Tag: ہندوستانی فلمیں

  • ایکٹنگ

    ایکٹنگ

    ایکٹنگ یا کردار نگاری اس فن کا نام ہے، جس کے ذریعے سے مختلف انسانوں کے جذبات و محسوسات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

    مصوّری، سنگ تراشی، شاعری، افسانہ نویسی اور موسیقی کی طرح کردار نگاری کو بھی فنونِ لطیفہ میں شمار کیا جاتا ہے، گو بعض منکر اس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام لوگ جو روس کے مشہور معلّمِ اخلاق مصنّف ٹالسٹائی کے مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اسٹیج اور اسکرین کو آرٹ کی شاخ تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہوں گے۔ فنونِ لطیفہ کے متعلق ٹالسٹائی کا نظریہ قریب قریب ہر مفکر کے نظریے سے جداگانہ ہے۔

    وہ غایت درجہ حقیقت پسند تھا اور چوں کہ اسٹیج اور اسکرین پر حقیقت بہت کم نظر آتی ہے، اسی لیے اس کے نظریے کے مطابق فلم اور اسٹیج پر کھیلے ہوئے ناٹک آرٹ سے بہت دور ہیں۔ اپنا اپنا خیال ہے۔

    کردار نگاری کا فنِ افسانہ گوئی کی طرح ہبوطِ آدم سے چلا آ رہا ہے۔ دوسرے کے دل پر بیتے ہوئے واقعات بیان کرنا اور کسی دوسرے قلب کی گہرائیوں کا اظہار کرنا کردار نگاری ہے۔

    جب آپ کا چھوٹا بھائی یا کمسن بچّہ رات کو سوتے وقت آپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اس کی دادی امّاں چوہے سے ڈر کر غسل خانے میں چھپ گئیں اور مارے خوف کے ان کا سارا جسم کانپنے لگا تو اس وقت دراصل وہ ایک ایکٹر کے فرائض ادا کر رہا تھا، اگر اس بچّے کی قوتِ بیان کم زور نہیں اور وہ آپ پر اپنی دادی اماں پر بیتے ہوئے واقعات کو اس طرح بیان کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے سامنے ایک تصویر سی دیکھنے لگتے ہیں اور آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی آپ کی آنکھوں کے سامنے بچّے کی دادی اماں فرطِ خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بچّہ ایک کام یاب ایکٹر ہے اور اس کے اظہار میں تعدیہ بدرجہ اتم موجود ہے۔

    فلموں میں یہی چیز بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں آپ کے چھوٹے بھائی یا کمسن بچّے نے صرف اپنے دل کی خواہش کی بنا پر اپنی دادی اماں کی کیفیت بیان کی تھی اور یہاں کئی بچّے، جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد جمع ہو کر ایک کہانی سن کر کسی کے کہنے پر آپ لوگوں کو سنا دیتے ہیں۔

    یہ فرق بظاہر معمولی ہے، مگر چوں کہ آپ کو بہت سی اندرونی باتیں معلوم نہیں، ا س لیے آپ نہیں جانتے کہ جب آپ کا بچّہ یا بھائی اپنی دادی اماں کی داستان سنا رہا تھا تو اس کو اس امر کے لیے کسی اور شخص نے اکسایا نہیں تھا۔ یہ اکساہٹ خودبخود اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔

    اس کے برعکس فلم بنانے سے پہلے ہر ایکٹر کے ہاتھ میں اس کا پارٹ دے دیا جاتا ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کو بطریقِ احسن نبھائے گا۔


    (معروف ادیب اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون ‘ہندوستانی صنعتِ فلم سازی پر ایک نظر’ سے اقتباس)

  • پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت میں متعدد اداکارائوں کو ”پری چہرہ‘‘ کا خطاب دیا گیا اور انھوں نے اپنے فنِ اداکاری ہی نہیں حسن و جمال کے سبب بھی لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ نسیم بانو بھی ایک ایسی ہی اداکارہ تھیں جنھوں نے فلم پکار میں ملکہ نور جہاں کا کردار نبھایا تھا۔

    نسیم بانو اپنے وقت کی معروف اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ اور لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی ساس تھیں۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نسیم بانو سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ان دنوں ایکٹرسوں میں ایک ایکٹرس نسیم بانو خاصی مشہور تھی۔ اس کی خوب صورتی کا بہت چرچا تھا۔ اشتہاروں میں اسے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہی اخبار میں اس کے کئی فوٹو دیکھے تھے۔ خوش شکل تھی، جوان تھی، خاص طور پر آنکھیں بڑی پُرکشش تھیں اور جب آنکھیں پرکشش ہوں تو سارا چہرہ پُرکشش بن جاتا ہے۔

    نسیم کے غالباً دو فلم تیار ہو چکے تھے جو سہراب مودی نے بنائے تھے، اور عوام میں کافی مقبول ہوئے تھے۔ یہ فلم میں نہیں دیکھ سکا، معلوم نہیں کیوں؟ عرصہ گزر گیا۔ اب منروا مودی ٹون کی طرف سے اس کے شان دار تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہورہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جارہی تھی اور سہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے تھے۔

    فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’’اسٹل‘‘ شائع ہوئے بڑے شان دار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُروقار دکھائی دیتی تھی۔

    ’’پکار‘‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو غیر فطری اور تھیٹری تھے، لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چوں کہ ایسا فلم اس سے پہلے نہیں بنا تھا، اس لیے سہراب مودی کا ’’پکار‘‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوا۔

    نسیم کی اداکاری کم زور تھی، لیکن اس کم زوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا، اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا، خیال ہے کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم غالباً دو تین فلموں میں پیش ہوئی، مگر یہ فلم کام یابی کے لحاظ سے’’پکار‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکے۔

    اس دوران میں نسیم کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ کبھی یہ سننے میں آتا تھا کہ سہراب مودی، نسیم بانو سے شادی کرنے والا ہے۔ کبھی اخباروں میں یہ خبر شائع ہوتی تھی کہ نظام حیدر آباد کے صاحب زادے معظم جاہ صاحب نسیم بانو پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے۔

    میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔

    اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔

    کہانی معمولی تھی، موسیقی کم زور تھی، ڈائریکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چناں چہ یہ فلم کام یاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا مگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔

    ایک دن ہم نے سنا کہ پری چہرہ نسیم نے مسٹر احسان سے دلّی میں شادی کرلی ہے اور یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کرے گی۔

    نسیم بانو کے پرستاروں کے لیے یہ خبر بڑی افسوس ناک تھی۔ اس کے حسن کا جلوہ کیوں کہ صرف ایک آدمی کے لیے وقف ہوگیا تھا۔

    نسیم بانو کو تین چار مرتبہ میک اپ کے بغیر دیکھا تو میں نے سوچا، آرائشِ محفل کے لیے اس سے بہتر عورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ جگہ، وہ کونا جہاں وہ بیٹھتی یا کھڑی ہوتی ایک دم سج جاتا۔

    لباس کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہے اور رنگ چننے کے معاملے میں جو سلیقہ اور قرینہ میں نے اس کے یہاں دیکھا ہے اور کہیں نہیں دیکھا۔ زرد رنگ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ زرد رنگ کے کپڑے آدمی کو اکثر زرد مریض بنا دیتے ہیں، مگر نسیم کچھ اس بے تکلفی سے یہ رنگ استعمال کرتی تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ نسیم کا محبوب لباس ساڑی ہے، غرارہ بھی پہنتی ہے، مگر گاہے گاہے۔

    نسیم کو میں نے بہت محنتی پایا۔ بڑی نازک سی عورت ہے، مگر سیٹ پر برابر ڈٹی رہتی تھی۔ ‘