Tag: ہندوستانی تھیٹر

  • فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے مختلف اہم شعبوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا مظاہرہ کرنے والی ممتاز ترین شخصیت رفیع پیرزادہ کی ہے اور بعد میں اسی گھرانے کی شخصیات تھیٹر اور فلم، ڈراما، رقص، موسیقی اور پتلی تماشے کے فن میں نمایاں ہوئیں۔

    رفیع پیرزادہ 1898ء میں بنّوں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان کے بزرگ کشمیر سے گجرات میں آ کر آباد ہوئے اور وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے گئے۔ وہ علاّمہ اقبال کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور اُن کے صاحب زادے، پیر تاج الدّین نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک برطانوی خاتون سے شادی کر لی تھی۔ یوں رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی اور فنونِ لطیفہ سے اوائلِ عمری ہی میں واقف ہوگئے۔

    کہتے ہیں کہ جب رفیع پیرزادہ اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر پیش کرنے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا، اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچے اور معلوم ہوا کہ تھیٹر کا یہ آخری دن ہے اور اب یہ لوگ دلّی روانہ ہو رہے ہیں۔ کم عمر رفیع پیرزادہ کے دل میں کیا آیا کہ کچھ نہ دیکھا اور کمپنی کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ ادھر اہلِ خانہ ان کی گُم شدگی پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ دلّی پہنچ کر جب وہاں تھیٹر کے منتظمین نے شو کا آغاز کیا تو جس مہمانِ خصوصی کو مدعو کیا، وہ رفیع پیر کے دادا کے دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑ گئی اور اسے پہچان لیا، پوچھنے پر آگاہ ہوئے کہ رفیع پیر نے تھیٹر کے شوق میں کیسی حرکت کی ہے۔ فوراً اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور یوں وہ چند روز بعد لاہور پہنچا دیے گئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رفیع پیر اداکاری کے کس قدر دیوانے تھے۔

    رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور وہ اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ ان کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے اور رفیع ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متاثر تھے۔ اکثر جلسوں میں آگے آگے رہتے اور قائدین کے ساتھ ساتھ وہ بھی پولیس کی نظروں میں آ گئے۔ تب اہلِ خانہ نے رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1916ء میں وہ قانون کی تعلیم کی غرض سے اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ انگریز راج سے نفرت اور قابض انتظامیہ کو ناپسند کرنے والے رفیع پیر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ برلن گئے جو پورے یورپ میں فن و ثقافت کا مرکز تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے اور یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا تھی۔انھوں نے کسی طرح برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کی توجہ حاصل کر لی تھی جس نے انھیں برلن تھیٹر سے وابستہ ہونے کا موقع دیا اور وہاں خاصا کام کیا اور اس عرصے میں معروف فن کاروں کے درمیان رہنے اور سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جرمنی میں‌ قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی تھی۔

    اسی زمانے میں جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے اور ہٹلر سے نفرت اور کچھ معاملات کے سبب چند سال بعد رفیع پیر وہاں سے ہندوستان پہنچ گئے، لیکن خطرات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں جب کہ بیٹی بچ گئی اور طویل عمر پائی۔

    رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے تھے اور وہ تھیٹر کی جدید تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے واحد ہندوستانی فن کار تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس کے تربیت یافتہ فن کار آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دُنیا کے نام وَر اداکار ثابت ہوئے۔ اسی زمانے میں رفیع پیر زادہ نے پنجابی کا مشہور ڈراما، ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسٹیج کیا اور بعد ازاں ان کے شاگردوں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اُسی زمانے میں ان کے نظر ثانی شُدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    ہندوستان آنے کے بعد رفیع پیر کی لاہور بھی آمد و رفت رہتی تھی۔ ایک بار لاہور آئے، تو والدہ نے ان کی شادی کروا دی۔ 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

    برلن سے لوٹنے کے بعد ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں ان کی صلاحیتوں اور فن کی دھوم مچ گئی تھی۔ انھوں نے تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ رفیع پیر نے لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

    رفیع پیر پاکستان کے ایسے نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی علمی و ادبی حلقوں اور فن و ثقافت کی دنیا کے بڑے ناموں نے افسوس کا اظہار کیا اور اسے فن کی دنیا کا بڑا نقصان قرار دیا۔ ان کی یاد میں مختلف پروگرام پیش کیے گئے اور ان کے فن کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔

    رفیع پیر 1974ء کو آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

  • اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    ہندوستان میں تھیٹر کو نیا روپ اور زندگی دینے کے لیے مشہور حبیب احمد خان تنویر 8 جون 2009ء کو اس دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ ان کا شمار بھارت کے نام ور ڈرامہ نگاروں میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں نے تھیٹر ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی یادگار کام کیا۔

    حبیب تنویر ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ڈرامہ نویس اور ہدایت کار ہی نہیں، ایک اچّھے اداکار، شاعر، موسیقار اور اسٹیج ڈیزائنر بھی تھے۔

    انھوں نے تھیٹر کی دنیا میں معروف ناموں کے بجائے لوک فن کاروں اور مقامی آرٹسٹوں کو موقع دیا اور اپنے ڈراموں میں ان گلیوں اور بازاروں کو اسٹیج بنایا جن سے جڑی ہوئی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔ حبیب تنویر نے یہ تجربہ "آگرہ بازار” سے کیا جو نذیرؔ اکبر آبادی کی زندگی اور ان کی تخلیقات پر مبنی تھا۔ اس ڈرامے کے ذریعے انھوں‌ نے کلاسیکی دور کے اس ممتاز شاعر کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔

    حبیب تنویر یکم ستمبر سن 1923ء کو رائے پور(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام حبیب احمد خان تھا۔ انھوں‌ نے شاعری کا آغاز کیا تو اپنا تخلص تنویر رکھا جو بعد میں‌ ان کے نام کا مستقل حصّہ بن گیا۔

    وہ ممبئی میں‌ آل انڈیا ریڈیو سے بہ حیثیت پروڈیوسر وابستہ ہوئے اور اسی عرصے میں انھوں نے ہندی فلموں کے لیے گیت لکھے اور چند فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    پچاس کے عشرے میں انھوں‌ نے برطانیہ کا رُخ کیا اور وہاں ڈرامہ اور اس آرٹ کی تعلیم اور تربیت کے لیے داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں انھیں جرمنی کے شہر برلن میں قیام کا موقع ملا، جہاں انھوں‌ نے نام ور ڈرامہ نگار بیرتھولٹ بریشت کے ڈرامے دیکھے اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بریشت نے ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    اسی کے بعد 1954ء میں انھوں‌ نے ’’آگرہ بازار‘‘ کے نام سے اسٹیج ڈرامہ لکھا تھا۔ 1959ء میں انھوں نے بھوپال میں ’’نیا تھیٹر‘‘ کے نام سے ایک تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    1975ء میں حبیب تنویر کا ڈرامہ ’’چرن داس چور‘‘ کے نام سے سامنے آیا اور بے حد مقبول ہوا۔ اِسی ڈرامے پر انھیں 1982ء میں ایڈنبرا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹیول میں ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انھیں بھارتی حکومت اور مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں پدم شری اور پدم بھوشن ایوارڈ بھی شامل ہیں۔

  • آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    بیسویں صدی کے آغاز میں‌ ہندوستان میں ناٹک اور تھیٹر تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اس میدان میں آغا حشر کاشمیری نے اپنے تخلیقی جوہر اور صلاحیتوں کی بدولت وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور تمثیل نگاری نے شائقین کو تھیٹر کا دلدادہ بنا دیا تھا، انھوں نے اپنے ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئر کی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا اور انھیں تھیٹر کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور ان کی توجہ حاصل کی۔

    اس دور میں تھیٹر اور اسٹیج پرفارمنس ہی ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی، اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے ڈرامے تحریر کیے اور انھیں تھیٹر پر پیش کیا جو شائقین میں بے حد مقبول ہوئے۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔

    1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے تخلیق کردہ ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    اردو ڈراما نویسی اور تھیٹر کی تاریخ میں آغا حشر کاشمیری کا نام ہمیشہ زندگہ رہے گا۔ 28 اپریل 1935 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا اور انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔