Tag: ہندوستانی شخصیات

  • چارلس ولیم فورمن: رنگ محل اسکول اور فورمن کرسچن کالج کا بانی

    چارلس ولیم فورمن: رنگ محل اسکول اور فورمن کرسچن کالج کا بانی

    تقسیم سے قبل برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ یہاں عیسائی مذہب اور عقائد کا پرچار شروع ہوا، مشنری اداروں کا قیام عمل میں آیا اور مبلغین کی بڑی تعداد بھی ہندوستان آئی جس میں چارلس ولیم فورمن بھی شامل تھا۔ یہ پادری لاہور کے رنگ محل اسکول اور فورمن کرسچن کالج کا بانی ہے۔

    گرجا سے وابستہ چارلس ولیم فورمن کی حیثیت خادمِ دین کی تھی جس نے مسیحیت اور انجیل کی تبلیغ کے لیے متحدہ ہندوستان کا رخ کیا اور پنجاب کے شہر لاہور میں‌ سکونت اختیار کی۔ یہ 1847ء کی بات ہے جب وہاں سکھ حکومت قائم تھی۔ اس دور میں چارلس ولیم فورمن کو اپنے مشنری کام کا آغاز کرنے کی اجازت نہیں‌ ملی تو وہ لدھیانہ چلا گیا اور اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔

    چارلس ولیم فورمن کے آباء و اجداد انگلستان چھوڑ کر امریکا چلے گئے تھے اور وہیں کینٹکی کے علاقہ میں اس نے 1821ء میں آنکھ کھولی تھی۔ چارلس ولیم امریکا کی جنگِ آزادی سے محبّت رکھنے کے لیے مشہور تھا اور مقامی لوگوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

    وہ پندرہ برس کا ہوا تو ایک پادری کے ساتھ اپنے بھائی کے افسوس ناک رویّے نے اسے مذہب کی جانب مائل کر دیا۔ اس کے چند سال بعد اس نے گرجا میں بپتسمہ لیا اور پختہ ارادہ اور عہد کیا کہ وہ حضرت عیسیٰ کا پیغام عام اور مسیحی تعلیمات کا پرچار کرے گا۔

    فورمن آسمانی صحیفے اور مسیحی خادم بننے کی آرزو میں سات سال تک مسلسل مطالعہ اور گرجا سے رابطہ میں رہا۔ علمِ الٰہیات کا مطالعہ اور اپنے عقائد کو خوب سمجھنے کے بعد وہ وعظ اور تبلیغ کی غرض سے 1847ء میں کلکتہ پہنچا۔ بعد میں وہ پنجاب آیا۔ اس زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضہ جات اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے درمیان میں دریائے ستلج حائل تھا۔ فورمن اور دیگر مشنری 1849ء تک لدھیانہ میں رہے اور جونہی پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہوا فورمن اور ایک پادری نیوٹن لاہور آگئے۔ یہ 21 نومبر کی بات ہے۔ اور اسی برس فورمن نے مقامی عیسائیوں کی مالی امداد سے ایک اسکول شروع کیا جس کا پہلے پہل آغاز بیرونِ بھاٹی دروازہ ہوا تھا۔

    ان دنوں سَر ہنری لارنس، جان لارنس، رابرٹ منٹگمری، ڈانلڈ میکلوڈ، ہربرٹ ایڈورڈز، رینل ٹیلر اور جان نکلسن جیسے حکام پنجاب میں رہتے تھے اور فورمن کے ساتھ پادری نیوٹن کو ان کی مدد حاصل رہی۔ وہ سب سمجھتے تھے کہ پنجاب کے باشندوں کو مسیحی مذہب کی تعلیم کی ضرورت ہے۔ وہاں موجود انگریزوں نے بڑی فراخ دلی سے مشنری اسکول کے لیے چندہ دیا اور زمین خرید کر 1850ء میں باقاعدہ عمارت میں اسکول شروع کردیا۔ پادری فورمن اور نیوٹن وہاں پڑھانے لگے اور طلبہ کو راغب کرنے کے لیے وظائف دینے کا بھی آغاز کر دیا۔ 1856ء میں ”رنگ محل“ خریدا گیا اور مشن اسکول وہاں منتقل کر دیا گیا۔

    فورمن نے لاہور میں 45 سال تک مشنری اور تعلیمی کام کیا لیکن اس کی سب سے بڑی آرزو اور راحت افزا کام اپنی مقدس کتاب کا پیغام عام کرنا تھا، وہ روزانہ لوہاری دروازہ، دہلی دروازہ، چوک جھنڈا، رنگ محل، ہیرا منڈی میں اور شارع عام پر کھڑے ہو کر لوگوں کو مسیحیت کا پیغام سناتا تھا۔ وہ اکثر سڑک پر دور نکل جاتا اور مجمع دیکھ کر وعظ شروع کردیتا۔ وہ شہر کے گلی کوچوں میں مذہبی کتابیں اور تعلیمات پر مبنی مواد تقسیم کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ فورمن کو منادی کرنے کا جنون تھا اور بعض اوقات وہ راولپنڈی تک منادی کرتا ہوا چلا جاتا تھا۔ مسلمان، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اکثر اس پر تنقید بھی کرتے تھے، لیکن وہ اپنا کام کرتا رہا۔

    1862ء میں کالج قائم ہوا اور فورمن نے نہایت سرگرمی اور جوش سے اس کا آغاز کیا۔ فورمن کرسچین کالج آج پاکستان کے شہر لاہور کا ایک بڑا نجی تعلیمی ادارہ ہے جسے اب چارٹر یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔

    فورمن کرسچین کالج برصغیر کے چند تاریخی اور معیاری کالجوں میں سے ایک ہے جس کے بانی کی زندگی اور اس کی مذہبی سرگرمیوں کے بارے میں‌ آپ پڑھ رہے ہیں۔ اس کالج سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف سمیت ہندوستان اور پاکستان کے کئی مشاہیر نے تعلیم حاصل کی۔

    فورمن نے اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات کے پرچار کی خاطر اپنی زندگی وقف کردی تھی اور 1866ء میں مشن اسکول کے تین لڑکوں نے اس سے متاثر ہوکر اپنا مذہب تبدیل کرلیا۔ اس پر لاہور شہر میں بڑا شور و غوغا ہوا۔ کئی طلبہ نے کالج چھوڑ دیا اور ہندو، مسلمان ہزاروں کی تعداد میں مشنری عمارت کے احاطہ میں جمع ہو گئے۔ تب ہندوستان آنے کے 19 برس بعد پہلی مرتبہ فورمن نے امریکا جانے پر مجبور ہوا۔ اس کے بچّے بھی اس سفر میں اس کے ساتھ تھے، جنھیں 1869ء میں وہیں چھوڑ کر فورمن لاہور آگیا تھا۔

    اس پادری کی زندگی میں دو عورتیں آئیں جن سے اس نے شادی کی اور صاحبِ اولاد ہوا۔ فورمن نے پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی تھی۔

    جب فورمن 73 سال کا ہوا تو وہ 1894ء میں موسم گرما گزارنے کی غرض سے کسولی گیا۔ وہاں اسے بیماری نے گھیر لیا اور بعد میں طبعیت اچانک خراب ہونے پر اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو تار بھیج کر لاہور بلایا گیا۔ اس پادری نے 27 اگست 1894ء کو وفات پائی۔

    فورمن کو لاہور سے بڑی محبّت تھی اور وہ یہیں دفن ہونا چاہتا تھا۔ اس کے جنازے میں ہر مذہب کے ماننے والے شریک ہوئے اور فورمن کو گورا قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ لاہوری دروازہ کے نزدیک اس کی یادگار ”فورمن چیپل“ کے نام سے تعمیر کی گئی تھی۔

  • شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    ہندوستان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے، اُسی طرح ان کی بیگمات اور شہزادیاں بھی منفردُ المثال تھیں۔

    جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح اور کشور کشا نیز علم دوست اور ادب نواز تھے، اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فنِ حرب و ضرب میں ماہر اور علم و ادب کی دلدادہ تھیں۔

    ملک کی پہلی خاتون حکم راں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اور اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب و ضرب اور واقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔

    ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر و فن اور علم و ادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہلِ علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے دور کے نام ور دانش ور اور حکماء و علماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ فنِ حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا۔ حالاں کہ خواتین کو جنگوں میں حصہ لینے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، مگر علمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہوا کرتی تھیں اور پسِ پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز ہوا کرتی تھیں۔

    رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکم راں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پر حکومت کی۔ اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاند بی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔

    محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسندِ شاہی تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھیں۔ کئی بار ان بیگمات کے ناخنِ تدبیر ہی سیاسی گتھیوں کو سلجھایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدّین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئی اور اسی کی سمجھ داری نے سلیم کو مصالحت پر مجبور کیا۔

    ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار ثابت ہوئیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں تو کئی مؤرخ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نور جہاں، ملکہ ممتاز محل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اور زینت النساء بیگم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فنِ مصوّری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے باپ شمسُ الدّین التمش کے مقبرے کو تعمیر کرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہو چکا ہے مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کا پتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبر پر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔

    اسی طرح نور جہاں نے اعتماد الدّولہ کا عظیم الشّان مقبرہ تعمیر کروا کے اپنے ذوقِ عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ دلّی کی معروف فتح پوری مسجد کی تعمیر، شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرائی تو دریا گنج کی گٹھا مسجد ایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔

    رضیہ سلطان، ملک کی اوّلین خاتون حکم راں تھی، جس نے ملک پر شان دار حکم رانی کی مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیں تھی۔ جس زمانے میں بھارت میں خواتین کو ’’ستی‘‘ ہونا پڑتا تھا اس دور میں رضیہ سلطان نے حکم رانی کی۔ وہ حکم رانی کی اہل بھی تھی مگر مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لیے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر بھی کرائی۔ باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اور مشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمر بیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس نے مقبرہ ہمایوں کی تعمیر کرایا۔ جو بعد میں تاج محل کے لیے ماڈل ثابت ہوا۔ اکبر کو بہت کم عمری میں حکومت مل گئی تھی جو اس کے اتالیق کے ذریعے چلتی تھی مگر اس حکومت میں حاجی بیگم کی مرضی بھی شامل رہتی تھی اور ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل رہتے تھے۔

    شاہ جہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دین دار تھیں۔ جہاں آرا بیگم، شاہ جہاں کی بیٹی تھی اور ادیبہ و شاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔ مغل شہزادیوں میں ایک نام زینتُ النّساء کا بھی ہے جس نے دریا گنج کی گٹھا مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔ مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیر کرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں۔ اسی طرح بیگم اکبر آبادی نے اکبر آبادی مسجد کی تعمیر کرائی اور فخرُالنّساء خانم نے فخرُ المساجد بنوایا۔ تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماں تھی۔ بادشاہ اس کا بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرُالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔ یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔

    امراء کی بیگمات بھی علم و فن اور مصوری، خطاطی و آرکٹکچر کا شوق رکھتی تھیں جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔ انھوں نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں جن میں درگاہ شاہ مرداں اور کچھ دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ یہ علم و ادب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔ عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لیے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں، گلبدن بیگم، گل رخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو، گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔

    (محقّق و مصنّف: غوث سیوانی)