Tag: ہندوستانی بادشاہ

  • شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    ہندوستان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے، اُسی طرح ان کی بیگمات اور شہزادیاں بھی منفردُ المثال تھیں۔

    جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح اور کشور کشا نیز علم دوست اور ادب نواز تھے، اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فنِ حرب و ضرب میں ماہر اور علم و ادب کی دلدادہ تھیں۔

    ملک کی پہلی خاتون حکم راں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اور اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب و ضرب اور واقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔

    ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر و فن اور علم و ادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہلِ علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے دور کے نام ور دانش ور اور حکماء و علماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ فنِ حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا۔ حالاں کہ خواتین کو جنگوں میں حصہ لینے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، مگر علمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہوا کرتی تھیں اور پسِ پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز ہوا کرتی تھیں۔

    رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکم راں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پر حکومت کی۔ اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاند بی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔

    محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسندِ شاہی تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھیں۔ کئی بار ان بیگمات کے ناخنِ تدبیر ہی سیاسی گتھیوں کو سلجھایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدّین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئی اور اسی کی سمجھ داری نے سلیم کو مصالحت پر مجبور کیا۔

    ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار ثابت ہوئیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں تو کئی مؤرخ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نور جہاں، ملکہ ممتاز محل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اور زینت النساء بیگم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فنِ مصوّری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے باپ شمسُ الدّین التمش کے مقبرے کو تعمیر کرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہو چکا ہے مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کا پتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبر پر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔

    اسی طرح نور جہاں نے اعتماد الدّولہ کا عظیم الشّان مقبرہ تعمیر کروا کے اپنے ذوقِ عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ دلّی کی معروف فتح پوری مسجد کی تعمیر، شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرائی تو دریا گنج کی گٹھا مسجد ایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔

    رضیہ سلطان، ملک کی اوّلین خاتون حکم راں تھی، جس نے ملک پر شان دار حکم رانی کی مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیں تھی۔ جس زمانے میں بھارت میں خواتین کو ’’ستی‘‘ ہونا پڑتا تھا اس دور میں رضیہ سلطان نے حکم رانی کی۔ وہ حکم رانی کی اہل بھی تھی مگر مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لیے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر بھی کرائی۔ باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اور مشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمر بیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس نے مقبرہ ہمایوں کی تعمیر کرایا۔ جو بعد میں تاج محل کے لیے ماڈل ثابت ہوا۔ اکبر کو بہت کم عمری میں حکومت مل گئی تھی جو اس کے اتالیق کے ذریعے چلتی تھی مگر اس حکومت میں حاجی بیگم کی مرضی بھی شامل رہتی تھی اور ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل رہتے تھے۔

    شاہ جہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دین دار تھیں۔ جہاں آرا بیگم، شاہ جہاں کی بیٹی تھی اور ادیبہ و شاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔ مغل شہزادیوں میں ایک نام زینتُ النّساء کا بھی ہے جس نے دریا گنج کی گٹھا مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔ مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیر کرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں۔ اسی طرح بیگم اکبر آبادی نے اکبر آبادی مسجد کی تعمیر کرائی اور فخرُالنّساء خانم نے فخرُ المساجد بنوایا۔ تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماں تھی۔ بادشاہ اس کا بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرُالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔ یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔

    امراء کی بیگمات بھی علم و فن اور مصوری، خطاطی و آرکٹکچر کا شوق رکھتی تھیں جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔ انھوں نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں جن میں درگاہ شاہ مرداں اور کچھ دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ یہ علم و ادب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔ عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لیے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں، گلبدن بیگم، گل رخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو، گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔

    (محقّق و مصنّف: غوث سیوانی)

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔

  • اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    بمبئی کے سفرمیں ایک عزیز دوست نے جو انگریزی تصنیفات پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں انڈین میگزین اینڈ ریویو کا ایک آرٹیکل دکھلایا جو زیبُ النسا کی سوانح عمری کے متعلق تھا۔

    مجھ کو افسوس ہوا کہ ایک ایسے معزز پرچہ کا سرمایۂ معلومات تمام تر بازاری قصّے تھے جس میں سے ایک شرم ناک قصّہ عاقل خان رازی کا بھی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بازاری اہلِ قلم نے زیب النسا کے جو حالات تجارتی غرض سے قلم بند کیے، وہ بالکل بے سروپا ہیں۔

    اس بنا پر خیال ہوا کہ زیبُ النسا کے متعلق صحیح معلومات یکجا کر دیے جائیں، جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ غلط معلومات کی اصلاح ہو جائے گی۔

    زیبُ النسا کی ولادت
    زیبُ النسا اورنگ زیب (مغل بادشاہ) کی سب سے پہلی اولاد تھی۔ زیب النسا شادی کے دوسرے سال شوال ۱۰۴۸ہجری (1638ء) میں پیدا ہوئی۔ حسبِ دستور سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی۔ تمام تاریخیں اور تذکرے متفق اللفظ ہیں کہ زیب النسا نے عربی اور فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل تھی۔

    زیب النسا نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطینِ تیموریہ لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنّفوں نے بہت شہرت دی ہے اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے، لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ خود عالمگیر کی دو بیٹیاں زبدۃُ النسا بیگم اور مہرالنسا بیگم سپہر شکوہ اور ایزد بخش (پسرِ شہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چناں چہ مآثرِعالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اور مختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    عالمگیر زیبُ النسا کی نہایت عزّت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لیے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔

    زیب النساء نے ۱۱۱۰ ہجری (1698 یا 1702ء) میں دلّی میں انتقال کیا۔ عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھا۔ یہ خبر سن کر سخت غم زدہ ہوا۔ حکم صادر ہوا کہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیے زکوٰۃ و خیرات دیں۔ اور مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں۔ خانی خان نسخہ مطبوعہ کلکتہ میں زیب النسا کا نام اور اس کے واقعات ۱۱۲۲ ہجری (1710ء) تک آتے ہیں، لیکن یہ صریح غلطی ہے۔ کاتبوں نے غلطی سے زینتُ النسا کو زیبُ النساء سے بدل دیا ہے۔

    کمالاتِ علمی اور عام اخلاق و عادات
    تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیبُ النسا علومِ عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ نستعلیق، نسخ اور شکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوانِ مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔ اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔

    علم پروری
    زیبُ النسا نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ زیب النسا نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا ہونا بھی ضروری تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔

    اخلاق و عادات
    زیب النسا اگرچہ درویشانہ اور منصفانہ مذاق رکھتی تھی، تاہم شاہجہاں کی پوتی تھی۔ اس لیے نفاست پسندی اور امارت کے سامان بھی لازمی تھے۔ عنایت اللہ خاں جو امرائے عالمگیری میں مقربِ خاص تھا، زیب النسا کا میر خانساماں تھا۔ کشمیر میں جا بجا خوشگوار اورخوش منظر چشمے ہیں۔ ان میں سے ایک چشمہ جس کا نام احول تھا، زیب النسا کی جاگیر میں تھا۔ زیب النسا نے اس کے متصل ایک نہایت پُر تکلف باغ اور شاہانہ عمارتیں تیار کرائی تھیں۔

    زیبُ النسا کے متعلق جھوٹے قصّے
    زیبُ النسا کے متعلق متعدد جھوٹے قصّے مشہور ہوگئے ہیں جن کو یورپین مصنفوں نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النسا اور عاقل خاں سے عاشقی اور معشوقی کا تعلق تھا اور زیب النسا اس کو چوری چھپے سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خاں محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خاں نے اخفائے راز کے لحاظ سے دَم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔

    (اردو کے نام وَر سیرت نگار، مؤرخ، عالمِ دین اور نقّاد شبلی نعمانی کے ایک مضمون سے تالیف کردہ پارے)

  • چین کے مشہور شاہی خاندان

    چین کے مشہور شاہی خاندان

    دنیا کے بعض خطّے جہاں اپنی قدیم تہذیب اور ثقافت کے لیے مشہور ہیں، وہیں کئی سلطنتوں کے شاہی خاندان اور ان کا طرزِ حکومت بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے۔

    اگر ہم اپنے پڑوسی ملک چین کی بات کریں تو ہمیں یہاں بادشاہت کے مختلف ادوار اور تمدن و ثقافت کی طویل تاریخ پڑھنے کو ملے گی۔ موجودہ نظام اور مخصوص طرزِ حکومت سے پہلے چین پر مختلف ادوار میں‌ بادشاہت قائم رہی ہے۔

    صدیوں تک یہاں کے باشندوں اور ان کی نسلوں نے شاہانِ وقت سے وفاداری نبھائی، اور شاہی خاندانوں سے وابستہ معززین، امرائے سلطنت اور خاص درباریوں کی تعظیم و تکریم کی۔ انہی شاہی ادوار میں چین نے ترقی بھی کی اور مختلف شعبوں میں یہاں کے باشندوں نے ہنرمندی اور فن کاری کے نقش بھی یادگار چھوڑے۔

    چین کی تاریخ نہ صرف بہت پرانی ہے بلکہ کئی لحاظ سے منفرد بھی ہے۔یہاں کے ہر شاہی خاندان کی اپنی منفرد خصوصیات اور الگ پہچان رہی ہے۔ ان شاہی ادوار میں چین میں طب و صحت سے لے کر تعمیرات، اور مختلف دیگر شعبوں میں خوب کام ہوا۔

    یہاں ہم چین کی چند اہم اور مشہور بادشاہتوں کا تذکرہ کررہے ہیں جو آپ کی معلومات میں اضافہ اور دل چسپی کا باعث ہوگا۔

    تھانگ شاہی خاندان
    اس بادشاہت کا آغاز 618ء سے ہوتا ہے اور یہ 907ء تک قائم رہتی ہے۔ تھانگ شاہی خاندان کے زمانے کو چین کی جاگیردارانہ تاریخ کا سب سے ترقی یافتہ دور بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اس دور کی ایک خاص بات چین میں فنِ تعمیر کا فروغ ہے۔

    سونگ شاہی خاندان
    چین کی تاریخ میں سونگ شاہی خاندان کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن کا دور 960ء سے 1279ء تک رہا۔ تہذیب و ثقافت سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شاہی خاندان سیاسی اور عسکری لحاظ سے نسبتاً کم زور تھا۔ تاہم اس دور چینی معیشت کے علاوہ ہنر و فنون میں خاصی ترقی ہوئی۔

    یوان بادشاہت
    یہ منگول قوم سے تعلق رکھنے والا خاندان تھا جس نے چین پر حکم رانی کی۔ اس کی بادشاہت 1206ء سے 1368ء تک قائم رہی۔

    مینگ شاہی دور
    مینگ شاہی دور کو فنِ تعمیر کے لحاظ سے قابلِ ذکر سمجھا جاتا ہے۔ مینگ بادشاہت 1368ء سے 1644ء تک قائم رہی۔

    چھینگ شاہی خاندان
    1644ء سے 1911ء تک چین پر چھینگ شاہی خاندان نے راج کیا۔ اس خاندان کو چین کی تاریخ کا آخری جاگیردار خاندان کہا جاتا ہے۔

  • کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی مادری زبان فارسی تھی اور ایک زمانے میں‌ دستور کے مطابق ہر خاص و عام عربی اور فارسی سمجھتا اور سیکھتا تھا۔ معززین و امرائے وقت خاص طور پر فارسی بولتے اور لکھتے، یہ زبان گفتگو سے مراسلت تک ہر شعبے پر حاوی تھی۔

    مغل بادشاہ جہاں‌ دیگر علوم اور فنون سے آشنا تھا، وہیں بڑا باذوق اور ادب کا شائق بھی تھا۔ یہی نہیں‌ بلکہ خود بھی فارسی میں‌ شعر کہتا۔

    بابر کے ایک شعر کا مصرعِ ثانی ہے: "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”

    یہ مصرع کم و بیش پانچ سو سال سے ضرب المثل ہے۔ اس کا مصرع اولیٰ بہت کم صاحبانِ ذوق کو معلوم ہو گا۔

    کہتے ہیں‌ ہندوستان پر حملے سے پہلے بابر نے کابل میں‌ ایک مرغزار میں حوض بنوایا جہاں وہ اپنے خوش طبع اور باذوق دوستوں کے ساتھ اکثر وقت گزارتا تھا، اسی مناسبت سے اس نے یہ شعر کہہ کر اس حوض کی منڈیر پر کندہ کرایا تھا۔

    یہ مکمل شعر اور اس کا اردو ترجمہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    نو روز و نو بہار مئے و دلبرِ خوش است
    بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

    شاعر کہتا ہے کہ نئے سال کا جشن ہو، موسمِ بہار میں تازہ شربت ارغوان ہو اور حسن و جمال مرصع معشوق ہو۔ بابر عیش کے اس خزانے کو خوب خرچ کرلے کیوں کہ یہ زندگی دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے گی۔