Tag: ہندوستانی فلم

  • خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    میری این ایوانز المعروف نادیہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی وومن اسٹنٹ تھیں۔ انھیں بے خوف نادیہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انھوں‌ نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی خطرناک مناظر عکس بند کروائے تھے۔

    وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے ایسے اسٹنٹ کیے جنھیں بظاہر بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک مرد بھی شاید کرنے سے انکار کردیتے، لیکن نادیہ نے فلمی دنیا کے لیے حقیقی خطروں کا سامنا کیا اور خوب شہرت پائی۔ وہ 1930ء اور 1940ء کے عشرے میں ہندوستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔

    نادیہ نے ہیروئن یا کسی دوسرے اہم کردار کی جگہ گھڑ سواری کی، پہاڑیوں پر جان بچانے کے لیے بھاگیں، کود کر باڑ عبور کی۔ اسی طرح تیز رفتار ٹرین میں فائٹنگ کے مناظر عکس بند کرواتی اور ندی یا دریا عبور کرکے پار پہنچنے کی کوشش کرتی دکھائی دیں۔ انھوں نے فلم کے سین کی ڈیمانڈ کے لیے خطرناک جانوروں کا سامنا کیا، گھوڑے کی پیٹھ سے چھلانگ لگائی، تلوار چلائی اور انھیں فضا میں ہوائی جہاز سے بھی لٹکتا ہوا دیکھا گیا۔ انھوں نے نہایت سنسنی خیز اور جان کو خطرے میں‌ ڈال دینے والے سین کیے جس پر انھیں ’اسنٹنٹ کوئن‘ کہا جانے لگا تھا۔

    نادیہ کا جنم آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں سن 1908 میں ہوا تھا۔ ان کے والد برطانوی اور ماں یونان نسل کی تھیں۔ ان کے والد کا نام اسکاٹ مین ہربرٹ ایوانز تھا۔ وہ برطانوی فوج میں رضاکار تھے۔ میری 1913ء میں کم عمری ممبئی میں آئیں جب ان کے والد برطانوی فوجی کی حیثیت سے لڑ رہے تھے۔ 1915ء میں پہلی جنگِ عظیم میں محاذ پر بھیجے گئے اور وہاں‌ لڑائی کے دوران مارے گئے۔ تب نادیہ کی والدہ پشاور منتقل ہوگئیں۔ یہاں اپنے قیام کے دوران نادیہ نے گھڑ سواری اور رقص میں مہارت حاصل کی۔ وہ 1928ء میں ممبئی چلی گئیں‌ جہاں ابتدا میں سرکس میں کام کیا اور وہیں‌ انھیں نادیہ کا نام دیا گیا۔

    فلم ساز جمشید بومنا ہومی واڈیا (جے بی ایچ) نے انھیں بڑے پردے پر چھوٹا سا کردار دیا اور وہ 1933ء میں پہلی بار فلم ’دیش دیپک‘ میں نظر آئیں۔ نادیہ ایک مضبوط جسم کی مالک اور خاصی پھرتیلی تھیں جنھوں نے سرکس سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اسی بنیاد پر مسٹر واڈیا نے ان کی شخصیت کے مطابق ایک فلم ’ہنٹر والی‘ بنائی، اور نادیہ کو مرکزی کردار سونپا۔ اس فلم میں وہ ایک شہزادی بنی تھیں‌، جو اپنے والد کی سلطنت میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لڑتی ہے۔ یہ فلم ہٹ ہوئی۔ نادیہ نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران کل 38 فلموں میں کردار ادا کیے اور مختلف اسٹنٹ کیے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر کردار ناانصافی کے خلاف اور عورت کے حق کے لیے لڑائی والے تھے، جس نے نادیہ کو ہندوستانیوں‌ سے توجہ اور محبّت سمیٹنے کا موقع دیا اور وہ صرف اداکارہ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر بھی دیکھی گئیں۔

    نادیہ نے فلم ساز ہومی واڈیا سے شادی کی تھی۔ وہ 8 جنوری 1908ء کو پیدا ہوئی تھیں اور ممبئی میں 9 جنوری 1996ء کو وفات پائی۔

  • احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    بالی ووڈ فلم ‘‘پانی پت’’ نے سنیما کے اہم ناقدین اور سنجیدہ شائقین کو شدید مایوس کیا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی کا فلمی کردار واضح کرتا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری مخصوص طبقے کو خوش کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت پر قائم ہے۔ پانی پت کے اہم تاریخی معرکے اور اس کے مرکزی کردار کی غلط انداز سے پیش کاری بھارتی فلم انڈسٹری کی غیرسنجیدگی اور جانب داری کے ساتھ مخصوص ذہنیت کی عکاس بھی ہے۔

    حملے کی اصل وجہ
    احمد شاہ ابدالی کے حملے کی اصل وجہ ہندو مرہٹوں کی جانب سے مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان تھا۔
    احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کی جنگ میں شکست سے مرہٹوں کی طاقت اور زور تو ٹوٹا مگر مغل بادشاہ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔

    مرہٹوں کی برصغیر میں فتوحات جاری تھیں۔ دہلی اور قرب و جوار پر حملہ اور اس کے بعد لاہور سے اٹک تک فتوحات نے مرہٹوں کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مغل کم زور اور مرہٹوں کے روپ میں ہندو طاقت ور ہوئے تو دہلی کی شاہی مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان حاکموں اور علما نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے مالی وعسکری مدد کا یقین دلایا۔

    افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کے خلاف اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچا اور پانی پت کی تیسری جنگ میں لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست دے کر ہندوستان میں مسلم اقتدار کو سنبھالا دیا۔

    احمد شاہ ابدالی پر الزامات
    احمد شاہ ابدالی کے بارے میں متعصب تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنی ریاست کو وسعت دینا چاہتا تھا اور ملک و ہوس کا پجاری تھا۔ تاہم مستند اور معتبر تاریخ بتاتی ہے کہ ابدالی افغانستان میں اپنی بادشاہت تک محدود رہا اور طاقت و فوج رکھنے کے باوجود لشکر کشی نہ کی۔ جب ہندو مرہٹوں کی جانب سے جامع مسجد میں مہا دیو کا بت نصب کرنے کا اعلان کیا گیا اور اس سے مرہٹوں کے خلاف لڑائی کی درخواست کی گئی تو احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کا رخ کیا۔

    تاریخ کے صفحات یہ بھی بتاتے ہیں کہ مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد ابدالی واپس وطن لوٹ گیا اور بعض حوالوں میں ملتا ہے کہ یہ حملہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوا مگر مغلوں کے زوال کا سلسلہ نہ تھم سکا۔

    احمد شاہ ابدالی پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے قتل کے بعد قندھار جاتے ہوئے اس کے شاہی مہر اور کوہِ نور ہیرا اس کے ہاتھ سے اتار لیا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہیرا اس کے پوتے کی تحویل میں تھا جس نے اسے احمد شاہ ابدالی کو سونپا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخ کی سچائی
    مشہور ہندوستانی مؤرخ ڈنگا سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کی پوری زندگی ملک کی بہتری میں صرف ہوئی اور وہ افغان ہی نہیں خطے کے دیگر مسلمانوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔

    احمد شاہ ابدالی کا مقبرہ قندھار میں ہے۔ بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ ابدالی کرشماتی شخصیت کا حامل تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اس دور میں قبیلوں کے مابین کئی جھگڑوں کو اپنے تدبر اور فہم سے نمٹایا اور ایک مضبوط ملک کی بنیاد رکھی۔