؤس گیسز کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو دو تہائی برف پگھل جائے گی۔

  • پہاڑوں کا عالمی دن: آئیں پربتوں سے باتیں کریں

    پہاڑوں کا عالمی دن: آئیں پربتوں سے باتیں کریں

    آج دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے پہاڑوں اور پہاڑوں کے قریب رہنے والی آبادیوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    پہاڑ دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پارکس کا 56 فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔

    اسی طرح دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب افراد پہاڑوں میں آباد ہیں جبکہ دنیا کی نصف آبادی غذا اور پینے کے صاف پانی کے لیے پہاڑوں کی محتاج ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کا سب سے پہلا اثر پہاڑی علاقوں پر ظاہر ہوتا ہے۔

    ایسے موقع پر خشک پہاڑوں کے ارد گرد آبادی مزید گرمی اور بھوک کا شکار ہوجاتی ہے، جبکہ کلائمٹ چینج کے باعث برفانی پہاڑ یعنی گلیشیئرز بہت تیزی سے پگھلنے لگتے ہیں جس سے دریاؤں میں سیلاب کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    پاکستان کے خوبصورت پہاڑی سلسلے

    پاکستان میں 5 ایسی بلند برفانی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 26 ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 اور نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں واقع ہے۔

    آئیں پاکستان میں واقع خوبصورت پہاڑی سلسلوں اور پربتوں کی سیر کریں۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ

    کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    دنیا کی 8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سلسلہ کوہ قراقرم

    سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔

    کے ٹو

    کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی لمبائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر ہے۔ بے شمار ناکام کوششوں اور مہمات کے بعد سنہ 1954 میں اس پہاڑ کو سر کرنے کی اطالوی مہم بالآخر کامیاب ہوئی۔

    نانگا پربت

    نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8 ہزار 1 سو 25 میٹر ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ نانگا پربت کو سب سے پہلے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے 1953 میں سر کیا۔

    سلسلہ کوہ ہندوکش

    سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی 7 ہزار 7 سو 8 میٹر ہے۔

    کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ

    صوبہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ حسین قدرتی مناظر کا مجموعہ اور نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    کارونجھر کے پہاڑ

    صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں واقع کارونجھر کے پہاڑ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

  • عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    سیئول: بھارت نے گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں پاکستان کا کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیر) سے متعلق پروجیکٹ مسترد کردیا۔ بھارتی نمائندے نے منصوبے کو ناقص قرار دیتے ہوئے دیگر تمام منصوبوں کے لیے حمایت ظاہر کردی۔

    جنوبی کوریا کے شہر سونگ ڈو میں گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں بھارت نے انتہائی درجے کا تعصب برتتے ہوئے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو مسترد کردیا۔

    گرین کلائمٹ فنڈ اقوام متحدہ کے کلائمٹ چینج معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت امیر ممالک موسمیاتی تغیر کے نقصانات کا شکار ہونے والے غیر ترقی یافتہ ممالک کی مالی امداد کرتے ہیں۔ یہ امداد موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے والے پروجیکٹ کی فنڈنگ کی صورت میں کی جاتی ہے۔

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام *

    پروجیکٹ کی منظوری دینے والے بورڈ میں ایشیا پیسیفک کی نمائندگی کرنے والے 3 رکن ممالک بھارت، چین اور سعودی عرب شامل ہیں۔ بھارت میں وزارت خزانہ کے معاون خصوصی دنیش شرما اس بورڈ میں بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    دنیش شرما نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو ناقص اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ اس پروجیکٹ پر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ہمالیائی علاقے میں عمل درآمد کیا جانا تھا جس میں موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    flood-2

    بورڈ کے سینیئر ارکان کی جانب سے استفسار پر دنیش شرما نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے میں تکنیکی خرابیاں پائیں اور وہ کسی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔

    انہوں نے مختلف ممالک کی جانب سے پیش کیے جانے والے دیگر منصوبوں کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے ان کے لیے اپنی حمایت ظاہر کی۔

    تاہم بورڈ کے دیگر ارکان نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے کی ضروت ہے۔ ’یہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے قومی مفادات کا تحفظ نہیں کرنا چاہیئے۔ ہم سب یہاں دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کے لیے بیٹھے ہیں‘۔

    ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ بھارتی نمائندے بے شک پروجیکٹ پر شرائط عائد کردیتے لیکن اس کی منظوری دے دیتے، بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

    دنیش شرما نے پروجیکٹ میں موجود متعدد تکنیکی خرابیوں کو اپنی مخالفت کی وجہ قرار دیا۔ انہیں پیشکش کی گئی کہ وہ پاکستانی ماہرین سے مل کر اس پروجیکٹ میں تبدیلیاں کروا کر پروجیکٹ کو قابل عمل بنا سکتے ہیں۔

    تاہم انہوں نے پروجیکٹ کو بالکل ہی ناقابل عمل قرا دے کر جواز پیش کیا کہ وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ متعصب نہیں، پاکستانی ماہرین سے مل سکتے ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے میں مزید کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    پاکستان کی جانب سے پیش کیا جانے والا پروجیکٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ پروجیکٹ میں آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں شدید سیلابوں سے بچاؤ کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    یہ سیلاب گلیشیئر والی جھیلوں میں اس وقت آتے ہیں جب جھیل میں موجود پانی کو ذخیرہ کرنے والا سسٹم (جو عموماً کوئی ڈیم ہوتا ہے) اسے روکنے میں ناکام ہوجائے اور یہ پانی سیلاب کی شکل میں باہر آ کر قریبی آبادیوں کو نقصان سے دو چار کرے۔

    flood-3

    اس قسم کے سیلابوں کا سلسلہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سارا سال جاری رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ پروجیکٹ منظور ہوجاتا تو 7 لاکھ کے قریب افراد کو آئندہ سیلابوں سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا تھا۔

  • ہمالیہ میں بدھ مت تہوار،ہزاروں یاتریوں کی آمد

    ہمالیہ میں بدھ مت تہوار،ہزاروں یاتریوں کی آمد

    لداخ : ہمالیہ کے بدھ مت تہوار کوہب میلے میں راہبوں،عقیدت مندوں اور سیاحوں کے لاکھوں کی تعداد میں آنے کاسلسلہ جاری ہے۔

    تفصیلات کےمطابق ہمالیہ کے پہاڑی گاؤں میں بدھ مت کے پیر ناروپا کی 1000 ویں سالگرہ کو یادگار بنانے کے لیے تہوار منعقد کیا کیا گیا ہے جہاں عقیدت مند ریشمی ملبوسات پہنے ڈھول کی تھاپ اور موسیقی پر رقص کرکے خوشی منا رہے ہیں۔

    بدھ مت کے فلسفے کو 11 صدی میں فروغ دینے والے ناروپا کا یہ تہوار 12 سال میں ایک بار منایا جاتا ہے جہاں بڑی تعداد میں یاتری دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر لداخ اور بھوٹان سےتہورا میں شرکت کرتے ہیں۔

    بدمت مدت کے مبلغ کا تہوار ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے جس میں ناروپا سے منسوب زیوارت اور دیگر چیزیں زیارت کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔

    بدمت تہوار میں شامل ایک یاتری سونم پشتنگ کا کہنا تھا کہ وہ بنگلور بھارت کے جنوبی شہر سے سے صرف یہاں یہ تہوار دیکھنے آئی ہیں اور انہوں نے بتایا کہ لاکھوں کی تعداد میں راہب اس تہوار میں شرکت کےلیے آتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں،یہ بہت اچھی جگہ ہے یہاں روحانی سکون ملتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں کا موسم بھی بہت اچھا ہے۔

    واضح رہے کہ اسی طرح کا تہوار تبت میں 2004 میں منایا گیا جس میں تبت کے بدھ مت پدماسمبھاوا سے منسوب چیزوں کو یاتریوں کی زیارت کے لیے پیش کی گئیں۔