Tag: ہندوستانی ادیب

  • عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مترجم تھے۔ انھیں‌ عالمی سطح پر اسلامی تاریخ و ثقافت کے ماہر اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    عزیز احمد 16 دسمبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے ضلع بارہ بنکی کے علاقے عثمان آباد سے تھا۔ وہ 11 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    عزیز احمد نے ہندوستان کی عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور بعد میں لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ہجرت کی اور کراچی آگئے جہاں‌ وزارتِ اطلاعات سے منسلک ہوئے۔ 1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور تا دمِ آخر وہ پروفیسر کی حیثیت سے اسی جامعہ سے وابستہ رہے۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔

    وہ ایک محقق اور مضمون نگار بھی تھے جنھوں نے اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی انگریزی زبان میں متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے حوالے سے گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ ان انگریزی کتب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا۔

    وفات کے بعد انھیں ٹورنٹو ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار اور حساس سماجی و سیاسی موضوعات پر اپنی کہانیوں کے ذریعے اردو ادب میں نام اور پہچان بنانے والے مشرف عالم ذوقی 58 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

    مشرف عالم ذوقی ایسے زود نویس تھے جن کا قلم بامقصد اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہوئے۔ بھارت کے سماجی اور سیاسی حالات پر خصوصا چند برسوں کے دوران بھارت میں افراتفری، عدم برداشت اور انتشار کو انھوں نے اپنی بعض کہانیوں کا موضوع بنایا اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگِ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ کو پاک و ہند میں بھی پڑھا اور سراہا گیا۔ انھوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی تحریر کیے جب کہ دیگر اصنافِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور متعدد کتابیں لکھیں۔

    مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔ ان کے دیگر مقبول ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘ آتشِ رفتہ کا سراغ’ شامل ہیں۔

    مشرف عالم ذوقی کا شمار ایسے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے متنوع موضوعات کے سبب اردو ادب میں الگ پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اقلیتوں کے مسائل سے لے کر ہر طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کا قلم سماجی گھٹن، سیاسی بنیاد پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک رہا۔

    چند دنوں سے مشرف عالم ذوقی علالت کے سبب دلی میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں 19 اپریل کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    ہم نے لکھنؤ میں ہندوستان کے ایک محقق کاظم علی خاں سے پوچھ لیا۔
    ”آج کل آپ کس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں؟“

    انھوں نے جواب دیا۔ ”مصحفی کے ایک ہم عصر بھورے خاں آشفتہؔ کے سالِ وفات پر تحقیق جاری ہے۔“

    اس کے بعد دو گھنٹے تک وہ ہمیں اس کے نتائج سے مستفید فرماتے رہے۔

    جب بھورے خاں آشفتہ کا مردہ اچھی طرح خراب ہوچکا تو انھوں نے ہماری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ہم ہی بھورے خاں آشفتہ ہوں۔

    پوچھا، ”آپ کی کیا رائے ہے؟“

    ہم نے کہا، ”آپ نے بھورے خاں کے ساتھ ہمارا بھی سالِ وفات ہی نہیں، تاریخ، مہینہ اور دن بھی متعین کردیا ہے۔“

    ہمارے جواب پر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”جی ہاں تحقیق میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک شخص کا سالِ وفات تلاش کریں تو بہت سوں کے سال ہائے وفات خود بخود معلوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔“

    (مشفق خواجہ کے قلم سے)